1
0
Thursday 26 Apr 2012 20:08

سانحہ چلاس میں لاشوں پر بھنگڑے؟

سانحہ چلاس میں لاشوں پر بھنگڑے؟
تحریر: ایم کے بہلول
 
پاکستانی وزیر داخلہ رحمان ملک بڑے کمال کے آدمی ہیں، ان میں یہ صلاحیت بدرجہ اتم پائی جاتی ہے کہ وہ جب چاہیں نصف النہار پر چمکتے سورج کو بھی یہ کہہ کر جھٹلا سکتے ہیں کہ یہ کسی طور سورج نہیں ہو سکتا۔ دن کو رات اور رات کو دن کہہ کر ڈھٹائی سے سینکڑوں صحافیوں کے سامنے مسکرا دینے کا فن کوئی ان سے سیکھے۔ 28 فروری کے سانحہ کوہستان اور بعد میں اسی طرح کی ایک اور فرقہ ورانہ دہشتگردانہ کارروائی جو 3 اپریل کو چلاس میں انجام دی گئی، جس میں علاقہ اور فرقہ کی شناخت بذریعہ قومی شناختی کارڈ کرنے کے بعد فرقہ ورانہ نعرے اور تکفیری نعرے لگاتے ہوئے 28 شیعہ مسلمانوں کو بے دردی سے قتل کیا گیا۔ 

چلاس کے واقعے میں نہ صرف اسلحے سے کام لیا گیا بلکہ قتل کے بعد انکی لاشوں کے اوپر ناچتے ہوئے نعر ے لگائے جاتے رہے اور سڑک کنارے بڑے پتھروں سے لاشوں کو سنگبار کر کے مسخ بھی کیا جاتا رہا اور پھر ہجوم کی قیادت کرنے والے فرقہ پرست ملاّ سے اپنی بربریت کے بدلے جنگ بندی کی زبانی گارنٹی بھی لی جاتی رہی۔ ان تمام واقعات کے باوجود رحمان ملک کا حوصلہ دیکھئے کہ وہ مجلس وحدت مسلمین کے رہنماوں کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے ڈھٹائی سے کہتے ہیں کہ حالیہ فسادات کے پیچھے تیسری قوت کا ہاتھ ہے، اسے فرقہ ورانہ تصادم سے نہ جوڑا جائے۔ 

جب سے موصوف کا تیسری قوت والا بیان اخبارات میں چھپا ہے، گلگت بلتستان کا ہر فرد یہ سوال کرتا نظر آتا ہے کہ مارنے والے افراد گلگت اور چلاس کی کالعدم فرقہ پرست تنظیم کے ارکان، قتل ہونے والے افراد کا تعلق شیعہ مسلک کے پیروکاروں سے، اسکے باوجود اگر یہ فرقہ وارانہ دشمنی کہلائی نہیں جا سکتی تو وزیر داخلہ کو جس تیسری قوت کے ہاتھ کا پتہ چلا ہے، وہ یا تو ان کا اپنا ہاتھ ہوسکتا ہے یا پھر ان کے کسی ولی نعمت ملک کا۔
 
اس پریس کانفرنس میں وزیر داخلہ کا ایک اور اعلان بھی سامنے آیا ہے کہ وہ اس کھلم کھلا فرقہ ورانہ دہشتگردی کی تحقیقات کے لیے گلگت بلتستان کے اعلٰی عدالتی حکام پر مشتمل ایک جوڈیشل کمیشن قائم کریں گے۔ حیرت اس بات پر ہے کہ عموماً جوڈیشل کمیشن ایسے واقعات کی تہہ تک پہنچنے کے لیے قائم کیے جاتے ہیں جنکے علل و اسباب واضح نہ ہوں۔ جس کے کرداروں کا پتہ کسی کو نہ ہو اور جہاں بہت سارے حقائق پوشیدہ ہوں اور جن سے عدالتی اور قانونی ماہرین کی موشگافیوں سے مدد لے کر پردہ اٹھانا مقصود ہو۔ 

مگر سانحہ کوہستان اور سانحہ چلاس میں کونسی چیز پوشیدہ ہے، جسے عدالتی کمیشن کے ذریعے افشا کیا جانا پڑے۔ گلگت میں جو شخص یا گروہ ایک طویل عرصہ سے شیعہ مسلمانوں کے خلاف زہر اگلتا رہا ہو، ہر لمحے شیعہ کی تکفیر کی فتوے دیئے جا رہا ہو۔ شیعوں کا ذبیحہ کھانا اور شیعہ باورچی کا پکایا ہوا کھانا حرام سمجھ کر اجتناب کرتا ہو اور نجی محفلوں میں شیعہ کشی کو جنت کے پروانے کا ضامن قرار دیتا رہا ہو، وہی اس قضیے اور قتل عام کا مرکزی کردار اور محرک ہو سکتا ہے۔
 
وزیر داخلہ کی سانحہ چلاس کے حوالے سے عدالتی کمیشن کی تشکیل دراصل گلگت بلتستان کے لوگوں کو دیئے جانے والا ایک بدذائقہ لولی پاپ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ قیام پاکستان سے اب تک ایسے ہولناک سیاسی، مذہبی، لسانی، علاقائی تنازعات و واقعات کے حوالے سے کتنے عدالتی کمیشن بنائے گئے اور ان کا اب تک نتیجہ کیا نکلا۔؟ حمود الرحمٰن کمیشن ہی کو لیجئے کہ اسکی رپورٹ کتنے سال بعد منظر عام پر آسکی اور فاش ہونے کے بعد بھی اسکے کرداروں کا کیا بگاڑا گیا۔ اس کمیشن کی رپورٹ سے قوم نے کیا سیکھا۔ اس موعودہ کمیشن کا حشر بھی ان بے شمار سابقہ جوڈیشل کمیشنوں کی تحقیقات اور انکے نتائج سے مختلف ہونے کی کونسی امید، کس بنا پر رکھی جا سکتی ہے۔
 
مجلس وحدت مسلمین کے وفد سے ملاقات اور پھر مشترکہ پریس کانفرنس میں ملک صاحب نے یہ بھی کہہ دیا کہ تمام مطالبات مان لئے گئے ہیں۔ یہی طریقہ انہوں نے سانحہ کوہستان کے بعد گلگت میں انجمن امامیہ کے وفد سے ملاقات کے بعد بھی اپنایا تھا، جس کے ٹھیک 35 دن بعد اور مطالبات ماننے کے نتیجے میں سانحہ چلاس پیش آگیا۔ اب پھر تمام مطالبات من و عن ماننے کا اعلان ہوا ہے خدا خیر کرے کہ آئندہ کیا پیش آ جائے۔
 
ادھر بلتستان میں ان حالات میں پیش کردہ معلومات پر نظر ڈالی جائے تو ان کا پہلا مطالبہ یہ تھا کہ شاہراہ قراقرم کو فوج کے حوالے کیا جائے اور گلگت اسکردو ہوائی اڈوں کو آل ویدر بنا کر پی آئی اے کے کرایئے اتنے کم کیے جائیں کہ جو بلاامتیاز امیر و غریب سب کے دسترس میں آسکیں۔ مطالبات ماننے کے ایک ہفتے کے اندر اسکردو سے راولپنڈی کا فضائی کرایہ سات سو روپے سے بڑھا کر آٹھ سو کے قریب کر دیا گیا۔ 

دوسرا مطالبہ یہ تھا کہ سانحہ چلاس کے مجرمین کو فوری گرفتار کر کے دہشتگردی کی عدالتوں میں مقدمہ چلایا جائے اور مقتولین سے لوٹی گئی قیمتی اشیاء اور جلائی گئی بسوں کا معقول معاوضہ دیا جائے۔ اس سلسلے میں کچھ ہوتا نظر نہیں آتا، بلکہ قانون کی حکمرانی کی بجائے قبائلی جرگے کی بیساکھیوں کا سہارا لیتا نظر آتا ہے۔ 

ایک اور مطالبہ کیا گیا تھا کہ کوئٹہ، کوہستان اور چلاس میں جو کچھ شیعوں کے خلاف کیا گیا وہ ملکی سالمیت کے خلاف کھلی سازش ہے، اگر حکومت ایسے واقعات کو روکنے میں ناکام ہوتی ہے تو یہاں بھی وزیرستان جیسے حالات کو پیدا ہونے سے نہیں روکا جا سکے گا، اور پھر اسکی ذمہ داری حکومت پر عائد ہو گی۔ اس مطالبہ کو بھی مان لیا گیا اور نتیجے میں 14 اور 15 اپریل کو کوئٹہ میں مزید دس بےگناہ شیعہ افراد مارے گئے۔ 

ایک اور مطالبہ یہ تھا کہ شاہراہ قراقرم اب گلگت بلتستان کے شیعہ مسافروں کے لیے موت کی شاہراہ بن چکی ہے، اس لیے متبادل شاہراہ براستہ آزاد کشمیر اور اقتصادی محاصرہ سے بچنے کے لیے استور منی مرگ دراس روڈ، کرگل سکردو روڈ اور چھربٹ چھولونکھا راستوں کو کھولا جائے۔ اس مطالبے کو مانے جانے کا اشارہ وزیراعلٰی سید مہدی شاہ کی اسکردو میں کی گئی پریس کانفرنس کی مندرجات سے مل جاتا ہے، جس میں موصوف کہہ رہے تھے کہ سانحہ چلاس کے بعد اب ضروری ہوگیا ہے کہ پولیس کی نفری بڑھانے کے ساتھ ساتھ انہیں جدید ترین اسلحہ و ساز و سامان سے لیس کیا جائے، جس پر بھاری خرچہ آئے گا۔ اس لیے آئندہ دو سالوں میں عوام ترقیاتی فنڈز اور ترقیاتی کاموں کو بھول جائیں۔
 
وزیراعلٰی نے اپنی کابینہ کے ساتھ اجلاس میں اس دعویٰ کا اعادہ کیا کہ حکومتی رٹ ہرحال میں برقرار کی جائے گی اور ریاست کے اندر ریاست بنانے کی اجازت کسی کو نہیں دی جائے گی۔ انہیں شاید ریاست کی تعریف میں کوئی ابہام ہے، ورنہ ریاست کے اندر ایک ریاست نہیں کئی ریاستیں بن چکی ہیں۔ چلاس اور دیامر میں کھلے عام اسلحہ اور جنگل کی من مانی کی ریاست، گلگت میں فرقہ ورانہ تقسیم کی ریاست، بلتستان میں رشوت، اقربا پروروں اور چور دروازوں سے بے تحاشہ بھرتیوں کی ریاست وغیرہ وغیرہ، اور یہ ریاستیں انکے ریاستی سربراہ بننے کے بعد عروج پر پہنچ چکی ہیں۔ 

کیا موصوف کو معلوم نہیں کہ ایک ہی انتظامی یونٹ کے ماتحت آنے والے علاقوں میں کتنا فرق ہے، وزیراعلٰی کس بنیاد پر کہہ رہے ہیں کہ گلگت شہر کو اسلحہ سے پاک کیا جائے گا، وہ بھی اس صورتحال میں کہ ہمسایہ دیامر ضلع میں اسلحے پر کوئی پابندی نہیں۔ نہ کوئی لائسنس بنواتا ہے اور نہ کوئی طلب کرتا ہے۔ اسی لیے سرعام شاہراہوں پر لوگوں کو قتل کرنے کے بعد انکی لاشوں پر بھنگڑے ڈالتے ہیں، جبکہ اسی انتظامی سسٹم کے ایک یونٹ گلگت سے اسلحہ ختم کرنے کے کھوکھلے دعوے کئے جاتے ہیں۔
 
اسی بے بصیرتی کا ثبوت دیتے ہوئے نگر میں موجود محصورین کی رہائی کو اپنی وزارتی کمیٹی کا کارنامہ قرار دیا ہے، جبکہ سب لوگ جانتے ہیں کہ اگر وہاں ان محصورین کو گزند نہیں پہنچی ہے تو اس میں وہاں کے مقامی شیعہ علماء اور خصوصاً گلگت کے مرکزی امام جمعہ اور قائد علامہ راحت حسین الحسینی کا بنیادی کردار ہے۔ موجودہ حکومت جان بوجھ کر آغا راحت حسین اور دیگر علماء گلگت کی کردار کشی کرنے کی بے سود کوشش کرتی نظر آتی ہے۔ لیکن انکے اس اقدام سے ان علماء کرام کے قد کاٹھ میں کمی نہی ہو گی، بلکہ ان سیاسی رہنماوں کا اپنا چہرہ بے نقاب ہو گیا، جو سانحہ چلاس کے اس پورے دورانیے میں اس طرح غائب رہے، جیسے انکا کوئی وجود ہی نہ ہو۔
 
البتہ سانحے کی دھول بیٹھنے کے بعد بیانات کے ذریعے علماء کے درمیان پھوٹ ڈالنے، کسی کے قد کاٹھ کو بڑھانے اور کسی عالم دین کی کردارکشی کے لئے تقریروں اور بیانات کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے۔ لیکن انہیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ سانحہ کوہستان اور سانحہ چلاس نے بہت سارے سیاسی اور مذہبی رہنماوں کے چہروں سے نقاب الٹ کر ان کے اصل چہروں کو گلگت بلتستان کے عوام میں بے نقاب کر دیا ہے۔
خبر کا کوڈ : 156668
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

United States
جزاک اللہ، خدا آپکی توفیقات میں اضافہ کرے،
ہماری پیشکش