0
Saturday 15 Nov 2014 23:21

داعش (ISIS) کی حقیقت (2)

داعش (ISIS) کی حقیقت (2)
تحریر: صابر کربلائی
(ترجمان فلسطین فائونڈیشن پاکستان)


"ہم اسلامی نظام کی اس عمارت کو اپنی لاشوں پر تعمیر کریں گے اور اس میں حدود الٰہی جاری کرکے شریعت اسلامی کے احکام نافذ کریں گے تاکہ ایک بار پھر اس زندگی اور اسلام کا مزہ چکھ لیں۔ ہم اپنے پروردگار سے عہد و پیمان کرتے ہیں کہ اس کے اوامر کی اطاعت کریں گے اور جس چیز سے ہمیں پرہیز کرنے کو کہا گیا ہے اس سے دوری اختیار کریں گے۔ یہ "عبد اللطیف موسی" کے خطبہ کا ایک اقتباس تھا جو اس نے جمعہ 14 اگست 2009ء کو غزہ پٹی کے جنوب میں واقع شہر رفح کی "مسجد ابن تیمیہ" میں بیان کیا ہےـ عبداللطیف موسی جو "ابوالنور المقدسی" کے نام سے مشہور تھا، نے ایک ایسی حالت میں "الامارہ الاسلامیہ فی اکناف بیت المقدس" کی موجودگی کا اعلان کیا اور خود کو اس کے پہلے امیر کے عنوان سے پیش کیا جبکہ "جند انصار اللہ'' نامی انتہا پسند مسلح اور سیاہ پوش جنگجو اس کے منبر کے دونوں طرف کھڑے تھےـ

عبداللطیف موسی (ابونورالمقدسی) رفح کی "مسجد ابن تیمیہ" میں"جند انصار اللہ" ایک انتہاء پسند تکفیری جہادی تحریک تھی، جس کی موجودگی کا اعلان 2008 میں غزہ پٹی کے شہر رفح میں کیا گیا۔ اس تحریک نے اسرائیل کے ساتھ غزہ پٹی کی 22 روزہ جنگ کے دوران اعلان کیا کہ جس طرح صہیونی کافر ہیں، اسی طرح حرکت مقاومت اسلامی (حماس) بھی کافر ہے اور اس لحاظ سے ان دو کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے! "جند انصار اللہ" کا حماس کی تحریک کے ساتھ دشمنی کا بہانہ ان کا شریعت اسلامی کو نافذ کرنے کا دعویٰ تھا اور "جند انصار اللہ" نے حماس پر اس سلسلہ میں سہل انگاری اور آرام طلبی کا الزام لگایا اور کہا کہ حماس سیکولر حکومتوں کے مشابہ بن گئی ہےـ ان اختلافات کی وجہ سے ان کے درمیان مسلح لڑائی بھی چھڑ گئی اور جولائی 2009ء میں پہلی بار حماس کی پولیس اور "جند انصار اللہ" کے چند اراکین کے درمیان مڈبھیڑ ہوئی۔ اگرچہ جند انصار اللہ نے اسرائیل کے خلاف محدود پیمانے پر چند کاروائیاں بھی کیں اور انہوں نے ان کاروائیوں میں شکست کھائی، لیکن دوسری جانب انہوں نے فحشا کو روکنے کے بہانے انٹرنیٹ کیفے جیسے بعض عمومی اماکن میں بم کے دھماکے کئے۔

جند انصار اللہ کا پرچم:
اس گروہ کی طرف سے "عبداللطیف موسٰی" کی قیادت میں اسلامی نظام کی تشکیل کے اعلان کے ضمن میں، ان کے حامیوں نے شہر رفح کی" مسجد ابن تیمیہ " کو اپنی مسلح سرگرمیوں کے مرکز میں تبدیل کیا اور بارودی سرنگوں اور دوسرے اسلحوں سے لیس ہو کر مسجد کے اندر مورچے سنبھالے۔ حماس نے ردعمل کے طور پر "مسجد ابن تیمیہ "کا محاصرہ کرکے "جند انصار اللہ" کے ارکان کو ہتھیار ڈال کر اپنے آپ کو حماس کے حوالہ کرنے کا مطالبہ کیا، لیکن انہوں نے اس سے انکار کیا۔ حماس نے عزالدین قسام بریگیڈ کی ایک نامور شخصیت محمد جبریل الشمالی کی ثالثی کے ذریعہ مذکورہ مسلح گروہ کو سمجھانے کی کوشش کی۔ محمد جبریل مذاکرہ کرنے کی غرض سے مسجد میں داخل ہوئے، لیکن اس انتہا پسند گروہ نے انہیں گولی مارکر قتل کردیا۔ سات گھنٹے کی دوطرفہ شدید گولہ باری کے نتیجہ میں مسجد مسمار ہوگئی اور مسجد کے اندر مورچہ سنبھالے ہوئے "جند انصار اللہ" کے تمام اراکین قتل ہوگئے۔ اس لڑائی میں عبداللطیف موسی بھی اسی گروہ کے ایک رکن کے خودکش حملے کے نتیجے میں مارا گیا۔ یہ واقعہ حماس کے انتہا پسند تکفیری جہادی گروہ کے ساتھ اختلافات کے عروج کا سبب بناـ انتہا پسند تکفیری جہادی تنظیمیں اس واقعہ کو "مجاہدین کے قتل عام " کے عنوان سے یاد کرتی ہیں، جن کے ساتھی اس وقت عراق، صومالیہ، اور افغانستان میں برسر پیکار تھے ـ برسوں کے بعد شام کے بحران میں داعش کی مداخلت کے نتیجہ میں غیر ملکی جنگجووں کی ایک بڑی تعداد ان سے جا ملی، جو معدودے چند انتہا پسند تکفیری فلسطین سے داعش کے ساتھ ملے انہوں نے اپنے لئے "ابوالنور المقدسی بریگیڈ" کا نام منتخب کیاـ

شہید محمد جبریل الشمالی کی شہادت کا بینر جسے حماس نے شائع کیا محمد جبریل الشمالی (ابوجبریل) مشرقی بریگیڈ کے کمانڈر جس کو انتہا پسند تکفیریوں نے رفح کے بحران کو حل کرنے کے سلسلہ میں ثالثی کی گفتگو کے دوران 14/8/2009 کو شہید کیا۔ حماس اور انتہا پسند تکفیری جہادی تحریکوں کے درمیان اختلاف کی وجہ ان دو تحریکوں کی فکری مبانی کا سرچشمہ ہےـ حماس، فلسطین میں اخوان المسلمین کی تحریک کی شاخ شمار ہوتی ہے اور اگرچہ سلفی رجحانات اور مسلح جہاد کا اعتقاد رکھنے کے لحاظ سے تکفیری تحریکوں کے مشابہ ہے، لیکن اس تحریک کے اسلحہ کا نشانہ صہیونی دشمن ہیں۔ ستم ظریفی کا مقام ہے کہ آج انتہا پسند تکفیری جہادی تحریک کا اصلی حصہ، کفار سے مبارزہ اور جہاد کرنے کا قائل ہونے کے بجائے اپنے زعم کے مطابق شرک و فساد سے امت اسلامیہ کو پاک کرنا واجب جانتا ہےـ اسی لیے یہ لوگ اس وقت تک اسرائیل سے جہاد کرنے کے سلسلہ میں ترجیح کے قائل نہیں ہیں، جب تک ان کے بقول امت اسلامیہ میں گمراہ فرقے اور فاسد حکام موجود ہوں، جبکہ وہ اس حقیقت سے غافل ہیں کہ جس چیز کو وہ دین خدا میں شرک و گمراہی جانتے ہیں و ہ دین خدا کے بارے میں ان کی کج فہمی اور تنگ نظری کا نتیجہ ہے اور امت اسلامیہ میں فاسد اور کٹھ پتلی حکام کا سرچشمہ امریکہ اور اسرائیل ہےـ اس قسم کا طرز تفکر حالیہ جنگ غزہ کے دوران، داعش کی موجودیت کے اعلان کے ابتدائی مہینوں میں، طشت از بام ہواـ جب حماس، صہیونی دشمن کے خلاف جہاد و مبارزہ کے عروج پر تھا، "داعش" نے غزہ کے واقعات کے بارے میں نہ صرف کسی ردعمل کا مظاہرہ نہیں کیا، بلکہ فلسطینیوں کے مذکورہ جہاد کو ناجائز غیر رسمی (unofficially) طور پر قرار دیاـ

شام میں داعش کے ابوالنور المقدسی بریگیڈ کے جنگجو:
اس کے علاوہ یہ انتہا پسند تکفیری جہادی گروہ اپنے اسلاف کی پیروی کرنے کے دعوے کے ضمن میں اس امر کے قائل ہیں کہ جہاد امیر کی اجازت کے بغیر جائز نہیں ہے اور چونکہ فلسطین اور غزہ امیر سے عاری ہیں، اس لئے وہاں پر صہیونی دشمن سے جہاد کرنا بھی جائز نہیں ہےـ یہی طرز تفکر اس امر کا سبب بنا کہ اس گروہ نے اقتدار پر قبضہ کرنے کے لئے اسلامی حکومت کی تشکیل کے ضمن میں، امیر و خلیفہ کا بھی اعلان کیا۔ اس قسم کے طرز تفکر کا دعوی کرنے والے ایک مصری رہبر "طلعت زہران" نے اس بناپر حماس کے اسرائیل سے جہاد و مبارزہ کے بارے میں کئے گئے ایک سوال کے جواب میں اس جہاد کو بےبنیاد اور بے فائدہ قرار دیا ہے، حالانکہ ان افراد کی انتہا پسندانہ سلفیت، جس کے وہ قائل ہیں، آج کی دنیا میں سلف کے قالبوں میں متحقق ہونی چاہیئے تھی، جبکہ بہت سے مواقع پر ان کی بظاہر اسلامی صورتیں اسلامی روح و حقیقت سے خالی ہیں۔

طلعت زہران، مصر کا ایک انتہا پسند تکفیری مبلغ:
اس کے مقابلے میں حماس کی تحریک نے انتہا پسند تکفیری جہادی تحریکوں کے ساتھ اپنے اختلافات کی وجوہات کا اعلان کیا ہےـ حماس کے سیاسی دفتر کے بین الاقوامی تعلقات کے مسئول "اسامہ حمدان" نے حال ہی میں ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ "وحدت اسلامی کی ضرورت کے بارے میں حماس کا موقف مکمل طور پر اظہر من الشمس ہےـ ہم امت واحدہ ہیں او اس امت کو اپنے دشمنوں کے مقابلے میں متحد ہونا چاہیئے، جو فرقہ پرستی کی آگ کو بھڑکاتا ہے، وہ حقیقت میں اپنے ہی گھر کو نذر آتش کرتا ہے، اسلامی امت کے خرمن میں آگ لگاتا ہے، ہم حماس میں اس کے قائل ہیں کہ ہماری اصلی جنگ اسرائیل کے ساتھ ہے، جن کی امریکہ حمایت کرتا ہے اور ہمارا حقیقی مبارزہ و جہاد اسی غاصب حکومت سے ہےـ جو شخص اسلامی ملت اور مسلمانوں کا ہمدرد ہے اور ان کا مدافع اور اس امت کی مصلحتوں اور منافع کو متحقق کرنے کی کوشش کرتا ہے، اسے صہیونی دشمنوں کے خلاف جہاد کرنے کے لئے عملی میدان میں قدم رکھنا چاہیئے، کیونکہ بنیادی جنگ بالکل یہیں پر ہے "اسی طرح ایران میں حماس کے نمایندہ ڈاکٹر خالد قدومی نے اپنے ایک بیان میں انتہا پسند اسلامی گروہوں اور حماس کے بعض افراد کے داعش سے رابطہ کے بارے میں حماس کی تحریک کے موقف کو بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ"ممکن ہے کہ ماضی میں گروہ داعش کے کچھ افراد حماس میں تھے کہ وہ اس تحریک سے الگ ہوئے ہوں، لیکن حماس میں کبھی انتہا پسند طرز تفکر موجود نہیں تھا ... ہماری دلی تمنا ہے کہ داعش کو مسلمانوں کے خلاف اسلحہ اٹھانے کے بجائے صہیونیوں کو نشانہ بنانا چاہیئے۔ "

حماس اور انتہا پسند تکفیری جہادی تحریکوں کے درمیان اعتقادی اختلافات سے صرف نظر کرتے ہوئے، حماس کا حزب اللہ اور ایران پر مشتمل محور مقاومت کے ساتھ شام کے حالیہ بحران کے بارے میں نظریاتی اختلاف کے باوجود قریب ہونا، ایک ایسا امر تھا، جس کی ہمیشہ انتہا پسند تکفیری جہادی تحریکیں شدید طور پر تنقید کرتی تھیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران، مغربی ایشیا کے ایک طاقتور ترین ملک اور عالم تشیع کے محور کے عنوان سے تنہا حکومت تھی جس نے باقاعدہ طور پر حماس کی مسلح مقاومت کا کھل کر دفاع کیا اور گذشتہ سے بہتر صورت میں کسی خوف و ہراس کے بغیر فلسطینیوں کو مسلح کرنے کا منصوبہ پیش کیا۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے رہبر آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے اس سال عید فطر کے خطبوں میں بیان فرمایا کہ "امریکہ کے صدر جمہوریہ نے فتوی صادر کیا ہے کہ مقاومت کو غیر مسلح کیا جانا چاہیئے! جی ہاں، معلوم ہے کہ آپ انہیں غیر مسلح کرنا چاہتے ہیں تاکہ، ان تمام ظلم و بربریت کے مقابلے میں جو وہ ضرب لگاتے ہیں، نہ لگا سکیں، ہم عرض کرتے ہیں کہ، اس کے بر عکس تمام دنیا، خاص کر عالم اسلام، کا فرض ہے کہ جس قدر ممکن ہو سکے ملت فلسطین کو مسلح کرنے میں مدد کریں "

حماس بھی اس حقیقت سے صرف نظر کرتے ہوئے کہ تنہا محور مقاومت جس کا سر فہرست ایران ہے، جو طبی اور غذائی امداد کے علاوہ مقاومت کو اسلحہ کے لحاظ سے بھی تقویت بخشتا ہے، اخوان المسلمین کی تقریبی (اتحاد مسلمین) پالیسی پر مبنی طرز تفکر، جس کی بنیاد امام حسن البنا اور دوسری شخصیتوں نے ڈالی ہے اور وہ اس کی تاکید فرماتے تھے، جس کے پیش نظر اصلی دشمنوں یعنی امریکہ اور اسرائیل کے مقابلے میں امت اسلامیہ میں اتحاد و یکجہتی ضروری ہےـ غزہ کی جنگ اور فلسطین کے مسئلہ نے حق و باطل کو واضح اور روشن کردیا اور ثابت کیا کہ صرف قیام، جہاد، ترک دنیا اور سرحدوں سے عاری وطن پرستی قابل قدر نہیں ہے، جو قیام اور جہاد امت اسلامیہ کی کمر توڑ کر اسلام کے دشمنوں کو تقویت بخشنے والا ہو، نہ صرف کوئی قدر و منزلت نہیں رکھتا ہے بلکہ ملامت کا مستحق ہے۔ ایران کے نامور شاعر حافظ شیرازی نے کیا خوب کہا ہے کہ:
"نہ ہر کہ سر بتراشد قلندری داند"
ہر سر منڈوانے والا قلندر نہیں ہوتا ہے
خبر کا کوڈ : 419549
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش