0
Thursday 10 Apr 2014 16:14
اسوقت سعودی عرب ایک بڑی مشکل میں پھنس گیا ہے

شامی حکومت کی استقامت نے مخالفین کو پالیسی بدلنے پر مجبور کر دیا ہے، ثاقب اکبر

شامی حکومت کی استقامت نے مخالفین کو پالیسی بدلنے پر مجبور کر دیا ہے، ثاقب اکبر
جناب ثاقب اکبر معروف محقق، مصنف اور دانشور ہیں۔ وہ علمی تحقیقی ادارہ البصیرہ کے چیئرمین اور پاکستان میں مذہبی جماعتوں کے اتحاد ملی یکجہتی کونسل کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل ہیں۔ کونسل کے احیاء میں آپ کا کردار بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ علاوہ ازیں آپ تحریک فیضان اولیاء کے سیکرٹری جنرل بھی ہیں۔ معروف علمی مجلہ ماہنامہ پیام کے مدیر اعلٰی ہونے کے علاوہ عالمی حالات پر بھی ان کے تجزیات اور انٹرویوز شائع ہوتے رہتے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے ان سے مشرق وسطٰی کی موجودہ صورتحال اور پاکستان کی خارجہ پالیسی پر ایک اہم انٹرویو کیا ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز:حالیہ دنوں میں پاکستان کی خارجہ پالیسی میں واضح تبدیلی دیکھنے کو ملی ہے، خاص طور پر ایران کے معاملے پر پالیسی شفٹ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ آپ کی نگاہ میں کیا ایسا ہی ہے۔؟
ثاقب اکبر: میرا خیال یہ ہے کہ شفٹ نہیں، شروع سے ہی پاکستان کے ایران کے ساتھ نہ تو تجارتی تعلقات اچھے رہے ہیں اور نہ ہی سیاسی تعلقات بہتر رہے ہیں، خاص طور پر انقلاب اسلامی کے بعد سے ابتک، جب افغانستان میں طالبان کی حکومت آئی تو ایران اور پاکستان کے درمیان عدم اعتماد کا بدترین دور تھا، ایران کو پاکستان سے بہت سی شکایات رہی ہیں، ایران کے سفارتکار قتل ہوئے، ایران کے کیڈٹس جوان جو یہاں کامرہ میں زیرتربیت تھے، ان کو شہید کیا گیا، جبکہ دوسری جانب جب آپ دیکھیں گے تو پاکستانی ہمیشہ ایران میں محفوظ رہے ہیں، کبھی ان پر کوئی حملہ نہیں ہوا، ان کو وہاں پر کوئی تھریٹ نہیں ہوا، لیکن یہاں پر ایرانیوں کو ہمیشہ تھریٹ رہا ہے۔ ایران میں مظاہرے وغیرہ تو ہوئے۔ وہ طالبان جن کو ایران اس وقت اچھا نہیں سمجھتا تھا، انہی کی پالیسی کو لیکر پاکستان نے گرم جوشی دکھائی اور بالآخر پاکستان کو ان کیخلاف اب کھڑا ہونا
پڑا اور جنگ میں کودنا پڑا۔ کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ایران کی اس وقت کی خارجہ پالیسی ٹھیک تھی، یہ پاکستان ہی ہے جسے افغانستان کے معاملے پر اپنی خارجہ پالیسی میں 180 کے درجہ پر یوٹرن لینا پڑا، لیکن ایران کو تو نہیں لینا پڑا۔ میں دیکھتا ہوں کہ کیونکہ پاکستان امریکہ کا اتحادی رہا ہے، جبکہ ایران امریکہ مخالف رہا ہے تو ہمیں یہ توقع نہیں کرنی چاہیئے کہ دونوں ملکوں کے تعلقات گرم جوش رہیں گے۔

