0
Thursday 22 Aug 2013 16:19

33 روزہ جنگ کی کہانی، اسلام ٹائمز کی زبانی (دوسرا اور آخری حصہ)

33 روزہ جنگ کی کہانی، اسلام ٹائمز کی زبانی (دوسرا اور آخری حصہ)
اسلام ٹائمز- ویسے تو اسرائیل کی جانب سے لبنان پر تھونپی گئی 33 روزہ جنگ میں حزب اللہ لبنان کی کامیابی تمام لبنانی عوام کی استقامت اور ثابت قدمی کی مرہون منت ہے لیکن لبنان کے بعض خطوں کے شہریوں نے اس جنگ کے دوران مثالی شجاعت اور بہادری کا مظاہرہ کیا ہے جس کی وجہ سے یہ خطے اسرائیل کی شکست اور غاصب صہیونیستی رژیم کی ھزیمت کی علامت بن چکے ہیں۔ بنت جبیل، مارون الراس، وادی الحجیر اور عیتا الشعب انہیں خظوں میں سے شمار کئے جاتے ہیں جو جنوبی لبنان میں اسرائیل کی سرحد پر واقع ہیں۔ اپنی گذشتہ رپورٹ میں ہم نے بنت جبیل اور مارون الراس میں انجام پانے والی مجاہدتوں اور بہادریوں کا تذکرہ کیا تھا اور اس رپورٹ میں دو دوسرے خطوں یعنی وادی الحجیر اور عیتا الشعب کا ذکر کریں گے۔
 
وادی الحجیر:
وادی الحجیر یا وادی السلوقی وہ سرسبز اور صعب العبور خطہ ہے جو جنوبی لبنان میں مرجعیون، بنت جبیل اور النبطہ خطوں کے درمیان واقع ہے۔ اس خطے میں اس قدر اسرائیلی ٹینک نابود ہوئے اور اسرائیلی فوجی مارے گئے کہ اسرائیلی فوجی کمانڈرز اس خطے کو "وادی الموت" کے نام سے یاد کرنے لگے۔ وادی الحجیر کا خطہ اسرائیلی سرحد سے لے کر النبطیہ شہر کے نچلے حصے میں واقع دریای لیتانی تک پھیلا ہوا ہے۔ دوسری طرف یہ خطہ عیترون نامی علاقے تک جا پہنچتا ہے۔ وادی الحجیر کئی حصوں پر مشتمل خطہ ہے جس میں الطیبہ، عتشیت القصیر، دیر سریان اور القنطرہ نامی گاوں شامل ہیں۔ یہ وادی شمال کی جانب دریای لیتانی سے جا ملتی ہے اور اس کے مغرب میں دو گاوں فرون اور الغندوریہ واقع ہیں۔ اسی طرح وادی الحجیر کے جنوب میں اسرائیل کے ساتھ سرحدی علاقہ ہے جہاں العدیسہ اور رب تلاتین نامی گاوں واقع ہیں۔ وادی الحجیر ایک انتہائی اسٹریٹجک اہمیت کا حامل خطہ تصور کیا جاتا ہے کیونکہ یہ خطہ دریای لیتانی سے جا ملتا ہے۔ 33 روزہ جنگ میں اس خطے میں واقع پہاڑیاں اسرائیل کا اہم ہدف رہی ہیں جن پر قبضہ کرنے کیلئے اسرائیل آرمی سرتوڑ کوشش انجام دیتی رہی ہے۔ 
 
جولائی 2006ء میں لبنان پر اسرائیلی جارحیت کے 16 ویں روز وادی الحجیر میں اسرائیلی فوج اور حزب اللہ کے گوریلوں کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ اسرائیلی فوجی رات کے وقت العدیسہ گاوں کی طرف سے لبنانی سرزمین میں داخل ہوئے۔ ہمیشہ کی طرح اسرائیل نے زمینی حملے سے قبل خطے کو بری طرح بمباری اور گولہ باری کا نشانہ بنایا۔ اس دن اسرائیل آرمی کا اصل ہدف الطیبہ گاوں پر قبضہ کرنا تھا۔ انہوں نے زمینی حملہ شروع کرنے سے پہلے جاسوسی طیاروں کے ذریعے خطے کی ریکی بھی انجام دی لیکن اس کے باوجود حزب اللہ لبنان کے جنگجووں کے خفیہ ٹھکانوں کا سراغ نہ لگا سکے۔  
 
اسرائیلی فوج پہلے کفر کلا کے علاقے سے لبنان میں داخل ہوئی تاکہ وہاں سے العویضہ پہاڑی تک پہنچ سکے۔ لیکن وہ اس حقیقت سے غافل تھے کہ حزب اللہ لبنان کے جنگجو اس پہاڑی پر ان کے منتظر بیٹھے ہیں۔ دونوں فورسز کے درمیان پہلی جھڑپ میں ہی اسرائیلی فوجی کے 2 مرکاوا ٹینک تباہ ہو گئے اور اس کے بعد دوبدو جنگ شروع ہو گئی۔ اس جھڑپ میں حزب اللہ لبنان کے صرف چند جنگجو شریک تھے جن کے مقابلے میں اسرائیل کے 4 مرکاوا ٹینک، 9 فوجی کیرئیرز اور 2 بکتربند گاڑیاں موجود تھیں۔ اسرائیل کی ان تمام فوجی گاڑیوں کو پوری طرح محفوظ بنایا گیا تھا اور مسلح کیا گیا تھا تاکہ لبنان کی سرزمین میں اس میں سوار اسرائیلی فوجیوں کو مکمل جانی تحفظ فراہم کیا جا سکے۔ اسرائیلی فوج کا دوسرا دستہ کفرکلا اور العدیسہ کے درمیان حزب اللہ لبنان کے دلیر مجاہدوں کی جانب سے شدید مزاحمت کی وجہ سے رکا ہوا تھا۔ اس جگہ بھی حزب اللہ لبنان کے جنگجووں نے اسرائیل کے 4 مرکاوا ٹینک تباہ کر دیئے تھے جو زمینی جنگ میں اسرائیل کی جانب سے پہلی بار استعمال کئے جا رہے تھے۔ اسی دوران اسرائیل نے ایک جاسوسی ٹیم بھی ریکی کی غرض سے الطیبہ گاوں بھیجی جو حزب اللہ لبنان کے چنگل میں پھنس کر کئی افراد کی ہلاکت اور زخمی ہونے کے بعد پسپائی پر مجبور ہو چکی تھی۔ اسرائیلی فوج نے 17 جولائی 2006ء کی دوپہر وادی الحجیر کی جھڑپ میں 12 فوجیوں کے ہلاک اور زخمی ہونے کا رسمی طور پر اعتراف کیا۔ البتہ یہ تعداد حقیقی تعداد سے بہت کم تھی۔ دوسری طرف ان جھڑپوں میں حزب اللہ لبنان کا صرف ایک جنگجو زخمی ہوا۔ 
 
پہلے زمینی حملے میں شکست فاش کے تقریبا 36 گھنٹے بعد اسرائیلی فوج نے العدیسہ اور ہونین سے ایک نئے زمینی حملے کا آغاز کر دیا۔ یہ امر واضح ہو چکا تھا کہ اسرائیلی فورسز ہر قیمت پر دریای لیتانی تک پہنچنا چاہتی تھیں۔ اسرائیل کا دوسرا فوجی دستہ پہلے دستے سے ملحق ہو گیا اور الطیبہ گاوں کے ذریعے وادی الحجیر میں داخل ہونے کی کوشش کرنے لگا تاکہ وہاں سے دریای لیتانی تک پہنچ سکیں۔ رب تلاتین کے مقام پر حزب اللہ لبنان کے چند گوریلوں نے اسرائیلی فوجی دستے پر حملہ کیا اور اسرائیلی فوجیوں کو جن کی تعداد بہت زیادہ تھی اپنے پیچھے لگا کر پہلے سے گھات لگائے حزب اللہ کے جنگجووں کی جانب کھینچنا شروع کر دیا۔ اسرائیلی فوجی حزب اللہ لبنان کے جال میں پھنس گئے اور انہیں چاروں طرف سے گھیر لیا گیا۔ اس موقع پر جھڑپ کا آغاز ہو گیا اور حتی اسرائیلی فوجی ہیلی کاپٹرز بھی اپنے فوجیوں کی مدد کرنے پر قادر نہ تھے کیونکہ انہیں اس کام کیلئے نیچی پرواز درکار تھی جو ان کیلئے تباہ کن ثابت ہو سکتی تھی۔ حزب اللہ لبنان کی جانب سے وادی الحجیر میں اسرائیلی فوجیوں کے خلاف سب سے زیادہ جان لیوا حملہ اس وقت انجام پایا جب انہوں نے ایک گھر کو جس میں بڑی تعداد میں اسرائیلی فوجیوں نے پناہ لے رکھی تھی میزائل سے نشانہ بنایا۔ اس حملے میں 8 اسرائیلی فوجی ہلاک جبکہ 4 دوسرے زخمی ہو گئے۔ 
 
حزب اللہ لبنان کے جنگجووں نے مشروع الطیبہ کے علاقے میں بھی اسرائیلی فوجیوں کو نشانہ بنانے کیلئے بے شمار خفیہ ٹھکانے بنا رکھے تھے۔ یہ خطہ تقریبا 2 کلومیٹر کی وسعت پر مشتمل تھا۔ اس خطے میں اسرائیلی فوجی حزب اللہ لبنان کے گوریلوں کے محاصرے میں آ چکے تھے اور ان پر چاروں اطراف سے حملے ہو رہے تھے۔ اسی خطے میں حزب اللہ لبنان کے شیردل مجاہدوں نے راکٹوں کے ذریعے اسرائیل کی تقریبا 12 بکتر بند گاڑیاں اور 3 مرکاوا ٹینک تباہ کر دیئے جس کے نتیجے میں وادی الحجیر کے خطے میں ایک ہی دن اسرائیل کے تباہ ہونے والے مرکاوا ٹینکوں کی تعداد 16 تک جا پہنچی۔ جب ٹینک تباہ ہونے شروع ہوئے تو اسرائیلی فوجیوں نے واپس بھاگنا شروع کر دیا لیکن حزب اللہ لبنان کے شجاع جنگجووں کی شدید فائرنگ نے خود اسرائیلی فوجیوں کے بقول ان کیلئے جہنم ایجاد کر دی۔ جھڑپ ختم ہونے کے بعد ہلاک اور زخمی ہونے والے فوجیوں کو لبنانی سرزمین سے خارج کرنے کیلئے خطے میں آنے والی اسرائیلی فوجی ایمبولینسز کا تانتا بندھ گیا۔ اس جھڑپ میں حزب اللہ لبنان کا ایک گوریلا زخمی ہوا جبکہ اس کی مدد کو جانے والے دو دوسرے گوریلے اسرائیلی جنگی طیارے کے میزائل حملے کا شکار ہو کر شہادت کے رتبے پر فائز ہو گئے۔ حزب اللہ لبنان کی جانب سے اعلان کردہ اعداد و شمار کے مطابق الطیبہ معرکے میں اسرائیل کے 30 فوجی ہلاک ہوئے جبکہ 150 اسرائیلی فوجی زخمی بھی ہوئے۔ اس کے علاوہ القنطرہ اور اس کے اردگرد کے علاقوں میں انجام پانے والی جھڑپوں میں بھی 10 اسرائیلی فوجی ہلاک اور 40 دوسرے زخمی ہو گئے۔  
 
وادی الحجیر کے خطے میں اسرائیل کی غاصب صہیونیستی رژیم کے فوجیوں اور حزب اللہ لبنان کے جنگجووں کے درمیان جھڑپیں 33 روزہ جنگ کے آخری دن تک جاری رہیں۔ حتی اس دن جب اقوام متحدہ نے قرارداد نمبر 1701 منظور کی جس میں دونوں فریقوں سے جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا تھا اس خطے میں جھڑپیں جاری تھیں۔ اس قرارداد کی منظوری کے بعد اسرائیلی وزیر جنگ ایہود اولمرٹ نے امریکی صدر جرج بش سے تین دن کی فرصت مانگی تاکہ شائد فوجی حملوں میں شدت لاتے ہوئے دریای لیتانی تک پیش قدمی کرنے میں کامیاب ہو جائے۔ امریکہ کی جانب سے اسرائیل کو یہ فرصت دیئے جانے کے بعد وادی الحجیر پر اسرائیلی حملوں کا دوسرا دور شروع ہو گیا۔ اسرائیلی فوج نے اس مرحلے میں اپنے جاسوسوں کے ذریعے وادی الحجیر میں واقع حزب اللہ لبنان کے خفیہ ٹھکانوں کی شناسائی کرنے کی پوری کوشش کی لیکن اس کی تمام کوششیں ناکامی کا شکار ہو گئیں جس کے نتیجے میں جب بھی اسرائیلی فوج نے پیش قدمی کی کوشش کی حزب اللہ لبنان کی گوریلا حملوں میں اس کے مزید مرکاوا ٹینک تباہی کا شکار ہوئے اور مزید اسرائیلی فوجی مارے گئے۔ حزب اللہ لبنان نے اسرائیلی فوجیوں کے راستے میں لینڈ مائنز بچھا کر اس کے 6 مرکاوا ٹینک اور 2 بلڈورز تباہ کر دیئے۔ خود اسرائیلی فوجی حکام کی جانب سے اعلان کردہ اعداد و شمار کے مطابق اس مرحلے میں اس کی ایک بٹالین آرٹلری مکمل طور پر تباہ ہو گئی۔ 
 
حزب اللہ لبنان کی جانب سے منتشر کئے گئے بیانئے کے مطابق وادی الحجیر پر حملوں کے دوران اسرائیلی فوج کو 15 ہزار فوجیوں اور 90 مرکاوا ٹینکوں کی پشت پناہی حاصل تھی۔ اسرائیلی فوج نے دریای لیتانی تک کے علاقے پر فوجی قبضہ جمانے کی سرتوڑ کوشش کی تاکہ اس طرح میڈیا پر جنگ میں اپنی کامیابی کے ڈھول بجا سکیں لیکن حزب اللہ لبنان کے غیور مجاہدوں نے ان کی آرزووں پر پانی بہا دیا۔ اسرائیلی فوج نے اپنے تمام زمینی حملوں میں ناکامی کے بعد اس مقصد کے حصول کی ایک اور کوشش کی اور الغندوریہ میں چھاتہ بردار فوجی اتارنے کیلئے ایک بڑا فوجی آپریشن انجام دیا۔ لیکن خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ اس مرحلے میں بھی حزب اللہ لبنان کے گوریلوں نے اسرائیلی فوجیوں کو اپنے گھیرے میں لے کر ان کی شدید دھلائی کی جس کے نتیجے میں 15 اسرائیلی فوجی مارے گئے اور باقی بچنے والے اسرائیلی فوجیوں نے بھاگ جانے میں ہی اپنی مصلحت جانی۔ یہ تمام واقعات اقوام متحدہ کی جانب سے قرارداد نمبر 1701 منظور ہو جانے کے بعد انجام پائے۔ آخرکار اسرائیل کی غاصب صہیونیستی رژیم اس قرارداد کی منظوری کے بعد بین الاقوامی حمایت میں لبنان کی دلدل سے باہر نکلنے میں کامیاب ہو گئی۔ 
 
اسرائیلی حکام نے وادی الحجیر کی جھڑپوں میں 33 اسرائیلی فوجیوں کی ہلاکت کا اعتراف کیا اور اس خطے کو اپنے فوجیوں کی سب سے بڑی قتل گاہ کا لقب دیا۔ وادی الحجیر میں مارے جانے والے اسرائیلی فوجیوں میں بعض اہم کمانڈرز اور افسر بھی شامل ہیں۔ اس خطے میں زخمی ہونے والے اسرائیلی فوجیوں کی تعداد سینکڑوں میں ہے جبکہ اسرائیل کے 50 مرکاوا ٹینک اور کئی بلڈوزر بھی اس خطے میں حزب اللہ لبنان کے مجاہدوں کے ہاتھوں نابودی کا شکار ہوئے ہیں۔ اتنی مقدار میں نقصان برداشت کرنے کے باوجود دریای لیتانی پر قبضے کی اسرائیلی آرزو بھی پوری نہ ہو سکی جس کے نتیجے میں اسرائیل کو حزب اللہ لبنان کے خلاف اس چھوٹی سی کامیابی کا پرچار کرنے کا موقع بھی میسر نہ ہو سکا۔
 
عیتا الشعب:
عیتا الشعب وہی خطہ ہے جہاں حزب اللہ لبنان کے جیالوں نے 33 روزہ جنگ سے قبل اپنے کامیاب آپریشن میں دو اسرائیلی فوجیوں کو یرغمال بنایا۔ لہذا اس خطے میں 33 روزہ جنگ کے پہلے دن یعنی 12 جولائی 2006ء سے ہی اسرائیلی فورسز اور حزب اللہ لبنان کے مجاہدوں کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ ان جھڑپوں کا آغاز اس وقت ہوا جب 12 جولائی کی سہ پہر اسرائیل کا ایک مرکاوا ٹینک سرحد عبور کر کے لبنان کی سرزمین میں داخل ہو گیا۔ 65 ٹن وزنی مرکاوا ٹینک جیسے ہی لبنان کی سرزمین میں داخل ہوا حزب اللہ لبنان کے گوریلوں کی جانب سے سڑک کے کنارے نصب شدہ کئی سو کلوگرام بارودی مواد کے پھٹنے سے کئی فٹ ہوا میں اچھل کر گرا اور گرنے کے بعد آگ میں گداختہ سرخ لوہے میں تبدیل ہو گیا۔ ٹینک میں سوار 4 اسرائیلی فوجی موقع پر ہی ہلاک ہو گئے۔ اس دھماکے کے بعد حزب اللہ لبنان کے جنگجووں نے لبنانی سرحد میں داخل ہونے والے اسرائیلی فوجیوں پر گولیاں برسا دیں اور انہیں پسپائی پر مجبور کر دیا۔ 
 
بدھ 2 اگست 2006ء کی صبح اسرائیلی فوج کی جانب سے ابوطویل پہاڑی کی جانب سے عیتا الشعب کے مغربی حصے کی جانب پیش قدمی کے آغاز سے اس خطے میں اسرائیلی جارحیت کا دوسرا مرحلہ شروع ہوتا ہے۔ اسی رات اسرائیلی فوجیوں کا ایک دستہ عیتا الشعب کے شمال مغرب میں واقع ایک اسکول کی عمارت میں مورچہ بند ہو گیا۔ حزب اللہ لبنان نے ہر خطے کیلئے ایک مخصوص دفاعی اسٹریٹجی اختیار کر رکھی تھی اور ساتھ ہی ساتھ دشمن کی ہر حرکت پر کڑی نظریں جما رکھی تھیں۔ اس بار بھی حزب اللہ لبنان کے گوریلوں نے اسرائیلی فوجی دستے کو اپنا نشانہ بنایا۔ نتیجتا اسرائیلی فورسز نے اپنی حکمت عملی تبدیل کرتے ہوئے اپنی پیش قدمی کا رخ عیتا الشعب کے مغرب کی جانب موڑ دیا۔ "حدب" کے خطے میں اسرائیلی فوجیوں اور حزب اللہ لبنان کے جنگجووں کا آمنا سامنا ہو گیا۔ یہ جھڑپ اگلے روز 6٫30 بجے صبح شروع ہوئی اور تقریبا 2٫30 بجے دوپہر تک جاری رہی۔ اسرائیلی فوجی حزب اللہ لبنان کے مجاہدوں کا سامنا کرنے سے گریز کرتے تھے اور ان کی کوشش ہوتی تھی کہ خطے میں واقع گھروں میں پناہ لے لیں۔ اگلی صبح اسرائیلی فوجیوں نے عیتا الشعب کے پرانے حصے کی جانب پیش قدمی کی کوشش کی۔ ہمیشہ کی طرح پہلے اسرائیلی ایئرفورس نے شدید بمباری کی اور اس کے بعد اسرائیلی فوجی اپنے ہدف کی جانب بڑھنا شروع ہو گئے۔ ان اسرائیلی فوجیوں کو آرٹلری کی حمایت حاصل ہونے کے باوجود وہ صرف ایک گھر پر قبضہ کر سکے۔  
 
صبح کے وقت سڑک پر اسرائیلی فوجیوں کے بوٹوں کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔ حزب اللہ لبنان کا ایک مجاہد گھات لگائے بیٹھا تھا اور جیسے ہی اسرائیلی فوجی اس کے قریب پہنچے اس نے پر برسٹ دے مارا۔ اسرائیلی فوجی چیختے چلاتے ہوئے واپس بھاگے اور ایک قریبی گھر (مغربی محلے میں واقع ابوقاسم دقدوق کا گھر) میں مورچہ بند ہو گئے۔ انہوں نے اندر سے گھر کا دروازہ بند کر کے اسے تالا لگا لیا۔ یہ جھڑپ دوپہر تک جاری رہی۔ اسرائیلی فوجی اس گھر میں محصور ہو چکے تھے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ اسرائیلی چھاتہ بردار دستے کا ایک کمانڈر بھی انہیں کے ساتھ موجود تھا جس کی نجات کیلئے اسرائیلی فوج نے دھوئیں والے گولے برسائے۔ کچھ دیر بعد خلہ وردہ برکہ الدرجات خطے کی جانب سے ایک اسرائیلی بلڈوزر ظاہر ہوا اور عیتا الشعب کے مغربی محلے کی جانب بڑھنے لگا۔ اس کے پیچھے پیچھے ایک بکتر بند گاڑی بھی تھی جس میں اسرائیلی فوجی سوار تھے۔ اس حملے کے بعد جبکہ اسرائیلی فوج شدید گولہ باری کر رہی تھی اور کئی اسرائیلی جاسوسی طیارے بھی فضا میں موجود تھے، یہ اسرائیلی فوجی بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔ 
 
4 اگست 2006ء کو اسرائیلی فوج کے کئی دستے عیتا اور دبل کے درمیان واقع خطے الرجم میں سرحد پار کر کے لبنان میں داخل ہو گئے اور پیش قدمی کا آغاز کر دیا۔ حزب اللہ لبنان کے مجاہد انہیں نظر میں رکھے ہوئے تھے اور موقع ملنے پر آگے اور پیچھے سے ان پر راکٹ برسانا شروع کر دیئے۔ تقریبا 100 اسرائیلی فوجی جو زمین پر لیٹے ہوئے تھے نے قریب ہی واقع ایک گیراج کی جانب بھاگنا شروع کر دیا اور اس میں پناہ حاصل کر لی۔ اس موقع پر ایک انتہائی دلچسپ واقعہ رونما ہوا۔ اسرائیلی کمانڈرز نے سمجھا کہ اس کے فوجی واپس اسرائیل کی جانب عقب نشینی کر چکے ہیں لہذا خطے کو 155 میلی میٹر والے گولوں سے شدید گولہ باری کا نشانہ بنا ڈالا۔ اسرائیل آرمی کیلئے یہ ایک معمول کا عمل تھا کہ جب بھی اسرائیلی فوجی عقب نشینی کی حالت میں ہوتے تھے تو شدید گولہ باری کے ذریعے ان کی مدد کرتی تھی۔ لہذا اسرائیلی فوجی ہر طرف سے حزب اللہ لبنان کے جنگجووں کی فائرنگ اور حملوں کا نشانہ بننے کے باوجود گھروں میں نہیں گھستے تھے کیونکہ ڈرتے تھے کہ کہیں اپنی ہی گولہ باری کا شکار نہ ہو جائیں۔ چند دن بعد یعنی 8 اگست کو صبح کے وقت اسرائیلی فوجیوں کے ایک دستے نے ابوطویل گاوں میں پناہ لے رکھی تھی۔ اس دستے میں اسرائیلی فوجیوں کی بڑی تعداد شامل تھی۔ حزب اللہ کمانڈرز کی جانب سے انہیں نشانہ بنانے کی ہدایات دی گئیں۔ حزب اللہ مجاہدوں نے ان پر میزائل سے حملہ کیا جو ٹھیک ان کے درمیان آ کر پھٹا۔ اس حملے میں تقریبا 17 اسرائیلی فوجی ہلاک اور زخمی ہو گئے۔ امدادی کارکنوں نے زخمیوں کو ایک دوسرے گھر میں منتقل کیا جس کا حزب اللہ لبنان کے جنگجووں کو علم ہو گیا۔ حزب اللہ لبنان کے ایک مجاہد نے اس گھر پر دھاوا بول دیا جس میں اسرائیل آرمی کا ایک ڈاکٹر زخمی ہو گیا۔ اسرائیلی فوجیوں نے وہاں سے عقب نشینی کر لی۔ حزب اللہ لبنان کا یہ حملہ اس قدر اچانک تھا کہ اسرائیلی فوجیوں کے وہاں سے بھاگ جانے کے بعد بھی ہلاک شدہ فوجیوں کی لاشیں وہیں پر پڑی رہ گئیں۔ 
 
33 روزہ جنگ کے آخری دنوں میں 12 اگست کو اسرائیلی فوج نے بڑی تعداد میں بلڈوزروں کی مدد سے ایک بار پھر زمینی حملے کا آغاز کر دیا۔ بڑی تعداد میں بلڈوزروں کے پیچھے اسرائیلی فوجیوں نے الجبانہ خطے سے پیش قدمی کا آغاز کر دیا اور راستے میں آنے والے تمام گھروں کو ویران کرنا شروع کر دیا۔ اس حملے میں حزب اللہ لبنان کا کوئی جانی نقصان نہ ہوا لیکن بڑے پیمانے پر گھر مسمار کر دیئے گئے۔ حزب اللہ لبنان کی جوابی کاروائی میں دشمن کے 2 بلڈوزر نابود ہو گئے۔ 13 اگست کو اسرائیلی فوج نے یہ تصور کرتے ہوئے کہ حزب اللہ لبنان کے مجاہد شہید ہو چکے ہیں ایک بار پھر بلڈوزروں کی مدد سے عیتا الشعب پر چڑھائی کر دی۔ اس دن بھی حزب اللہ لبنان کے مجاہدوں نے اسرائیل کا D 11 نامی ایک اور فوجی بلڈوزر تباہ کر دیا۔ اسرائیلی فوج کی پوری کوشش تھی کہ جس طرح بھی ممکن ہو اس جنگ میں ایک چھوٹی سی کامیابی ہی حاصل کر لے اور کم از کم لبنانی قصبے عیتا الشعب پر اسرائیلی پرچم ہی لہرا دے جس سے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرے کہ اس قصبے پر اسرائیل کا قبضہ ہو چکا ہے۔ لیکن اس کی یہ آرزو ہر گز پوری نہ ہو سکی۔ حزب اللہ لبنان کے بہادر جنگجووں نے دنیا کی طاقتورترین اور جدیدترین اسلحہ سے لیس اسرائیلی فوج کو اپنی بہادری اور شجاعت کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔ 
خبر کا کوڈ : 294629
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش