0
Saturday 19 Jul 2014 13:29

خودکش حملہ آوروں سے متعلق اہم معلومات!

خودکش حملہ آوروں سے متعلق اہم معلومات!
رپورٹ: ایس اے زیدی

پاکستان میں جاری دہشتگردی میں ایک محتاط اندازے کے مطابق 70 فیصد سے زائد خودکش حملہ آوروں یا بمباروں کا استعمال کیا جاتا ہے، بعض اوقات یہ خبریں بھی سامنے آئیں کہ اکثر ایسے دھماکے جن میں شبہ ہو کہ خودکش حملہ آور کے ذریعے کئے گئے، ’’جمپنگ مائن‘‘ کا استعمال کیا گیا۔ یہاں پر اپنے قارئین کو جمپنگ مائن سے متعلق بعض اہم معلومات فراہم کرنا مقصود ہے۔ ذرائع نے ’’اسلام ٹائمز‘‘ کو بتایا کہ جمپنگ مائن بارودی سرنگ سے مشابہہ ایک ہتھیار ہے، جسے ماضی میں بعض ممالک کے مابین ہونے والی جنگوں میں بھی استعمال کیا گیا، جمپنگ مائن کو تخریب کار کسی بھی ممکنہ جگہ پر رکھ دیتے ہیں، جسے ریمورٹ کے ذریعے کنٹرول کیا جاتا ہے، جب ریمورٹ کا بٹن دبایا جاتا ہے تو جمپنگ مائن، جس کے نیچے سپرنگ نصب ہوتے ہیں، 3 سے 5 فٹ کی بلندی پر پہنچ کر زور دار دھماکہ سے پھٹ جاتی ہے، اور زمین پر گڑھا بھی نہیں بن پاتا۔ جمپنگ مائن سے کئے جانے والے دھماکہ سے زمین پر نصب ہونے والے بم سے زیادہ تباہی ہوتی ہے۔ 

زمین پر گڑھا نہ بننے کی وجہ سے تحقیقاتی ادارے بعض اوقات جمپنگ مائن سے کئے جانے والے دھماکوں کو بھی خودکش قرار دے دیتے ہیں، ذرائع کا کہنا ہے کہ جمپنگ مائن کی تیاری کسی عام شخص کے بس کا کام نہیں۔ اس وجہ سے زیادہ تر دہشتگردی کے واقعات میں خودکش حملہ آوروں یا بمباروں کو ہی استعمال کیا جاتا ہے، اس کی چند ایک وجوہات یہ ہیں۔ ایک تو جمپنگ مائن کی نسبت خودکش حملہ آور پر خرچ کم آتا ہے، دوسرا یہ کہ خودکش حملہ آور کو ہدف تک پہنچانے میں آسانی ہوتی ہے، تیسری وجہ ہے کہ جمپنگ مائن کی نسبت خودکش حملہ آور کے ذریعے تباہی زیادہ پھیلائی جاسکتی ہے، اس کے علاوہ اگر خودکش حملہ آور سے ہدف چوک بھی جائے تو کسی نہ کسی جگہ پر دھماکہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، جبکہ جمپنگ مائن یا نصب شدہ بم کے ذریعے ایسا کرنا ممکن نہیں ہے۔

شمالی وزیرستان میں جاری ’’آپریشن ضرب عضب‘‘ کے دوران پاک فوج نے دہشتگردوں کے کئی ٹھکانے تباہ کئے اور خودکش بمبار تیار کرنے کی فیکٹریاں بھی قبضہ میں لیں، اس دوران خودکش بمباروں سے متعلق کئی معلومات بھی منظر عام پر آئی ہیں۔ جس سے معلوم ہوا ہے کہ 90 فیصد خودکش حملہ آوروں یا بمباروں کی عمریں 20 سال سے کم ہوتی ہیں، جبکہ اکثریت کا تعلق بھی قبائلی علاقہ جات سے ہوتا ہے۔ ان میں بعض کو اغواء کرکے بھی برین واشنگ کے بعد دہشتگردی پر آمادہ کیا جاتا ہے، جبکہ اکثریت کو ان کے والدین کی مرضی سے جنت کا جھانسہ دیکر اور والدین کی مٹھی گرم کرکے ٹریننگ سنٹر لایا جاتا ہے۔ پاک فوج کی شمالی وزیرستان میں عسکری کارروائی کے دوران علاقہ درپہ خیل میں حقانی نیٹ ورک کے زیر انتظام چلنے والی خودکش حملہ آوروں کی فیکٹری یا مرکز کی موجودگی پائی گئی، جس کا نام ’’استشہاد‘‘ تھا۔

شمالی وزیرستان کی تحصیل میرانشاہ کے علاقہ میں موجود دہشتگردی کے اس مرکز پر جب فورسز نے قبضہ کیا تو خودکش بمباروں سے متعلق کئی اہم معلومات حاصل ہوئیں، جن کے مطابق خودکش حملہ کیلئے آمادہ امیدواروں کا سب سے پہلے انٹرویو کیا جاتا ہے، کوائف نامہ تیار ہوتا ہے، اور پھر خاندان، دوست احباب اور مالی حیثیت سے متعلق معلومات حاصل کی جاتی ہیں۔ اس مرکز میں زیادہ تر خودکش بمبار اورکزئی ایجنسی، مہمند ایجنسی، جنوبی وزیرستان کے علاقہ محسود اور افغانستان سے لائے جاتے ہیں۔ مرکز ’’استشہاد‘‘ بظاہر ایک عام سی عمارت بتائی گئی، جس کے بارے میں شائد پڑوسیوں کو بھی معلوم نہ ہو، لیکن یہاں دہشت گردی کے ایک بہت بڑے نیٹ ورک کا مرکز تھا۔ فورسز کی کارروائی کے دوران معلوم ہوا کہ درپہ خیل میں اس جیسے پانچ ٹریننگ سینٹرز تھے۔ جہاں معصوم ذہنوں کو خودکش بنایا جاتا تھا، یہاں لائے جانے والوں کو دو ماہ مرکز کے اندر گزارنے ہوتے تھے۔

دہشتگردی کے مرکز ’’استشہاد‘‘ میں آنے والے ہر مبینہ جنتی کو 6 بنیادی اصولوں کی سختی سے پابندی کرنی ہوتی تھی۔
1۔ مرکز کے باہر قدم نہیں رکھنا
2۔ کسی سے رابطہ نہیں کرنا
3۔ موبائل فون کے استعمال پر پابندی
4۔ مرکز کے اندر بھی کسی سے غیر ضروری بات نہیں کرنی
5۔ صرف اپنے مقصد کے بارے میں سوچنا
6۔ اصولوں کی ہر صورت پابندی اور  انکار کرنے پر موت آپ کا مقدر بنتی ہے۔ 
خودکش بمباروں کو اس مرکز آنے کیلئے کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں ہوتی تھی، مگر آنے کے بعد کسی سے ملنے کی اجازت نہیں ہوتی تھے۔ حتٰی کہ والدین سے بھی نہیں۔ یہ بھی معلومات منظر عام پر آئیں کہ خودکش حملہ آوروں کو نشہ آور ادویات بھی دی جاتی تھیں، اور ان کی جنسی تسکین بڑھانے اور حوروں کے چکر میں ڈالنے کیلئے بھی مختلف طریقہ کار اختیار کئے جاتے تھے۔
خبر کا کوڈ : 399993
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش