1
0
Thursday 28 Aug 2014 20:49
جنرل کیانی کو ضیاءالحق ثانی کہا جائے تو غلط نہ ہوگا

گلگت بلتستان میں فسادات برپا کرانے میں ایجنسیوں کے افسران کا ہاتھ ہے، حسنین سینگے

گلگت بلتستان میں فسادات برپا کرانے میں ایجنسیوں کے افسران کا ہاتھ ہے، حسنین سینگے
حسنین سینگے سیرنگ کا تعلق گلگت بلتستان کی وادی شگر سے ہے۔ اسوقت انسٹیٹیوٹ فار گلگت بلتستان اسٹیڈیز کے صدر کی حیثیت سے فرائض سرانجام دے رہے ہیں جو امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں قائم ہے۔ یہ ادارہ گلگت بلتستان میں ہونے والی سیاسی، معاشی، معاشرتی اور ماحولیاتی تبدیلیوں پر تحقیق کرتا ہے اور مقامی لوگوں، آب و ہوا اور وسائل پر تغیرات کا جائزہ لیتا ہے۔ اسلام ٹائمز نے آپ سے گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کے حوالے ایک تفصیلی انٹرویو کیا ہے جو اپنے محترم قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ گلگت بلتستان بالخصوص بلتستان میں جتنی زمینیں عوام کے قبضے میں نہیں ہیں اسے خالصہ سرکار قرار دیا جاتا ہے اور انتظامیہ اس پر قبضہ کرتی ہے، اس خالصہ سرکاری کی کہانی کیا ہے اور متنازعہ علاقے کی سرزمین کیا انتظامیہ کی ہو سکتی ہے۔؟

حسنین سینگے: سرکار خالصہ یا خالصہ سرکار سکھ حکومت مہاراجہ رنجیت سنگھ نے پنجاب کے مختلف راجاوں کو متحد کر کے قائم کی۔ یہ حکومت پچاس سال قائم رہی اس دور میں زمین حکومت کے قبضے میں رہی اس کو خالصہ سرکار زمین کہتے ہیں، خالصتان یعنی سکھوں کی سرزمیں کی تحریک بھی اسی لفظ سے منسوب ہے جس میں سکھ اپنی زمین پر اپنے اختیار اور حکومت کا دعوی کرتے ہیں۔ جموں و کشمیر بھی مہاراجہ رنجیت سنگھ کی ملکیت تھا جو بعد میں ڈوگرہ مہاراجہ گلاب سنگھ منہاس کو منقل ہو گیا۔ یہاں یہ بات بتانا چاہوں گا کہ ڈوگروں نے کشمیر پر تصرف حاصل کرنے سے پہلے بھی بلتستان اور لداخ پر قبضہ حاصل کر لیا تھا۔ 1948ء تک بلتستان اور لداخ صوبہ جموں کا حصہ رہے۔ گلگت بلتستان اور لداخ کے مقامی راجاوں سے زمین کی ملکیت چھین کر ڈوگرا مہاراجہ اس کے مالک بن گئے۔ مقامی راجاوں کی تنزلی کر کے ان کو زمین دار اور جاگیر کا خطاب دیا گیا۔ ڈوگرا مہاراجہ کی مرضی تھی کہ وہ ایک زمیندار سے زمین لے کر دوسرے کو دیتے اس کے برعکس ہنزہ، نگر اور چترال کے راجاوں کو اپنی زمین پر حق ملکیت حاصل تھا۔ آسان الفاظ میں سرکاری زمین کو خالصہ زمین کہتے تھے، ڈوگروں کے جانے بعد گلگت بلتستان کی حکومت خالصہ سرکاری پر ملکیت کا دعوی کر سکتی ہے۔

اسلام ٹائمز: آپ جانتے ہیں کہ گلگت بلتستان میں دو سالوں سے خون کی ہولی کھیلی گئیں بالخصوص سانحہ کوہستان، بابوسر، چلاس اور گلگت میں فرقہ واریت کو بھی بڑھکایا گیا۔ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ ان کے پیچھے کیا عوامل کارفرما تھے اور کیا یہ جتنے فتنے برپاء کیے گئے ہیں اسکے نتائج مطلوبہ ذمہ داروں کو مل سکیں ہیں۔؟
حسنین سینگے: پچھلے تین سالوں میں شیعہ افراد پر حملے کافی زیادہ ہوئے ہیں، میں انکو فرقہ ورانہ فسادات نہیں سمجھتا کیوںکہ پاکستان کی یا گلگت بلتستان کے سنی اور اہلحدیث برادری اس قتل عام کی حمایت نہیں کرتی۔ شیعہ قاتل پشاور گروپس ہیں اور ان کو اہم ایجنسیوں کے افسران کی حمایت حاصل ہے۔ جنرل پرویز کیانی کے دور میں ان گروہوں کو حوصلہ ملا اس بارے میں اب کتابیں بھی شائع ہو چکی ہیں۔ شیعہ قتل عام کے حوالے سے اگر جنرل کیانی کو ضیاءالحق ثانی کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ ان کے دور میں پاکستان کے مختلف کونوں خاص کر بلوچستان اور قبائلی علاقوں میں شیعہ قتل کھلے عام ہوتے رہے۔ مزید یہ کہ اسی دور میں پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں شیعہ کے قاتلوں کو مضبوط کیا گیا۔ طالبان نے پاراچنار کا تین سال محاصرہ کیے رکھا اور عورتوں اور بچوں پر خوراک اور ادویات کی بندش کر دی گئی۔ کئی سال تک پاراچنار، غزہ اور فلسطین کی طرح سسکتا رہا مگر افواج اور حکومت دونوں خاموش رہیں۔ اس عرصے میں کئی ہزار پاراچناری قتل ہوئے۔ اسی طرح کوئٹہ میں ہزارہ شیعہ افراد پر حملوں میں تیزی بھی اسی دور میں آئی۔ گلگت بلتستان میں بھی طالبان، لشکر جھنگوی اور ان کے حواریوں نے حملے کیے۔ بہت سے حواریوں نے حملے کیے، بہت سے مطلوب افراد گلگت بلتستان کے جنگلوں میں چھپے رہے مگر بقول پولیس افسران کے وہ انکو گرفتار نہیں کر سکتے تھے کیونکہ ایجنسیوں کی مخالفت کا سامنا تھا۔ گلگت شہر میں بھی مذہبی مسائل پیدا کرنے میں یہاں موجود پاکستانیوں کا ہاتھ ہوتا ہے۔ معاشرے کو تقسیم کر کے افراد میں دوریاں پیدا کر کے گلگت بلتستان کو قابو میں رکھنے میں آسانی ہوتی ہے۔ یعنی تقسیم کرو اور حکومت کرو کی پالیسی آج بھی مستعمل ہے جو انگریز سرکار استعمال کرتے تھے۔

ایک متنازعہ علاقہ ہونے کی وجہ سے پاکستانی ایجنسیاں یہاں بہت فعال ہیں اور ایک طرح سے عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ گلگت بلتستان پاکستان اور چائنہ کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کرتا ہے اس علاقے کو اپنے ہاتھ میں رکھنا پاکستان کی مجبوری ہے، گلگت بلتستان کے اہم محل وقوع کی وجہ سے یہ علاقہ افغانستان اور انڈیا میں جہاد کے لیے بہت موزوں ہے چونکہ مقامی لوگوں کی اکثریت جہادی طبقہ اور جتھے مقامی لوگوں کو پسند نہیں کرتے اور اپنی راہ میں رکاوٹ کے طور پر دیکھتے ہیں۔ جہادیوں کی ہر وقت یہی سوچ ہوتی ہے کہ اسی طرح اس رکاوٹ کو یا تو ختم کیا جائے کہ وہ ان کو چیلنج نہ کر سکیں شیعہ سنی فسادات کرا کر مقامی سنی بھائیوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ باہر سے آئے لوگوں کو یہاں آباد کرنے کے لیے مقامی لوگ معاونت کریں اور جہادی لوگوں کی پشت پناہی کریں یہ سارے کام ایک طویل مدتی سوچ اور منصوبہ بندی کے تحت انجام پاتے ہیں۔ مختصر یہ کہ پاکستان میں شیعہ قتل عام کو آپ سیاسی مسئلہ کہہ سکتے ہیں نہ کہ فرقہ وارانہ فسادات۔

اسلام ٹائمز: گلگت بلتستان میں ملک کے دیگر پاکستان کے خطوں کی طرح دہشت گردی کی واردات نہیں ہو رہی ہیں بالخصوص بلتستان میں اس قسم کے واقعات پیش نہیں آ سکے ہیں۔ اس سلسلے میں کیا طالبان اور دیگر دہشت گردوں کی رسائی اس علاقے میں نہیں ہے یا کوئی اور مسئلہ ہے۔ واضح رہے کہ شاہراہ قراقرم پر ہونے والے سانحات اور گلگت میں جاری ٹارگٹ کلنگ کو طالبان کی کارستانی سے منہا کیا گیا ہے۔؟

حسنین سینگے: بلتستان میں شیعہ سنی فسادات کی بہت کوشش ہے لیکن مقامی لوگوں کا اتحاد مثالی ہے۔ آپس میں رشتے ناطے ہیں اور مسائل گفت و شنید سے حل ہوتے ہیں پاکستان دوسرے علاقوں کے برعکس یہاں شیعہ نوربخشیہ فسادات ہوئے ہیں اور حالیہ دنوں میں نوربخشی گروہوں میں چپقلش ہوئی ہے مگر ان فسادات کو آپ قتل عام نہین کہہ سکتے مذہب کے حوالے سے اختلاف رائے رکھنا ہر انسان کا حق ہے اور اس اختلاف کا بات چیت کے ذریعے اظہار کرنا بہتر ہے نہ کہ مار دھاڑ کے ذریعے۔ ماضی میں بلتستان میں ایجنسیوں نے جہادی کیمپ قائم کیے۔ 1998ء میں اسکردو شہر میں بھی جہادیوں کو رہائش فراہم کی گئی مگر مقامی لوگوں نے انکو نکال باہر کیا۔ کبھی چھوربٹ کے دور افتادہ علاقے میں حکومت کی نگرانی میں کیمپ لگا رکھے تھے جو کہ یا تو بند ہوگئے ہونگے یا پھر انکو گلگت بلتستان کی کسی اور وادی میں منقتل کر دیا ہوگا۔ بلتستان میں جہادیوں کو مقامی سطح پر وہ حمایت حاصل نہ ہو سکی جس کی توقع کرتے تھے پھر یہاں پر پاکستان سے آکے بسنے والوں کی ہی نہ ہونے کے برابر ہے۔

اسلام ٹائمز: گلگت بلتستان کے آئندہ انتخابات بھی بہت اہمیت کا حامل ہے اس سلسلے میں آپ گلگت بلتستان کی آئندہ انتخابات کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
حسنین سینگے: گلگت بلتستان کے انتخابات میں وہی گروہ جیتتا ہے جسکو اسلام آباد میں قائم حکومت جماعت کی حمایت حاصل ہو۔ اگر اسلام آباد میں پاکستان مسلم لیگ نون یا پی پی پی کی حکومت ہے تو یہاں بھی جوڑ توڑ کے ذریعے انکی حکومت بنے گی۔ مقامی لوگوں کو بھی پتہ ہے کہ علاقے کو فنڈز کی ضرورت ہوتی ہے اور اسلام آباد سے  دشمنی کر کے فنڈز مل نہیں سکتے پھر  سیاست مداروں کی ذاتی اغراض بھی ہیں۔ البتہ ایک دفعہ پی ایم ایل این کو یہاں پر مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔ پاکستان اور ملٹری کے درمیان موجود دوری کا فائدہ دوسری جماتیں لے سکتی ہیں۔ اگر پی ایم این کو محسوس ہوا کہ وہ اکثریت حاصل نہیں کر سکتی یا جوڑ توڑ سے  گلگت میں حکومت نہیں بنا پائے گی تو ہو سکتا ہے کہ وزیراعلٰی کی بات مان کر انتخابات اگلے سال 2015ء تک ملتوی ہو جائیں۔ گلگت بلتستان آرڈیننس کے تحت چل رہا تھا اس کی مدت بھی ختم ہو گئی، پاکستان مسلم نون پر دباو ہے کہ وہ گلگت بلتستان کو ایک ایسا نظام حکومت دے جو پی پی پی کے صدارتی فرمان سے بہتر ہو۔ اس سلسل میں اٹھایا گیا قدم  بھی ان کے گلگت بلتستان میں مستقبل کا فیصلہ کرے گا۔ گلگت بلتستان کا پاکستان کا  حصہ نہ بننا مقامی لوگوں میں غصے اور مایوسی کا باعث بن رہا ہے اور  پی ایم ایل این نے گلگت بلتستان کو آنے والے  مہینوں میں تسلی بخش نظام  حکومت نہ دیا اور آئینی تحفظ فراہم  نہ کیا تو وفاق پرست جماعتوں کے لیے گلگت بلتستان میں مشکلات اور نفرت  بڑھ جائے گی۔
خبر کا کوڈ : 407128
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
Khob he
ہماری پیشکش