0
Tuesday 6 May 2014 23:47

ملک کی موجودہ مذہبی قیادت کا تصور وحدت (1)

ملک کی موجودہ مذہبی قیادت کا تصور وحدت (1)
تحریر: سید اسد عباس تقوی

وطن عزیز پاکستان میں متعدد ادیان و مسالک کے پیروکار آباد ہیں۔ ہر دین و مسلک کے مزید کئی کئی گروہ ہیں۔ ہر گروہ کی اپنی شناخت اور امتیاز ہے۔ ان گروہوں پر ہی کیا بس ہے ہر فرد فکری طور پر دوسرے سے مختلف ہے۔ اس رنگا رنگی میں یگانگت اور وحدت کی بات کرنا محال سا محسوس ہوتا ہے۔ تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان تمام رنگا رنگیوں کے باوجود اہل معاشرہ باہم مل کر مختلف کام کرتے ہیں۔ یہ ہماہنگی ہمیں اپنے معاشرے میں جابجا نظر آتی ہے۔ کہیں پیٹ کی آگ مختلف الخیال افراد کو مجتمع کر دیتی ہے تو کہیں زندگی کی بہتری کے لیے کوئی ہدف و مقصد۔ بہرحال ایک بات تو واضح ہے کہ دو مختلف الخیال افراد کا یگانگت کے ساتھ کام کرنا کسی مشترکہ ہدف و مقصد کے بغیر ممکن نہیں ہے۔

میں ایک عرصے سے مسلمانوں کے مابین بالعموم اور پاکستانی مسلمانوں کے مابین بالخصوص اتحاد و وحدت کی صدائیں سن رہا ہوں۔ اس عنوان سے مجھے کئی ایک مذہبی قائدین، دانشوروں اور ماہرین کے خیالات بھی سننے کا موقع ملا۔ ایک مشکل جو مجھے ہر مقام پر نظر آئی، یہی تھی کہ لوگ وحدت کے مفہوم اور طریقہ کار پر بھی مختلف تصورات اور آراء کے حامل ہیں۔ ملی یکجہتی کونسل کا از سرنو احیاء کرنے والے بزرگ، مرحوم قاضی حسین احمد کو بھی اس مشکل کا بخوبی اندازہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی ہر گفتگو میں ملی یکجہتی کونسل کے مقاصد اور اہداف پر ضرور روشنی ڈالتے تھے، تاکہ کونسل میں آنے والی جماعتوں کے افراد فکری طور پر ہم آہنگ ہوجائیں۔ قاضی حسین احمد مرحوم اس وحدت کو فقط فرقہ واریت کا ہی علاج نہ سمجھتے تھے بلکہ آپ کی نظر میں یہ وحدت وطن عزیز میں اللہ کے قانون کے نفاذ اور اس کے بعد عالم اسلام میں ایک قائدانہ کردار ادا کرنے کے لیے ناگزیر ہے۔

گذشتہ دنوں مجھے ملی یکجہتی کونسل کے زیراہتمام منعقدہ ’’عالمی اتحاد امت کانفرنس‘‘ کے مقررین کی تقاریر سننے اور تحریر کرنے کا موقع ملا۔ یہ تقاریر تحریر کرنے کے دوران مجھے احساس ہوا کہ ان مقررین کی اتحاد کے موضوع پر گفتگو بنیادی طور پر ان کے تصور اتحاد کا آئینہ ہے۔ میری خواہش ہے کہ ان قائدین میں سے چند ایک کی گفتگو قارئین کی خدمت میں پیش کروں، تاکہ ہمیں اندازہ ہوسکے کہ ہمارے قائدین، مفکرین اور ماہرین وحدت کے عنوان سے کیا تصورات رکھتے ہیں۔

سب سے پہلے تو میں کراچی سے آئے ہوئے دانشور جناب ڈاکٹر محسن نقوی (سابق رکن اسلامی نظریاتی کونسل) کا ذکر کرنا چاہوں گا کہ جنہوں نے نہایت مختصر اور جچی تلی گفتگو میں اس وسیع موضوع کو سمونے کی کوشش کی۔ انہوں نے کہا: لفظ امت میں اتحاد موجود ہے، نبی کریم نے امت کا جو تصور دیا، اگر کوئی شخص اس سے متمسک رہے تو دنیا میں جہاں بھی ہو، اس اتحاد کا حصہ ہے۔ اس لفظ کے ساتھ اتحاد کا اضافہ کرنا ہماری بدقسمتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ عالمی اتحاد امت کے حوالے سے تین پہلو اہم ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا کہ فرقہ واریت، فروعی مسائل، علم کلام کو متحدہ علم کلام بنانا سب بعد کی باتیں ہیں۔

انھوں نے اپنی گفتگو کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اتحاد امت یعنی تمام مسلمان ممالک کا سیاسی اتحاد، یعنی ملت کا ایک سیاسی نظام تشکیل دینا۔ اسی طرح معاشی اتحاد یعنی مسلمان ممالک کے تمام وسائل کو امت کے وسائل قرار دینا اور ان وسائل کو پورے عالم اسلام میں وہاں صرف کرنا جہاں ان کی ضرورت ہو۔ ڈاکٹر صاحب کی نظر میں تیسرا اتحاد تعلیم و تعلم کے میدان میں اتحاد ہے۔ جس کی وضاحت کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ تعلیم و تعلم کے اتحاد سے مراد علم کی پیداوار اور اکو تمام اسلامی ممالک سے شیئر کرنا ہے، یعنی پاکستان کی سائنس اور ٹیکنالوجی، اسی طرح انڈونیشیا اور ملائشیا کی ٹیکنالوجی پوری امت مسلمہ کے لیے ہونی چاہیے۔ اگر ہم ان تینوں شعبوں میں اتحاد قائم کریں تو امت اپنا کھویا ہوا وقار بحال کرسکتی ہے۔

کانفرنس میں گفتگو کرنے والے تقریباً پینتالیس سے زیادہ مقررین میں سے یہ گفتگو سب سے زیادہ دل کو لگی، لیکن سوال یہ تھا کہ اس اتحاد کی عملی صورت کیا ہو؟ کیا ملت فرقہ پرستی کے عفریت سے نکلے بغیر اس اتحاد کی جانب سفر کرسکتی ہے؟ ملت کا مذہبی طبقہ اس اتحاد کے لیے کیا کرسکتا ہے، اسی طرح دانشور، محققین اور معاشرے کے دیگر موثر افراد اس فکر کو کیسے عملی رنگ دے سکتے ہیں؟ یہ سوال بھی اہم تھا کہ عالم اسلام میں موجود مختلف سیاسی نظاموں اور اکائیوں کی موجودگی میں یہ خواب کیسے شرمندہ تعبیر ہوگا۔؟

کانفرنس کے اگلے روز ڈاکٹر محسن نقوی سے ایک ملاقات میں ان پر میں نے ایسے ہی کئی ایک سوالات کی بوچھاڑ کر دی۔ ظاہر ہے اس حوالے سے متعدد تجاویز پیش کی جاسکتی ہیں، تاہم کوئی بھی ایسی تجویز ہمارے ذہن میں نہ آئی، جس سے یہ اتحاد فوری طور پر متشکل ہوتا نظر آئے۔ یہیں میں نے ڈاکٹر صاحب سے کہا کہ آپ کی گفتگو کی روشنی میں امت کو اس وقت ایک ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو تمام تر مسلکی وابستگیوں سے بالاتر ہو اور امت کے لیے ایک ایسا سیاسی، معاشی اور تعلیمی نظام وضع کرے، جس کے خدوخال آپ نے اپنی گفتگو میں بیان کئے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے اس رائے سے اتفاق کیا۔

قارئین کرام! گذشتہ چند دہائیوں میں ہم نے دیکھا کہ مسلمانوں نے بہت سے حکومتی و غیر حکومتی اتحاد تشکیل دیئے۔ او آئی سی، عرب لیگ، موتمر عالم اسلامی وغیرہ ایسے ہی اتحادوں کی چند ایک مثالیں ہیں۔ ان اتحادوں میں شامل مسلمان ماہرین نے معاشی اور تعلیمی میدان میں مشارکت کی بہت سی تجاویز دیں اور اصلاحات متعارف کروائیں، تاہم بہت سی ایسی تجاویز ہیں جو مختلف مسلم ممالک کے کی سیاسی مجبوریوں کے باعث کبھی بھی تشتہ تعبیر نہ ہوسکیں۔ جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ یورپ اور امریکہ ہم سے بہت پہلے معاشی اور تعلیمی میدان میں اتحاد کی منزل حاصل کرچکے ہیں۔ ریاست ہائے امریکہ تو اس سے بھی ایک قدم آگے بڑھیں اور انہوں نے دنیا کے سامنے سیاسی اتحاد کی ایک صورت پیش کی، جو تاحال قائم ہے۔ اپنے گوناں گوں مسائل کے باوجود یہ اتحاد ریاست کے مسائل کو حل کرتا ہے اور دنیا پر حکمرانی کر رہا ہے۔

ان اتحادوں کا مادیت پر مبنی ہونا اگرچہ بہت بڑی خامی ہے، تاہم اس وقت دنیا کے سامنے کوئی اور ایسا عملی متبادل موجود نہیں، جو روحانیت اور مادیت کے مابین ایک توازن قائم کرے۔ بالیقین یہ نظام اسلام کے سوا کسی اور مکتبہ فکر کے دامن میں نہیں ہے، تاہم مسلمانوں کی بدقسمتی ہے کہ اتنا زرخیز اور کامل فکری اثاثہ نیز وسائل کی فراوانی ہونے کے باوجود آج وہ کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ عالم اسلام کے حالات اور حقائق کا بغور مشاہدہ کرنے سے تو یہی اندازہ ہوتا ہے کہ مستقبل قریب میں بھی مسلمان سیاسی، معاشی اور تعلیمی میدانوں میں امت کی سطح پر اتحاد قائم کرنے کے قابل نہیں ہوں گے۔ لہذا وہ اس قابل بھی نہیں ہوں گے کہ اقوام عالم کے سامنے روحانیت اور مادیت کے توازن پر استوار نظام کی عملی مثال پیش کرسکیں۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اسلام ایک الٰہی نعمت ہے، جو مسلمانوں کو چودہ سو سال قبل دی گئی۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اسلام کی تعلیمات پر ہماری کوئی اجارہ داری نہیں ہے، یعنی یہ آفاقی تعلیمات پوری انسانیت کا مشترکہ سرمایہ ہیں۔ کتاب ہدایت کا واضح اعلان ہے کہ جب کوئی قوم کفران نعمت کرتی ہے تو ہم اس سے وہ نعمت چھین لیتے ہیں اور اس کی جگہ نئی قوم کو لے آتے ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہماری سستی اور کاہلی کے سبب یہ نعمت عظمٰی ہمارے ہاتھوں سے نکل جائے اور وہ اسے اپنالیں، جنہیں ہم آج اغیار کے عنوان سے جانتے ہیں۔ سربلندی بہرحال اسلام کا مقدر ہے۔ سوال یہ ہے کہ آیا آج کا مسلمان من حیث القوم تقدیر کے اس فیصلے میں اسلام کے ہمراہ ہیں یا نہیں۔؟
(جاری ہے۔۔۔۔ان شاء اللہ)
خبر کا کوڈ : 379896
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش