1
0
Friday 21 Mar 2014 00:13

گرتی ہوئی دیواروں کو ایک ۔۔۔۔۔۔۔۔

گرتی ہوئی دیواروں کو ایک ۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر: محمد علی نقوی

شام کی تازہ صورت حال سے اندازہ ہوتا ہے کہ شامی فوج کے ہاتھوں دہشتگردوں کو کاری ضرب لگنےکے بعد شام سے ان کے فرار کا سلسلہ تیز ہوگیا ہے۔ ادھر شام  کی فوج نے اعلان کیا ہے کہ وہ  شام کے انتہائی اہم اسٹراٹیجک شہر قلمون کو دہشتگردوں سے پاک کرنے کے لئے ایک بڑے فوجی آپریشن کے لئے مکمل تیار ہے۔ شامی فوج اس سے پہلے دو اہم شہروں یبرود اور راس العین سے دہشتگردوں کا صفایہ کرنے میں کامیاب ہوچکی ہے۔ یبرود ایک تاریخی اور اسٹراٹیجیک شہر ہے، یہ شہر سلسلہ جبال قلمون کے دامن میں واقع ہے۔ شام کی فوج نے مشرقی یبرود کے علاقے قلمون میں دہشتگردوں کو شکست فاش دینے کے بعد اس علاقے میں دہشتگردوں کو شدید نقصان پہنچایا ہے، لیکن دہشتگردوں کا مکمل صفایا نہیں ہوا ہے، البتہ قلمون پر فوج کے حملے کے بعد دہشتگردوں کی رسد کا راستہ ضرور کٹ گيا ہے۔
 
یبرود پر شام کی فوج کے قبضے کے بعد بہت سے تکفیری دہشتگرد لبنان کے سرحدی علاقے عرسال بھاگ گئے ہیں، ویٹرنز ٹوڈے جریدے کے مدیر گورڈون ڈاف نے مغرب کے حمایت یافتہ دہشتگردوں کے وجود سے اسٹریٹیجک شہر یبرود کی پوری طرح صفائی اور اس اسٹریٹیجک شہر پر شام کا پرچم لہرائے جانے کے بعد کہا ہے کہ بحران شام علاقائی بحران میں تبدیل ہوچکا ہے، جس کی کسی کو توقع بھی نہيں تھی۔ انھوں نے مزید کہا کہ دہشتگرد اور تکفیری گروہ جنھیں سعودی عرب اور دوسرے ملکوں نے شام میں بھیجا تھا، اس وقت بڑے پیمانے پر شام سے فرار کر رہے ہيں، جبکہ وہ سوچ رہے تھے کہ طویل عرصے تک شامی فوج کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔ سیاسی تجزیہ نگار شام کی موجودہ صورت حال اور جنگی کارروائی کی مختلف وجوہات بیان کر رہے ہيں۔

بڑے پیمانے پر عوامی حمایت کے حامل فوجیوں کی زبردست کامیابی اور دہشتگردوں سے نمٹنے میں ان کی صلاحیتوں نے دہشتگردوں اور ان کے حامیوں کے تمام اندازے غلط ثابت کر دیئے ہیں، جو خونریز جھڑپوں اور تشدد آمیز اقدامات کے ذریعے بشار الاسد کی قانونی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کر رہے تھے۔ درحقیقت دہشتگردوں پر شامی فوج کی کاری ضرب اور دہشتگردوں کی سرکوبی پر تاکید کے باعث شام میں دہشتگردوں کے لئے رکنا ممکن نہيں رہ گیا، اور اسی بنا پر انھوں نے فرار کو ترجیح دی ہے۔ شام سے دہشتگردوں کے فرار کی دوسری وجہ اس ملک میں دہشتگردوں کی صفوں میں پیدا ہونے والا اختلاف ہے، جو خاص طور سے دہشتگردوں کی ناکامی کے بعد کھل کر سامنے آگیا ہے۔ واضح رہے کہ شام کے دہشتـگرد کہ جنھیں مختلف مغربی اور عربی حکومتوں کی حمایت حاصل ہے، اپنے حامیوں کے اہدافت کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کر رہے ہيں اور ان کے درمیان نظم و ضبط موجود نہيں ہے۔

ان حالات میں شام میں فوج کے مقابلے میں دہشتگردوں کی پے درپے شکست ان کے درمیان مزید اختلاف کا باعث بنی ہے، یہاں تک کہ گذشتہ مہینوں میں دہشتگردوں کے درمیان اختلاف اور جھڑپوں میں شدت آئی ہے، جو ان کی حیرانگی اور کمزوری کا باعث بنی ہے۔ شام میں دہشت گردوں کو اتنی واضح شکست ہوئی ہے کہ شام میں سرگرم دھشتگرد گروہ "جبھۃ النصرہ" نے باقاعدہ اعتراف کیا ہے کہ دھشتگرد گروہوں نے یبرود شہر کو فروخت کر دیا، یا اس کو مفت شامی فوج کی تحویل میں دیدیا ہے۔ گروہ جبھۃ النصرہ کے ترجمان "عبداللہ شامی" نے قبول کیا ہے کہ ہم نے بہت زیادہ کوشش کی کہ مختلف گروہوں کو یبرود شہر میں باقی رکھیں، لیکن ہماری کوششیں فائدہ مند ثابت نہیں ہوئیں۔ "عبداللہ شامی" نے مزید کہا کہ جب یبرود شہر کے قریب کی چوٹیاں شام کی فوج کے کنٹرول میں چلی گئی تو اہم مسلح گروہوں نے شہر سے فرار اختیار کرنا شروع کر دیا اور بہت کم دھشتگرد اس شہر میں باقی بچے۔ 

دھشتگرد گروہ جبھۃ النصرہ کے ترجمان نے دعویٰ کیا کہ بعض مسلح گروہ یبرود میں واپس پلٹے ہیں اور ان میں سے ایک گروہ نے یبرود کے قریب کی چوٹیوں اور اطراف کے علاقوں کی حفاظت کی ذمہ داری سنبھال لی تھی، لیکر بعد میں شامی فوج نے پوری طاقت سے یبرود شہر میں ہماری دفاعی لائن کاٹ دی اور اسٹراٹیجیک اہمیت کا حامل شہر یبرود ہمارے ہاتھ سے نکل گیا۔ غاصب اسرائیل کے ایک سابق فوجی انٹیلیجنس افسر عامس یادلن نے بھی اپنے تجزیہ میں اعتراف کیا ہے کہ آخری مہینے میں پیش آنے والے واقعات سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ جنگ کی صورتحال مکمل طور پر شامی فوج کے حق میں جا رہی ہے اور یہ سب کچھ اسرائیل کے مفاد میں نہیں۔ ان حالات میں صیہونی حکومت کی کوشش ہے کہ جولان سمیت شامی علاقوں پر جارحیت تیز کرکے شام میں دہشتگردانہ کارروائیوں کا سلسلہ جاری رہنے کی زمین فراہم کرے، لیکن زمینی حقائق اور شام کی فوج کا مورال اس بات کی نشاندہی کر رہا ہے کہ اب شامی فوج کی کامیابیوں کے سامنے بند باندھنا کوئی آسان کام نہیں رہا۔ ادھر شام کے صدر بشار الاسد نے دمشق کے قریب ایک مہاجر کیمپ کا دورہ کرکے نیز کھلے عام شامی عوام میں عام افراد سے مل کر شامی عوام اور فوج کے حوصلوں کو مزید بلند کر دیا ہے، یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی ہے کہ ملت شام اس وقت تراسی ملکوں کے دہشتگردوں کا مقابلہ کر رہی ہے۔
 
تراسی ملکوں سے ہزاروں دہشتگرد، شام کی ملت و حکومت کے خلاف لڑ رہے ہیں، یہ دہشتگرد، ترکی اور سعودی عرب سے شام بھیجے جاتے ہیں۔ شام کی فوج کے ہاتھوں سینکڑوں غیر ملکی دہشتگرد گرفتار ہوئے، جنہوں نے اعتراف کیا کہ انہیں سعودی عرب، قطر اور امریکہ سے مدد ملتی ہے۔ شام کے دہشتـگرد کہ جنھیں مختلف مغربی اور عربی حکومتوں کی حمایت حاصل ہے، اپنے حمایتیوں کے اہداف کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کر رہے ہيں، لیکن حالیہ شکستوں کے بعد ان کے درمیان موجود نظم وضبط مکمل ختم ہوچکا ہے، جسے سعودی عرب، قطر، ترکی نیز مغربی حکومتوں کے درمیان اختلافات کی شکل میں بخوبی مشاہدہ  کیا جاسکتا ہے۔ شام میں دہشتگردوں کی ناکامی کے عراق اور لبنان پر بھی گہرے اثرات پڑیں گے، لیکن سوال یہ کہ امریکہ اور اسکے عرب اتحادی ان شکست خوردہ عناصر کو مستقبل میں کس ملک اور کس علاقے کے خلاف استعمال کریں گے، کیونکہ یا بات تو ثابت شدہ ہے کہ  ان تکفیری دہشتگردوں کا اپنا کوئی ایجنڈا نہیں ہے، بلکہ یہ امریکہ اور اسرائیل کے اشاروں پر اپنی پالیسیاں بناتے ہیں، البتہ دلال کا کردار آل سعود اور آل خلیفہ جیسے خاندانی ڈکٹیٹر اپنے ملکی سرمائے سے کرتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 364107
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

شام کے بارے میں پاکستانی میڈیا کچھ نہیں دیتا اور اگر کچھ دیتا بھی ہے تو غلط۔ لہذا اسلام ٹائمز کیطرف سے اسطرح کے مضامین نہایت ضروری ہیں۔
نقوی صاحب شکریہ
ہماری پیشکش