0
Wednesday 25 Feb 2009 14:44

رجب طیب اردغان کا ڈیوس میں ردعمل قابل تحسین تھا: یھودی پروفسر

رجب طیب اردغان کا ڈیوس میں ردعمل قابل تحسین تھا: یھودی پروفسر

"اوی شلائم" آکسفورڈ یونیورسٹی میں انٹرنشنل ریلیشنز ڈیپارٹمنٹ کے پروفسر ہیں۔ انہوں نے ترکی کے ڈیلی "زمان" کو انٹرویو دیتے ہوئے ترکی کے وزیراعظم رجب طیب اردغان کے ڈیوس میں اسرائیلی صدر شیمون پرز کے خلاف اعتراض آمیز رویہ کو سراہا۔ وزیراعظم اردغان نے ڈیوس کے ایک جانبی اجلاس میں صدر شیمون پرز کو غزہ میں قتل عام کے حوالے سے تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ اوی شلائم کی فارس نیوز کے ساتھ ایک گفتگو پیش خدمت ہے۔
س: اردغان اور پرز کے درمیان ڈیوس میں لفظی جنگ کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟ اردغان کو اس وقت گفتگو کرنے سے روک دیا گیا جب وہ آپ کے مقالے کی طرف اشارہ کر رہے تھے۔
ج: میں اردغان کو پسند کرتا ہوں۔ انہیں جواب دینے کا منصفانہ حق نہیں دیا گیا۔ جبکہ پرز نے 25 منٹ بغیر وقفے کے گفتگو کی۔ اس میٹنگ کے کوآرڈینیٹر کا اردغان کے ساتھ رویہ انتہائی بے ادبانہ تھا۔ یہ بے ادب امریکی صحافی اس جلسے کی کاروائی کو غیر جانبدار طریقے سے چلانے میں ناکام رہا ۔ اس نے پرز کو اس کی مرضی کے مطابق وقت دیا لیکن اردغان کو بولنے سے روک دیا۔
س: اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اردغان کو حق بجا نب قرار دیتے ہیں؟
ج: جی ہاں۔ میں اس بات سے مکمل اتفاق کرتا ہوں کہ اس جلسہ میں اردغان پر احساسات غالب آگئے۔ ان کی کچھ باتیں بہت زیادہ وزنی تھیں۔ لیکن وہ اسرائیلی پستی کے حوالے سے اپنے احساسات زبان پر لائے بغیر نہ رہ سکے۔ مجھے اس نکتے کی طرف اشارہ کرنا چاہیئے کہ دنیا میں لاکھوں افراد ان کے احساسات میں شریک تھے۔ اردغان مصر اور دوسرے عرب ممالک میں اچانک ایک ہیرو بن کر ابھرے۔
س: لیکن اس وجہ سے کہ ڈپلومیٹک انداز میں برتاو نہیں کیا وہ تنقید کا نشانہ بنے؟
ج: اردغان کا رویہ ڈپلومیٹک نہیں تھا کیونکہ عموماً ڈپلومیٹس بہت ہی محتاط زبان استعمال کرتے ہیں اور اکثر اوقات کچھ بھی نہیں بولتے۔ اردغان نے ایک غیرمعمولی زبان کا استعمال کیا اور میں ان کے اس حق کا دفاع کرتا ہوں۔
س: اردغان کے ردعمل کا مغربی اور مخصوصاً یورپی میڈیا میں انعکاس کیسا تھا؟
ج: مغربی میڈیا میں بطور عام اور یورپی میڈیا میں بطور خاص مثبت تھا۔ کیونکہ انہوں نے حقیقت کو زبان پر لانے کی جراَِت کی۔ وہ عرب دنیا میں ہیرو بن گئے ہیں۔ کسی بھی عرب سربراہ نے پرز کے غزہ پر حملے پر اس طرح کے ردعمل کا اظہار نہیں کیا۔ عمر موسی اگرچہ اس اجلاس میں حاضر تھا لیکن اس نے پرز کی غلط بیانی پر اعتراض نہیں کیا۔ اردغان وہ واحد سیاسی راہنما اور مسلمان ہیں جنہوں نے پرز پر اعتراض کیا۔ وہ مغربی دنیا میں ایک ایسے سربراہ کی حیثیت سے پہچانے گئے جنہوں نے اسرائیل کے جنگی جنون کا مقابلہ کیا۔ یہ کہنا چاہیئے کہ اردغان کے حوالے سے مجموعی رد عمل مثبت تھا۔
س: آپ اسرائیل کو ایک ایسی باغی حکومت جو بے ضمیر اور اخلاق سے تہی سربراہان پر مشتمل ہے کے عنوان سے یاد کرتے ہیں۔ کیوں؟
ج: میں انٹرنشنل ریلیشنز کا استاد ہوں۔ دنیا میں باغی حکومت کی تعریف کیلئے تین خصوصیات موجود ہیں۔ بین الاقوامی قوانین کی پامالی، بڑے پیمانے پر تباہی بھیلانے والے ہتھیاروں کا حامل ہونا اور اپنے سیاسی اہداف کے حصوک کیلئے غیرنظامی افراد کو قتل کرنا۔ اور اسرائیل ان تینوں حوالوں سے باغی ہے۔
س: آپ نے اپنے مقالے میں امریکہ اور یورپی یونین کے حماس کے ساتھ برتاو پر شدید تنقید کی ہے۔ کیا مغربی دنیا کا حماس کے ساتھ گفتگو کا وقت آ پہنچا ہے؟
ج: غرب کو ابھی سے حماس کو اپنے مخاطب کی حیثیت سے مان لینا چاہیئے۔ حماس ایک انتہا پسند گروہ کے عنوان سے دیکھا جاتا ہے۔ لیکن اس کی حیثیت اس سے کہیں زیادہ بلند ہے۔ حماس ایک ایسی سیاسی جماعت ہے جو اجتماعی فعالیت اور عوام میں مقبولیت کی حامل ہے۔ وہ چیز جو سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے وہ یہ ہے کہ حماس جمہوری طریقے سے منتخب ہو کر سامنے آئی ہے۔ حماس کے سربراہان فرشتے نہیں ہیں لیکن لوگوں نے انہیں انتخاب کیا ہے۔ اگر ہم امن چاہتے ہیں تو ہمیں حماس کو ایک مخاطب کی حیثیت سے ماننا پڑے گا۔ امریکہ کی نئی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے کانگرس میں اعلان کیا ہے کہ وہ حماس سے مذاکرات نہیں کرے گی۔ ان محترمہ کو جاگ جانا چاہیئے۔ حماس کو مخاطب قرار دیئے بغیر مشرق وسطِی میں نہ امن قائم ہو گا اور نہ استحکام آئے گا۔ مغربی دنیا اس موضوع کو جتنا جلدی سمجھے اتنا ہی بہتر ہے۔
س: کہا جاتا ہے کہ اسرائیلی ترجمان ہمیشہ جھوٹ بولتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جنگ بندی کو حماس نے توڑا۔ درحقیقت جنگ بندی کو کس نے توڑا؟
ج: اسرائیلی ترجمانوں نے جنگ کے دوران حد سے زیادہ جھوٹ بولے۔ سب سے بڑا جھوٹ جنگ بندی کے حوالے سے تھا۔کیونکہ اگر لوگ یہ نہ سمجھ سکیں کہ جنگ بندی کو کس نے توڑا تو وہ کچھ بھی نہیں سمجھہ سکیں گے۔ درحقیقت خود اسرائیلی ذرائع سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جنگ بندی کو توڑنے والا خود اسرائیل ہے۔
19 جون 2008 کو اسرائیل اور حماس میں جنگ بندی کا معاہدہ طے پایا۔ اس معاہدہ میں یہ کہا گیا تھا کہ حماس راکٹ حملے بند کر دے اور اس کے بدلے میں اسراِئیل بھی اقتصادی محاصرہ ختم کر دے گا۔ کیونکہ 15 لاکھ افراد کو غذائی مواد، ایندھن اور طبی وسائل پہچانے کا کام بند پڑا تھا۔ یہ کام {اقتصادی محاصرہ} ایک اجتماعی سزا ہے جو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ در حقیقت اسرائیل نے اس محاصرے کو اور زیادہ شدید کر دیا تھا۔ طے یہ تھا کہ جب حماس راکٹ حملے بند کر دے تو اسرائیل بھی ہوائی حملے اور فلسطینی افراد کے قتل کا سلسلہ بند کردے گا۔ اسرائیلی پروپیگنڈے کے برعکس جنگ بندی بہت کامیاب رہی۔ جنگ بندی سے 6 ماہ قبل ہر مہینے تقریباً 179 راکٹ غزہ سے اسرائیل کی طرف داغے جاتے تھے۔ جبکہ جنگ بندی کے 4 ماہ بعد یہ تعداد مہینے میں 3 راکٹ تک رہ گئی۔ یہ اعداد و ارقام اسرائیلی وزارت خارجہ کی ویب سایٹ سے لئے گئے ہیں لہذا کوئی بھی ان پر اعتراض نہیں کر سکتا۔ 4 نومبر کو اسرائیل نے 6 فلسطینی جنگنووں کو مار کر جنگ بندی توڑ دی۔ یہ بات بھی غیر قابل انکار ہے۔


خبر کا کوڈ : 1061
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش