0
Sunday 10 Nov 2013 21:09

سعودی، یہودی ریاستوں کے انٹیلجنس سربراہوں کی ملاقات

سعودی، یہودی ریاستوں کے انٹیلجنس سربراہوں کی ملاقات
ایک اردنی اخبار نے انکشاف کیا ہے کہ بندر بن سلطان کی یہودی ریاست نے خفیہ ایجنسی موساد کے سربراہ سے ملاقات کی ہے۔ وطن نیوز نے عینی شاہدین کے حوالے سے لکھا ہے کہ شام کے مسئلے میں فعال سعودی اہلکار اور سعودی انٹلیجنس کے سربراہ بندر بن سلطان نے اردن کی عقبہ بندرگاہ کے ایک ہوٹل میں صہیونی موساد کے سربراہ تامیر باردو سے خفیہ ملاقات کی ہے۔ یہ اطلاعات بھی ہیں کہ سعودی ولیعہد سلمان بن عبدالعزيز نے اس پر ناراضگی ظاہر کی ہے۔ البتہ اس ناراضگی کی وجہ موساد کے سربراہ سے ملاقات نہیں بلکہ اس میں اردنی اہلکاروں کی موجودگی ہے۔

واضح رہے کہ بندر بن سلطان عید قربان کے بعد سے اب تک اردن میں قیام پذیر ہیں اور حکومت شام کو نقصان پہنچانے کی سازشوں میں مصروف ہیں۔ برطانوی اخبار گارڈین نے شامی، عرب اور مغربی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ سعودی حکومت شام میں جیش الاسلامی کے نام سے باغیوں کو منظم کرنے کی سنجیدہ کوششیں کر رہی ہے، یہ نئی تشکیل نام کی حد تک کی 43 تنظیموں کو یکجا کرکے پہلے ہی منظرعام پر ہے لیکن اس میں جبہۃالنصرہ اور داعش شامل نہیں ہیں۔ یہ نئی تشکیل دی جانے والی جیش الاسلام، زہران علوش نامی دہشت گرد کی قیادت میں کام کر رہی ہے اور یہ تنظیم متواتر ناکامیوں کے بعد القلمون کی پہاڑیوں میں چھپ گئی ہے۔ تجزیہ نگاروں نے مستقبل میں ان دہشت گردوں کے خطرات کے سلسلے میں متنبہ کیا ہے کیونکہ وہ شام سے لوٹنے کے بعد اپنے ملکوں میں حکومتوں اور عوام کے خلاف باغیانہ سرگرمیوں میں ملوث ہو سکتے ہیں اور اس خدشے کی کئی مثالیں پہلے سے موجود ہیں۔

گارڈین کے مطابق شہزادہ بندر بن سلطان امریکہ پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ جیش الاسلام کو طیارہ شکن اور ٹینک شکن میزائلوں سے لیس کرنے کی مخالفت چھوڑ دے۔ دریں اثناء بندر نے اردن کو بڑے بڑے وعدہ دے کر اپنی سرزمین شام کے خلاف استعمال کرنے کی حامی بھرنے کی ترغیب دلائی ہے۔ بعض سفارتکاروں نے کہا ہے کہ سعودی عرب جیش الاسلام کو سلیم ادریس کی کمان میں دہشت گردی کرنے والی اعلٰی عسکری کونسل کی اطاعت میں لانے کی کوشش کرے گا۔ گارڈین نے لکھا ہے کہ سعودی عرب نے کچھ عرصہ قبل شامی باغیوں کو مسلح کرنے کا اعلان کیا تھا اور سعودیوں کا خیال ہے کہ شام کے کیمیاوی ہتھیاروں کو تلف کرنے کے سلسلے میں امریکہ اور روس کی مفاہمت نے شام پر امریکی حملہ روکنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس اخبار نے لکھا ہے کہ لواء الاسلام نامی دہشت گرد ٹولے کے سابق سربراہ اور جیش الاسلام کے موجودہ سربراہ زہران علوش نے حال ہی میں بندر بن سلطان اور متعلقہ یونٹوں کو مالی حمایت فراہم کرنے والے بعض سعودی تاجروں سے ملاقاتیں بھی کیں ہیں۔

دریں اثناء شام کی حکومت مخالف گروپوں کی کوآرڈینیشن کمیٹی کا خفیہ اجلاس ترکی میں قطر کے وزیر خارجہ خالد العطیہ اور شام کے لئے امریکی ایلچی رابرٹ فورڈ کی موجودگی ميں، منعقد ہوا ہے۔ گارڈین نے آخر میں لکھا ہے کہ جیش الاسلام نے حال ہی میں انفارمیشن اور اطلاع رسانی کے شعبے کے ماہرین کی بھرتی کے لئے انٹرنیٹ پر اشتہارات چلائے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس تنظیم کے مالی ذرائع میں اضافہ ہوا ہے۔ بعض مغربی حکام کا یہ کہنا ہے کہ ایک نئی باغی تنظیم کی تشکیل کا اصل مطلب ایک نئے سیاسی ڈھانچے کی تشکیل ہے جو درحقیقت ایک محدود اور قلیل المدت سیاسی کھیل کا حصہ ہے۔
خبر کا کوڈ : 319602
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش