3
0
Wednesday 24 Sep 2014 21:32

ایک جنازہ اور۔۔۔

ایک جنازہ اور۔۔۔
تحریر: زین عباس زیدی

اتوار کی رات شہر میں کالعدم تنظیم کے ایک عہدیدار کو قتل کر دیا گیا۔ یہ شخص فرقہ وارانہ تعصب کے حوالے سے مشہور تھا، بلکہ اسی کی زبان سے عاشورہ کے دن یزید کی مدح سرائی انجام پائی تھی۔ بالآخر وہ وقت آن پہنچا کہ یہ جناب اپنے ممدوح کے جوار میں منتقل ہوئے۔ کسی کو خبر نہ تھی کہ کارروائی کس نے کی، بہت سے ایسے معاملات اس سے پہلے بھی گزر چکے تھے کہ جو بعد میں عمومی سازش کے طور پہ سامنے آئے۔ حسب ِمعمول واقعے کے بعد تنظیم کے ‘‘غمزدہ’’ کارکنوں کو شہر کے امن و امان کی دھجیاں بکھیرنے کی کھلی چھٹی دے دی گئی اور انتظامیہ ان کی حفاظت کی خاطر اطراف میں بکھر گئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے شاہراہیں بند کر دی گئیں، مشتعل جتھے گشت کرنے لگے اور فرقہ وارانہ نفرت کے مقدس جذبات سے سرشار ہو کر شیعہ کافر کے نعرے لگانے والوں نے شہر سر پہ اٹھا لیا۔

انتقام اور نفرت نے رہنمائی کی اور ان غمزدہ کارکنوں کو گلیوں اور چوراہوں سے پھراتے ہوئے ایسے مقامات پہ لے آئے جو اصل مقصد اور ہدف ثابت ہونا تھے۔۔۔ یعنی کافروں کے خدا کے گھر۔ جلد ہی ان قافلوں کا رخ امامبارگاہوں اور اثناء عشری مساجد کی طرف تھا۔ میڈیا خاموش تھا، پولیس سنت ِاسلاف اور فرضِ منصبی کا پاس رکھتے ہوئے منظر سے غائب ہوچکی تھی۔ ہنگاموں کا شور سن کے دکانیں کب کی بند ہوچکی تھیں، لوگ گھروں میں محصور ہو کر بیٹھ گئے تھے، اب خدا کا گھر تھا اور اسکی مخلوق۔ ۔ ۔ نفرت کی آگ بھڑک رہی تھی اور جو جو امکان میں تھا، سب کچھ اس آگ کی نذر کر دیا گیا۔ کتاب اللہ، مقدسات، اسمائے مبارک سے مزین تبرکات اور بعید نہیں کہ خود خدا بھی اگر مجسم اپنے گھر میں ہوتا تو یقیناً آتشِ ایمان اسے بھی بھسم کر گئی ہوتی۔ جب تسلی ہوچکی تو یہ نعرہ زن آتش بدوش ہجوم کسی اور امامبارگاہ کی طرف بڑھنے لگا اور پیچھے رہ گیا امامبارگاہ شہیدانِ کربلا۔ جو واقعی جلے ہوئے خیام کا منظر پیش کر رہا تھا۔ مگر ان شہیدوں کی بارگاہ میں کوئی نہیں تھا جو آہ و فغاں کرتا اور لوگوں کو متوجہ کرتا کہ اللہ کا گھر جل رہا ہے۔ آگ کے شعلے تھے جو بلند ہو کے دہائی دے رہے تھے، راکھ تھی جو ہوا کے ساتھ بکھر بکھر کے لوگوں کے خوابیدہ ضمیر جھنجھوڑنے کی کوشش کر رہی تھی۔

یہی شہر جس میں شیعہ کافر کے نعرے ہوا کے ساتھ ساتھ گلی کوچوں میں پھیل رہے تھے، یہیں ان کافروں کی ایک بڑی تعداد آباد تھی، لیکن عجیب کافر دل لوگ تھے کہ کوئی اپنے گھر سے نہ نکلا کہ اپنے مقدسات کی حفاظت کرتا۔ یہاں تعجب ان لوگوں پہ تھا، جو اتنی بڑی جمعیت ہونے کے باوجود خاموش تھے، بلکہ ان پہ جنہیں خبر ہی نہیں تھی کہ کچھ ہوا بھی ہے، اندازہ ہی نہیں تھا کہ اطراف میں کیا ہو رہا ہے۔ اسی شہر میں اسی آبادی کے لوگ جن کو دشنام کیا جا رہا تھا، قریب  کے بازاروں میں مصروف تھے، ہوٹلوں اور ریستورانوں میں مشغول تھے۔

مگر اس سب کے درمیان کچھ لوگ تھے جنہیں خیال تھا کہ اس مفتی کو مارنے والی گولی بارود کے ایک ڈھیر کو چھیڑ گئی ہوگی، جو شہر میں رات بھر روشنی رکھنے کے لئے کافی ہوگا۔ یہ لوگ جب یہاں پہنچے تو عمارت خاموش رہنے والوں کی سیاہی اپنے در و دیوار پہ ملے ہوئے تھی، راکھ بکھری ہوئی تھی، مقدسات کو آگ لگی ہوئی تھی۔ آگ بجھانے کے دوران جب یہ لوگ پہلی منزل پہ پہنچے تو وہاں ایک عبد خدا، اس دھوئیں اور راکھ سے اپنے حصے کی ہوا کھینچنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اسکا آدھا جھلسا ہوا ناتواں جسم مسلسل اس کالے دیو سے شکست کھاتا نظر آرہا تھا اور جلد ہی اس کے دم توڑتے پھیپھڑے مزید یہ جنگ نہ لڑ سکے اور ہمت ہار گئے۔ جھلسا ہوا یہ بدن آکسیجن کی کمی کے باعث روح کا بوجھ زیادہ دیر تک نہ اٹھا سکا اور ایک مضبوط روح ایک کمزور بدن سے رہا ہوگئی۔

رات ہی یہ خبر گردش کرنے لگ گئی اور آدھی رات کے بعد تصدیق بھی ہوگئی۔ صبح جنازے کا اعلان بھی ہوگیا۔ میں جنازہ گاہ میں کھڑا تھا اور میرے دماغ میں ایک طوفان سا تھا، جو میرے وجود کو آس پاس کے ماحول سے بے نیاز کئے ہوئے تھا۔ یہ شخص کون تھا، میں اس کے جنازے میں کیوں کھڑا ہوں! زندگی میں تو میں نے اسے ایک بار بھی نہیں دیکھا۔ چالیس سال تک یہ خانہ خدا کی نوکری کرنے والا کیوں میرے لئے باعث رشک نہیں ہے، کیوں میں اس قدر غافل رہوں کہ کوئی شخص میرے پڑوس میں اس قدر سادگی سے ایک عظیم کام انجام دے رہا ہو اور میں خاموش!!! میں کہاں تھا، جب اس کا نحیف بدن اپنی تمام قوت سے سانس کھینچ رہا تھا، جب یہ جھلسا ہوا شخص آگ کی شدت سے تڑپ تڑپ کر جان دے رہا تھا۔ اس کا جرم بارگاہ امام کی خدمت تھا یا گمنامی اور خاموشی سے اس خدمت کو انجام دینا!

قبر کھودی گئی اور قبر کے لئے لگنے والی ہر ہر ضرب کے ساتھ کئی سوال ہوا میں بلند ہونے لگے۔ ۔ ۔ جنازہ گاہ میں پچاس کے قریب افراد موجود تھے، کیا اگر یہ جنازہ کوفہ میں ہوتا اور ابن زیاد کی حکومت ہوتی تو یہاں افراد کی تعداد زیادہ ہوتی یا کم؟ ہمارے نزدیک عزت کا معیار کیا ہے! ایک خادم کی بجائے اگر کوئی عمامہ پوش، سردار، سائیں، یا باوا ہوتا تو کیا گھروں میں رہنے والے یونہی خاموش بیٹھے ہوتے، یا لواحقین کے سامنے چہرے شناخت کروا رہے ہوتے کہ ہم بھی آپ کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔

جنازہ روایتی تقریروں اور نعروں کے ساتھ اٹھایا گیا، جو روایتی جوش و جذبے سے بھی عاری تھا۔ میں سوچ رہا تھا کہ میں شہید کے چہرے کا سامنا کرسکتا ہوں یا نہیں، اسی بے دلی کے ساتھ قدم بڑھ رہے تھے کہ اچانک میں نے خود کو جنازے کے سرہانے پہ پایا جہاں شہید کا جھلسا ہوا چہرہ میری نظروں کے سامنے تھا، اور میں نظریں چرا رہا تھا، اس شہید سے کہ جس کی مدد کو میں نہیں پہنچ سکا، جس کے چہرے پہ یہ سیاہی قوم کی بے حسی کے سبب سے تھی، وہ قوم جس نے اپنے مقدسات کو تنہا چھوڑنا گوارہ کیا۔ تھکے تھکے قدموں اور تھکی تھکی آوازوں کے ساتھ اپنے کندھوں کے بوجھ کو زمین کے سینے میں اتار دیا گیا، اور پھر ۔ ۔ ۔ ۔ سب اپنے اپنے کاموں میں ہنسی خوشی زندگی گزارنے لگے!
خبر کا کوڈ : 411367
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ارباب حل و عقد کی بے حسی پر بس ماتم ہی کیا جاسکتا۔ ۔ ۔
شایدحسب سابق(فقیہ شهر عمامہ کے پیچ وخم میں رہے)اسی شهر میں ره کر
میں خود بھی مجرم ہوں۔ کیسے کسی کو موردِ الزام ٹھہراؤں۔ یا کسی عمامے یا ٹوپی والے کے کندھوں پر ذمہ داری ڈالوں؟
ہماری پیشکش