انقلاب اسلامی سے پہلے جب شاہ کی حکومت تھی تو پاکستان بھی سنٹو اور سیٹو کا ممبر تھا اور ایران بھی ممبر تھا، ترکی ایران اور پاکستان کے درمیان آر سی ڈی تھی، اس وقت عالمی سطح پر یہ ممالک پرو امریکہ گروپ کا حصہ تھے۔ اس زمانے میں سعودی عرب کے بھی ایران کے ساتھ اچھے تعلقات تھے۔ جب سعودی عرب اور پاکستان امریکہ کے کیمپ میں ہیں اور بقول عمران خان کے پاکستان افغانستان میں اپنی نہیں بلکہ امریکہ کی جنگ لڑ رہا ہے، فضاء تو تھی لیکن حکومتوں کی تبدیلی سے صورتحال میں بھی تبدیلی ضرور آیا کرتی ہے۔ جب پیپلزپارٹی کی حکومت تھی تو ان کی سعودی عرب کے ساتھ اتنی قربتیں نہیں تھی جتنی نواز شریف حکومت کی ہیں۔ اب کیونکہ نواز شریف کی حکومت بنی ہے تو ان کے تعلقات اور قربتوں کے مزید دروازے کھلے ہیں۔ شفٹ کی بجائے یہ کہا جائے تو بہتر ہوگا کہ سعودیہ کے پاکستان کے ساتھ تعلقات میں تیز رفتاری آئی ہے۔

اسلام ٹائمز: پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر پاکستان کی سردمہری پر کیا کہیں گے۔؟
ثاقب اکبر: ایران کے معاملے میں نارمل رہنے کے بجائے یہ سمجھیں کہ اسے نظرانداز کیا گیا ہے، ایران گیس پائپ لائن کے معاملے پر تہران پر پابندیاں اتنی ہی تھیں جتنی آج ہیں، زرداری حکومت نے جب اس معاہدے کو آگے بڑھایا تو یہ پابندی ایسی ہی تھی جیسی آج ہیں، کیا اب کوئی نئی پابندیاں
تو نہیں لگیں کہ آپ کہیں کہ یہ معاملہ آگے نہیں بڑھ سکتا اور یہ معاملہ اب وزارت پیٹرولیم اور وزارت خارجہ کو سمجھ آرہا ہے۔ اب تو ایران اور فائیو پلس ون کے جو ایٹمی مذاکرات ہوئے ہیں، اس سے امریکہ اور ایران کے درمیان نسبتاً معاملات میں کچھ بہتری آئی ہے، زرداری حکومت کے وقت تو یہ صورت بھی نہیں تھی، پھر کیوں ایسا کہا جا رہا ہے۔ وزیر پیٹرولیم شاہد خاقان عباسی آن ریکارڈ یہ کہہ چکے ہیں ہم ہر صورت پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ مکمل کریں گے، آج وہی وزیر کہتے ہیں کہ جب تک یہ پابندیاں برقرار ہیں، ہم اس معاملے میں آگے نہیں بڑھ سکتے۔ پاکستان پر پابندیاں تھیں، ایٹمی ٹیکنالوجی کے معاملے پر ہی پابندیاں تھیں، لیکن جب پاکستان نے چاہا کہ ایٹم بم بنا لیں تو انہوں نے بنا لیا۔

ایران تو بارہا کہہ چکا ہے کہ ہمارے مذہب میں ایٹم بم بنانا حرام ہے، ایران ہزار دفعہ کہہ چکا ہے کہ ہمارے دین کے مطابق، ایسے ہتھیار بنانا حرام ہیں جن سے بڑے پیمانے پر بے گناہ انسانوں کا قتل عام ہوتا ہو تو ایران نے تو اس معاملے میں پیش رفت کی ہی نہیں۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ امریکہ اور ایران کے ساتھ معاملہ اور ہے، یہ ایک بہانہ ہے، میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان امریکہ سے ڈسا ہوا تھا، انہیں تو یہ منصوبہ ہرحال میں مکمل کرنا چاہیے تھا، پاکستان کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جس طرح پاکستان کو امریکہ کی ضرورت ہے، امریکہ کو کہیں زیادہ پاکستان کی ضرورت ہے۔ پاکستان آزاد خارجہ پالیسی بناتا ہے اور خطے کے تمام ممالک بشمول ترکی، ایران، افغانستان اور سعودی عرب کے ساتھ اپنے تعلقات میں بیلنس رکھتا۔

اسلام ٹائمز: ڈیرھ ارب ڈالر کی سعودی امداد پر کیا کہیں گے۔؟
ثاقب اکبر: میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کو تھوڑا سوچنا چاہیے کہ ہم ڈیڑھ ارب ڈالر کے بدلے میں کیا دے رہے ہیں،
مشرق وسطٰی میں سعودی عرب کی بہت بری صورتحال ہے، اس وقت سعودی عرب ایک بڑی مشکل میں پھنس گیا ہے، یعنی سعودی عرب کو اخوان المسلمون کے ساتھ فیس ٹو فیس جنگ کی نوبت نہیں آئی تھی، لیکن اس وقت آگئی ہے، اخوان المسلمین کا مطلب یہ ہے کہ 72 ملکوں میں ان کی تنظیم ہے، مراکش اور تیونس میں وہ سب سے زیادہ موثر ہیں، عرب دنیا کے سب سے بڑے ملک میں ان کی حکومت بن گئی تھی، جسے ختم کرانے کیلئے سعودی عرب نے نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ آپ دیکھیں کہ کویت کی پارلیمنٹ میں اخوان المسلمون کے افراد موجود ہیں، اسی طرح عرب دنیا میں ان کا اچھا اثر و رسوخ ہے۔ اس وقت عرب دنیا کی انقلابی اہل سنت قوت کے مقابلے میں سعودی عرب کھڑا ہوگیا ہے۔ قطر ایک طرف ہوگیا ہے، قطر اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات نمایاں طور پر خراب ہوچکے ہیں۔

اسلام ٹائمز: شام کے معاملے پر سعودی پالیسی پر کہیں گے۔؟

ثاقب اکبر: دیکھیں، سعودی عرب کی شام میں پالیسیاں شکست کھا چکی ہیں۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ سعودی عرب کی پالیسیاں براہ راست اسرائیل کو سپورٹ کرتی ہیں، حتٰی حماس کیلئے اقدامات کئے ہیں اور اس پر پابندیاں لگا دی ہیں، فلسطینی کاز پر سعودی عرب کا جو طرز عمل ہے وہ سارے کا سارا سرائیل کو سپورٹ کرتا ہے۔ ایسی صورتحال میں جب عوام میں سعودی عرب کے خلاف نفرت بڑھتی جا رہی ہے، ایسے میں پاکستان کا سعودی عرب کو سپورٹ کرنا اور عرب دنیا میں عرب عوام کی نفرت مول لینا سمجھ سے باہر ہے، پاکستان نے ضروری طور پر گرتی ہوئی دیواروں کو سپورٹ کرنا ہے۔ کیا ڈیرھ ارب ڈالر کے عوض ہم عرب دنیا کی انقلابی قوتوں کو کچلنے جا رہے ہیں۔ یہ مادی لحاظ بھی انتہائی غلط فیصلہ ہے، آپ کہتے ہیں معاشی صورتحال کو سہارا دینے کیلئے ضروری ہے، لیکن یہ ایسا ہی ثابت ہوگا جیسے آپ افغان جنگ میں کودے تھے اور آج تک اس کے
اثرات بھگت رہے ہیں، اسی طرح کے اثرات بھی ضرور مرتب ہونگے۔ آپ کو ایسی صورتحال پر غیر جانبدار ہو جانا چاہیے تھا۔ ایسی صورت میں جب عرب دنیا سے لاکھوں پاکستانیوں کو فقط اس وجہ سے نکال دیا گیا کہ وہ ان کے ہم عقیدہ نہیں ہیں، بجائے ان کیلئے آواز بلند کرنے کے آپ انکی آواز بننے جا رہے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک انتہائی غلط فیصلہ ہوگا۔

اسلام ٹائمز: مشیر خارجہ کہتے ہیں کہ ہم نے شام کے معاملے پر کوئی پالیسی تبدیل نہیں کی، ہماری پالیسی وہی ہے جو جنیوا ون میں طے کی گئی، اس سے ہٹ کر کچھ نہیں کہا۔؟

ثاقب اکبر: میرے خیال میں ایک ہے عمل کرنا اور دوسرا ہے زبانی جمع خرچ کرنا، عمل آپ کا یہ بتا رہا ہے کہ شام کے معاملے میں آپ ان قوتوں کے ساتھ کھڑے ہیں جو دنیا بھر سے انتہاء پسند جمع کرکے شام بھیج رہے ہیں، جو براہ راست ملوث ہیں، جو اپنی من پسند تبدیلی چاہتے ہیں، ظاہر ہے شام میں دو گروپ ہیں، ایک جو ہٹانا چاہتا ہے دوسرا وہ جو فیس کر رہا ہے، جب آپ ہٹانے والوں کے ساتھ ہیں تو اس کا کیا مطلب ہے۔؟ تو اس کا کیا مطلب ہے کہ پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی، زبانی کچھ اور عملاً کچھ اور کرنا ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا وجہ ہے کہ پاکستان افغانستان کے معاملے میں امریکہ کی گود میں جا بیٹھا اور روس کی مخالفت مول لی اور آج پھر ہم شام کے معاملے میں روس کیخلاف جا رہے ہیں۔؟

ثاقب اکبر: یہ پاکستان کی کتنی بڑی بدقسمتی ہے کہ قریب والوں سے دشمنی اور دور والوں سے دوستی، یہ امریکہ سے دوستی اور روس سے دشمنی ہے، اسی طرح سعودی عرب سے دوستی اور ایران سے دشمنی، اب تو چین کو بھی پریشانی ہے کہ انتہاء پسند پاکستان سے ان کے ملک میں آتے ہیں اور اپنی مرضی کا نظام لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پاکستان کو اس فضا سے نکلنا ہے، پاکستان کو اسلامی اور فلاحی
ریاست کی طرف واپس آنا ہے، پاکستان کو قائد کے نظریہ کی طرف واپس آنا ہے۔ پاکستان میں دہشتگردی، انتہاء پسندی اور شدت پسندی باہر سے آئی ہے، اگر آپ مزید اس پالیسی کو چلائیں گے تو بہت مشکل ہوجائیگا۔ آپ اپنے ملک سے بارود بھیجیں گے تو وہ کیا دورد بھیجیں گے۔

اسلام ٹائمز: کیا شام میں بشار الاسد کی حکومت پہلے کی نسبت بہت زیادہ مضبوط ہے یا ابھی بھی دہشگردوں سے خطرات ہیں۔؟

ثاقب اکبر: اگر ڈیرھ سال پہلے کی صورتحال دیکھیں تو اس کے مطابق بشار الاسد کی پوزیشن بہترین ہے، بہت سارے علاقے دہشتگردوں سے واپس لے لئے گئے ہیں، دہشتگردوں کے اندر پھوٹ پڑ چکی ہے، جو بظاہر ترکی اور امریکہ کے لحاظ سے معتدل لوگ تھے وہ پیچھے ہٹ گئے ہیں، قطر اور سعودی عرب کی داخلی جنگ ہے۔ ان کیلئے الگ ہوچکے ہیں، آپس میں ہی ہزاروں لوگ مارے جا چکے ہیں، فرانس کے صدر نے کہا ہے کہ اس کے ملک کے سو افراد شام کے محاذ پر لڑ رہے ہیں، بارہ ہزار سے زائد سعودی وہاں گئے ہوئے ہیں، اب سب کو پریشانی لاحق ہے کہ جب یہ لوگ واپس آجائیں گے تو پھر انکا کیا بنے گا۔ یورپین انٹیلی جنس کے اہلکار جاکر شام کی حکومت سے ملے ہیں، وہ سب پریشان ہیں کہ وہ اس جنگ سے اپنا ہاتھ نکالیں، سعودی عرب نے خود کہا ہے کہ جو سعودی شہری باہر لڑ رہے ہیں وہ واپس آجائیں، سب کو پریشانی لاحق ہوگئی ہے، میرے خیال میں اس صورتحال کے تناظر میں بشارالاسد کی حکومت کی پچھلے ادوار کی نسبت کافی بہتر صورتحال ہے۔ آپ دیکھیں کہ دمشق کا ہوائی اڈہ دوبارہ بحال ہوگیا ہے، طیارے جا رہے ہیں، آرہے ہیں، عالمی کانفرنسز ہو رہی ہیں، چند ہفتے پہلے اتحاد امت کے حوالے بڑی کانفرنس ہوئی ہے، میری رائے ہے کہ اپوزیشن اور حکومت کے سنجیدہ طبقے ملکر شام کے حوالے پلان بنائیں اور دشمن کی چالوں کو سمجھیں۔
خبر کا کوڈ : 370868
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش