0
Friday 11 Apr 2014 03:40

ارزاں موت اور مہنگے فیصلے

ارزاں موت اور مہنگے فیصلے
تحریر: عمران خان
 
کتنا باعث اطمینان ہے حکومت کے لیے کہ طالبان نے سبزی منڈی اور جعفر ایکسپریس میں ہونیوالے دھماکوں کی مذمت کر دی۔ ترجمان تحریک طالبان نے اپنے بیان میں معصوم اور بے گناہ افراد کے قتل کو حرام قرار دیا۔ اسلام آباد کچہری سانحہ میں شہید ہونیوالی فضہ ملک یقیناً طالبان کی نظر میں اتنی بڑی گناہگار تھی کہ اسے قتل کرنا ضروری تھا۔ اس وقت بھی تحریک طالبان کے ترجمان نے احرارالہند سے لاتعلقی کا اعلان کیا تھا۔ حالانکہ احرارالہند تو طالبان شوریٰ میں شامل تھی۔ پشاور بازار، آر اے بازار، داتا دربار، راولپنڈی کینٹ کی مسجد، کوئٹہ سمیت وہ تمام دہشت گردی کے خونی واقعات جن کی طالبان نے ذمہ داری قبول کی تھی، ان سب میں شہید ہونیوالے طالبان کی نظر میں نہ ہی معصوم تھے، نہ ہی بے گناہ۔ جبھی تو دیدہ دلیری سے ان کے قتل عام کی ذمہ داری قبول کی۔ ایک ہی دن میں ملک کے کئی شہروں میں درجنوں بے گناہ پاکستانیوں کا خون ہوگیا اور حکومت کے لیے یہی باعث اطمینان ہے کہ طالبان نے اس کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔ علی حیدر گیلانی اور شہباز تاثیر جب اغوا ہوئے تو طالبان نے ہی اعلان کیا کہ وہ ہمارے پاس موجود ہیں، جب ان کی رہائی کا وقت آیا تو گذشتہ دنوں طالبان نے ان کی موجودگی سے انکار کر دیا۔ پشاور سے شائع ہونیوالے کثیر الاشاعت اخبار نے اپنے ذرائع سے خبر نشر کی کہ شہباز تاثیر بیماری کے باعث طالبان کی قید میں جاں بحق ہوگئے۔ جس سے یہ ثابت تو ہوگیا، طالبان کی جانب سے دیا جانیوالا ہر بیان کھرا سچ نہیں ہوتا۔ لہذا طالبان کی جانب سے حالیہ سانحات کی ذمہ داری قبول نہ کرنا، دلیل نہیں کہ وہ بری الذمہ ہیں۔
 
جعفر ایکسپریس یا فروٹ منڈی دھماکہ کوئی پہلا واقعہ نہیں جو ہمارے سکیورٹی، انتظامی اور انٹیلی جنٹس ایجنسیوں کی مجرمانہ غفلت کا مظہر ہو۔ ملک بھر کے گلی کوچوں میں جابجا دہشت گرد ریاستی رٹ کو چیلنج کرتے ہیں، آئین کو پامال کرتے ہیں، قانون کی دھجیاں اڑاتے ہیں لیکن حکومت یا ادارے ان دہشت گرد حملوں کو ملک کی سالمیت، وقار اور آئین پر حملہ سمجھنے کو تیار نہیں۔ جس کی وجہ فقط اتنی ہے کہ اس وحشیانہ دہشت گردی کا نشانہ صرف اور صرف پاکستان اور پاکستانی عوام بن رہے ہیں۔ ان کے وقار میں فرق پڑتا ہے تو اس وقت جب کوئی انہیں آئینہ دکھائے۔ انہیں آئین کی پاسداری اس وقت یاد آتی ہے جب اقتدار کی کرسی ہلنے کا خدشہ ہو۔ عوام کے لیے اس آئین و قانون کی کیا اہمیت باقی رہ جاتی ہے جب بوڑھے والدین کا اکلوتا سہارا پکانے کے لیے سبزی لینے جائے اور کئی ٹکڑوں میں منقسم ہوکر چادروں میں لپٹا واپس آئے۔ اس عدلیہ کے احترام میں لوگ کیسے سر جھکائیں جو ان کے قاتلوں کو رہائی کے پروانے جاری کرے۔ جعفر ایکسپریس اور فروٹ منڈی دھماکوں کے ذمہ دار فقط بلوچستان یونائیٹڈ آرمی یا طالبان نہیں، بلکہ پورا سسٹم ہے۔ جس سسٹم کے تحت دہشت گردوں کو قرار واقعی سزائیں دینے کے بجائے ان کی خواہشات اور توجیہات پوچھی جائیں۔ اہل اقتدار کی نظر میں وہ افراد اور گروہ محترم ہیں جو ریاست کے وجود کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں۔ جو اس کے آئین کو مانتے نہیں، جو بندوق و دہشت کی بنیاد پر اپنا نظام نافذ کرنے کے خواہشمند ہیں۔ حکومت جس آئین کی پامالی کا تذکرہ کرکے فوج کے سابق سربراہ کو لٹکانے کا ارادہ کرچکی ہے، وہی حکومت مجرموں کو بناء کسی قانونی کارروائی اور عدالتی احکامات کے رہا کر رہی ہے، لیکن آئین کی یہ پامالی حکومت کی نظر میں جائز ہے۔ 

فروٹ منڈی میں ہونیوالے دھماکے کی جزئیات اور انتظامیہ کے بیانات اور تحقیقات کے رخ میں واضح فرق نظر آتا ہے۔ پولیس کے مطابق ٹائم ڈیوائس پر مبنی پانچ کلو وزنی بم امرود کی پیٹی میں چھپایا گیا تھا جو کہ پنجاب یعنی عارف والا یا بوریوالا سے آنے والی تقریبا 350 پیٹیوں کے ساتھ آئی تھی، بعد میں کہا گیا کہ ٹائم ڈیوائس نہیں تھی بلکہ ریموٹ کنٹرول تھی۔ تحقیقات کے لیے بنائی گئی پولیس کی پانچ ٹیموں میں سے ایک ٹیم عارف والا اور ملتان کی طرف تحقیقات کے لیے گئی ہے۔ وقفے وقفے سے سامنے آنیوالی یہ شاہکار تحقیقاتی کارکردگی یہی ظاہر کرتی ہے کہ پولیس دہشت گردوں کو پکڑنے کے بجائے بچانے کا تہیہ کرکے غلط رخ پر تحقیقات کر رہی ہے۔ پنجاب سے آنیوالے امرود کی پیکنگ اور منڈی میں بولی کے درمیان کم از کم چوبیس گھنٹے سے زائد وقت صرف ہوجاتا ہے۔ ٹائم ڈیوائس پر چوبیس گھنٹے سے زائد وقت کی ایڈجسمنٹ ناممکنات میں سے ہے۔ اگر ڈیوائس ریموٹ کنٹرول تھی تو پھر دہشت گرد منڈی میں ہی موجود تھے۔ پانچ کلو وزنی بم اتنی تباہی مچانے کی قدرت نہیں رکھتا، وہ بھی اس صورت میں کہ اس کے چہار جانب امرود کی تین سو سے زائد پیٹیاں موجود ہوں۔
 
اگر ریموٹ کنٹرول ڈیوائس سے دھماکہ کیا گیا ہے اور ریموٹ کو آپریٹ کرنے والا منڈی کے اندر یا قریب موجود تھا تو قرین القیاس یہی ہے پیٹی بم عارف والا یا بوریوالا سے آنے کے بجائے یہیں راولپنڈی یا اسلام آباد میں تیار کیا گیا۔ ایسی صورت میں تحقیقات میں ان دستیاویزات سے مدد لینے کی ضرورت ہے، جس کے تحت سیکرٹری داخلہ نے اسلام آباد میں دہشت گردوں کے محفوظ پناہ گاہوں کا ذکر کیا تھا اور وزیر داخلہ نے اس رپورٹ کو یکسر مسترد کرکے اسلام آباد کو محفوظ شہر قرار دے دیا تھا۔ جس کے بعد کچہری والا سانحہ بھی رونما ہوگیا۔ راولپنڈی، اسلام آباد پولیس نے متعدد ایسی رپورٹس جاری کی ہیں جن کی رو سے جڑواں شہروں میں کئی نجی ادارے دہشت گردی میں براہ راست ملوث ہیں اور مجرموں کو پناہ گاہیں فراہم کر رہے ہیں، جن میں مدارس بھی شامل ہیں۔ یہ رپورٹس میڈیا کی زینت بھی بن چکی ہیں۔ اس کے علاوہ اسلام آباد کی حدود سے بارود سے بھری تیار گاڑیاں بھی پکڑی گئیں، جن کی تحقیقات کو ایک خاص پوائنٹ پر لا کے چھوڑ دیا گیا۔ اگر پولیس اور اطلاعات کے ادارے باہمی تعاون کے ذریعے خلوص دل سے دہشت گردوں تک پہنچنے کی کوشش کریں تو اس میں کوئی شک نہیں کہ نہ صرف یہ دہشت گرد گرفتار ہوسکتے ہیں بلکہ ان مذموم کاروائیوں کو قبل از وقت ناکام بھی بنایا جاسکتا ہے۔
 
جعفر ایکسپریس اور فروٹ منڈی دھماکے کی ذمہ داری بی ایل اے نے قبول کی۔ وزارت داخلہ نے بی ایل اے کی ذمہ داری قبول کرنے کے بیان کو مضحکہ خیز قرار دیکر مسترد کر دیا ہے۔ دوسری جانب حکومت نے بھی طالبان کے بیان کو خشوع و خضوع سے تسلیم کرکے شادیانے بجانے شروع کر دیئے ہیں، اس بات سے قطع نظر کہ پہلے وہ گروہ دہشت گردی کر رہے تھے جن سے عوام، حکومت اور ادارے اچھی طرح آگاہ تھے، لیکن اب تو بقول حکومت و طالبان معاملہ نامعلوم کی طرف چلا گیا ہے، اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ معلوم دشمن کی نسبت نامعلوم دشمن سے نبٹنا زیادہ مشکل ہوتا ہے۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ موجودہ نواز حکومت اور طالبان کے موقف میں ہمیشہ ہی یکسانیت نظر آئی ہے۔حکومت تسلسل سے ایسی پالیسی پر گامزن ہے جس سے دہشت گردی اور دہشت گرد گروہوں کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے، جس میں نمایاں ترین عمل مذاکرات کا ہے۔
 
تخریبی سوچ رکھنے والوں کو ان مذاکرات کے ذریعے یہ باور کرایا گیا ہے کہ جب وہ چند سو پاکستانیوں کو قتل کرلیں، کچھ بم دھماکے، ٹارگٹ کلنگ اور اغواء جیسے خطرناک جرائم میں اپنا نام پیدا کرلیں تو پھر انہیں اسٹیک ہولڈر تسلیم کرلیا جائے گا۔ ان کو حکمرانی کرنے کے لیے ایک بڑا علاقہ بھی دیا جاسکتا ہے، جہاں وہ اپنی قوت و طاقت میں اضافہ کرسکیں۔ عدالت سے ملنے والی سزائیں بھی کالعدم ہوسکتی ہیں۔ ریاست اپنا اخلاص ظاہر کرنے کے لیے ان کے قیدی بھی بناء کسی عدالتی و قانونی چارہ جوئی کے رہا کرسکتی ہے، اسکے علاوہ اگر  تخریبی سوچ رکھنے والے گروہ کی پشت پر کوئی دوسرا ملک ہاتھ رکھ لے تو پاکستان میں ان دہشت گردوں کے پروٹوکول میں اضافہ ہونے میں بھی دیر نہیں لگتی۔
 
ملک میں دہشت گردی کا نیٹ ورک سرحدی پابندیوں سے آزاد ہوچکا ہے۔ دہشت گرد کسی نہ کسی طریقے سے مختلف بیرونی ملکوں کی ایماء پر ان کے مفادات کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ہر واقعہ کو ایک الگ رنگ دیکر وطن عزیز کو دن بدن ناکام ریاست کی جانب دھکیلا جا رہا ہے۔ کیا پالیسی ساز اداروں کو اس منزل کا ادراک ہے جس کی جانب ہم بڑھ رہے ہیں۔ اگر وطن عزیز کو بچانا ہے، تو حکومت اور ریاست کے تمام اداروں کو ایک صفحہ پر آنا ہوگا۔ وقتی اور ذاتی مفادات کو پس پشت ڈالنا ہوگا۔ اعلٰی سطح پر ان تمام ممالک سے سوری بولنا ہوگا جن کی خوشنودی کی خاطر حکمران یا اداروں کے سربراہ امن کے لیے کوئی بھی مثبت قدم اٹھانے سے گھبراتے ہیں۔ اگر ڈیڑھ، دو ارب ڈالر ملکی مفاد کی خاطر معذرت کے ساتھ واپس کرنے بھی پڑ جائیں تو حکومت کو اس میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ من حیث القوم جب تک دہشت گردی، شدت پسندی کو مسترد نہیں کیا جاتا، تب تک قوم کے چیتھڑے دھماکوں میں یونہی اڑتے رہیں گے یا گولیوں سے لاشیں گرتی رہیں گی۔ 

پارلیمنٹ اس صورت میں بالادست ہوگی جب قوم کو اپنی جان و مال اور حقوق کے محفوظ ہونے کا احساس حاصل ہوگا۔ اداروں کا وقار اسی صورت میں بلند رہے گا جب اسکی سرحدوں کے ساتھ ساتھ ناک کے نیچے شہر و گاؤں بھی اندرونی و بیرونی دہشت گردوں سے محفوظ ہوں گے۔ قانون کی بالادستی کی مثال یہی ہے کہ قاتل تختہ دار پر ہوں اور مجرم سلاخوں کے پیچھے۔ وطن عزیز کو اسلام کا قلعہ اس وقت ہی تصور کیا جاسکتا ہے جب اس سرزمین پر مسلک، زبان، قوم، مذہب کی تفریق سے آزاد ہر شخص کی عزت، ناموس، محفوظ ہو۔ نہ کہ کٹے ہوئے سروں سے فٹبال کھیل کر اسلام کا بول بالا کیا جاسکتا ہے۔ سب کو برابر کے حقوق میسر ہوں۔ گناہ گار کو سزا اور مستحق کو انصاف ملے۔ کوئی بھوک، ننگ سے عاجز آکر موت کو گلے نہ لگائے۔ جہاں انسان کو اس کے بنیادی حقوق میسر ہوں، جب پاکستان ایک کامیاب اسلامی فلاحی ریاست کہلا سکتا ہے۔ یہی سارا کچھ پاکستان کے آئین میں لکھا ہے، جس کو آج چند علماء متنازعہ بنا رہے ہیں اور چند دہشت گرد گروہ ماننے کو تیار نہیں۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ گروہ کیا چاہتے ہیں۔ وطن کی گلیوں میں اب موت جو نہایت ارزاں ہو کر پھرتی ہے حکمرانوں کے انتہائی مہنگے فیصلوں کا شاخسانہ ہے، جس کی قیمت ہم عوام خون سے ادا کئے جارہے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 371614
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش