0
Wednesday 1 Oct 2014 09:31

سرکردہ مذہبی رہنما اور سیاستدان مولانا افتخار حسین انصاری نہ رہے، نماز جنازہ میں لاکھوں لوگوں کی شرکت

سرکردہ مذہبی رہنما اور سیاستدان مولانا افتخار حسین انصاری نہ رہے، نماز جنازہ میں لاکھوں لوگوں کی شرکت
اسلام ٹائمز۔ معروف شیعہ رہنما، مذہبی سکالر، شعلہ بیان مقرر اور تاجر مولوی افتخار حسین انصاری طویل علالت کے بعد 72 برس کی عمر میں انتقال کرگئے، وہ فی الوقت قانون ساز اسمبلی میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے حلقہ انتخاب پٹن سے ممبر تھے، مرحوم کا تعلق کشمیر کے ایک معروف روحانی خانوادے سے تھا اور وہ فرقہ قدیمی کے روحانی پیشوا تھے 1942ء میں سرینگر کے پائین علاقے خانقاہ سوختہ میں پیدا ہوئے مولوی افتخار 1957ء میں کمسنی میں ہی اپنے والد مولوی محمد جواد کے انتقال کے بعد اپنے فرقہ کے سربراہ مقرر ہوئے، مذہبی تعلیم کے حصول کیلئے انہیں 1958ء میں سلطان المدارس لکھنئو میں داخل کیا گیا جہاں سے انہوں نے عربی اور فارسی کی اعلیٰ ڈگری صدر الافاضل حاصل کی، یوپی بورڈ سے عربی اور فارسی میں امتحانات سے فراغت حاصل کرکے مرحوم کو فقہ کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کیلئے نجف اشرف عراق بھیجا گیا جہاں انہوں نے اپنے وقت کے جید علماء و مجتہدین آقائے شہرودی، آقائے رضا گلپایگانی، آیت اللہ آقائے محسن حکیم اور دیگر علماء سے 10 سال تک دینی تعلیم حاصل کی ، 1968ء میں عراق سے واپسی کے بعد انہیں جموں و کشمیر شیعہ ایسوسی ایشن کا سربراہ بنایا گیا، مرحوم 5 زبانوں جن میں کشمیری کے علاوہ اردو، فارسی، عربی اور انگریزی شامل ہیں، پر مکمل دسترس رکھتے تھے، مولانا افتخار انصاری ابتداء سے ہی مختلف حوالوں سے سیاست کے ساتھ وابستہ رہے اور 1964ء میں تحریک موئے مقدس کے دوران ایکشن کمیٹی اور 1969ء میں شیخ محمد عبداللہ کی طرف سے بلائے گئے سٹیٹ پیپلز کنونشن میں بھی وہ ممبر رہے، جو ان کے سیاسی کیریئر کا باضابطہ آغاز تصور کیا جاتا ہے۔

1972ء میں جب ریاست کے اندر سید میر قاسم کی سربراہی میں کانگریس کی حکومت قائم تھی، تو مرحوم کو قانون ساز کونسل کا رکن منتخب کیا گیا تاہم 1976ء میں وہ کانگریس سے مستعفیٰ ہوئے اور بیگم شیخ محمد عبداللہ کے خلاف حلقہ انتخاب سرینگر سے بطور آزاد امیدوار الیکشن میں حصہ لیا، 1977ء میں جب ملک میں ایمرجنسی کا نفاذ عمل میں لاکر نئے انتخابات کروائے گئے تو مولوی افتخار انصاری نے جنتا پارٹی میں شمولیت کرکے اسمبلی حلقہ پٹن سے الیکشن لڑا تاہم وہ کامیاب نہیں ہوسکے ، 1983ء اور 1996ء میں وہ اسی حلقہ سے کامیاب ہوئے اور 1996ء میں ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی وزارت میں مکانات و شہری ترقی کے وزیر رہے، انہوں نے 2002ء میں نیشنل کانفرنس اور پھر 2008ء میں پی ڈی پی کی ٹکٹ پر بھی اس حلقہ سے کامیابی حاصل کی، مرحوم ریاستی کابینہ کے 3 بار وزیر رہے، مرحوم فی الوقت پی ڈی پی کے نائب صدر بھی تھے، موصوف کی رہائش گاہ پر ہمیشہ ریاست کے طول و عرض سے آنے والے معتقدین اور مریدین کا تانتا بندھا رہتا تھا، مرحوم مذہب اور سیاست کے ساتھ ساتھ ایک کامیاب تاجر بھی تھے، وہ انصاری موٹرس اور انصاری ٹویوٹا کے مالک اور امام حسین (ع) ہسپتال و میڈیکل کالج ہمدانیہ کالونی بمنہ سرینگر کے چیئرمین بھی تھے، افتخار انصاری کافی عرصے سے کینسر کے مرض میں مبتلا تھے اور اس دوران ان کا امریکہ میں بھی علاج چلا، ان کی نماز جنازہ جڈی بل میں ادا کی گئی جس میں سابق وزیراعلیٰ مفتی سعید سمیت کئی سیاسی اور سماجی شخصیات کے علاوہ لاکھوں لوگوں نے شرکت کی۔

مرحوم کو ہزاروں لوگوں اور سیاسی شخصیات کی موجودگی میں پُرنم آنکھوں کیساتھ آبائی مقبرہ میں سپرد خاک کیا گیا۔ نماز جنازہ میں انجمن شرعی شیعیان کے صدر آغا سید حسن بڈگامی، اتحاد المسلمین کے سربراہ مولانا عباس انصاری، جو ان کے عمزاد بھائی بھی ہیں اور پارلیمنٹ ممبر مظفر حسین بیگ کے علاوہ کئی سرکردہ شخصیات نے شرکت کی، اس سے قبل ریاست کے وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے اپنے پولیٹکل سیکریٹری تنویر صادق کے ہمراہ صبح مرحوم کے گھر واقع قمر واری پہنچ کر تعزیت پُرسی کی اور پسماندگان کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا، پی ڈی پی سرپرست مفتی محمد سعید، بیگم مفتی سعید، پارٹی صدر محبوبہ مفتی ممبران پارلیمان مظفر حسین بیگ و طارق حمید قرہ، دیگر ممبران قانون سازیہ، سینئر لیڈران اور کارکنان مرحوم کی رہائش گاہ پر پہنچے اور غمزدہ کنبہ اور ان کے عقیدت مندوں کے ساتھ تعزیت کی۔ مفتی محمد سعید اور محبوبہ مفتی نے مولوی انصاری کے انتقال کو سماج کیلئے اجتماعی نقصان قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ مولوی انصاری ایک ایسی ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے جنہیں سماج کے تئیں خدمات کیلئے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ مرحوم صرف ایک مذہبی اور روحانی رہنما ہی نہ تھے بلکہ وہ جہاں دیدہ سیاستدان اور عظیم دانشور بھی تھے اوران کی تعلیمی دسترس سیاست سے لے کر تاریخ تک اور مذہب سے لے کر معیشت تک محیط تھی، پی ڈی پی لیڈران نے کہا کہ مولوی صاحب کی وفات سے ریاست نے ایک تجربہ کار سیاستدان، ممتاز مذہبی عالم، شعلہ بیان مقرر اور اتحاد کا علمبردار کھو دیا ہے، مولوی افتخار انصاری کی رحلت کی خبر سنتے ہی ہزاروں کی تعداد میں لوگ مرحوم کی رہائش گاہ واقع قمرواری جمع ہوئے اور ان کی جسد خاکی کے ساتھ جڈی بل تک گئے، مرحوم کے انتقال پر کئی شیعہ علاقوں بطور سوگ بند رہا، شہر خاص کے جڈی بل، نور باغ، قمرواری اور علمگری بازار کے علاوہ حول میں دکانیں بند رہیں اور لوگ ماتم کرنے لگے، بالہامہ اور پاندریٹھن میں بھی دکانیں بند رہیں جبکہ بارہمولہ، ماگام اور بڈگام سمیت وادی کے دیگر علاقوں میں بھی لوگوں نے مولوی افتخار حسین انصاری کی رحلت کی خبر سنتے ہی ان کی رہائش گاہ کی طرف رخ کیا۔
خبر کا کوڈ : 412618
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش