0
Tuesday 30 Sep 2014 22:01
غزہ کی مجرم

صہیونی، سیسی، سعودی مثلث؟ (2)

صہیونی، سیسی، سعودی مثلث؟ (2)
تحریر: عرفان علی 

غزہ کے خلاف صہیونی، سعودی اتحاد کو مثلث میں تبدیل کرنے والا تیسرا رکن مصر کا جنرل عبدالفتاح ال سیسی ہے۔ اس شخص کو مصر کے اخوانی صدر محمد مرسی نے مصری افواج کا سربراہ اور اپنی حکومت کا وزیر دفاع مقرر کیا تھا۔ چونکہ اخوانیوں کا ایک طبقہ سعودیوں کا اتحادی رہا ہے اور مرسی صاحب کو بھی سعودی بادشاہوں پر اعتماد تھا اور انہوں نے اپنا پہلا غیر ملکی دورہ بھی سعودی عرب کا ہی کیا تھا، اور ساتھ ہی امریکی صدر باراک اوبامہ سے ملاقاتیں اور بار بار کی ٹیلیفونک گفتگو نے بھی مرسی کو امریکی سعودی اتحاد کے قریب کر دیا تھا۔ شاید یہی وجہ ہو کہ سعودی عرب میں مصری سفارت خانے میں دفاعی اتاشی رہنے والے اور امریکہ میں فوجی تربیت حاصل کرنے والا سیسی مرسی کے لئے قابل اعتماد فوجی افسر قرار پایا۔ ان دنوں مشہور ہوا کہ سیسی کے اخوان المسلمین سے تعلقات تھے۔ سیسی کی بیوی برقع پہنتی ہے، اس لئے اسے اسلام پسند فوجی افسر سمجھا گیا۔ جنرل سیسی کے بارے میں یہ مضحکہ خیز تاثر قائم کرنے کی کوشش کی گئی کہ یہ جمال عبدالناصر ثابت ہوگا لیکن یہ تو مصر کا جنرل ضیاءالحق تھا یا باالفاظ دیگر انور سادات اور حسنی مبارک کا تسلسل۔ جنرل ضیاء نے بلیک ستمبر کے ایام میں فلسطینیوں پر بمباری کی تھی۔ جنرل سیسی کا شجرہ نسب یہودیوں سے ملتا تھا۔

محمد مرسی کی طرح جنرل سیسی نے بھی غیر ملکی دورے کے لئے سب سے پہلے سعودی عرب کا انتخاب کیا۔ اگست 2014ء میں جدہ میں سیسی کی شاہ عبداللہ سے ملاقات ہوئی۔ لیکن اس سے بھی پہلے شاہ عبداللہ مراکش جاتے ہوئے مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں کچھ وقت رکے۔ 20 جون 2014ء کو ان کے طیارے میں جنرل سیسی نے ان سے ملاقات کی تھی۔ سیسی نے مصری صدر کے عہدے کا حلف 8 جون کو اٹھایا تھا۔ تقریب حلف برداری میں سعودی ولی عہد شہزادہ سلمان بن عبدالعزیز نے شرکت کی۔ انہوں نے سیسی کے صدارتی انتخاب کو ایک ایسا ٹرننگ پوائنٹ قرار دیا جو سلامتی، استحکام اور پائیدار ترقی کی سمت لے جائے گا۔ جنرل سیسی کے صدر بننے اور سعودی مصری قربتوں میں اضافے کا یہ عمل ایک ایسے وقت ہو رہا تھا جب صہیونی دہشت گرد حکومت غزہ پر حملے کا کوئی بہانہ تراشنے کی کوششوں میں مصروف تھے۔

غزہ کا محاصرہ تقریباً آٹھویں سال میں داخل ہو رہا تھا۔ بجائے اس کے کہ سعودی و مصری قربتیں فلسطینیوں کو کوئی فائدہ پہنچاتیں، اس کے برعکس مصر نے غزہ اور مصر کے درمیان سرحد پر وہ سرنگیں مسمار کردیں کہ جو اس محاصرے میں غزہ کی لائف لائن تھیں۔ انہی سرنگوں کے ذریعے غزہ میں کھانے پینے کی اشیاء، ادویات و دیگر ضروریات زندگی کا سامان پہنچایا جا رہا تھا۔ لیکن چونکہ صہیونی امریکی اتحاد کی خواہش تھی کہ حماس کے اسلحے کو بہانہ بناکر غزہ کو اجتماعی سزا دی جائے، اس لئے سعودی اور مصری غیر نمائندہ حکومتوں نے غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے لئے ماحول سازگار کر دیا۔ اگر مرسی صدر بننے کے بعد ایرانی انقلاب کی طرح انقلابی اقدامات کرتے اور نامبارک باقیات کو اکوموڈیٹ کرنے کے بجائے حقیقی انقلابی افراد کو اہم عہدوں پر فائز کرتے، خارجہ پالیسی میں بنیادی انقلابی تبدیلیاں کرتے اور نامبارک خارجہ پالیسی کے برعکس پالیسی بناتے، یعنی کم ازکم اسرائیل کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیتے، تعلقات منقطع کر دیتے، امریکہ کو مصری عوام کے استحصال کا ذمے دار قرار دے کر ان سے دوری اختیار کرتے، امریکی اتحادی سعودی بادشاہت کی نسبت فلسطین دوست حکومتوں سے تعلقات بہتر کرتے، جن میں شام کی حکومت سر فہرست تھی، تو اتنی آسانی سے مصر کا انقلاب ریورس نہ کیا جاتا۔

اگر صہیونی، سعودی و مصری مثلث کامیابی سے حماس مخالف اتحاد کو وسعت دینے میں کامیاب ہوئے ہیں تو اس میں اخوانیوں کی غلط حکمت عملی نے ایک اہم عامل کا کردار ادا کیا۔ دنیا بھر میں اخوانیوں کے اتحادیوں نے سعودی بادشاہت کی خیانتوں کی پردہ پوشی کی۔ پاکستان اور مصر میں نام نہاد اسلام پسندوں کو جنرل ضیاء اور جنرل انور سادات کی سرپرستی نے ان سے تجزیہ و تحلیل کی صلاحیت چھین لی اور ان کے ان فوجی جرنیلوں سے تعلقات بھی یہ ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں کہ اسلام و مسلمین کے خلاف عربوں کے خلاف امریکی و صہیونی ایجنڈا کیوں کر کامیاب ہوتا رہا ہے۔ اب ایک اور خطرہ درپیش ہے۔ خالد مشعل قطر میں مقیم ہیں اور حماس کے سیاسی شعبے کی سربراہی کے آئندہ الیکشن میں امیدوار بننے سے انکار کرچکے ہیں۔ قطر بظاہر تو اخوانیوں کے ساتھ ہیں لیکن سعودی عرب سے اس کا اتحاد قائم ہے اور گلف کو آپریشن کاؤنسل، او آئی سی اور عرب لیگ میں یہ دونوں ایک ہی نظر آتے ہیں۔ اس مثلث نے اپنے اندر عرب ممالک، ترکی، امریکہ و یورپ کو بھی سمولیا ہے۔ لیکن بنیادی طور پر فلسطینیوں کے خلاف حالیہ سازشوں میں عملی اور قائدانہ کردار انہی کا ہے۔ کیا قطر میں حماس کی سیاسی قیادت آزادانہ فیصلہ کرسکتی ہے۔؟

غزہ میں جنگ بندی پہلے بھی ہوسکتی تھی لیکن جنرل سیسی حماس کو ذلیل کرنا چاہتے تھے۔ اب صہیونی، سعودی، مصری مثلث کی خواہش ہے کہ غزہ مصر سرحد پر اور خاص طور پر رفحہ کراسنگ کا کنٹرول محمود عباس کی فلسطینی انتظامیہ سنبھالے۔ مغربی کنارے کی حکمران فلسطینی انتظامیہ وہاں کے امن و امان کو بھی اسرائیلی فوجی و انٹیلی جنس معاونت کے بغیر انجام نہیں دیتی تو غزہ مصر کی سرحد کی سکیورٹی کیسے کرے گی۔ مصری فوجی اور انٹیلی جنس حکام وہاں ان کی معاونت کرنے کے لئے تیار ہوں گے، لیکن حماس سے شراکت اقتدار کرنے کے بعد والی فلسطینی انتظامیہ کے اس کردار پر صہیونی حکومت اعتماد نہیں کرے گی۔ جنرل سیسی کا ہدف یہ ہے کہ وادی سینا کو مکمل طور پر اس طرح کنٹرول کرلیں کہ حماس، حزب جہاد اسلامی سمیت فلسطینی مقاومتی تنظیمیں اسلحہ اسمگل نہ کرسکیں۔ لیکن ان خائن حکومتوں کی موجودگی میں اصل سوال یہ ابھر کر سامنے آتا ہے کہ یہ جنگ بندی کب تک رہے گی۔؟

یہ سوال پوچھنا حق بنتا ہے کیونکہ سعودی عرب اور مصر کی سیسی حکومت حماس اور اس کی ذیلی تنظیموں کو کالعدم اور دہشت گرد قرار دے چکے ہیں۔ مصر کی عدالت نے 3 مارچ 2014ء کو مصر میں حماس پر پابندی عائد کرکے، اس کے دفتر کو ختم کرنے اور اثاثے منجمد کرنے کا حکم سنایا تھا۔ بقول ال امہ یونیورسٹی اوپن ایجوکیشن کے شعبہ آرٹس کے سربراہ عرب تجزیہ نگار عدنان ابو عامر کے جب یہ فیصلہ سنایا گیا، تب تک مصر اور غزہ کے درمیان 1350 سرنگیں تباہ کردی گئی تھیں۔ ان سرنگوں کے ذریعے ہی غزہ کو 23 کروڑ ڈالر ماہانہ آمدنی ہوتی تھی، وہ ختم ہوگئی۔ صہیونیوں کی ویب سائٹ ڈیبکا نے یہ انکشاف جنوری میں ہی کر دیا تھا کہ غزہ کے 13 ہزار فلسطینیوں کے پاسپورٹ اور ویزا مصر نے خفیہ طور پر ختم کر دیئے تھے۔

سعودی عرب کی جانب سے دہشت گرد قرار دیئے جانے کے باوجود حماس کی قیادت نے جو موقف اختیار کیا، وہ خود فریبی کے مترادف تھا، کیونکہ انہوں نے کہا کہ وہ نظریاتی طور پر اخوان کے قریب ضرور ہیں، لیکن تنظیمی لحاظ سے علیحدہ ہیں، اس لئے پابندیوں کی زد میں نہیں آتے، لیکن سعودی بادشاہوں کے انتہائی قریب تصور کئے جانے والے دانشور نے ان کے موقف کی تردید کی اور کہا کہ حماس بھی اخوانیوں کی طرح پابندی کے زمرے میں آتی ہے۔ مصر کے عربی اخبار مصری الیوم میں جمعہ 7 مارچ 2014ء کو یہ وضاحت سعودی عرب کے المرکز الشرق الاوسط للدراسات الاستراتیجیہ والقانونیہ کے سربراہ ڈاکٹر ماجد عشقی نے کی کہ صرف اخوان ہی نہیں بلکہ تیونس کی النہضہ اور فلسطین کی حماس بھی سعودی حکومت کی جانب سے دہشت گرد قرار دی گئی ہے۔ ایسی صورتحال میں غزہ کے مجرموں میں واضح طور پر مصر اور سعودی عرب ایک مثلث کا حصہ ہیں، جس کا تیسرے زاویے پر صہیونی دہشت گرد حکومت ہے۔ اس کے باوجود پاکستان سمیت دنیا بھر میں شام کے فلسطین دوست بشار الاسد کے خلاف تو مذہبی طبقہ جھوٹ پر مبنی پروپیگنڈا کرنے میں مصروف ہے، لیکن ان خائن سعودی بادشاہ و شہزادوں کے خلاف ایک لفظ بولنے پر آمادہ نہیں۔ حیف ہے ایسے مسلمانوں پر!
خبر کا کوڈ : 412564
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش