3
0
Saturday 8 Mar 2014 15:49

آنکھوں کی اوٹ میں ساون

آنکھوں کی اوٹ میں ساون
تحریر: ثاقب اکبر

 ان دنوں اُس رفیق محبوب کی یاد کچھ سوا ہوگئی ہے۔ جیسے بادل۔۔۔دَل کے دَل امنڈ آئیں، تہ بہ تہ چھا جائیں، اُس کی یادوں کی گھنگھور گھٹا چھائی ہے۔ اُسے بچھڑے ہوئے اُنیس برس بیت گئے۔ اُس کا عجیب مزاج تھا اور عجیب بے قرار رُوح، آج بھی یوں لگتا ہے جیسے
ابھی وہ آجائے گا کہیں سے
۔۔۔۔۔۔۔
میں جانتا ہوں وہ کھو گیا
یہ دل مرا مانتا نہیں ہے
یہ کہہ رہا ہے
مرا محمد علی ہے زندہ، 
یہیں کہیں ہے
ابھی وہ آجائے گا کہیں سے

وہ رُوحِ بے قرار اپنے چاہنے والوں کو اسی طرح بے قرار و بے آرام رکھتی ہے، جیسے وہ اُن دنوں رکھتی تھی جب ایک بظاہر کمزور سے بدن سے وابستہ تھی۔ جوانی کے بیس برسوں کا ساتھ ویسے تھا اور نئی منزلوں کا اُنیس برسوں کا سفر ایسے ہے۔ نہ ٹوٹنے والا ساتھ تھا اور منزل کمال کی جستجو کا نہ ختم ہونے والا سفر ہے۔

جب وہ سُرخرو ہو کر چل دیئے تو دل غم و اندوہ میں ڈوبا ہوا تھا اور ذہن میں طرح طرح کے سوالات تھے، بیس برسوں کی شب و روز کی گرم جوش اور رواں دواں رفاقت کے بعد طرح طرح کے سوالات ذہن میں جنم نہ لیتے تو حیرت ہوتی۔ وہ خواب میں آگئے۔ کیا دیکھتا ہوں، ہمیشہ کی طرح صدر مجلس میں بیٹھے ہیں، ویسے تو وہ جہاں بیٹھتے وہی مقام صدر مجلس بن جاتا، رفقاء بیضوی شکل میں اُن کے گردا گرد بیٹھے ہیں۔ ایک نسبتاً بڑا دائرہ سا ہے۔ میں بالکل اُن کے سامنے بیٹھا ہوں۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ وہ ہمیشہ کی طرح چاق و چوبند، تازہ دم، دوستوں سے باتیں کر رہے ہیں اور اُن کی پیشانی سے رہ رہ کر نور ساطع ہوتا ہے۔ شعاعیں اُن کے ماتھے سے نکلتی ہیں اور فضا میں بکھر رہی ہیں۔ آنکھ کھلی تو مجھے میرے تمام سوالوں کا جواب مل چکا تھا۔ وہ ربّ کریم کی بارگاہ میں مقبول ہوچکے ہیں۔ صرف مقبول ہی نہیں، نمایاں مقام پر بھی فائز ہیں اور اب بھی اپنے ساتھیوں اور رفقاء کے ساتھ ہیں، ان کی تقویت کر رہے ہیں، ان کا حوصلہ بڑھا رہے ہیں۔ دل تو پہلے ہی سے جانتا تھا۔
مرا محمد علی ہے زندہ
یہیں کہیں ہے
ابھی وہ آجائے گا کہیں سے
ڈاکٹر سید محمد علی نقوی۔۔۔ہمت و استقلال، پاکدلی و پاکبازی، شجاعت و جانبازی، دلسوزی و ہمدردی، جدوجہد و فعالیت، ایثار و قربانی، روشن دماغی و تازگی کے استعارے کا نام ہے۔ جسمِ مادی کی زمیں پر فعالیت کی عمر محدود ہوتی ہے، البتہ ایسے استعارے دیرپا ہوتے ہیں اور کئی نسلوں کے کاروانوں کے آگے آگے روشنی بکھیرتے رہتے ہیں۔

جوں جوں زندگی کا سفر آگے بڑھتا ہے، نئے نئے موڑ اور نئے نئے چوراہے پیش آتے رہتے ہیں، بقول حکیم الامت علامہ اقبالؒ زندگی تاریخ کا بوجھ اٹھائے آگے بڑھتی رہتی ہے۔ نئے حالات نئے فیصلوں کے متقاضی ہوتے ہیں۔ انسان کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو، اس کا وجود مادی زمان و مکان کی گرفت میں ہوتا ہے۔ خاص دور میں آتا ہے، خاص طرح کے حالات سے گزرتا ہے، اپنے دور کے انسانوں سے ملتا ہے، اپنی سرزمین کی بولی بولتا ہے، اپنے دور کا رائج لباس پہنتا ہے، اپنے دور کی کتابیں پڑھتا ہے، اپنے علاقے کی غذا کھاتا ہے، اپنے حالات اور سرزمین کے تقاضوں کے مطابق فیصلے کرتا ہے۔ ہر انسان ایسا ہی ہوتا ہے، وہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو، اس کا وجودِ مادی زمان و مکان کی گرفت میں ہوتا ہے۔

تاریخ اپنا سفر جاری رکھتی ہے۔ انسانی کاروان منزلیں بدلتا رہتا ہے۔ ملکوں اور ریاستوں کی سرحدیں پھیلتی اور سکڑتی رہتی ہیں، زبانیں مرتی اور زندہ ہوتی رہتی ہیں، تنظیمیں بنتی اور ختم ہوتی رہتی ہیں، اصطلاحیں مفہوم بدل لیتی ہیں، الفاظ معانی تبدیل کر لیتے ہیں، دشمن دوست بن جاتے ہیں، دوست دشمن ہو جاتے ہیں، ساتھی ساتھ چھوڑ دیتے ہیں، نئے ساتھی نئے افکار کے ساتھ مل جاتے ہیں۔ نئی ایجادات اور مصنوعات سامنے آتی ہیں، نئے لطیفے بنتے ہیں، نئے غم آتے ہیں، بہار خزاں میں بدل جاتی ہے، خزاں خشک پتوں کو اڑاتے اڑاتے خود بھی شدید سردیوں کی تاب نہ لاتے ہوئے پادر ہوا ہوجاتی ہے۔

ڈاکٹر محمد علی نقوی کی روح جہانِ مادی کے اُس پار سے نظارہ کر رہی ہے۔ کئی تنظیمیں ٹوٹ پھوٹ گئیں، قیادتیں کچھ کی کچھ ہو گئیں۔ امریکہ، ناٹو کے زیر پرچم افغانستان میں آپہنچا، طالبان کی حکومت ختم ہوئی، اب تو امریکہ یہاں سے واپسی کا بھی عندیہ دے رہا ہے، شام پر طرح طرح کی قوتوں نے ہجوم کر دیا، عراق سے صدام کی حکومت کا خاتمہ ہوا اور نئی منتخب حکومت نئے امتحانوں اور ابتلاؤں سے گزر رہی ہے، حزب اللہ معرکوں پر معرکے سر کر رہی ہے لیکن امتحانوں کا سلسلہ اسے بھی درپیش ہے۔ جوہری مسئلے پر ایران اور امریکہ بلاواسطہ مذاکرات کا سلسلہ شروع کرچکے ہیں، پاکستان تکفیریت اور شدت پسندی کے بدترین عذاب سے گزر رہا ہے۔۔۔ پانی پلوں کے نیچے سے بہت بہ چکا ہے۔ بعض سوتے خشک ہوچکے ہیں اور بعض کا رُخ موڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ نئے لوگ، نئی باتیں، نئے مسائل اور نئی مشکلات۔۔۔ایسے میں زندگی کے کندھوں پر اگرچہ تاریخ کا بوجھ موجود ہے، لیکن یہ بوجھ اگر کلیات میں راہنمائی کرسکے اور نئے فیصلوں میں سبق اور حوصلہ دے سکے تو گراں قدر ہونے کے ساتھ ساتھ مفید بھی ہے اور کندھوں کو سبک بار محسوس ہوگا اور اگر ایسا نہ ہوسکے تو قدموں کو بوجھل کردے گا۔

افسوس بعض کوتاہ نظر بڑے انسانوں کے مجاور بن جاتے ہیں۔ وہ کاروانوں کا راستہ روکنے کے درپے ہوتے ہیں۔ شعوری یا لاشعوری طور پر اس شخصیت سے وابستہ افراد کو اسی زمانے میں روکنے اور قید کرنے کے لیے تدبیریں کرتے رہتے ہیں۔ نئے حالات میں نئے فیصلوں کا تقاضا کرنے والوں کو انحراف کا طعنہ دیتے ہیں۔۔۔ لیکن تاریخ کا بڑھتا ہوا کاروان بہرحال کوئی راستہ نکال لیتا ہے۔ ڈاکٹر محمد علی جیسے عظیم شہیدوں کی عظیم روح بڑھتے ہوئے اور حالات سے نبرد آزما مجاہدوں کی قیادت کرتی رہتی ہے۔

اگرچہ زمانے کے نشتر چلتے رہتے ہیں۔۔۔ایسے میں ان شہیدوں کی یاد اور بھی ستانے لگتی ہے۔ جیسے یادیں مادی آنکھوں سے دکھائی نہیں دیتیں، اسی طرح جدائیوں کے غم آنکھوں سے برستے کون دیکھ سکتا ہے، چند قطرے برسات کی نمائندگی تو نہیں کرسکتے۔ برسات تو آنکھوں کی اوٹ ہی میں رہتی ہے، بالکل اسی طرح جیسے اِن دنوں اُس رفیق محبوب کی یاد کچھ سوا ہوگئی ہے۔
اترا آنکھوں کی اوٹ میں ساون
دامن دل ہے تربتر جاناں
خبر کا کوڈ : 359428
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ثاقب بھائی بہت اعلٰی لکھا ہے، مگر کیا کروں کہ شخصیت ہی ایسی ہے یہ کہنا ہی پڑتا ہے،،،،حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مولا آپ کو اس کا اجر دیں۔
ارشاد حسین ناصر
United Kingdom
ثاقب بھائی آپ نے صحیح کہا کہ بڑے لوگوں کے مجاور بننے والوں نے ان کی محنت پر پانی پھیر دیا، ان کی سیرت اور تعلیم کے برعکس ان کے اھداف کا ستیاناس کردیا، جن کی وجہ ان کی قربانیاں ضائع ہو رہی ہیں۔
خدا آپ جیسے بابصیرت بزرگوں کو ہماری راہنمائی کے لیے ہمارے سروں پر قائم رکھے، آمین
ہماری پیشکش