0
Friday 7 Mar 2014 01:34

کیا واشنگٹن ایک ہی وقت میں تین حکومتوں کا تختہ الٹنا چاہتا ہے؟

کیا واشنگٹن ایک ہی وقت میں تین حکومتوں کا تختہ الٹنا چاہتا ہے؟
تحریر: صابر کربلائی

امریکہ کی سیاست اور امریکی ہٹ دھرمیوں سے پوری دنیا واقف ہے، دور حاضر میں اگر ہم دیکھیں تو دنیا بھر میں امن کا نعرہ لگانے والا، اور دنیا کے انسانوں کو انسانی حقوق دلوانے اور جمہوریت کی بات کرنے والا امریکہ اور امریکن انتظامیہ دہرے معیار میں اپنی مثال آپ ہے، جب بات کسی مظلوم قوم کی ہو تو امریکہ اور امریکہ کی انسانیت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ویٹو پاور کو مظلوموں کے خلاف استعمال کرتی ہوئی نظر آتی ہے اور جب بات ظالموں کو تحفظ فراہم کرنے کی ہو تو یہ امریکہ اور امریکن انتظامیہ ہے کہ جو تیس بلین ڈالر سے زائد کی فوجی اور مالی مدد صرف اسرائیل جیسی خطرناک صیہونی غاصب ریاست کو فراہم کرنے سے دریغ نہیں کرتی۔ دور حاضر میں امریکہ کو 2011ء میں لیبیا پر حملہ کرنے کے بعد ماضی قریب میں شام کے معاملے میں کس طرح امریکہ اور اس کے حواریوں کو منہ کی کھانی پڑی ہے، شام کے بعد اب امریکہ یو کرائن اور ونیزویلا میں بھی اسی قسم کی سازشوں میں مصروف عمل نظرا رہا ہے، ایسا لگ رہا ہے کہ واشنگٹن ایک ہی وقت میں ونیزویلا، شام اور یوکرائن کی حکومتوں کا تختہ الٹنے کے لئے بھرپور کردار ادا کر رہا ہے اور اس کوشش میں مصروف عمل ہے کہ ونیزویلا، شام اور یوکرائن میں امریکی افواج کو کنٹرول سونپ دیا جائے اور پھر خطے میں صیہونی مفادات کا مزید تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔

واشنگٹن یہ سمجھتا ہے کہ طاقت کے بل بوتے پر اپنی قومی سلامتی کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بہت ضروری ہے کہ امریکہ شام، ونیزویلا اور یوکرائن کی حکومتوں کا تختہ الٹ سکتا ہے، اور اگر امریکہ اپنے اس مقصد میں کامیاب ہو جا تاہے تو پھر ونیزویلا، شام اور یوکرائن میں کوئی بھی بننے والی نئی حکومت مستقبل میں امریکہ کے سامنے مزاحمت نہیں کر سکے گی۔ امریکہ ماضی کی اپنی تمام شکستوں کے باوجود اس کوشش میں مصروف عمل ہے کہ کسی طرح حکومتوں کو تبدیل کر سکے اور ایسی نئی حکومتوں کو برسر اقتدار لایا جائے کہ جو امریکی غلامی میں مصروف رہیں اور خطے میں صیہونی غاصب ریاست اسرائیل کے مفادات کا تحفظ یقینی بنائیں، یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے بیک وقت ونیزویلا، یوکرائن اور شام میں حکومتوں کا تختہ الٹنے کے لئے حکمت عملی میں اہم ترین عنصر امریکن قومی سلامتی کو رکھا ہے اور کوشش کی جا رہی ہے کہ تینوں حکومتوں کا تختہ الٹ دیا جائے۔ اس کام کے لئے امریکہ مختلف حربے استعمال کر رہا ہے جس میں شام میں موجود دہشت گردوں گروہوں کی سرپرستی، یوکرائن میں حکومت مخالف گروہوں کی فنڈنگ، سمیت ونیزویلا میں کوشش کر رہا ہے کہ کسی طرح سازشوں کو پایہ تکمیل تک پہنچا سکے۔

اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے امریکی صدر نے قومی سلامتی کی ٹیم کو یہ کام سونپ دیا ہے، اول مشیر برائے امریکی صدر Susan Riceاور اقوام متحدہ میں موجود امریکن سفیر Samantha Power کو یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ وہ ونیزویلا، شام اور یوکرائن کی حکومتوں کے تختے الٹنے میں اپنا کردار ادا کریں، یہ دونوں خواتین جمہوری گفت و شنید کی ماہر سمجھی جاتی ہیں، ان دونوں خواتین کو دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی سمیت ممالک میں قتل و غارت گری کروانے جیسے کئی اہم ترین معاملات میں کافی حد تک تجربہ بھی حاصل ہے اور یہ اپنے کام میں ماہر خواتین سمجھی جاتی ہیں۔ Samantha Power کے بارے میں مشہور ہے کہ شام پر امریکی حملے کے ممکنہ خطرات کے دوران عین اس وقت جب امریکہ کے عوام اس کی مذمت کر رہے تھے یہ خاتون اپنے شوہر کے ساتھ یورپ اس لئے گئیں کہ وہاں جا کر انہوں نے چارلی چپلن نامی تھیٹر شو دیکھ کر لطف اٹھایا۔ امریکی صدر کی جانب سے بنائی جانے والی کمیٹی کے تین ریجنل کوآرڈیٹر بشمول Philip Gordon جو کہ مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقا، Karen Donfried جو کہ یورپ، Ricardo Zuñiga جو کہ لاطینی امریکہ کے معاملات میں امریکی صدر کے اہم ترین کوآرڈینیٹر ہیں۔

Philip Gordon جو کہ Nikolas Sarkouzi کے قریبی دوست اور مترجم ہیں ان کا حال تو یہ ہے کہ شام کے معاملے میں ہونے والے دوسری جنیوا امن کانفرنس کو سبوتاژ کرنے میں بھرپور سرگرم عمل رہے اور یہی وجہ ہے کہ مسئلہ فلسطین جو برسوں سے حل طلب ہے اس پر کسی قسم کی پیش رفت نہ ہونے دی۔ کانفرنس کے دوسرے مرحلے میں جان کیری جب امن کی بات کر رہے تھے تو دوسری جانب Gordon اردن، قطر، سعودی عرب اور ترکی کے خفیہ اداروں کے سربراہوں سے ملاقات میں مصروف عمل تھے اور نئے حملوں کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ ان ملاقاتوں میں متفقہ طور پر فیصلہ کیا گیا کہ 13000 جنگجوئوں کا لشکر تیار کیا جائے گا اور ایک ہزار ماہر ترین امریکن کمانڈوز ان کو جدید ٹینک اور اسلحہ استعمال کرنے کی تربیت دیں گے اور یہ سب کام اردن میں کیا جائے گا جس کے بعد شام پر بڑے حملے کا اعلان کیا جائے گا۔ اس سازش کا دہرا فائدہ یقینا ان تمام ممالک کو ہوگا جن کے خفیہ اداروں کے اعلیٰ عہدیدار Gordon سے ملاقات کر رہے تھے، کیونکہ اگر شامی افواج نے اپنی اینٹی ائیر کرافٹ اور اسلحوں کے ذریعے اردن سے حملہ آور دہشت گردوں کا مقابلہ کیا تو شاید بعد میں شام اسرائیل کے مقابلے میں اس طاقت سے مقابلہ نہیں کر سکے گا جو آج کر سکتا ہے تاہم اس سازش کا مقصد شامی حکومت کا تختہ الٹنا اور شام میں امریکی اور اسرائیلی فرمانبردار حکمرانوں کی حکومت قائم کرنا ہے۔

Karen Donfried جو کہ یورپ میں امریکہ کا سابق انٹیلی جنس اعلیٰ عہدیدار رہی ہیں، آج کل یورپی یونین کو اس بات پر قائل کرنے پر معمور ہیں کہ یورپی یونین امریکہ کی جانب سے دیگر ممالک میں کی جانے والی مداخلت پر آنکھیں بند رکھے اور امریکہ کے خلاف بات نہ کرے اور خصوصاً یوکرائن میں امریکہ جو کچھ کر رہا ہے اس پر صرف نظر کی جائے، بہرحال ایک اسکینڈل کے باوجود بھی یہ خاتون یورپی یونین کو اس بات پر مطمئن کرنے میں کامیاب رہی ہیں کہ یورپ یوکرائن میں امریکی مداخلت پر صرف نظر کرے۔ Ricardo Zuñiga جو کہ ایک معروف اور نامورپارٹی (National Party of Honduras) کے صدر کے پوتے ہیں کہ جنہوں نے 1963ء سے 1972ء میں جنرل López Arellano کی مدد کے لئے ایک فورس تشکیل دی تھی، فیڈل کاسٹرو کے خلاف ہوانا میں سی آئی اے اسٹیشن کے ڈائریکٹر بھی رہے۔ بہرحال ان تمام افراد کو امریکی صدر اوباما نے ذمہ داری سونپ دی ہے کہ شام، یوکرائن اور ونیزویلا میں حکومتوں کا تختہ الٹ دیا جائے، کہیں فوجی مداخلت، کہیں پابندیاں اور کہیں سفارتی ذرائع استعمال کئے جائیں اور نتیجے میں امریکن انتظامیہ یہ چاہتی ہے کہ یوکرائن سمیت شام اور ونیزویلا کی حکومتوں کو بیک وقت ختم کر دیا جائے۔

شام میں امریکہ کا سب سے بڑا اتحادی عرب ملک تکفیریوں کی بھرپور مدد کرنے میں مصروف عمل ہے، یوکرائن میں کچھ امریکی حمایت یافتہ نازی گروہ ہیں جو یوکرائن کی حالت کے ذمہ دار ہیں، اسی طرح ونیزویلا میں چند نوجوان منچلوں کو استعال کیا جا رہا ہے اور ہر جگہ یہی دیکھا جا رہا ہے کہ امریکہ کچھ مخالفین کی مدد سے وہاں کی مقامی حکومتوں کے تختے الٹنے کی کوششوں میں مصروف عمل ہے۔ تمام معاملات میں حکومت مخالفین کا تعلق امریکن این جی او National Endowment for Democracy کے ساتھ ہے جو کہ کانگریس سے مالی مدد حاصل کر رہی ہے اور امریکی انتظامیہ کی ایماء پر دیگر ممالک میں اندرونی معاملات میں دخل اندازی جیسے اقدامات کے حوالے سے مالی تعاون فراہم کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔ بہرحال Susan Rice اور Samantha Power بہت جلد اپنے اعمال کے بدلے میں یورپ کے غم و غصے کی آگ سے نہیں بچ پائیں گی کیونکہ وہ اپنے کرتوتوں کے باعث جو کچھ دوسرے ممالک میں انجام دینے میں کار گر ہو رہی ہیں اس کا جلد ہی یورپ کی طرف سے سخت احتجاج کا سامنا ہو گا۔ واشنگٹن دنیا کو دکھانے کی کوشش کر رہا ہے کہ وہ دنیا کا مالک ہے، اور امریکہ نے اس بات کا یقین دلوانے کے لئے عین اس وقت یوکرائن اور ونیزویلا میں اپنے آپریشن کا آغاز کیا جب سوچی اولمپکس کا آغاز کیا جا رہا تھا، البتہ روس کو خطے میں موجود دہشت گرد قوتوں سے خطرات لاحق تھے کہ شاید سوچی اولمپکس میں حملے ہو سکتے ہیں تاہم سوچی میں اولمپکس کا خاتمہ پر امن طریقے ہو ہی گیا اب دیکھنا یہ ہے کہ روس کیا کردار ادا کرے گا؟
خبر کا کوڈ : 358862
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش