0
Monday 17 Nov 2014 00:09

کبوتروں کی اقسام و اوصاف

کبوتروں کی اقسام و اوصاف
 تحریر: عمران خان 

یوں تو بندر اور کبوتر میں کوئی شے مشترک نہیں لیکن عادات اور فطرت انسانی کو ملحوظ خاطر رکھا جائے تو بندر بالواسطہ طور پر کبوتر کی نقل کرتے ہیں۔ دراصل بندر انسان کی نقل کرتے ہیں، اور انسان خاص طور پر حکمران کبوتر کی نقل کرتے ہیں۔ یعنی دونوں کے درمیان حقیقی واسطہ حضرت انسان ہی ہے۔ ماضی میں کبوتر پیغام رسانی کا اہم ذریعہ تھے، جبکہ عہد حاضر میں بندر ممنوعہ سامان رسانی، جاسوسی کا اہم ذریعہ بنے ہوئے ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے کئی سرحدی مقامات پر بندر دن کی روشنی میں سرحد عبور کرتے ہیں، رات کے اندھیرے میں قیمتی ساز و سامان چرا کر لے جاتے ہیں۔ جو سامان ساتھ نہیں لے جا سکتے اسے پانی، مٹی کے ذریعے خراب کرنے کی کوشش ضرور کرتے ہیں۔ سندھ میں رینجرز کو بھی بھارتی بندروں سے ڈھیر ساری شکایات ہیں۔ ماضی میں بادشاہوں کو کبوتر رکھنے، پالنے، سدھانے اور ان کی اڑان کے مقابلوں کا شوق ہوا کرتا تھا۔ آج کل حکمران کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرنے کا شوق اپنائے ہوئے ہیں۔ برصغیر میں کبوتر بازی کی تاریخ انتہائی قدیم ہے، مگر رفتہ رفتہ یہ شاہی شوق عوام میں منتقل ہوا اور آج کل ہر دسویں گھر میں کوئی ایک شوقین ضرور ملتا ہے۔ پاکستان میں لاہور، ملتان، ڈی جی خان، بھکر، کلور کوٹ، ڈی آئی خان، سندھ کے اندرونی علاقے کبوتر بازی میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ کسی بھی گھر کی چھت پر لگا اونچا جال دو باتوں کی تصدیق کرتا ہے، اول یہ کہ اس گھر میں کبوتر باز موجود ہے اور دوئم یہ کہ اس گھر میں کم ا زکم ایک شخص نکما ضرور ہے، اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ ملک میں نکمے فقط وہی ہیں جو کبوتر کا شوق رکھتے ہیں۔ 

پاکستان سمیت دنیا بھر میں کبوتروں کی کئی اقسام پائی جاتی ہیں، جبکہ کبوتر بازوں کا دعویٰ ہے کہ جتنی اقسام کبوتروں کی ہوتی ہیں اتنی ہی اقسام کبوتر بازوں کی بھی ہوتی ہیں۔ کئی کبوتر اپنی اونچی اڑان کی وجہ سے باقاعدہ مقابلوں میں حصہ لیتے ہیں، اور ہزاروں لاکھوں روپے کے انعامات جیت جاتے ہیں۔ ان کے مالک کبوتر بازوں کی نگاہیں انتہائی تیز ہوتی ہیں، اور گردن ہمیشہ اونچی رہتی ہے۔ ان کو سب سے زیادہ صدمہ اور افسوس اس وقت ہوتا ہے جب ان کی نگاہیں اپنے ایک کبوتر پہ آسمان پر ٹکی ہوتی ہیں اور نیچے موجود کبوتروں پر بلی ہاتھ صاف کرجاتی ہے۔ بالکل سکندر کی طرح، جس نے کئی گھنٹے اسلام آباد کو یرغمال بناکر سارے میڈیا کو اپنی جانب متوجہ رکھا اور ائیرپورٹ پر شام سے آنیوالی دہشت گردوں کی لاشیں چپکے سے اچک لی گئیں۔ دوسری قسم کے کبوتر اپنے رنگوں اور حسن کی وجہ سے قیمت پاتے ہیں، ان کا ایک ایک پر، کلغی، آنکھ، چونچ، پاؤں الغرض چال ڈھال تک ان کی قیمت اور نسل کے تعین میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ ان کے شوقین افراد کی چھتوں پر اونچے جال نہیں لگے ہوتے مگر بڑے بڑے ڈربے بنے ہوتے ہیں، انہیں ٹکڑی والے کبوتر کہا جاتا ہے، ان کبوتروں کے شوقین سیٹیاں بجانے پر عبور اور دایاں بازو انتہائی مضبوط رکھتے ہیں۔ پاکستان میں سب سے زیادہ یہی کبوتر چوری ہوتے ہیں۔ عمومی طور پر ڈی آئی خان، ملتان، بھکر اور ڈی جی خان سے چوری ہونیوالے کبوتر ٹانک، پیزو، کلاچی میں ملتے ہیں۔ چوری شدہ کبوتروں سے متعلق ایک نرالا قانون ہے، پولیس ان کبوتروں کی چوری کی ایف آئی آر درج نہیں کرتی۔ چوری شدہ کبوتر صرف مالک کو ہی بیچے جاتے ہیں، مگر اصل قیمت سے بھی مہنگے داموں، اور اپنا مال دوگنے دام خریدنے والا مالک چوروں کو مٹھائی کے طور پر کچھ رقم بھی دینے کا پابند ہوتا ہے کہ اس کے کبوتر بحفاظت اسے واپس مل گئے۔ 

لاہور میں گرچہ یہ کبوتر پائے جاتے ہیں، مگر یہاں کبوتروں کی چوری کے بجائے دہشتگردوں کے ریکارڈ چوری ہونے کا رواج زیادہ ہے۔ گذشتہ دنوں انکشاف ہوا ہے کہ صوبائی وزارت داخلہ کے ریکارڈ روم سے سینکڑوں فائلیں چوری ہو چکی ہیں، چونکہ محکمہ داخلہ کے ملازمین بھی چوروں کو اپنے سے طاقتور پاتے ہیں۔ اس لیے وہ کبوتروں کی طرح آنکھیں بند کرلیتے ہیں۔ ان ملازمین کو بھی یقین ہے کہ کبوتروں کی طرح ان فائلوں کی چوری کا بھی پرچہ درج نہیں ہوگا۔ چوری کے بعد جس طرح کبوتر باز کے پاس کبوترو ں کا کوئی ڈیٹا محفوظ نہیں ہوتا۔ اسی طرح محکمہ داخلہ پنجاب کے پاس بھی اب دو سو سے زائد دہشتگردوں کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے۔ بس اتنا معلوم ہے کہ بیشتر دہشتگردوں کا تعلق تحریک طالبان اور دیگر کالعدم تنظیموں سے تھا۔ پولیس کبوتروں کی چوری کی طرح حساس ریکارڈ کی چوری میں بھی بےبس ہے۔ شائد کہ دونوں کی چوری کو جرم ثابت کرنے کی قانون میں گنجائش موجود نہیں ہے، یا پھر حکومت کو جیلوں میں جگہ کی کمیابی کا احساس ہے، اس لیے چوروں سے خاص الخاص رعایت برتی جاتی ہے۔ 

کبوتروں کی تیسری قسم فینسی کہلاتی ہے۔ ان میں کچھ جسامت میں بہت بڑے ہوتے ہیں، تو کچھ بہت چھوٹے، کسی کے سر پر پھول یا تاج ہوتا ہے، تو کوئی گردن موڑے رکھتا ہے، کچھ کے پر سپرنگ کی طرح ہوتے ہیں، اور کچھ کے بس گنے چنے پر ہوتے ہیں، جو ان کا تن ڈھانپنے کیلئے ناکافی ہوتے ہیں۔ یعنی یہ کبوتر عام روٹین سے ہٹ کر ہوتے ہیں۔ تحریری طور پر کبوتروں کی اس قسم کو وہی لوگ بہتر سمجھ سکتے ہیں، جنہوں نے پی ٹی آئی کے دھرنوں یا جلسوں میں خود شرکت کی ہو۔ عام طور پر ان کبوتروں کو دیکھ کے ہر کوئی کہہ اٹھتا ہے، کہ یہ کیسا کبوتر ہے یا یہ کونسا کبوتر ہے۔ یہ کبوتر اور ان کے مالک انتہائی آرام پسند ہوتے ہیں۔ ان کو اڑنے یا مقابلوں کی سختیاں برداشت نہیں کرنی پڑتی مگر اس کے باوجود بہترین خوراک اور بہترین رہائش کے عادی ہوتے ہیں۔ ان کے مالک صرف اپنے کبوتروں کو ہی دیکھ کر خوش ہوتے رہتے ہیں، اور انہیں دوسروں کے پکھی پرندوں سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔ غالبا انہی کبوتر بازوں سے متاثر ہوکر خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی رہنماؤں نے یہ پالیسی بنائی ہے کہ دہشتگردی کے جائے وقوعہ پر نہیں جانا، زخمیوں یا جاں بحق ہونے والوں کے گھروں تک جانے کی زحمت نہیں کرنی۔ یہی وجہ ہے کہ امن لشکر میں شامل افراد، ملت تشیع سے تعلق رکھنے والوں سمیت دیگر بےگناہ پاکستانیوں کی ٹارگٹ کلنگ کے خلاف پی ٹی آئی حکومت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔ یہاں تک کہ شہداء کے لواحقین تک صوبائی حکومت کا کوئی نمائندہ تسلی، تشفی یا دلاسے کیلئے حاضر نہیں ہو سکتا۔ 

کبوتروں کی ایک قسم جنگلی کبوتر کہلاتی ہے۔ اگرچہ یہ کبوتر رہتے شہری آبادیوں میں ہیں مگر اس کے باوجود بھی یہ جنگلی کہلاتے ہیں۔ جس کی بنیادی وجہ ان کا رویہ اور سلوک ہوتا ہے۔ شہری ان کے لیے جا بجا کھانے اور پانی کا انتظام کرتے ہیں۔ یہ کبوتر شہریوں سے کھانے پینے کے باوجود ان سے مانوس نہیں ہوتے۔ کسی سرحد، حدبندی یا قانون کو خاطر میں نہیں لاتے۔ یہ پالتو کبوتروں خاص طور پر ان کے بچوں پر حملہ آور ہوتے ہیں اور بناء کسی فائدے کے انہیں مارتے ہیں۔ یہ کبوتر آنکھوں کے سامنے ہونے کے باوجود بھی ہاتھوں سے دور ہوتے ہیں اور اگر کوئی ان پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش کرے تو مختلف بیرونی ادارے حرکت میں آ جاتے ہیں۔ عمومی طور پر ان کبوتروں کو دیکھ کر کالعدم تحریک طالبان، لشکر جھنگوی، سپاہ صحابہ سمیت دیگر انتہا پسند گروہوں کا خیال آتا ہے، جن کے دہشتگرد نظروں کے سامنے ہونے کے باوجود بھی قانون کے شکنجے سے دور ہوتے ہیں۔ یہ انتہا پسند بھی کھاتے، پیتے، پہنتے پاکستان کا ہیں اور ظلم، جبر، تشدد اور دہشتگردی کا نشانہ بھی پاکستانی بچوں کو بناتے ہیں۔ شہروں میں رہنے والے جنگلیوں کی طرح یہ معصوم بچوں کو اٹھاتے ہیں اور بعد میں ان کے گلے کاٹ دیتے ہیں، چونکہ یہ ریاستی قانون سے بالاتر ہوتے ہیں اس لیے انہیں کوئی خوف لاحق نہیں ہوتا، سحر بتول کے قاتلوں کی طرح۔ 

کبوتروں کی آخری قسم ڈاگری کہلاتے ہیں۔ یہ زیادہ تر پسماندہ اور غیر ترقی یافتہ علاقوں میں پائے جاتے ہیں۔ گھروں کی چھتوں، برآمدوں میں اپنی رہائش رکھتے ہیں، صبح سویرے دانے دنکے کی تلاش میں کھیتوں میں نکل جاتے ہیں، گرمیوں کی دوپہر درختوں کے سائے میں گزارتے ہیں اور شام گئے واپس لوٹتے ہیں۔ خشک سالی یا فصلات کے اٹھ جانے کے بعد یہ بھوک کے ہاتھوں موت کا شکار بھی ہو جاتے ہیں۔ سب سے زیادہ شکار انہی کبوتروں کا کیا جاتا ہے، جب یہ کھیتوں میں دانہ دیکھ کر اترتے ہیں تو اکثر کسی شکاری کے جال یا بندوق کی نال سے شکار ہو جاتے ہیں۔ ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔ جن گھروں میں یہ گھونسلے بناتے ہیں ان کے مکین بھی ان کے حقوق تسلیم نہیں کرتے۔ عام فہم زبان میں یہ پاکستان کے عام شہریوں جیسی زندگی گزارتے ہیں۔ جو کبھی چوراہوں، بازاروں، مارکیٹوں، میں بم گولہ بارود کا نشانہ بن رہے ہیں تو کبھی تھر میں بھوک سے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر موت کی نیند سو جاتے ہیں۔ اپنے حق کے حصول کیلئے جنہیں یہ ووٹ دیتے ہیں وہی ان کے حقوق تسلیم کرنے سے انکاری ہوتے ہیں۔ ڈاگری کبوتروں کی طرح عام شہری بھی اپنی خوراک، صحت، زندگی، موت کا خود ذمہ دار سمجھا جاتا ہے۔ ریاست یا اس کے اداروں کو اس سے کوئی سروکار نہیں کہ آج کتنے شہری ایکسیڈنٹ میں مرے، یا بارود کی بھینٹ چڑھے، یا بھوک سے مرگئے۔ ان تمام کبوتروں میں ایک وصف مشترک ہے کہ یہ سب بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کر لیتے ہیں، اور سمجھتے ہیں کہ خطرے سے نظریں چرانے سے خطرہ ٹل جائے گا۔ یہ وصف حکام بالا اور اداروں پر مسلط افراد نے اپنایا ہوا ہے۔ جس کی مثال گذشتہ روز آرمی آفیشل کی جانب سے جاری یہ بیان ہے کہ دہشتگردوں سے وہ مواد پکڑا گیا ہے جو ہلکے پیمانے کے ایٹمی بموں جیسی تباہی پھیلا سکتا ہے۔ اس بیان سے عوام شدید اضطراب کا شکار ہیں اور حکومت نے تو پہلے ہی کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔
خبر کا کوڈ : 419845
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش