0
Monday 13 Oct 2014 18:39

غدیر، امامت اور رسالت کے تناظر میں

غدیر، امامت اور رسالت کے تناظر میں
تحریر: شبیر احمد شگری

تاریخ اسلام میں 2 اھم اور بڑے واقعات رونما ھوئے جس کے نتیجے میں ایک سے رسالت اور دوسرے سے امامت وجود میں آئی ہے۔ پہلا واقعہ وحی کے نزول کا هے، جو پیغمبر اکرم ﷺ کی رسالت کو اپنے دامن میں ہی لئے ہوئے ھے، اور دوسرا واقعہ غدیر کا هے، جس نے امامت کو وجود عطا کیا اور حقیقت میں یہ منصب ایک طرح سے رسالت کا استمرار ھی ھے۔ روز غدیر اور امامت کی اتنی ھی اھمیت هے جتنی اہمیت روز مبعث و رسالت کی هے۔ پروردگار عالم قرآن میں اس ارتباط کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا هے،
یاایُّھَاالرَّسوُلُ بَلِّغ مَآاُنزِلَ اِلیک من رَبّکِ وَاِن لم تفعل فما بلغت رسالتہ واللہ یعصمک من الناس ان اللہ لا یھدی القوم الکافرین۔
”اے رسول! پہونچا دیجئے اس حکم کو جو آپ کے رب کی جانب سے آپ پر نازل کیا جا چکا هے اور اگر ایسا آپ نے نہ کیا تو گویا کار رسالت ہی انجام نہ دیا او اے رسول اگر آپ ڈرتے ہیں تو خدا لوگوں کے شر سے آپ کی حفاظت بھی فرمائے گا اور اللہ کافر قوم کی ہدایت نہیں کرتا هے۔"
اور دوسری آیت جو اسی دن واقعہ غدیر کے بعد نازل ہوئی فرمایا:
الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی و رضیت لکم الاسلام دینا۔
”آج تمہارے لئے دین کو کامل کر دیا اور تم پر اپنی نعمتیں کامل کر دیں اور تمہارے لئے اسلام کو بعنوان دین پسند کیا۔“
مرحوم الحاج مرزا جواد ملکی تبریزی فرماتے ہیں، "روز غدیر کو روز مبعث سے وہی نسبت هے جو آخری جزء کو علت تامہ سے ہوتی هے بلکہ شئی ظاہر کو باطن سے جو نسبت هے وہی نسبت روز غدیر کو روز مبعث سے هے بلکہ بمنزلہ روح انسانی هے کیونکہ روز مبعث میں جو کچھ بھی خیر و خوبی، کامیابی، کامرانی اور سعادت هے، وہ امیرالموٴمنین علیہ السلام اور آپ کے بعد دیگر آئمہ علیہ السلام کی ولایت سے مشروط ہے"۔

روز غدیر کی اہمیت کے پیش نظر جو کہ اسلامی عیدوں میں بزرگ ترین اور مہتم بالشان عید هے اس کے لئے آداب و اعمال اور بے شمار فضائل بیان ہوئے ہیں، اس مقالے میں آداب غدیر بقدر امکان روایت کی روشنی میں پیش کئے جائیں گے۔ ہر چیز سے پہلے چند نکات کی طرف اشارہ کیا جاتا هے۔
۱۔آج کے دن اعمال اور آداب بکثرت اور فوق العادت ہیں اور کسی دن کے اعمال سے مقایسہ و موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ اس تحقیقی مقالے میں جہاں تک مقالہ نگار کے بس میں هے چالیس سےزیادہ آداب روز غدیر روایت کی روشنی میں بیان کئے جائیں گے۔
۲۔ آداب اور اعمال غدیر میں تمام فرقے اور گروہ، مورد خطاب ہیں اور ہر گروہ کے لئے چاهے جن افکار و نظریات کا مالک ھو اور کسی بھی سن وسال کا ہو اسکی مناسبت سے آداب موجود ہیں۔
۳۔ اس روز کے اعمال و آداب، جامعیت و معنویت گیرائی اور گہرائی میں انسان کی زندگی کے تمام شعبوں (عبادتی، سیاسی، فقہی) سے مربوط ہیں۔
ان نکات مذکورہ بالا سے استفادہ ہوتا هےکہ اس مہم تاریخی واقعہ کی بناء رکھنے والا یہ چاھتا هےکہ یہ دن تاریخ میں ہمیشہ زندہ رهے، اس تاریخی واقعہ کی اہمیت کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ اس کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک سو دس اصحاب نے نقل کیا ہے۔ البتہ اس جملہ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ صحابہ کی اتنی بڑی تعداد میں سے صرف انھیں اصحاب نے اس واقعہ کو بیان کیا ہے، بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ اہل سنت کے علماء نے جو کتابیں لکھی ہیں ان میں صرف انھیں ایک سو دس افراد کا ذکر ملتا ہے۔ دوسری صدی، جس کو تابعان کا دور کہا گیا ہے اس میں ۸۹/ افراد نے اس حدیث کو نقل کیا ہے۔ بعد کی صدیوں میں بھی اہل سنت کے تین سو ساٹھ علماء نے اس حدیث کو اپنی کتابوں میں بیان کیا ہے اور علماء اہل سنت کی ایک بڑی تعداد نے اس حدیث کی سند اور صحت کو صحیح تسلیم کیا ہے۔ اس گروہ نے صرف اس حدیث کو بیان کرنے پر ہی اکتفاء نہیں کیا بلکہ اس حدیث کی سند اور افادیت کے بارے میں مستقل طور پر کتابیں بھی لکھی ہیں۔ عجیب بات تو یہ ہے کہ عالم اسلام کے سب سے بڑے مورخ طبری نے " الولایت فی طرقِ حدیث الغدیر" نامی کتاب لکھی اور اس حدیث کو ۷۵ طریقوں سے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کیا۔ ابن عقدہ کوفی نے اپنے رسالہ ولایت میں اس حدیث کو 105 افراد سے نقل کیا ہے۔ ابوبکر محمد بن عمر بغدادی جو کہ جمعانی کے نام سے مشہور ہے انھوں نے اس حدیث کو 25 طریقوں سے بیان کیا ہے۔
احمد بن حنبل شیبانی ،ابن حجر عسقلانی،جزریشافعی،ابوسعید سجستانی،امیر محمد یمنی، نسائی، ابو الاعلاء ہمدانی اور ابو العرفان حبان نے اس حدیث کو بہت سی سندوں کے ساتھ نقل کیا ہے۔ شیعہ علماء نے بھی اس تاریخی واقعہ کے بارے میں بہت سی اہم کتابیں لکھیں ہیں اور اہل سنت کی مشہور کتابوں کا حوالہ دیا ہے۔ ان میں سے جامع ترین کتاب " الغدیر" ہے، جو عالم اسلام کے مشہور مؤلف مرحوم علامہ امین یۺ کے قلم کا شاہکار ہے۔ (اس کتابچہ کو لکھنے کے لئے اس کتاب سے بہت زیادہ استفادہ کیا گیا ہے). بہرحال پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امیرالمومنین علی علیہ السلام کو اپنا جانشین بنانے کے بعد فرمایا:" اے لوگو! ابھی ابھی جبرئیل امین یہ آیت لے کر نازل ہوئے <الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی و رضیت لکم الاسلام دیناً> آج میں نے تمھارے دین کو کامل کر دیا اور تم پر اپنی نعمتوں کو بھی تمام کیا اور تمھارے لئے دین اسلام کو پسند کیا۔ اس وقت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تکبیر کہی اور فرمایا :" اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے اپنے آئین اور نعمتوں کو پورا کیا اور میرے بعد علی علیہ السلام کی وصایت و جانشینی سےخوشنود ہوا۔ اس کے بعد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بلندی سے نیچے تشریف لائے اور حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا کہ:" جاؤ خیمے میں جا کر بیٹھو، تاکہ اسلام کی بزرگ شخصیتیں آپ کی بیعت کرتے ہوئے مبارکباد پیش کریں، سب سے پہلے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر نے حضرت علی علیہ السلام کو مبارکباد پیش کی اور ان کو اپنا مولا تسلیم کیا۔ حسان بن ثابت نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اجازت سے ایک قصیدہ کہہ کر اس کو پڑھا، یہاں پر اس قصیدے کے صرف 2 اہم اشعار بیان کر رہےہیں:
فقال لہ قم یا علی فاننی فانی رضیتک من بعدی اماما ًوہادیاً فمن کنت مولاہ فہٰذا ولیہ فکونو لہ اتباع صدق موالیا
یعنی علی علیہ السلام سےفرمایا :" اٹھو میں نے آپ کو اپنی جانشینی اور اپنے بعد لوگوں کی امامت و راہنمائی کے لئے منتخب کرلیا۔ " جس جس کا میں مولا ہوں اس اس کے علی مولاہیں۔ تم ،کہ ان کو دل سے دوست رکھتے ہو ،بس ان کی پیروی کرو۔ یہ حدیث علی علیہ السلام کی تمام صحابہ پرفضیلت اور برتری کے لئے سب سے بڑی دلیل ہے ۔
امام جعفر صادق علیہ السلام سے دریافت کیا گیا، کیا جمعہ اور عیدین کے علاوہ بھی مومنین کے لئے کوئی عید هے، امام نے فرمایا ہاں، مومنین کے لئے ان عیدوں سے عظیم ترعید هے، جس دن امیرالمومنین علیه السلام بعنوان ہادی نصب کئے گئے اور غدیر خم میں آپ کے سر پہ تاج ولایت رکھا گیا اور عورتوں اور مردوں سے آپ کی بیعت لی گئی، میں نے دریافت کیا، وہ کون سا دن تھا ؟ فرمایا، دن بدلتے رہتے ہیں پھر فرمایا، وہ اٹھارہ ذی الحجہ کا دن تھا۔ پھر اس کے بعد فرمایا اس دن کا عمل اسّی مہینے کے برابر هے، اور سزاوار هے کہ اس دن اللہ کا زیادہ سے زیادہ ذکر کیا جائے محمد وآل محمد علیہم السلام پر کثرت سے درود بھیجا جائے اور آدمی کو اپنے اہل و عیال کے سلسلے میں وسعت اور فراخدلی کا مظاہرہ کرنا چاہیئے۔
رسول خدا (ص) نے فرمایا علی بن ابی طالب (ع) میری امت میں سے پہلے اسلام لانے والے ہیں دانش میں وہ سب سے پہلے ہیں ان کا دین تمام سے زیادہ درست ہے اور ان کا یقین سب سے بلند ہے اور حلم میں طاقتور ہیں ان کا ہاتھ تمام سے زیادہ کھلا ہے (سخی ہیں) اور سب سے زیادہ بہادر و شجاع ہیں اور وہ میرے بعد امام و خلیفہ ہیں۔

جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا علی (ع) آسمان ہفتم میں خورشید (سورج) کی طرح جیسا کہ وہ دن کو روشن ہوتا ہے روشن ہیں اور دنیا میں ایسے ہیں جیسے چاند رات کو اس دنیا میں روشن ہوتا ہے خدا نے علی(ع) کو فضیلت کا وہ حصہ عطاء کیا ہے کہ اگر اہل زمین میں تقسیم ہوتو یہ ان تمام کو گھیرے ہوگا اور خدا نے انہیں فہم سے وہ حصہ دیا کہ اگر تمام اہل زمین میں تقسیم کیا جائے تو تمام کو گھیرے ہوگا یہ لوط (ع) کی نرمی رکھتے ہیں اور خلق یحیی (ع) و زہد ایوب (ع) اور سخاوت میں ابراہیم (ع) کی مانند ہیں ان کی خوشی سلیمان (ع) بن داؤد (ع) کی خوشی کی طرح ہے ان کی طاقت داؤد (ع) کی طاقت کی طرح ہے ان کا نام تمام پرزہ ہائے بہشت پر آویزاں ہے اور میرے پروردگار نے مجھے اس کے وجود کی خوشخبری دی ہے۔ یہ خوشخبری اس سے تھی جو میرے اور علی (ع) کے درمیان ﷲ تعالی کے نزدیک قائم ہے اور فرشتوں کے نزدیک جو تزکیہ شدہ ہے وہ خاص میرا ہے اور میرا اعلان میرا چراغ ہے اور میری جنت اور میرا رفیق ہے۔ میرے رب نے مجھے ان سے مانوس کیا میں نے اس (خدا) سے درخواست کی کہ مجھ سے پہلے ان کی جان قبض نہ کرنا اور میں نے درخواست کی کہ میرے بعد فیض شہادت سے ان کی جان قبض کرنا اور جب میں بہشت میں داخل ہوا تو میں نے دیکھا کہ حوریانِ علی (ع) درختوں کے پتوں پر تکیہ کیے ہیں (یعنی درختوں کے پتوں کی طرح بے شمار ہیں) قصور علی (ع) ( قصر کی جمع محلات۔ رہنے کے بہترین مقامات) تعداد انسان کے برابر ہیں علی(ع) مجھ سے ہیں اور میں علی(ع) سے ہوں۔ جو کوئی ان کو دوست رکھتا ہے مجھے دوست رکھتا ہے۔ علی(ع) سے دوستی (محبت) اور انکی پیروی نعمت ہے یہ جان لو کہ فرشتے ان کے معتقد ہیں اور صالح جنات ان کے نزدیک ہیں اور میرے بعد کوئی بھی اس زمین پر علی (ع) سے بہتر زندگی نہیں گزار رہا۔ آخر میں خداوند عالم سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اس سب سے بڑی عید، عیدغدیر کی معرفت اور معنویت سے آشکار کرے، امامت کی معرفت اور اپنی حجت اور امام زمانہ عجل اللہ۔ کی معرفت عطا فرمائے، ان کے ظہور میں تعجیل فرمائے کہ ان کا ظہور غدیر کے تحقق اور مستضعفین جہان کی آخری امید ہے۔
خبر کا کوڈ : 414436
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش