1
0
Tuesday 1 Apr 2014 00:06

کلام فاطمہ سلام اللہ علیہا (حصہ اول)

کلام فاطمہ سلام اللہ علیہا (حصہ اول)
تحریر و ترتیب: سیدہ ایمن نقوی
 
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا  کی زندگی بہت مختصر لیکن عظیم اخلاقی اور معنوی دروس و فضائل کی حامل تھی۔ یہ عظیم الشان خاتون اسلام کے ابتدائی دور میں مختلف مراحل میں رسول اکرم (ص) اور حضرت علی (ع) کے ساتھ رہیں۔ آپ نے حضرت امام حسن (ع) اور حضرت امام حسین (ع) جیسے صالح فرزندوں کی تربیت کی کہ جو رسول اکرم (ص) کے قول کے مطابق جوانان جنت کے سردار ہیں۔  حضرت فاطمہ زہرا (س) کی عظیم شخصیت کے بارے میں دنیا کے بہت سے دانشوروں نے اظہار خیال کیا ہے اور آپ کو ایک مسلمان عورت کا جامع اور مکمل نمونہ قرار دیا ہے، خود رسول اکرم (ص) نے آپ کو "سیدۃ نساء العالمین" قرار دیا ہے۔ متاسفانہ جب ہم تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو بی بی دو عالم کے بارے ہمیں اتنی معلومات نہیں ملتیں جتنی ملنی چاہیئیں تھیں، کیونکہ آپ نے اپنی زندگی رسول خدا (ص) اور انکے ولی علی مرتضٰی (ع) کیساتھ گزاری ہے، آپ علم کا سمندر تھیں، گو کہ اس سمندر کے چند قطرے ہمیں نصیب ہوئے ہیں لیکن اگر ان قطرات پر بھی غور کیا جائے اور انہیں اپنے لئے اسوہ بنا لیا جائے تو ہر قطرہ اپنی ذات میں ایک سمندر نظر آتا ہے۔ جناب سیدہ سلام اللہ علیہا سے متعلق چند روایات اپنے قارئین کی نذر کرتے ہیں، اس امید کیساتھ کہ اگر ایک قاری بھی کسی ایک روایت کو اپنی زندگی میں شامل کرے گا تو یقیناً بی بی کا لطف کرم بندہ حقیر کے بھی شامل حال ہو گا۔

1۔ عبادت ميں خلوص کے فوائد
 قالت فاطمة الزهراء سلام الله عليها، من أصعد إلی الله خالص عبادته، أهبط الله عزوجل إليه أفضل مصلحته.
 سیدہ سلام اللہ نے فرمايا، جو شخص اپنی خالص عبادت خداوند متعال کی بارگاہ ميں پيش کرتا ہے (اور صرف اس کی رضا کے لئے عمل کرتا ہے) خدا بھی اپنی بہترين مصلحتيں اس پر نازل فرما کر اس کے حق ميں قرار ديتا ہے۔ (تحف العقول)
 
2۔ حب اہلبیت علیہم السلام میں مرنا شہادت ہے:
عَنْ فَاطِمَةُ بِنْتَ موسَى بْن  جَعْفَر (ع)... عَنْ فَاطِمَةَ بِنْت ِرَسُول ِاللّهِ صَلَّى اللّه عَلَيه ِوَ آلِهِ وِ سَلَّمَ ، قالَتْ (سلام الله عليها): قَالَ رَسُولُ اللّه ِصَلَّى اللّه ِعَلَيه ِوَ آلِه ِوَ سَلَّمَ : «ألا مَنْ ماتَ عَلى حُبِّ آل ِمُحَمَّد ماتَ شَهِيداً.
 حضرت فاطمہ معصومہ (س) حضرت امام موسی کاظم (ع) کی بيٹی ايک روايت نقل کرتی ہيں جس کا سلسلہ سند حضرت فاطمہ زہرا (س) تک پہنچتا ہے۔ حضرت زھراء (س) فرماتی ہيں کہ حضرت رسول اکرم (ص) نے فرمايا، «آگاه رہو ! جو شخص آل محمّد کی محبت کے ساتھ مرے وہ شہيد مرا ہے۔ (عوالم العلوم، ج 21، ص 353 )
 
3۔ علی (ع) کا محب سعادتمند و خوشبخت ہے:
قالَتْ (فاطمہ سلام الله عليها)، ان السعيد، کل السعيد، حق السعيد من أحب عليا فی حياته و بعد موته۔
 فرمايا، بے شک حقيقتا خوشبخت ہے اور مکمل سعادتمند شخص وہ ہے جو امام علي عليہ السلام سے آپ (ع) کی حيات ميں اور بعد از حيات، محبت رکھے۔  (شرح نهج البلاغه ج 2، ص 449 مجمع الزّوائد، ج 9، ص 132)
 
4۔ آل محمد (ص) كا تعارف:
قالَتْ (سلام الله عليها) نحن وسيلته في خلقه و نحن خاصته و محل قدسه و نحن حجته في غيبه و نحن ورثه أنبيائه۔
فرمايا ہم اہل بيت رسول خدا (ص) خدا كے ساتھ مخلوقات كے ارتباط كا وسيلہ ہيں؛ ہم خدا كی برگزيدہ ہستياں ہيں اور نيكيوں كا مقام اعلٰی ہيں، ہم خدا كی روشن دليليں ہيں اور انبياءاللہ كے وارث ہيں۔ (شرح‌ نہج‌ البلاغه‌، ج‌ 16 ،ص‌ 211)۔
 
5۔  قرآنی سورتوں کی تلاوت کا ثواب:
قالَتْ (سلام الله عليها) قاریءُ الحديد، و اذا وقعت، و الرحمن، يدعی فی السموات و الارض، ساکن الفردوس۔
فرمايا، سورة الحديد، سورة الواقعه اور سورة الرحمن كی تلاوت كرنے والے لوگ آسمانوں اور روئے زمين پر جنتی كہلاتے ہيں۔ (کنزالعمال، ج‌ 1، ص582)۔

6۔ بہترين و اور قابل قدرترين افراد:
قالَتْ (سلام الله عليها) خيارکم الينکم مناکبة و اکرمهم لنسائهم۔
فرمايا، تم ميں سے بہترين وہ ہے جو لوگوں کا سامنا کرتے وقت زياده نرم اور زياده مہربان ہو اور تم ميں سے بہترين مرد وہ ہيں جو اپنی بيويوں کے ساتھ زيادہ مہربان اور زياده بخشنے والے ہوں۔ (دلال الامامه، ص76 و کنزالعمال ، ج‌ 7، ص225) 
 
7۔ مؤمنين کے لئے پسنديدہ چيزيں:
قالَتْ (سلام الله عليها) حبب الی من دنياکم ثلاث، تلاوة کتاب الله و النظر في وجه رسول و الانفاق في سبيل الله۔
 فرمايا، تمہاری دنيا ميں ميری پسنديدہ چيزيں تين ہيں، تلاوت قرآن
 رسول خدا (ص) کے چہرہ مبارک کی طرف ديکھنا اور خدا کی راہ ميں انفاق و خيرات کرنا۔ (وقايع الايام خيابانی، جلد صيام، ص295) 
 
8۔ اہلبيت (ع) ک اطاعت و امامت کے فوائد:
قالَتْ (سلام الله عليها)، فجعل الله...اطاعتنا نظاما للملة و امامتنا أمانا للفرقة۔
فرمايا، خدا نے ہم اہلبيت کی اطاعت و پيروی امت اسلامی کو سماجی نظم کا سبب قرار ديا ہے اور ہماری امامت و رہبری کو اتحاد و يکجہتی کا سبب اور تفرقے سے امان قرار ديا ہے۔ (بحار الانوار، ج 43، ص 158) 
 
9۔ ايمان اور نماز کے فوائد:
قالَتْ (سلام الله عليها) فجعل الله الايمان تطهيرا لكم من الشرك ، و الصلاة تنزيها لكم عن الكبر۔
فرمايا خدائے تعالي نے ايمان کو تمہارے لئے شرک سے پاکيزگي کا سبب قرار ديا اور نماز کو تکبر اور خودخواہي اور خودپرستي سے دوري کا عامل۔ (احتجاج طبرسي،ج1،ص258)
 
10۔ امام کي مثال کعبہ کي مثال ہے:
قالَتْ (سلام الله عليها) مَثَلُ الإمام مَثل الكَعبة إذ تُؤتي وَ لا تَأتي۔
حضرت فاطمہ زہرا (عليہا السلام) نے روايت کی ہے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمايا، امام، کعبہ کي مانند ہے لوگوں کو امام کي جانب جانا اور رجوع کرنا پڑتا ہے جبکہ امام کسي کے پاس نہيں جاتا (لوگوں کو امام کي خدمت ميں حاضر ہونا پڑتا ہے، چنانچہ امام کے اپنے پاس آنے کي توقع نہيں کرني چاہیئے۔ (بحار الانوار، ج 36، ص 353)
 
11۔ صبر و جہاد کي ثمرات:

قالَتْ (سلام الله عليها): جعل الله ... الجهاد عز للإسلام، و الصبر معونة علي استيجاب الأجر۔
فرمايا، خداوند متعال نے جہاد کو اسلام کي عزت و ہيبت کا سبب اور صبر و استقامت کو حق تعالي کے انعام و جزا کے استحقاق کا باعث قرار ديا ہے۔ (احتجاج طبرسي، ج 1، ص 258)
 
12۔ ايمان و عدل کے ثمرات:
قالَتْ (سلام الله عليها)، فَفَرَضَ اللّه‏ُ الايمانَ تَطهيرا مِنَ الشِّركِ... وَ العَدلَ تَسكينا لِلقُلوبِ۔
فرمايا، خداوند متعال نے ايمان کو شرک سے پاکيزگي کے لئے واجب کيا اور ... عدل و انصاف کو قلوب کي تسکين کے لئے۔ (من لايحضره الفقيه، ج 3، ص 568)۔
 
13۔ علي (ع) فرشتوں كے بھي قاضي:
عن عَبْدُ اللّهِ بْنِ مَسْعُود، فالَ: أتَيْتُ فاطِمَةَ صَلَواتُ اللّهِ عَلَيْها، فَقُلْتُ: أيْنَ بَعْلُكِ؟ فَقالَتْ (عليها السلام): عَرَجَ بِهِ جِبْرئيلُ إلَى السَّماءِ، فَقُلْتُ: فيما ذا؟ فَقالَتْ: إنَّ نَفَراً مِنَ الْمَلائِكَةِ تَشاجَرُوا فى شَيْىء، فَسَألُوا حَكَماً مِنَ الاْدَمِيّينَ، فَأَوْحىَ اللّهُ إلَيْهِمْ أنْ تَتَخَيَّرُوا، فَاخْتارُوا عَليِّ بْنِ أبي طالِب (عليه السلام)۔
عبداللّہ بن مسعود کہتے ہيں، ايک روز ميں حضرت فاطمہ زہراء (س) کي خدمت ميں حاضر ہوا اور پوچھا، آپ کے خاوند (علي عليہ السلام) کہاں ہيں؟ فرمايا، جبرئيل کے ہمراہ آسمانوں کي جانب عروج کرکے گئے ہيں۔ ميں عرض کيا: کس مقصد کي لئے؟ فرمايا، ملائکة اللہ کے درميان نزاع واقع ہوا ہے اور انہوں نے اللہ سے التجا کي ہے کہ انسانوں ميں سے ايک فرد ان کے درميان فيصلہ اور قضاوت کرے؛ چنانچہ خداوند متعال نے فرشتوں کو وحي بھيجي اور ان کو قاضي کے انتخاب کا اختيار ديا اور انہوں نے حضرت علىّ بن ابى طالب (عليہ السلام) کا انتخاب کيا۔ (اختصاص شيخ مفيد: ص 213، س 7، بحارالأنوار: ج 37، ص 150، ح 15).
 
14.امام علي عليہ السلام کا تعارف
قالَتْ (عليها السلام) وَهُوَ الإمامُ الرَبّانى، وَالْهَيْكَلُ النُّورانى، قُطْبُ الأقْطابِ، وَسُلالَةُ الاْطْيابِ، النّاطِقُ بِالصَّوابِ، نُقْطَةُ دائِرَةِ الإمامَةِ۔
فرمايا، علي ابن ابي طالب عليہ السلام الہي پيشوا، نور اور روشني کا پيکر، تمام موجودات اور عارفين کا مرکز توجہ اور طاہرين و طيبين کے خاندان کے پاک و طيب فرزند ہيں؛ حق بولنے والے متکلم ہيں (بولتے ہيں تو حق بولتے ہيں)، اور ہدايت دينے والے راہنما ہيں؛ وہ امامت و قيادت کا مرکز و محور ہيں۔ (رياحين الشّريعة: ج 1، ص 93).
 
15۔ محمد و علي امت کے باپ:
قالَتْ (عليها السلام): أبَوا هِذِهِ الاْمَّةِ مُحَمَّدٌ وَ عَلىٌّ، يُقْيمانِ أَودَّهُمْ، وَ يُنْقِذانِ مِنَ الْعَذابِ الدّائِمِ إنْ أطاعُوهُما، وَ يُبيحانِهِمُ النَّعيمَ الدّائم إنْ واقَفُوهُما۔
فرمايا، حضرت محمّد صلى الله عليہ وآلہ و سلم اور علىّ عليہ السلام دونوں، اس امت کے باپ ہيں اور اگر اہل امّت ان کي پيروي کريں تو وہ (دو باپ) ہرگز انہيں دنياوي انحرافات کا شکار نہيں ہونے ديں گے اور انہيں آخرت کے دائمي عذاب سے نجات ديں گے اور انہيں جنت کي فراوان نعمتوں سے بہر مند کرديں گے۔ (تفسير الإمام العسکرى (عليه السلام): ص 330، ح 191، بحارالأنوار: ج 23، ص 259، ح 8)
 
16۔ شيعيان اہلبيت کے حق ميں سيدہ کي دعا:

قالَتْ (سلام الله عليها) إلهى وَ سَيِّدى، أسْئَلُكَ بِالَّذينَ اصْطَفَيْتَهُمْ، وَ بِبُكاءِ وَلَدَيَّ فى مُفارِقَتى أَنْ تَغْفِرَ لِعُصاةِ شيعَتى، وَشيعَةِ ذُرّيتَى۔
فرمايا، خداوندا! تيرے برگزيدہ (منتخب) اولياء اور مقربين کے صدقے اور تجھے ميري شہادت کے بعد ميري جدائي ميں ميرے بچوں کے گريہ و بکاء کے واسطے، التجاء کرتي ہوں کہ تو ميرے اور ميري اولاد کے گنہگار شيعوں کے گناہ بخش دے۔ (کوکب الدّرىّ: ج 1، ص 254)۔
 
17۔ شيعہ کون ہے؟
قالَتْ (سلام الله عليها)، شيعَتُنا مِنْ خِيارِ أهْلِ الْجَنَّةِ وَكُلُّ مُحِبّينا وَ مَوالى اَوْليائِنا وَ مُعادى أعْدائِنا وَ الْمُسْلِمُ بِقَلْبِهِ وَ لِسانِهِ لَنا۔
فرمايا، ہمارے شيعہ اور پيروکار اور اسي طرح ہمارے محبين اور ہمارے دوستوں کے دوست اور ہمارے دشمنوں کے دشمن اور قلب و زبان کے ذريعے ہمارے سامنے سرتسليم خم کرنے والے لوگ جنتيوں ميں بہترين افراد ہونگے۔ (بحارالأنوار: ج 68، ص 155، س 20، ضمن ح 11)۔
 
18۔ اگر بیگناه مبتلا نہ ہوتے بددعا ديتي
قالَتْ (سلام الله عليها): وَاللّهِ يَابْنَ الْخَطّابِ لَوْلا أنّى أكْرَهُ أنْ يُصيبَ الْبَلاءُ مَنْ لا ذَنْبَ لَهُ، لَعَلِمْتَ أنّى سَأُقْسِمُ عَلَى اللّهِ ثُمَّ أجِدُهُ سَريعَ الاْجابَةِ۔
فرمايا، اے خطّاب کے بيٹے! قسم خدا کي، اگر ميں ناپسند نہ کرتي که خدا کا عذاب کسي بے گناه پر نازل ہو جائے خداوند عالم کو قسم ديتي اور بددعا ديتي اور تم ديکھ ليتے کہ ميري دعا کتني جلد قبول ہوتي ہے۔ 1۔ (اصول کافى: ج 1، ص 460، بيت الأحزان: ص 104، بحارالأنوار: ج 28، ص 250، ح 30)
 
19۔ ميں ہرگز تم سے نہ بولوں گي:
قالَتْ (سلام الله عليها)، وَاللّهِ! لا كَلَّمْتُكَ أبَداً، وَاللّهِ! لاَدْعُوَنَّ اللّهَ عَلَيْكَ فى كُلِّ صَلوة۔
سيدہ کے گھر پر حملہ ہوا تو آپ نے خليفہ اول سے مخاطب ہوکر فرمايا، خدا کي قسم! ابد تک تم سے نہ بولوں گی؛ خدا کی قسم ہر نماز ميں تمہيں بددعا ديتی رہوں گی۔2 ۔ (صحیح مسلم: ج 2، ص 72، صحيح بخارى: ج 6، ص 176)۔
 
(2۔1۔ ايک طرف سے سيدہ (س) نے ابن خطاب سے مخاطب ہوکر فرمايا ہے که ميں اگر بےگناہوں پر آفت نازل ہونے کو ناپسند نہ کرتي تو بددعا ديتي اور آپ نے کسي ضمير کا استعمال نہيں کيا ہے جس کا مطلب يہ ہے کہ بي بي سارے ظالمين و غاصبين کے لئے اجتماعي بددعا نہيں دينا چاہتي تھيں ورنہ اس کے نتيجے ميں خشک و تر جل کر راکھ ہو جاتا جبکہ بعد کي حديث ميں خليفہ اول سے مخاطب ہوکر فرماتي ہيں کہ خدا کي قسم ميں ہر نماز ميں تمہيں بددعا ديتي ہوں اور اس بددعا سے مراد انفرادي بددعا ہے اور بزرگان دين اور انبياء و اوصياء کي انفرادي بددعا کا تعلق عام طور پر آخرت سے ہوتا ہے واضح ہے کہ انکي دعا کبھي رد نہيں ہوتي)۔ 
 
20۔ تم نےمجھے ناراض و غضبناک کيا ہے:
قالَتْ (سلام الله عليها)، إنّى أُشْهِدُ اللّهَ وَ مَلائِكَتَهُ، أنَّكُما اَسْخَطْتُمانى، وَ ما رَضيتُمانى، وَ لَئِنْ لَقيتُ النَبِيَّ لأشْكُوَنَّكُما إلَيْهِ۔
(جب خليفہ اول و دوم سيدہ (س) کي عيادت کے لئے آئے تو آپ (س) نے حديث نبوي «من اسخط فاطمة فقد اسخطني... » کي صحت کا اقرار لينے کے بعد) فرمايا ميں خدا اور اس کے فرشتوں کو گواہ بناتي ہوں کہ تم نے مجھے غضبناک کيا اور تم نے مجھے خوشنود نہ کيا اور جب ميں رسول اللہ (ص) سے ملوں گي آپ (ص) سے تم دونوں کي شکايت کروں گي. (بحارالأنوار: ج 28، ص 303، صحيح مسلم: ج 2، ص 72، بخارى: ج 5، ص 5)۔
خبر کا کوڈ : 367727
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ماشاءاللہ
اللہ تعالٰی اس مظلوم بی بی کے وسیلے آپکی ان نیکیوں کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائیں۔ آمین
متعلقہ خبر
ہماری پیشکش