0
Sunday 6 Apr 2014 11:51

شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات

شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات
تحریر: ندیم عباس

کسی بھی فرد یا تنظیم سے اختلاف کا ہونا فطری عمل ہے، آپ کو کسی کا انداز تقریر پسند نہیں ہوگا تو کسی کی پالیسی سے اختلاف ہوگا، کسی کا بولنا اچھا نہیں لگے گا تو کسی کی خاموشی آپ کو قتل کرے گی۔ اختلاف بذات خود بری بات نہیں ہے بلکہ بعض اوقات اختلاف کے نتیجے میں کام میں بہتری آتی ہے۔ مثبت تنقید سے من حیث الفرد اور من حیث القوم بہتری پیدا ہوتی ہے، نام لیے بغیر نظریہ پر تنقید ہونی چاہیے، بہت عرصہ پہلے شہید نقوی سے منسوب یہ بات سنی تھی کہ چھوٹے لوگ افراد پر گفتگو کرتے ہیں، عظیم لوگ نظریات پر گفتگو کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا بالخصوص فیس بک پر جس طرح کا رویہ روا رکھا جا رہا ہے، جس طرح سے ایک دوسر ے پر کیچڑ اچھالا جا رہا ہے، اس کے بعد تو یوں لگتا ہے جیسے قوم  میں سب چھوٹے ہی رہ گئے ہیں، یا بزرگوں تک ہماری رسائی نہیں ہے۔ 

میرا اپنا بھی ایک نقطہ نظر ہے، اس کے مطابق مجھے بھی بعض لوگ اچھے اور بعض لوگ برے لگتے ہیں، مگر کبھی ان کی توہین کی، ان کو گالی گلوچ نہیں دی، کبھی ان کی عزت کو نہیں اچھالا، کبھی ان کی گھر کی باتوں کو مورد گفتگو قرار نہیں دیا۔ دوسرے کو گالی دینے، اس کے گھر کی بات اچھالنے سے کچھ اور ہو یا نہیں، ہم اس بات کا ثبوت ضرور دے رہے ہوتے ہیں کہ ہماری تربیت کس انداز میں کی گئی ہے۔
جہاں کسی مسئلے میں اختلاف ہو، اسے دلائل کے ساتھ ضرور بیان کریں، یہ آپ کا استحقاق ہے، بعض لوگوں کی طرف سے جس انداز میں علماء کی توہین کا سلسلہ جاری ہے، یہ پوری قوم کے لیے لمحہ فکریہ ہے، اس طرح کا طرز عمل دشمن کو بات کا موقع فراہم کرتا ہے، دوسرے مکاتب فکر کے لوگوں سے کم از کم یہ بات تو سیکھ لیں کہ وہ کس قدر اپنے علماء کی اطاعت کرتے ہیں۔
 
جنگ صفین میں لشکر شام کے لوگوں نے آپ کو گالیاں دینا شروع کر دیں، اس کے جواب میں لشکر کوفہ کے بعض لوگوں نے بھی گالیاں دینا شروع کر دیں، جب آپ کو اس بات کا پتہ چلا تو فوراً منع کر دیا اور ناراضگی کا اظہار فرمایا۔ اسلام تو کسی کے جھوٹے خداوں کو برا بھلا کہنے سے منع کرتا ہے، مگر ہم صرف سیاسی اختلافات کی بنیاد پر تہمت، غیبت، بہتان اور نہ جانے کیا کیا باتیں شروع کر دیتے ہیں۔ یہاں ہمارا بھی یہ فریضہ ہے کہ جو اس طرح کی بات کرے، اس کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ حضرت علی ؑ کا فرمان کہ گالیاں نکالنے والے نہ بنو۔
سیرت ائمہ اہلبیت کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ ائمہ اہلبیت کس قدر ان چیزوں کو ناپسند فرماتے تھے۔ نبی اکرم ﷺ کو کیا اذیتیں نہیں دی گئیں، مگر کبھی بھی اذیتیں دینے والوں کو بد دعا تک نہ دی، بلکہ ان کے حق میں دعائیں کرتے رہے۔
 
امام حسن ؑ کے سامنے جب ایک شامی نے آپ ؑ کے والد نامدار کی شان میں گستاخی کی تو آپ نے اس کو جواب فرمایا تم مسافر لگتے ہو، میرے مہمان بنو، زاد راہ کی احتیاج ہے تو وہ آمادہ کرتا ہوں، سواری درکار ہے تو فراہم کرتا ہوں، وہ شخص حیران ہوا اور جب مدینہ سے جا رہا تو یہ کہتے ہوئے جا رہا تھا کہ جب مدینہ میں داخل ہوا تھا تو مجھ سے بڑا دشمن علی اور اولاد علی کوئی نہ تھا اور اب ان کا محب ہوں۔ امام زین العابدین ؑ کی شان میں ایک بوڑھا شامی گستاخ کرتا ہے، آپ ؑ اسے کوئی برا جواب نہیں دیتے، بلکہ احسن انداز میں اپنا اور اپنے گھرانے کا تعارف کرا دیتے ہیں، جس کی نتیجہ میں وہ آپ کا گرویدہ ہو جاتا ہے۔ امام صادقؑ کسی کے ساتھ شریک سفر تھے، ظاہراً وہ آپ ؑ کا ماننے والا تھا، اس نے اپنے غلام کو حرام زادہ کہہ کر بلایا۔ امام شدید ناراض ہوئے اور فرمایا کہ تم نے اس کی ماں پر زنا کی تہمت لگائی ہے۔ اس نے کہا مولا پریشان نہ ہوں یہ مسلمان نہیں ہے، ہند سے آیا ہے، انکے ہاں نکاح نہیں ہوتا۔ امام نے فرمایا جس قوم یا مذہب کا نکاح کا جو طریقہ ہے، اگر اسی کے مطابق یہ عمل انجام پایا ہے تو یہ حلال زادہ ہے۔ امام ؑ نے اس واقعہ کے بعد اس شخص سے اپنے تعلقات پر نظرثانی فرمائی۔
 
آج ہم کہاں کھڑے ہیں؟ اور سیرت اہلبیت ؑ ہم سے کس بات کی متقاضی ہے؟ ہم تو مومنین کو ایک دوسرے کا دشمن بنا رہے ہیں، دوسرے کی ہدایت اور ان کو مذہب اہلبیت کا تعارف تو بڑی دور کی بات ہے۔ مومن کے احترام کے حوالے سے بہت سی احادیث ہیں
امام جعفر صادقؑ سے روایت ہے۔
 قَالَ: الْمُؤْمِنُ أَعْظَمُ حُرْمَةً مِنَ الْكَعْبَةِ. ‘ (بحارانوار ج۶۵ ص۱۶)
 فرمایا کہ مؤمن کی حرمت، عزت خانہ خدا سے بڑھ کر ہے۔

ایک اور معصوم ؑ سے روایت ہے کہ کعبہ کے نزدیک ٹھہرے اور فرمایا
 ’ َ مَا أَعْظَمَ حَقَّكِ يَا كَعْبَةُ وَ اللَّهِ إِنَّ حَقَّ الْمُؤْمِنِ لَأَعْظَمُ مِنْ حَقِّك مستدرک ج ۹ ص ۴۶) 
اے کعبہ تیرا حق بہت زیادہ ہے (لیکن) اللہ کی قسم ایک مؤمن کا حق تیرے حق سے بھی زیادہ ہے۔

یعنی ایک مؤمن کی عزت کعبہ سے بڑھ کر اور اس کا حق کعبہ کے حق سے بڑھ کر ہے، تو کیوں ایک انسان کعبہ کی توہین کے بارے سوچتا تک نہیں اور دوسری طرف ایک مؤمن کی اہانت کرتا ہے، اور اس کی حق تلفی کرتا ہے؟ اشارۃ اس کی وجہ بتائی جا چکی ہے کہ یہ انسان مقام خانہ خدا کو جانتا ہے، اس کی معرفت رکھتا ہے، لیکن ایک مؤمن کے مقام سے ناآشنا، جاہل یا غافل ہے اور اسکی معرفت نہیں رکھتا۔

آئیں چند اور روایات کی روشنی میں ایک مؤمن کے مقام کو سمجھنے کی کوشش کریں۔
امام جعفر صادقؑ سے روایت ہے
 نَزَلَ جَبْرَئِيلُ عَلَى النَّبِيِّ ص فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ إِنَّ رَبَّكَ يَقُولُ مَنْ أَهَانَ عَبْدِيَ الْمُؤْمِنَ فَقَدِ اسْتَقْبَلَنِي بِالْمُحَارَبَة (مستدرک ج ۹ ص ۱۰۱) 
فرمایا کہ حضرت محمدؐ پر جبرائیل کا نزول ہوا اور کہا کہ اے محمدؐ تیرا رب فرماتا ہے کہ جس نے میرے عبد مؤمن کی توہین کی گویا اس نے میرے ساتھ جنگ کی۔

قارئین محترم، اس سے بڑھ کر مومن کی اور کیا فضیلت ہوسکتی ہے کہ جسے خالق اکبر ’’عبدی المؤمن‘‘ کہہ کے خطاب کرے۔
قال أبا عبداللہ مَنْ أَعَانَ عَلَى الْمُؤْمِنِ بِشَطْرِ كَلِمَةٍ لَقِيَ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَكْتُوبٌ بَيْنَ عَيْنَيْهِ آيِسٌ مِنْ رَحْمَتِي (وسائل الشیعہ ج ۱۲ ص ۳۰۵)
حضرت امام جعفر صادق ؑ نے فرمایا کہ جو کسی مومن کی مذمت میں اگر ایک کلمہ سے کم مقدار میں بھی کچھ کہے تو قیامت کے روز اللہ تعالٰی سے اس حالت میں ملے گا کہ اس کی پیشانی پر لکھا ہوگا ’’رحمت خدا سے مایوس ہونے والا‘‘

اور دوسری طرف ایک مومن کی عزت و اکرام کرنا، گویا اس نے اللہ تعالٰی کا اکرام و تعظیم کی، جیسا کہ حضرت رسول کریمؐ فرماتے ہیں مَنْ أَكْرَمَ مُؤْمِناً فَإِنَّمَا يُكْرِمُ اللَّهَ عَزَّ وَ جَل ‘ (مستدرک ج ۱۲ ص۴۱۹)

ضروری ہے کہ جب بھی ہم کسی مومن کے بارے میں بات کریں تو بات کرنے سے پہلے یہ دیکھ لیں کہ میرے اس کلام سے مومن کی اہانت تو نہیں ہو رہی، اس میرے فعل سے کسی مومن کو اذیت تو نہیں ہو رہی۔ بہت سے حقوق ہیں جو ایک مومن کے دوسرے مومن پر لازم ہیں، کیونکہ ایک مومن کا دوسرے مومن کے ساتھ ایک گہرا تعلق اور ربط ہے۔
حضرت امام جعفر صادقؑ سے روایت ہے فرمایا:
الْمُؤْمِنُ أَخُو الْمُؤْمِنِ كَالْجَسَدِ الْوَاحِدِ إِذَا اشْتَكَى شَيْئاً مِنْهُ وَجَدَ أَلَمَ ذَلِكَ فِي سَائِرِ جَسَدِه ..........‘‘(المومن ص ۳۸)
کہ مومن مومن کا بھائی ہے، یہ ایک جسم کی طرح ہیں کہ جب بدن میں سے کسی جزء میں اذیت ہوتی ہے تو اس کا درد پورے بدن میں پایا جاتا ہے۔

اس حدیث بالا سے صاف ظاہر ہوجاتا ہے کہ ایک مومن کا دوسرے مومن کے ساتھ کیا تعلق ہے، گویا ایک جسم کی طرح ہیں، اس سے بڑھ کر اور بہترین تشبیہ کیا ہوسکتی ہے، لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ جب کسی مومن کو کوئی اذیت ہوتی ہے تو کیا اس تکلیف کو دوسرا مومن بھی اپنے بدن میں محسوس کرتا ہے، جب کوئی مومن غم زدہ ہوتا ہے یا خوش ہوتا ہے تو کیا دوسرا مومن اس غمی اور خوشی کو محسوس کرتا ہے، اگر ایسا ہے تو واقعاً جسم واحد کی طرح ہیں، اگر ایسا نہیں تو حق وحدانیت نہیں، حق اخوت نہیں، پھر بھی اگر ایک مومن دوسرے کو بھائی کہتا ہے تو یہ فقط نام تک محدود ہے، اس کو کوئی فائدہ نہیں۔

امام جعفر صادقؑ سے پوچھا گیا کہ مومن کا مومن پہ کیا حق ہے تو معصومؑ نے فرمایا کہ ایک مومن کے دوسرے مومن پر حق میں سے اسکی محبت اپنے دل میں رکھنا، اپنے مال میں اسے شریک کرنا، اس کے اہل میں اس کی عدم موجودگی میں نائب ہو، جب وہ مر جائے تو اس کی قبر کی زیارت کرے، اس پر ظلم نہ کرے، اس کے ساتھ ملاوٹ نہ کرے، اس کے ساتھ خیانت نہ کرے، اس کو دھوکہ نہ دے، اس کے ساتھ جھوٹ نہ بولے، حتٰی اسے اف تک نہ کہے، جب اس کو اف کرے گا تو دونوں کے درمیان دوستی ختم ہو جائے گی۔ بعض روایات میں یہاں تک کہا گیا کہ ایک مومن دوسرے مومن کی زبان ہے کہ جس سے وہ کلام کرتا ہے، کیا کوئی مومن یہ پسند کرتا ہے کہ کوئی اس کی عیب گوئی کرے، جواب نہیں میں ہوگا، پھر اسی مومن کو سمجھنا ہوگا کہ جس طرح میں اپنے بارے میں یہ برداشت نہیں کرتا تو دوسرا مومن بھی میری طرح ہے، گویا کہ میری زبان اس کی زبان ہے، تو کیونکر میں اس کے عیب بیان کروں، کیونکہ حق اخوت یہ ہے، جیسا کہ روایت میں ذکر ہوا کہ امام جعفر صادقؑ نے فرمایا
’’تحب لہ ما تحب لنفسک‘‘ (وسائل الشیعہ ج۱۲ ص۲۰۷)
 کہ تو جو اپنے لئے پسند کرتا وہی اپنے مومن بھائی کے لئے پسند کر۔

 تو جب انسان غیبت کو اپنے لئے نہیں پسند کرتا کہ کوئی میری غیبت کرے تو پھر دوسرے مومن کے بارے میں بھی یہی پسند کرے اور بھی بہت سارے حقوق ہیں۔

جتنے بھی بزرگان درد دل کے ساتھ اس قوم کی عزت و سربلندی کے لئے کام کر رہے ہیں، ان سے اختلاف ممکن ہے، مگر ان کا احترام ملحوظ خاطر رہنا چاہیے۔ جس قوم سے علماء کا احترام اٹھ جاتا ہے، اس قوم کو تباہی سے کوئی طاقت نہیں بچا سکتی۔ ہر ایک کو اپنا محاسبہ کرنا چاہیے کہ اس کی کی ہوئی پوسٹ سے کہیں ملت میں انتشار تو نہیں پھیل رہا، کہیں دشمن کو انگلی اٹھانے کا موقع تو نہیں ملے گا۔ آخر میں علماء کرام کی خدمت میں دست بستہ گزارش ہے آپ کی ہر بات پر لاکھوں لوگوں کی نگاہ ہے، آپ کا طرز عمل ذمہ دارانہ ہونا چاہیے۔ آپ قوم کو انتشار کی بجائے اتحاد کا پیغام دیں، بلکہ وحدت بین المومنین کو ایک مشن کی صورت میں اختیار کریں۔ اختلافی باتوں سے بچیں اور لوگوں کو بھی اس کا درس دیں۔ خدا ہمیں مکتب کی خدمت کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
خبر کا کوڈ : 369725
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش