0
Wednesday 11 Dec 2013 21:28

سعودی عرب اور اسرائیل میں بڑھتے ہوئے دوستانہ تعلقات، خطے میں بدلتے ہوئے اتحاد

سعودی عرب اور اسرائیل میں بڑھتے ہوئے دوستانہ تعلقات، خطے میں بدلتے ہوئے اتحاد
اسلام ٹائمز- لبنانی روزنامے "الاخبار" نے سامی کلیب کے قلم سے خطے میں ایران کا مقابلہ کرنے کیلئے اسرائیل اور سعودی عرب میں بڑھتے ہوئے دوستانہ تعلقات اور بدلتے ہوئے اسٹریٹجک اتحادوں پر مبنی خبروں کا جائزہ لیا ہے۔ وہ اپنی تحریر میں لکھتا ہے:
اسرائیل نے اچانک ہی یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ سعودی عرب کے ساتھ اپنے بڑھتے ہوئے دوستانہ تعلقات کو منظرعام پر لائے اور ان کی تایید پر مبنی بیانات میں اضافہ کر دے۔ سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان انجام پانے والی خفیہ نشستوں کے بارے میں بہت سی خبریں گردش کر رہی ہیں۔ یہ امر ایران اور مغربی طاقتوں کے درمیان انجام پانے والے ابتدائی سمجھوتے کے ساتھ ہی ظاہر ہوا ہے۔ بعض عرب ذرائع ابلاغ کے مطابق اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان دوستانہ تعلقات بہت آگے تک جا پہنچے ہیں اور اب وہ ایکدوسرے کے اتحادی بننے کے قریب آ چکے ہیں۔ 
 
اس قسم کے بیانات دینے میں سعودی اور لبنانی تاجر شہزادہ ولید بن طلال سب کو پیچھے چھوڑ چکا ہے۔ اس نے ایک موقع پر کہا: "سعودی عرب، عرب ممالک اور اہلسنت مسلمان ایران کے جوہری پروگرام کے خاتمے کیلئے اس کے خلاف ممکنہ اسرائیلی حملے کی حمایت کریں گے"۔ اب تک سعودی حکام کی جانب سے اس بیان کو مسترد نہیں کیا گیا۔ کویت کے معروف دانشور جناب عبداللہ النفیسی نے ولید بن طلال کے اس بیان پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ شہزادہ ولید بن طلال یہودی میڈیا لابی کے سربراہ رابرٹ مرڈاک کا انتہائی قریبی ساتھی اور اس کا شریک ہے۔ 
 
سامی کلیب اپنی اس تحریر میں مزید لکھتے ہیں کہ سعودی بادشاہ عبداللہ بن عبدالعزیز نے اب تک اسرائیل کے ساتھ دوستی کے بارے میں کوئی بیان نہیں دیا اور کہا جاتا ہے کہ وہ اسرائیل سے سخت متنفر ہیں۔ سعودی قوم بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے میں کوئی خاص دلچسپی نہیں رکھتی۔ اب تک سعودی عرب کے اندر کوئی ایسا مصنف سامنے نہیں آیا جس نے اسرائیل کی پالیسیوں اور سیاست کی حمایت کا اظہار کیا ہو۔ اگر کوئی سابق سعودی بادشاہ ملک فیصل کی جانب سے مغربی ذرائع ابلاغ کو دیئے گئے انٹرویوز پر نظرثانی کرے تو وہ دیکھے گا کہ ان کی جانب سے کس قدر "اسرائیل کی نابودی" پر تاکید کی گئی تھی۔ ملک فیصل نے 1973ء میں انجام پانے والی عرب اسرائیل جنگ کے دوران مغربی دنیا کی جانب سے اسرائیل کی حمایت کا اعلان کرنے پر ان کو تیل کی سپلائی بند کر دی تھی۔ 
 
اس وقت امریکہ کی جانب سے سعودی عرب پر اسرائیل کے ساتھ براہ راست تعلقات قائم کرنے کیلئے اچھا خاصا دباو موجود ہے۔ خاص طور پر ایسی صورتحال میں جب امریکہ عراق پر فوجی قبضہ کر چکا تھا اور نائن الیون کے دہشت گردانہ حملوں میں 11 سعودی شہریوں کو ملزم ٹھہرایا گیا تھا جس کی وجہ سے مغربی دنیا میں سعودی عرب کا امیج بہت حد تک خراب ہو چکا تھا اس دباو میں کئی گنا اضافہ ہو چکا تھا۔ دوسری طرف سعودی عرب کی جانب سے امریکہ اور یہودیوں کی مختلف کمپنیز کو بھاری مالی امداد بھی اس مسئلے کو حل نہ کر سکی اور سعودی عرب کا امیج بہتر نہ ہو سکا۔ 
 
لہذا اس میں کسی کو کوئی شک نہیں کہ سعودی عرب دل سے اسرائیل کا حامی نہیں لیکن دوسری طرف ایران سے شدید متنفر ہے اور خطے میں تہران کے کردار سے شدید خوف زدہ ہے۔ اس وقت سعودی حکام کی پریشانی اپنے اوج پر پہنچ چکی ہے۔ مغربی ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والے مقالات سے ظاہر ہوتا ہے کہ خطے میں پائے جانے والے اتحاد تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں۔ اکثر ماہرین کا خیال ہے کہ اس بات کا قوی امکان موجود ہے کہ واشنگٹن اور تہران اپنے درمیان انجام پانے والے ابتدائی سمجھوتے سے عبور کرتے ہوئے اسٹریٹجک معاہدے کے قریب پہنچ چکے ہوں۔ دہشت گردی سے مقابلہ اور دوطرفہ مفادات کی تضمین ان دونوں کو اکٹھا کر سکتی ہے۔ بعض ماہرین تو موجودہ صورتحال کو ایک ایسا مرحلہ قرار دیتے ہیں جو ماضی میں ایرانی بادشاہ رضا شاہ پہلوی اور وائٹ ہاوس کے درمیان موجود اتحاد کے ٹوٹنے کا زمانہ جانا جاتا ہے۔ 
 
شام میں سعودی عرب کے اہداف و مقاصد:
سعودی عرب نے دمشق کے نواح میں واقعہ مشرقی الغوطہ میں جاری جنگ میں اپنے حمایت یافتہ مسلح دہشت گردوں کی کامیابی کیلئے پورا زور لگا دیا ہے۔ سعودی حکام اور مغربی ذرائع ابلاغ امریکہ، اردن، اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان انٹیلی جنس تعاون اور مدد کا اعتراف کر چکے ہیں۔ ان سب ممالک کے مفادات ایکدوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ سعودی عرب کی پوری کوشش ہے کہ جنیوا 2 مذاکرات کی برگزاری سے پہلے شام میں صدر بشار اسد کی حکومت کو گرایا جا سکے یا کم از کم اسے جہاں تک ہو سکے کمزور کر دیا جائے۔ اسی طرح سعودی عرب چاہتا ہے کہ شام میں مسلح دہشت گردوں کو کامیاب کروا کر ایران کا رعب ختم کر سکے۔ 
 
دوسری طرف اسرائیل مشرقی الغوطہ کے علاقے میں حزب اللہ لبنان کے جنگجووں کو شکست دینے کی امید لگائے رکھا ہے۔ اسرائیل اس جنگ میں لبنان سے باہر حزب اللہ لبنان کی فوجی صلاحیتوں کو بھی آزمانا چاہتا ہے۔ امریکہ سمجھتا ہے کہ ہر قسم کے مذاکرات انجام پانے سے قبل شامی فوج اور حزب اللہ لبنان کے جنگجووں کے رعب کو ختم کرنا اس کے حق میں انتہائی مفید ثابت ہو سکتا ہے۔ لیکن اردن بذات خود شامی حکومت کے خلاف برسرپیکار مسلح دہشت گردوں کی حمایت میں دلچسپی نہیں رکھتا بلکہ وہ یہ کام یا تو سیاسی دباو کے تحت انجام دے رہا ہے اور یا پھر مالی تعاون کی لالچ میں کر رہا ہے۔ ان سب کے مفادات آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ اسرائیل اور سعودی عرب آپس میں اچھے اور دوستانہ تعلقات قائم کر لیں گے۔ اسرائیلی وزیراعظم نے اسی طرح کہا ہے کہ اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان معیشت اور خطے میں سیاست کے اعتبار سے مشترکہ مفادات بھی پائے جاتے ہیں۔ اسرائیل کی وزیر قانون اور فلسطین اتھارٹی کے ساتھ مذاکرات انجام دینے والی اسرائیلی مذاکراتی ٹیم کی سربراہ زیپی لیونی نے بھی اپنے ایک بیان میں واضح کیا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ مقابلہ کرنے کیلئے ہم بعض عرب ممالک جیسے سعودی عرب کے ساتھ تعاون کرنے پر مجبور ہیں۔ اسرائیلی ذرائع ابلاغ بھی اس بارے میں مختلف خبروں کو پھیلانے کیلئے بے تاب نظر آتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل بعض اسرائیلی ذرائع ابلاغ نے ایک خبر شائع کی جس کے مطابق اسرائیل نے ایک سعودی ڈاکٹر کو اپنی سرزمین میں خوش آمدید کہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس ڈاکٹر کا شمار دنیا کے ماہر ترین آنکھ کے اسپشلسٹ ڈاکٹرز میں ہوتا ہے۔ 
 
ایسی خبروں کو شائع کئے جانے کا مقصد انتہائی واضح ہے۔ اگر اسرائیل کو ایسی خبریں شائع کرنے سے کوئی فائدہ نہ ہوتا تو وہ ہر گز ایسا نہ کرتا۔ مثال کے طور پر اردن کے سابق بادشاہ ملک حسین اور اسرائیلی حکام کے درمیان خفیہ ملاقاتوں اور مذاکرات کا سلسلہ تقریبا 30 سال تک جاری رہا لیکن دنیا کو اس کی خبر تک نہ ہوئی چونکہ ان ملاقاتوں کو منظرعام پر لانے میں اسرائیل کا کوئی فائدہ نہ تھا۔ جناب سامی کلیب کے بقول اس وقت اسرائیل کی جانب سے سعودی عرب کے ساتھ اپنے تعلقات میں بہبودی اور قربت پر مبنی خبروں کو منظرعام پر لانے میں اس کے بہت سے فائدے پوشیدہ ہیں۔ اس حقیقت کا پرچار نہ صرف ایران اور حزب اللہ لبنان کے مقابلے میں اسرائیلیوں کے حوصلے بلند ہونے کا سبب بن سکتا ہے بلکہ عرب حکومتوں کی حمایت کے سائے میں فلسطینیوں کے ساتھ ایک ظالمانہ معاہدہ طے پانے میں بھی انتہائی مفید ثابت ہو سکتا ہے۔ اس بات کا امکان بھی موجود ہے کہ بعض سعودی حکام اسرائیل کے ساتھ براہ راست تعلقات کے قیام کی خاطر بعض غیرمتوقع اقدامات انجام دیں۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ شام یا ایران کے مقابلے میں ان کی شکست ممکن ہے انہیں خطے کی سیاست سے ہی نکال باہر کرے لہذا وہ اس خطرے سے بچنے کیلئے اپنے تاریخی دشمن کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھانے سے بھی گریز نہیں کریں گے۔ خاص طور پر جب ان کا اسٹریٹجک اتحادی یعنی امریکہ بھی پیچھے ہٹتے ہوئے دکھائی دے رہا ہے۔ 
 
موجودہ قرائن و شواہد کی روشنی میں پورے یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ آخرکار ایران اور سعودی عرب کو مذاکرات کی میز پر بیٹھنا ہی ہو گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات انتہائی پیچیدگی کا شکار ہیں لیکن یہ پیچیدگی ایران اور مغربی دنیا کے درمیان تعلقات میں پائی جانے والی پیچیدگی سے زیادہ شدید نہیں۔ ممکن ہے اس وقت سعودی عرب ایران کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کیلئے تیار نہ ہو اور ایران بھی اس بارے میں عجلت کا مظاہرہ نہ کر رہا ہو لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ امر ناگزیر ہوتا جائے گا۔ تمام عرب ممالک ایران کے ساتھ بہتر تعلقات استوار کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ قطر اپنی جگہ کوشش کر رہا ہے جبکہ متحدہ عرب امارات جو ہمیشہ سے ایران پر اپنے تین جزیروں پر قبضہ کرنے کا الزام لگاتا آیا ہے نے اس ضمن میں سب کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ بحرین اور کویت نے سعودی عرب سے پہلے ایران اور مغربی طاقتوں کے درمیان انجام پانے والے معاہدے کا استقبال کیا ہے۔ 
 
جناب سامی کلیب لکھتے ہیں کہ شاید اس وقت ایران کے اتحادی اسرائیل کی جانب سے سعودی عرب کے ساتھ اپنے دوستانہ تعلقات کے بارے میں فاش کی جانے والی معلومات پر زیادہ توجہ دینے کو اپنے لئے فائدہ مند تصور نہ کرتے ہوں اور شاید لبنان میں ایرانی سفارتخانے پر انجام پانے والے دہشت گردانہ اقدام کا الزام سعودی عرب پر عائد کرنا بھی ایران کے فائدے میں نہ ہو۔ اگر مستقبل قریب میں ایران اور سعودی عرب کے وزرای خارجہ کے درمیان ملاقات انجام پاتی ہو تو اتحادی کیا موقف اختیار کریں گے؟ ممکن ہے اس وقت عرب ممالک ہر وقت سے زیادہ اسرائیل کے مقابلے میں سعودی عرب کی حمایت کا اعلان کریں۔ اس بات کا امکان بھی موجود ہے کہ عرب ممالک نے سعودی عرب کو یہ مشورہ دیا ہو کہ ایران اور شام کی نسبت اپنی خارجہ پالیسیوں میں موجود خرابیاں برطرف کرے۔ میری معلومات کے مطابق اس بارے میں ڈپلومیسی اپنے عروج پر ہے۔ اگرچہ اب تک شام کے خلاف منفی فضا موجود ہے لیکن ایران کے بارے میں مثبت فضا قائم ہونا شروع ہو گئی ہے۔ 
خبر کا کوڈ : 327514
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش