0
Monday 9 Apr 2012 17:55

سانحہ چلاس، پاک آرمی اور بھارت

سانحہ چلاس، پاک آرمی اور بھارت
ایم کے بہلول

سانحہ کوہستان کے ذمہ داروں کو گرفتار نہ کرنا خطرہ کی گھنٹی تھی۔ اسی چشم پوشی کے سبب سانحہ چلاس پیش آیا۔ سانحہ کوہستان دو صورتوں سے خالی نہیں یا تو یہ حکومتی اداروں کی ملی بھگت سے پیش آیا جس کی بنا پر دہشت گردوں کو آزاد رکھا گیا۔ اس صورت میں حکومت سے کوئی امید نہیں باندھی جا سکتی۔ دوسری صورت یہ ہے کہ دہشت گردوں کا حکومت سے رابطہ نہیں لیکن انہیں کنٹرول کرنا حکومت کے بس سے باہر ہے۔ یہ صورت حال پہلی حالت سے بھی خطرناک ہے۔

یہ بالکل وہی صورت حال ہے جو خیبر پختونخواہ کے آزاد علاقوں میں ملٹری آپریشن سے پہلے موجود تھی۔ اس بات کا اعتراف گلگت بلتستان کے گورنر پیر کرم علی شاہ نے کیا اور کہا کہ ’’ گلگت بلتستان ملک دشمن دہشت گردوں کے نرغے میں ہے ‘‘۔ گورنر کی یہ خبر عظیم خطرے کی گھنٹی ہے۔ گورنر کا یہ اعلان اور دوسری طرف سے دہشت کردوں کو لگام دینے میں ناکامی جس خطرے کا الارم بجا رہی ہے اس سے نجات کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے علاقہ کو دہشت گردوں سے پاک کرنے کے لیے سخت آپریشن کیا جائے تاکہ دہشت گردی کے اڈے ختم کئے جائیں۔ دہشت گردوں کا نیٹ ورک توڑ دیا جائے، علاقے کو اسلحے سے مکمل طور پر پاک کیا جائے اور دہشت گردوں کے سرغنوں کا صفایا کیا جائے۔

یہ بات بھی واضح ہے کہ صوبہ سرحد کے آزاد علاقوں میں فوجی آپریشن اور امن کی بحالی کے بعد دہشت گردوں کی بڑی تعداد نے اپنے اڈے کوہستان، چلاس اور ملحقہ علاقوں میں منتقل کئے ہیں۔ قانون ساز اسمبلی کے اسپیکر وزیر بیگ نے بھی کہا ہے کہ ’’ حکومتی رٹ ڈنڈے سے قائم ہوگی ‘‘۔ انہوں نے کہا ہے آج دہشت گردوں کو اس کام کا احساس نہیں کہ وہ اپنے کلمہ گو بھائی کا خون بہا رہا ہے جس کے خون کی حرمت کے بارے میں اللہ اور رسول کی واضح تعلیمات موجود ہیں۔ موصوف نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بے بسی کا رونا رویا ہے۔ یہ صورتحال انتہائی گھمبیر ہے۔ آج گلگت بلتستان کے عوام کی آخری امید مکمل فوجی آپریشن ہے اور اگر فوج نے بھی چپ سادھ لی تو علاقے کا خدا حافظ ہے۔

آج گلگت بلتستان کے پندرہ لاکھ عوام دہشت گردوں کے ہاتھوں بے بس، یرغمال، قیدی اور محصور ہیں۔ کوہستان کا زمینی راستہ ناقابل استعمال ہے اور اگر ان حالات میں بھارت کوئی جنگ مسلط کرے تو علاقے کو شدید خطرہ ہے۔ اگر علاقے کے عوام حکومت کی چھتری تلے امن و امان حاصل کرنے سے مایوس ہوگئے تو اس کا سب سے زیادہ فائدہ بھارت کو ہوگا، جو پاکستان کا ازلی دشمن ہے اور بھارتی حکومت اس علاقہ کو مقبوضہ سمجھتی ہے اور اب بھی بھارت کی قومی اسمبلی میں دو سیٹیں سیاہ پوش خالی رکھی ہوئی ہیں اور بین الاقوامی نقشے پر بھی گلگت بلتستان متنازعہ ایریا میں شامل ہے۔ موجودہ صوبائی سیٹ اپ کی کوئی آئینی حیثیت نہیں یہ عوام کو خاموش کرنے کا ایک حربہ تھا۔ کوئی نئی حکومت اس پیکج کو ختم کر سکتی ہے۔ موجودہ صوبائی سیٹ اپ صرف نام کی تبدیلی ہے۔

بنا برایں مرکزی حکومت اور پاکستان آرمی سے یہ امید باندھی جاسکتی ہے کہ وہ آخری حل پر سنجیدگی اور بہادری کے ساتھ عملدرآمد کرے۔ افسوسناک اور خطرناک پہلو یہ ہے کہ سانحہ کوہستان اور سانحہ چلاس دونوں میں گلگت بلتستان کے شیعہ مسافروں کو شناخت کے بعد قتل کیا گیا ہے اور شیعہ کافر کے نعرے لگائے گئے ہیں اور انتہائی سفاکی کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔ خصوصاً سانحہ چلاس میں سینکڑوں ہزاروں مسلح دہشت گردوں نے لشکر کشی کی ہے جو ملکی سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔ یہ نفرت وسیع پیمانے پر پھیلائی گئی ہے۔ مرکزی حکومت کو چاہیے کہ پانچویں اور حساس ترین صوبے بچانے کے لیے پاکستان بھر کے بڑے بڑے علماء کی خدمات حاصل کی جائے تاکہ تکفیری گروہوں کی شدت پسندی کو کم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔

ان حالات میں بھی ایک اہم پہلو یہ ہے کہ بلتستان میں شیعہ آبادی بھاری اکثریت میں ہونے کے باوجود اپنے دین کی احکامات پر مکمل عمل پیرا ہیں، کئی جنازے وصول کرنے اور متعدد لوگ لاپتہ ہونے کے باوجود اب تک کسی ایک اسلامی مکتب کے خلاف بھی کوئی انتقامی کارروائی نہیں کی  گئی، اگرچہ بلتستان میں رہنے والے چند نام نہاد مفتی ملک بھر میں اپنی بے بسی کا رونا روتے پھرتے ہیں ان پر ڈھائے گئے خود ساختہ مظالم اور جھوٹ کے ذریعے تکفیری علاقوں سے خوب خوب ہمدردیاں اور پیسے لوٹتے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو علاقہ ہٰذا کے ان جھوٹے مفتیوں کا اس سانحہ میں ہاتھ ہے جنہوں نے چند روپوں کی خاطر مکتب تشیع کے خلاف لوگوں کو ورغلایا۔

میرا اسی شاہراہ قراقرم سے سانحہ چلاس سے چند روز قبل گزرنا ہوا راستہ میں مسافرین نے بلتستان میں مذہبی رواداری پہ گفتگو شروع کی۔ میرا اس موضوع پہ گفتگو کرنا مناسب نہیں ایک کشمیر سے تعلق رکھنے والا ایک سنی شخص جو پچھلے چھ سالوں سے سکردو میں رہائش پذیر تھا اس سے میں نے کہا کہ آپ خود بتائیں کہ یہاں مذہبی روداری کس حد تک ہے۔ انہوں نے بہت خوب بات کہی، کہتا ہے اگر بلتستان کی پوری شیعہ آبادی مل کر اگر پھونک بھی مارے تو اس علاقہ میں موجود تمام دیگر مکاتب ہوا میں اڑ سکتے ہے لیکن میں نے اس چھ سالوں میں کوئی مجھے ’’ تم ‘‘ کہتے نظر نہیں آیا۔ نہیں معلوم یہ دہشت گرد ایسے حقیقی مسلمانوں کو مار کے کس جہنم کو آباد کرنا چاہتے ہیں۔

یہ بات بھی قابل غور ہے ہے گزشتہ چالیس سال کی تاریخ میں جھانک لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں کی شیعہ اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے لیے حکومتی اداروں بلخصوص آئی ایس آئی کی سرپرستی میں منظم کام ہو رہا ہے۔ اس کے علاوہ حساس اداروں کی کوشش رہی ہے کہ اس علاقہ کے عوام کو اینٹی پاکستانی ثابت کریں۔ جس کے لیے چند لوگوں پر سرمایہ گزاری بھی کی گئی اور یہ رپورٹ مرکزی حکومت تک بھیجتی رہی کہ یہ لوگ محب پاکستان نہیں۔ یہ ان لوگوں کے لیے کہہ رہے ہیں جنہوں نے بے سرو سامانی کی حالت میں 1948 میں جنگ لڑی ڈوگرہ راج کو مار بھگایا اور پاکستان کے ساتھ غیر مشروط الحاق کا اعلان کیا جس کی پاداش میں یہاں کے عوام ساٹھ سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود آئینی حقوق سے محروم اور مایوسی کا شکار ہیں۔

حساس اداروں کی شیعہ دشمنی پر مبنی رپورٹ کے بل بوتے پر نصف صدی سے زیادہ کا عرصہ گزرنے کے باوجود کسی قسم کے میگا پروجیکٹ پر کام نہیں کیا گیا۔ نام نہاد صوبائی پیکج چائنہ کے انٹرسٹ کے سبب دیا گیا، کیونکہ متنازعہ علاقہ شو ہونے کی بنا پر شاہراہ قراقرم جو چائنہ کے لیے ایشیا تک جانے کا آسان ترین راستہ ہے اس کے حوالے سے اور اس شاہراہ پر سرمایہ گزاری کے لیے چند قانونی پیچیدگیاں تھیں جس کے سبب حکومت نے صوبے کا ڈرامہ رچایا ہے۔ اس وقت حساس اداروں کا بھی فرض بنتا ہے کہ تعصبات سے بالاتر ہوکر ملک کو بچانے کے لیے اقدامات کریں۔ وطن عزیز کے اعلیٰ ادارے یہاں کے عوام کے دلوں میں پاکستان کی محبت جو پہلے سے موجود ہیں اسے اجاگر کرنے کی کوشش کریں ورنہ کایا پلٹنے میں دیر نہیں لگتی۔
خبر کا کوڈ : 151825
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش