0
Saturday 6 Sep 2014 08:35

عراق میں داعش اور امریکی دوغلی پالیسی

عراق میں داعش اور امریکی دوغلی پالیسی
تحریر: سلمان رضا
salmanrazapk@gmail.com


ماہ جون کے آخر میں سرزمین عراق کے دو شہروں پر قبضہ کرنے کے بعد داعش نے عراق و شام کے مقبوضہ علاقوں میں "اسلامی ریاست" کے قیام کا اعلان کر دیا۔ داعش کے "مجاہدین" نے عراقی سکیورٹی فورسز کے نہتے جوانوں کا قتل عام کرکے اپنے اس "اسلامی" فعل کی ویڈیو دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ کے لیے جاری کر دی لیکن عالمی امن کے ٹھیکدار امریکہ اور اس کے دُم چھلے یورپ کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ اس کے بعد یہاں موجود اقلیتی مسالک کی عورتوں کو گرفتار کرکے کھلے عام فروخت کے لیے پیش کیا گیا، لیکن اس ہولناک واقعے نے بھی "انسانی حقوق" کے علمبرداروں کے ضمیر کو نہیں جھنجھوڑا۔ پھر یہاں کی تقریباً نصف آبادی انخلاء کے بعد کھلے آسمان تلے پناہ لینے پر مجبور ہوئی تو بھی "مہذب دنیا" کی سپر طاقتوں کے کان پر جوں تک نہ رینگی، البتہ Lip Serving کے لیے مذمتی بیان جاری ہوتے رہے اور مخصوص "تشویش" کا اظہار بھی ہوتا رہا لیکن عملاً نتیجہ صفر رہا۔ پھر جب نوری المالکی نے اُسی "عطار کے لونڈے" سے دوا طلب کرکے عملی تعاون مانگا تو بھی امریکہ نے دوٹوک اعلان کر دیا کہ وہ اپنی فوج کو اس دہشت گرد تنظیم (جس کو خود اسی نے شام میں بشارالاسد کی حکومت کے خاتمے کے لیے تیار کیا تھا) کے خلاف جنگ کے لیے نہیں بھیجے گا۔ 

نوری المالکی نے امریکہ سے تعاون طلب کرکے قطعاً کوئی اچھا فعل سرانجام نہیں دیا اور اس فعل کی کوئی تاویل نہیں کی جاسکتی، لیکن کم از کم اس عمل سے امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف پالیسی کی قلعی ایک بار پھر کھل گئی۔ اس کے بعد داعش بغداد کی طرف پیش قدمی کے لیے ایڑھیوں کے بل رینگتی رہی لیکن عراقی سکیورٹی فورسز کے ساتھ جب عراقی نوجوانوں کی عوامی طاقت شامل ہوگئی تو داعش کو ہر محاذ پر پسپائی کا منہ دیکھنا پڑا۔ عراقی علماء کی بروقت تشویق کے باعث داعش کے لیے نجف و کربلا سمیت بغداد پر قبضے کا خواب چکنا چور ہوگیا۔ اب داعش نے کرد علاقوں کی طرف پیش قدمی کا خواب دیکھا اور پھر ایک دن خبر آئی کہ داعش نے تین کرد علاقوں پر قبضہ کرلیا ہے۔ اس خبر کا آنا ہی تھا کہ عالمی امن کے ٹھیکداروں میں بے چینی کا عنصر عیاں ہونے لگا، پھر کچھ دنوں بعد داعش نے مزید کچھ علاقوں میں پیش قدمی کی اور دیگر اقلیتوں کو محاصرے میں لے لیا۔ اب امریکہ کی "حس انسانیت" جاگی اور امریکی طیارے ان اقلیتوں کے تحفظ کے لیے اپنے بحری بیڑوں سے اڑنے لگے۔ پہلے تو ان لوگوں کے لیے خوراک کو طیاروں سے گرایا جانے لگا جو داعش کے خوف سے اپنے گھر بار چھوڑ کر پہاڑوں پر پناہ لینے پر مجبور ہوگئے تھے، پھر چند روز بعد کاخ سفید نے اعلان کیا کہ ہمارے جنگی طیارے بھی آپریشن میں حصہ لیں گے۔ 

اگلے چند روز میں امریکی طیاروں نے داعش کے کرد علاقوں کی طرف پیش قدمی کرتے ہوئے دستوں پر بمباری شروع کر دی۔ یورپین ممالک بھی گلا پھاڑ پھاڑ کر داعش کے خطرے کا انتباہ کرنے لگے اور برطانیہ، فرانس اور جرمنی سمیت بعض دیگر ممالک نے بھی کرد فورسز کو اسلحہ فراہم کرنے کا اعلان کر دیا۔ کچھ دیر تک تو میری سمجھ میں نہیں آیا کہ جب تک داعش کے یہ درندے شیعہ نشین علاقوں کی طرف پیش قدمی کر رہے تھے، تب تک تو یہی لیڈر ماسوائے Lip Serving کے کچھ نہیں کر رہے تھے بلکہ خود یورپی ممالک اپنے ان شہریوں جن میں شدت پسندانہ نظریات پائے جاتے تھے، کو شام و عراق کی طرف Export کرنے کے لیے سافٹ پالیسی پر عمل پیرا تھے لیکن جونہی ان درندوں کی پیش قدمی کرد علاقوں کی طرف شروع ہوئی تو امریکہ سمیت یورپی ممالک کی بے چینی بڑھنے لگی ہے اور ساتھ ہی ساتھ سعودی عرب، قطر اور ترکی جو کہ خود اس دہشت گرد گروہ کے پشت پناہ ہیں، ان ممالک کے سرکاری و درباری ملائوں کی طرف سے بھی داعش کے خلاف فتوے آنے شروع ہوگئے۔ میں خود بھی سوچنے لگا کہ آخر معمہ کیا ہے، عراق یا شام میں اگر ملکی سلامتی کی ضامن سکیورٹی فورسز کا قتل عام ہو تو کوئی بات نہیں، لیکن اگر کرد فورسز کا خون بہے تو زمین و آسمان تہہ و بالا ہوجاتے ہیں۔
 
کیا عراقی و شامی فورسز کی رگوں سے خون کی بجائے پانی بہتا ہے، جو اُس کی ارزش نہیں جبکہ کرد فورسز جو کہ درحقیقت عراقی سکیورٹی فورسز کا حصہ ہیں، ان کی رگوں میں کوئی مقدس خون بہتا ہے کہ اگر وہ بہے تو یہ عالمی برادری کا فرض ہے کہ وہ ان کا دفاع کرے۔ آخر کیوں کرد سرحد کے اُس پار عوام مریں تو اسلامی و غیر اسلامی ممالک کے لیڈران حرکت میں آجاتے ہیں، لیکن اگر سرحد کے اس پار خون بہے تو کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی، جب میں نے تھوڑی دقت کی اور اعداد و شمار کی گتھیوں کو سلجھانا شروع کیا تو بات سمجھ آنے لگی اور میں اس نتیجے پر پہنچا کہ امریکی و یورپی حکمرانوں کے دل میں کرد عوام یا کرد فورسز کا کوئی درد نہیں بلکہ یہ درحقیقت امریکہ کے گریٹر مڈل ایسٹ پلان میں رکاوٹ کا خوف ہے۔ ہمیں یاد رہے کہ 2004ء میں امریکی عسکری ماہر نے مشرق وسطٰی کا نیا نقشہ جاری کیا تھا، جس کے مطابق مشرق وسطٰی میں اسلامی ممالک کی نئی سرحدوں کا تعین کیا گیا تھا، تاکہ یہ ممالک مزید چھوٹے چھوٹے ممالک میں تقسیم ہوجائیں اور عالمی استکبار انہیں اپنے اہداف کے لیے زیادہ آسانی سے استعمال کرسکے۔ اس نقشے کے مطابق عراق کو تین حصوں تقسیم کیا جانا تھا۔ ایک حصہ شیعہ عراق، دوسرا حصہ سنی عراق اور تیسرا حصہ کرد عراق پر مشتمل ہونا تھا۔ امریکہ اپنے اس پلان کے مطابق کرد حصے کی تقسیم کے لیے ایڑھی چوٹی کا زور لگا رہا تھا، کیونکہ کرد علاقے میں عراق کی تقسیم کا کافی پوٹینشل موجود تھا۔ اس کی کچھ وجوہات یہ ہیں۔

یہ خطہ تیل کی دولت سے مالا مال ہے، اور یہاں عراق کا تقریباً 30فیصد تیل پایا جاتا ہے۔ یہاں بسنے والی آبادی نسلی تعصب کے اعتبار سے بھی عراق میں بسنے والی دیگر اقوام سے زیادہ متعصب ہے۔ صدام حسین کے دور میں شیعہ آبادی کے ساتھ ساتھ کرد آبادی کو بھی شدت کے ساتھ کچلا گیا اور اس وجہ سے یہ خطہ عراق کی مرکزی حکومت سے نفرت رکھتا ہے۔ اگرچہ اس کی وجہ صدام حسین تھا۔ مذہبی طور پر اس خطے کی آبادی زیادہ تر سنی اور کچھ شیعہ مسالک میں تقسیم ہے، لیکن ان میں مذہب سے محبت بقیہ عراق کی طرح نہیں اور یہ اپنے رہن سہن اور رسم و رواج میں زیادہ مذہبی رنگ نہیں رکھتے۔ لہٰذا مغرب کا خیال ہے کہ یہاں لبرل اقدار کے لیے خاصی گنجائش پائی جاتی ہے۔ مشرق وسطٰی میں بعض ممالک میں اسلامی مرکزیت والی سوچ پائی جاتی ہے اور وہ آج بھی اسلامی خلافت کا احیاء یا Pan Islamic فکر رکھتے ہیں، اس کے برعکس اس خطے کے باسی شام و ترکی میں بسنے والی کرد آبادی کے ساتھ مل کر ایک کرد ریاست آباد کرنے کی سوچ رکھتے ہیں۔ کرد آبادی کی لیڈر شپ میں بھی اینٹی استعمار و استکبار سوچ دیکھنے میں نہیں آئی بلکہ کرد لیڈر شپ کی بعض پالیسیوں سے ان قوتوں کی حلیف بننے والی سوچ کی عکاسی ہوتی ہے۔

امریکی قبضے کے بعد جب عراقی حکومت کے قیام اور آئین سازی کا مرحلہ آیا تو اس وقت بھی کرد آبادی کے لیے خصوصی قوانین پاس کروائے گئے اور اس امر کے لیے امریکہ نے اپنا پورا وزن کردوں کے پلڑے میں ڈالا۔ آئین کے مطابق کرد خطے کی آبادی جو کہ عراق کی آبادی کا 17فیصد ہے۔ اسے autonomy دی گئی اور اس کی آئینی حیثیت آزاد اور خود مختار خطے جیسی تصور کی گئی، پھر آج سے تقریباً دو سال قبل مرکزی حکومت اور کردستان حکومت کے درمیان اختلافات کھل کر سامنے آنے لگے اور ایک موقع ایسا بھی آیا کہ عراقی سکیورٹی فورسز اور کرد سکیورٹی فورسز آمنے سامنے آگئیں، لیکن مرکزی حکومت نے دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی فورسز کو عقب نشینی کا حکم دیا۔ ہمیں یاد رہے کہ نئے عراقی آئین کے مطابق کردستان کی سکیورٹی فورسز کرد حکومت کے تابع فرمان ہیں اور ان کا مرکزی حکومت سے کوئی تعلق نہیں، باوجود اس کے کہ عراقی پارلیمنٹ میں صدر کا کرد النسل ہونا لازمی ہے۔ یعنی 17فیصد آبادی کے باوجود مرکزی حکومت میں بھی کردوں کو پورا پورا حصہ دیا گیا ہے، جبکہ کردستان کی حکومت پر مرکز کا کنٹرول نہ ہونا اور وہاں کی سکیورٹی فورسز پر مرکزی حکومت کا کمانڈ اینڈ کنٹرول نہ ہونا بھی تسلیم کرلیا گیا ہے، یعنی پانچوں انگلیاں گھی میں رکھنے کے باوجود کرد حکومت نے نہ صرف مرکز گریز سیاست کی بلکہ مرکزی حکومت کے دشمنوں کے ساتھ حلیف بننے کی پالیسی بھی جاری رکھی۔ 

جیسے جب عراقی نائب صدر طارق الہاشمی جن کا تعلق سنی آبادی سے تھا، کو ان کے ڈیٹھ اسکواڈ کے منظر عام پر آنے کے بعد سنگین جرائم کے ارتکاب پر گرفتا رکیا جانے لگا تو وہ بغداد سے بھاگ کر کردستان پہنچ گئے اور مسلسل مرکزی حکومت کے اصرار کے باوجود مسعود بارزانی نے انہیں مرکزی حکومت کے حوالے نہیں کیا اور بعدازاں ترکی فرار کروا دیا۔ پھر تیل سے حاصل ہونے والی آمدنی کی طے شدہ %tage کی وصولی پر بھی اختلافات اُٹھائے گئے اور نتیجتاً مرکزی حکومت اور کرد حکومت کے درمیان اختلافات شدت اختیار کرگئے اور پھر کرد حکومت نے آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے خود سے ترکی اور امریکہ کو تیل کی فروخت شروع کر دی۔ اسی دوران کرد حکومت نے اعلان کیا کہ وہ ریفرنڈم کروا کر عراق سے علیحدگی کا اعلان کر دے گی۔ اس اعلان کا سب سے پہلے اسرائیل نے خیر مقدم کیا اور اسرائیلی وزیراعظم نے کہا کہ خطے میں کرد ریاست اسرائیل کے لیے موزوں ہوگی۔ 

اب ذرا اس خاکے میں رنگ بھریں تو جو منظر سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ خاکم بدہن کردستان، عراق سے علیحدگی اختیار کرکے ایک الگ ملک بن جائے، تاکہ یہاں موجود تیل کے ذخائر پر امریکہ اور اس کے حواری اپنی لوٹ کا بازار گرم کرسکیں۔ اس کی بغل میں موجود داعش کے ذریعے سنی آبادی پر مشتمل عراق کو مرکزی حکومت سے الگ کرلیا جائے، پھر یہ دونوں چھوٹے چھوٹے ممالک ایک دوسرے کے لیے خطرہ بن جائیں، جب کردوں کو ڈرانا ہو تو داعش سے ڈرایا جائے اور جب سنی آبادی والے عراق کو ڈرانا ہو تو کردوں اور شیعہ آبادی پر مشتمل عراق سے ڈرایا جاسکے۔ اس طرح اسرائیل کا تحفظ بھی ممکن ہوسکے گا، کیونکہ 1990ء کی خلیج جنگ کے دوران عراق نے اپنے میزائلوں سے اسرائیل کو نشانہ بنایا تھا۔ اب چونکہ مرکزی حکومت کی پالیسیاں ایران و لبنان دوست ہیں تو فطری طور پر آئندہ کسی بھی جنگ جو اسرائیل کے ساتھ لڑی جائے گی، عراقی مرکزی حکومت کا اسرائیل مخالف ہونا اور اپنی استعداد کے مطابق اسرائیل کو جواب دینا بھی فطری ہے۔ لہٰذا اگر خدانخواستہ عراق کی وحدت پارہ پارہ ہوتی ہے تو یہ خطہ اپنے داخلی مسائل کا اسطرح شکار ہوجائے گا کہ کسی بیرونی خطرے جیسے اسرائیل کے ساتھ مقابلے کا تصور بھی نہیں کرسکے گا۔ 

اس سارے منظر نامے کو دیکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ جب تک داعش شام اور عراق کے غیر کرد علاقے میں اپنی کارروائی کرتی رہے، امریکہ کو کوئی مسئلہ نہیں، لیکن اگر اس تنظیم کے ساتھ مربوط بعض چھوٹے چھوٹے گروہ کرد علاقوں کی طرف پیش قدمی کریں تو امریکہ کے ساتھ ساتھ عرب ممالک اور ترکی کے پیٹ میں بھی مروڑ اُٹھنے لگتے ہیں اور وہ سب اپنی پوری قوت کے اظہار کے لیے سامنے آجاتے ہیں، لیکن اگر شام میں نہتے شہریوں کا خون بہے یا شام کے دفاع کی ضامن سکیورٹی فورسز کا خون بہے، راوی چین ہی چین لکھتا رہے گا کیونکہ یہ ان کے گریٹر پلان کا حصہ ہے، لیکن عراقی قوم کی وحدت نے اب تک اس پلان کو دھواں بنا رکھا ہے۔ آج عراقی ملت کے سامنے یہ بات عیاں ہوگئی ہے کہ داعش کا حملہ جس شدت کے ساتھ ہوا تھا اسے دیکھتے ہوئے لگتا تھا کہ چند ہی دنوں میں یہ تکفیری دہشت گرد گروہ مرکزی حکومت کی بنیادیں ہلا کر رکھ دے گا، لیکن جب عراقی ملت نے اپنی وحدت کے ساتھ سرزمین عراق کا دفاع کرنے کی ٹھان لی تو اس جرثومے کو پسپائی اختیار کرنی پڑی اور نتیجتاً اس خبیث جرثومے نے اپنا رُخ اس طرف کرلیا، جہاں یہ جانتا تھا کہ مرکز کے ساتھ وحدت نہیں پائی جاتی، چنانچہ اس نے پوری شدت کے ساتھ کرد علاقوں کی طرف پیش قدمی شروع کردی اور یہ کارروائی کرد لیڈران اور عوام کے لیے ایک Wake Up Call ہے کہ اگر وہ خود کو مرکز سے علیحدہ کرکے جینے کا تصور کرتے ہیں تو انہیں ایسے خطروں سے نبرد آزما ہونے کے لیے امریکہ و یورپ کی کاسہ لیسی کرنی پڑے گی۔
 
ممکن ہے کہ داعش کو کرد علاقوں کی طرف امریکی ٹریک ٹو پالیسی کے تحت ہی بھیجا گیا ہو، تاکہ کرد لیڈران کو اپنی اہمیت کا احساس دلایا جاسکے اور اسی عالم تنہائی میں اپنی شرائط پر دفاعی خدمات فراہم کی جاسکیں۔ جیسے 1990ء میں سعودی عرب پر صدام سے حملہ کروا کر کیا گیا تھا۔ لیکن عراق کی مرکزی حکومت نے عقل و دانش کا اظہار کرتے ہوئے کرد لیڈران کی تنہائی کو ختم کر دیا اور ایران نے اپنی مکمل دفاعی مدد کے ساتھ امریکہ کو اس خلاء کو پُر کرنے سے معذور کر دیا۔ مرکزی حکومت نے اپنی ائیر فورس کو حکم دیا کہ مشکل کے ان لمحات میں کرد حکومت کو نہتا نہ چھوڑا جائے، باوجود اس کے کہ کرد لیڈران کے مرکز سے شدید اختلافات موجود ہیں، اسی طرح ایران نے اپنے دفاعی تعاون کے وعدے کو عملی کرکے داعش کے تکفیری دہشت گردوں کی پیش قدمی کو رُکنے پر مجبور کردیا اور اس بات کا اعتراف ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف کے حالیہ دورے کے دوران خود کرد حکومت کے سربراہ مسعود بارزانی نے بھی کیا ہے اور ایران کا شکریہ ادا کیا ہے۔

آج عراقی عوام کو یہ بات جان لینی چاہیے کہ امریکہ کردستان کے عوام یا وہاں بسنے والی اقلیتوں کے دفاع کے لیے ہرگز میدان میں نہیں اترا بلکہ اس کی نظر وہاں پر موجود تیل پر ہے اور وہ اپنے گریٹر پلان کو عملی ہونے کے درپے ہے اور ترکی، سعودی عرب اور قطر سمیت دیگر عرب ملکوں کو بھی یہ یاد رکھنا ہوگا کہ دہشت گردی اور تکفیریت ایک ایسا خونخوار درندہ ہے جو کبھی اپنے پالنے والے مالک کو بھی نہیں بخشتا۔ اس ضمن میں دنیا کو پاکستان کے حالات سے عبرت لینی چاہیے کہ جب "افغان جہاد" کے نام پر یہاں کی ریاست نے اس گروہ کی سرپرستی کی تو بعد میں وہی کتے خود اسی ریاست پر بھونکنے لگے۔ عرب ملکوں کو بھی زبانی جمع خرچ اور درباری ملائوں کے فتووں سے بڑھ کر اپنی پالیسیوں کی اصلاح کرنی چاہیے اور اس دہشت گرد ٹولے کی مالی، دفاعی اور ہر طرح کی امداد کو بند کرنا چاہیے، ورنہ ان کا مستقبل بھی مختلف نہ ہوگا۔
آج ملت عراق کی وحدت کے عملی ثمرات ہم سب دیکھ رہے ہیں کہ ان شدید بحرانی حالات میں بھی عراقی پارلیمنٹ نے صدر، وزیراعظم اور نائب صدر کے انتخابات منعقد کرکے سیاسی بحران ختم کر دیا ہے۔ اگر اس وحدت کے دائرہ کو بڑھایا گیا اور امریکہ کی بجائے عراق کے فطری اور حقیقی حلیفوں کی مدد کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رکھی گئی تو عراق کا مستقبل محفوظ ہوجائے گا اور پھر کوئی کرد، سنی یا شیعہ عراق کا فتنہ پروان نہیں چڑھ سکے گا۔
خبر کا کوڈ : 408405
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش