0
Saturday 22 Nov 2014 23:33

جامعۃ النجف اسکردو کے زیراہتمام ماہر تعلیم محمد علی مہدی اور شیخ حافظ حسین نوری کی یاد میں تعزیتی ریفرنس کی رپورٹ

جامعۃ النجف اسکردو کے زیراہتمام ماہر تعلیم محمد علی مہدی اور شیخ حافظ حسین نوری کی یاد میں تعزیتی ریفرنس کی رپورٹ
رپورٹ: میثم بلتی

مشہور ماہر تعلیم الحاج محمد علی مہدی کی المناک رحلت اور جامعۃ النجف اسکردو کے استاد و مربی حجۃالاسلام علامہ شیخ حافظ حسین نوری کی دوسری برسی کی مناسبت سے جامعۃ النجف اسکردو کے شیخ مفید ہال میں ایک عظیم الشان تعزیتی پروگرام منعقد ہوا۔ پروگرام کا افتتاح کرتے ہوئے جامعۃ النجف کے وائس پرنسپل شیخ احمد علی نوری نے کہا کہ علامہ شیخ حافظ نوری اور الحاج محمد علی مہدی مرحوم دونوں کو استاد ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ ان دونوں نے آخری دم تک فرض شناسی کی مثال قائم کی۔ انہوں نے کہا کہ آج ہمارے معاشرے میں خود اساتید نے استاد کے مقام کو گرا رکھا ہے لیکن علامہ شیخ حافظ نوری اور الحاج محمد علی مہدی مرحوم دونوں نے استاد کے مقام کو زندہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ محمد علی مہدی  اس بات کا درد محسوس کرتے تھے کہ معاشرے میں استاد اپنی ذمہ داریاں ادا نہیں کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مجھے ان کی شاگردی کا شرف حاصل رہا ہے اور آج ان کا پیغام یہ ہے کہ قوم کو بنانے کے لیے تعلیم کی سطح بلند کرنے کی ذمہ داری ہمارے اوپر عائد ہوتی ہے۔ علامہ شیخ حافظ نوری اس دور میں ہمارے لیے تقویٰ کا ایک بہترین نمونہ ہیں۔

مرحوم الحاج محمد علی مہدی کے ساتھی اور رازداں پروفیسر الحاج غلام حسن نے مرحوم کی زندگی پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ الحاج محمد علی مہدی نے نہ صرف خود تعلیم حاصل کی بلکہ تعلیم کے میدان میں کام کرنے والوں کی ایک پوری ٹیم تیار کی اور اپنے آپ کو ملت میں شعور پیدا کرنے کے لیے وقف کر دیا۔ بحیثیت استاد وہ ہمیشہ اس بات کے فکر مند رہتے تھے کہ معیار تعلیم کو کس طرح بلند کیا جائے۔ مرحوم کا خیال تھا کہ بلتستان کے بچوں میں زبردست ٹیلنٹ موجود ہے جس کے ذریعے وہ تعلیم میں پوری دنیا کا مقابلہ کر سکتے ہیں بشرطیکہ مواقع فراہم ہوں۔ سالہا سال قبل انہوں نے پرائیویٹ سیکٹر میں بلتستان پبلک سکولز اور المصطفٰی پبلک سکولز کو معیاری بنانے میں بنیادی کام کیا۔ ان اداروں کے 45 سکولز آج سرگرم عمل ہیں۔ انہوں نے دیگر تعلیمی اداروں کی بھی سرپرستی کی۔ وہ استاد ہونے کے علاوہ ایک بہترین منتظم بھی تھے۔ وہ ناکام سکولوں کو بھی کامیاب بنانے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ مرحوم میرٹ کا بھرپور خیال رکھتے تھے اور اس سلسلے میں اپنے قریبی دوستوں اور عزیزوں کو بھی ناراض کرتے تھے۔ ایک دفعہ ہم کیڈٹ کالج اسکردو کا امتحان ہال دیکھنے گئے تو وہاں بڑی تعداد اسوہ سکولوں کے بچوں کی تھی۔ منتخب بچوں کو کیڈٹ کالجوں کے امتحان کے لیے تیار کرنے میں وہ بہ نفس نفیس کام کرتے تھے۔ زندگی کے آخری سالوں میں انہوں نے اسلام آباد میں مسجد، امام بارگاہ اور مدرسہ قائم کیا اور اسی کو اپنی آخری آرامگاہ قرار دیا۔ مرحوم نے کبھی ذاتی مسائل کو موضوع بحث نہیں بنایا بلکہ ہمیشہ ملت کی بات کرتے رہے۔ انہوں نے کہا کہ آج ہم سب کو محمد علی مہدی بننے کی ضرورت ہے۔

معروف شاعر، ادیب، ماہر تعلیم اور سماجی شخصیت پروفیسر حشمت کمال الہامی نے مرحوم علامہ شیخ حافظ نوری اور الحاج محمد علی مہدی مرحوم کے بارے میں منظوم قطعات اور قطعہ تاریخ پیش کئے۔ علامہ شیخ حافظ نوری کے بارے میں کہا:

مظہر قوت ایمان تھے حافظ نوری
مردِحر صاحب عرفان تھے حافظ نوری

مردِ درویش و قلندر تھے فقیری میں رہے
آج کے وقت کے سلمان تھے حافظ نوری

جان دی شاہ ِشہیدان کی عزاداری میں
واقعی بندہ رحمان تھے حافظ نوری


مرحوم محمد علی مہدی کے بارے میں خاکہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان کا انداز عالمانہ تھا، قوم و ملت کو ٹوٹ کر چاہنے والے تھے۔ علماء و فضلا کی محافل کی زینت تھے، زبان و ادب کے عاشق تھے۔ احساس و شعور سے مالامال، ادب بلتستان کے نگہبان، نظم و نسق، برداشت اور اخوت کے علمبردار، لاجواب منتظم، مصنف، مولف، مترجم، آئی او کے بانی و ناظم تھے۔ وہ اپنی عظیم خدمات کی بدولت زندہ ہیں اور زندہ رہیں گے۔

انہوں نے حاج محمد علی مہدی کا قطعہ تاریخ یوں کہا:
سولہویں ماہ محرم چودہ سو چھتیس سن
پیر کی تھی صبح روشن لحد سے تھے ہم کنار
دارِ فانی سے گئے جب دارِ باقی کی طرف
نومبر کی دس تھی اس دم، سن تھا چودہ دوہزار


معروف عالم، دانشور اور حسین آباد کے امام جمعہ آقا سید مظاہر حسین موسوی نے کہا کہ محمد علی مہدی مرحوم اور ایران کے شہید صدر محمد علی رجائی دونوں استاد تھے۔ ایرانی قوم نے اس استاد کو سمجھا تو اپنا صدر بنایا لیکن ہماری قوم محمد علی مہدی کو شاید ابھی نہیں سمجھی۔ انہوں نے کہا کہ علامہ شیخ حافظ نوری اور الحاج محمد علی مہدی دونوں میں ایک چیز مشترک تھی اور وہ ہے دین و ملت اور لوگوں کا درد۔ انہوں نے کہا کہ علامہ حافظ نوری اور محمد علی مہدی دونوں استاد تھے۔ انہیں علم سے عشق تھا۔ انہوں نے کہا کہ بقول محمد علی رجائی کے اگر کمائی کے لیے استاد بن گئے ہو تو استادی چھوڑ دو اور اگر تدریس سے عشق ہو تو استاد بنو۔ موصوف نے کہا کہ مرحوم محمد علی مہدی ہمیشہ طلوع آفتاب سے پہلے کام پر گھر سے نکلتے تھے۔

آقا مظاہر حسین موسوی نے علامہ حافظ حسین نوری کے بارے میں کہا کہ وہ اپنی زندگی کا کوئی لمحہ ضائع نہیں کرتے تھے۔ ان کی زندگی کے دو مشغلے تھے یا عبادت الہٰی یا خدمت خلق۔ مرحوم مصلحت پسندی سے دور رہتے ہوئے حق کو برملا کہتے تھے اور خود عظیم دانشور اور تہذیب اخلاق کا مالک ہونے کے باوجود دوسروں سے نصیحت طلب کرتے تھے۔ جامعۃالنجف کے پرنسپل اور میزبان حجۃالاسلام شیخ محمد علی توحیدی نے کہا کہ عظیم لوگوں کی عظمت کا معیار ان کے عظیم ارادے، ان کا اخلاق، ان کے عظیم مقاصد اور ان کی پاکیزہ نیت ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج ہمارے معاشرے کو بہت سے محمد علی مہدی اور بہت سے شیخ حافظ حسین نوری کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ کردار کے روشن چراغوں کا تذکرہ معاشرے کو روشن بنانے اور مثبت اقدار کو زندہ کرنے کے لیے ضروری ہے۔ انہوں نے مرحوم محمد علی مہدی اور علامہ حافظ حسین نوری کی یاد میں درج ذیل قطعہ کہا:

شراب عشق سے اللہ جس کو سیرکرے
ضرور خلق خدا اس کا ذکر خیر کرے

پھر ایک حاج محمد علی کی حاجت ہے
جو دورجہل و تعصب کا یہ اندھیر کرے

پھر اک حافظ نوری کو ڈھونڈتا ہے زمن
جو اپنے سوز سے آھو کے دل کو شیر کرے

مجلس وحدت مسلمین بلتستان کے سیکرٹری جنرل حجۃالاسلام سید علی رضوی نے کہا کہ علامہ شیخ حافظ حسین نوری اور حاج محمد علی مہدی مرحوم نے اپنی مختصر لیکن بابرکت زندگی میں وہ کارہائے نمایاں انجام دیئے جو لوگ طویل زندگی گزارنے کے باوجود انجام نہیں دے سکتے۔ یہ دونوں آج زندہ نہیں ہیں لیکن ان کی خدمات زندہ ہیں۔ انہوں نے دعا کی کہ خدا ہم سب کو ان کی عارفانہ، مجاہدانہ اور مخلصانہ روش کو زندہ رکھنے کی توفیق دے۔ انہوں نے دعا کی کہ خدا جامعۃ النجف کو دین و ملت کی مزید خدمت کرنے کی توفیق دے۔ انہوں نے آئی او اور دیگر قومی تنظیموں کی کامیابی کے لیے دعا کی۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے ساتھ آگاہ و بیدار رہنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے علامہ شیخ حافظ نوری کا یہ قول دہرایا کہ عصر حاضر کے یزید امام حسین (ع) کے دور کے یزید سے زیادہ مکار ہیں اس لیے حسینیوں کو بہت ہوشیار ہونا چاہیئے۔ انہوں نے کہا علامہ شیخ حافظ حسین نوری اور الحاج محمد علی مہدی مرحوم نے ہوشیاری سے دین و ملت کی خدمت کی۔ آخر میں آقا سید علی رضوی نے اسلام اور پاکستان کے تحفط کے لیے دعا کی۔ یاد رہے کہ اس پروگرام سے پہلے الحاج محمد علی مہدی مرحوم اور علامہ شیخ حافظ حسین نوری اعلی اللہ مقامہ کی روح کے ایصال ثواب کے لیے قرآن خوانی کی گئی جس میں علما، طلبا، زعما، صحافیوں اور ماہرین تعلیم نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ اس محفل میں حجۃ الاسلام علامہ شیخ محمد حسن جعفری نے خصوصی شرکت فرمائی۔
خبر کا کوڈ : 420916
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش