0
Friday 21 Mar 2014 14:02

دنیا کی پُرامن اور حق پر مبنی تحریکیں کبھی مظالم اور طاقت و تسلط سے خاموش نہیں ہوئیں، میرواعظ عمر فاروق

دنیا کی پُرامن اور حق پر مبنی تحریکیں کبھی مظالم اور طاقت و تسلط سے خاموش نہیں ہوئیں، میرواعظ عمر فاروق
میرواعظ مولوی ڈاکٹر عمر فاروق کا تعلق جموں و کشمیر کے شہر سرینگر سے ہے، آپ 1973ء میں کشمیر میں متولد ہوئے، آپ جموں و کشمیر عوامی ایکشن کمیٹی کے چیئرمین ہیں اور جموں و کشمیر کل جماعتی حریت کانفرنس (م) کی سربراہی بھی آپ ہی کرتے ہیں، جب میرواعظ عمر فاروق 17 سال کے تھے تو آپ کے والد میرواعظ مولوی محمد فاروق کو نامعلوم بندوق برادروں نے نشانہ بنایا، والد کی رحلت کے فوراً بعد آپ نے جموں و کشمیر کے 23 سرکردہ حریت نواز لیڈران کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا اور کل جماعت حریت کانفرنس کی بنیاد ڈالی، تب سے آج تک آپ نے مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے میں اپنی کاوشیں جاری رکھیں، آپ 1990ء میں کشمیر کے قدیم الرائج سلسلہ کے 14ویں میرواعظ قرار پائے، آپ 18 سال کی عمر میں ہی آل پارٹیز حریت کانفرنس کے فاؤنڈر چیئرمین بن گئے، میرواعظ عمر فاروق نے کشمیر یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی (ڈاکٹریٹ) کی ڈگری حاصل کی ہے، میرواعظ عمر فاروق کا ماننا ہے کہ پاکستان کی اکثر سیاسی و مذہبی جماعتیں مسئلہ کشمیر کو حل ہوتا ہوا دیکھنا چاہتی ہیں اور کشمیر کو اپنا مکمل تعاون دیئے ہوئے ہیں، اسلام ٹائمز نے ایک خصوصی نشست کے دوران میرواعظ عمر فاروق کی رہائش گاہ پر ان سے تفصیلی انٹرویو کا اہتمام کیا جو قارئین کرام کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: بےگناہوں کی ہلاکت اور پھر تشدد و بربریت کے ذریعہ لوگوں کے جذبات و احساسات کو روکنے اور حریت نواز قیادت کو بار بار حراست میں رکھنے کے سلسلے میں بھارتی حکومت کا رویہ کیا ہے۔؟

میرواعظ مولوی ڈاکٹر عمر فاروق: دیکھئے تحریک آزادی کشمیر کو بار بار طاقت، تشدد اور بربریت و مظالم سے دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن جموں و کشمیر کی یہ تحریک ایک عوامی تحریک ہے اور اس تحریک کے ساتھ لوگوں کے دل جڑے ہوئے ہیں، اس تحریک کے ساتھ لوگوں کے احساسات، جذبات اور امنگیں جڑی ہوئی ہیں اور آپ جانتے ہیں کہ پچھلے بائیس پچیس سال سے یہاں کی عوام دنیا کی دوسری بڑی فوجی طاقت سے نبرد آزما ہیں، اس کے باوجود بھی نوجوانوں کے حوصلے کم نہیں ہوئے ہیں، یہاں کالے قوانین موجود ہیں، مار دھاڑ ہے۔ ہمارے سیاسی، مذہبی انسانی حقوق طاقت کے بل پر سلب کئے جاتے ہیں، آپ دیکھ رہے ہیں کہ یہاں پر ہمیشہ اس طریقے سے طاقت کا بےتہاشا استعمال کیا جا رہا ہے اور عوامی امنگوں اور جذبات کو دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے، یہ سب جمہوریت کے دعویداروں کے لئے سب سے بڑا چیلنج ہے، دوسری بات یہ ہے کہ جموں و کشمیر کی تحریک اب ایک ایسے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے کہ یہ تحریک یہاں کے نوجوانوں کے دل و دماغ میں پیوستہ ہو چکی ہے اس حوالے سے یہاں ہر دن کوئی نہ کوئی خونین داستان رونما ہوتی ہے، ہر آئے دن ہمیں لاشیں اٹھانی پڑتی ہیں غرضکہ یہاں ہر دن کربلا کی یاد دلاتا ہے اور ہر شام، شام غریباں کی یاد دلاتی ہے، اس لئے حکومت کی جانب سے بار بار ہمارے پرامن پروگرامز کو طاقت کے بل پر روک دیا جاتا ہے، ہمارے کارکنوں کو نظربند رکھا جاتا ہے، گرفتار کیا جاتا ہے اور احتجاجی جوانوں کو مار مار کے ناکار کیا جا رہا ہے اور یہ بھارت کا کوئی نیا حربہ نہیں ہے ایسا بھارت نے بار بار کیا ہے، لیکن ان مظالم سے یہاں کی عوامی تحریک ہرگز نہیں دبائی جا سکتی ہے، دنیا کی پرامن تحریکیں اور حق پر مبنی تحریکیں کبھی مظالم اور طاقت و تسلط سے خاموش نہیں ہوئی ہیں، آج ہم دیکھتے ہیں کہ مشرق وسطیٰ میں، شام اور مصر و بحرین میں کیا ہو رہا ہے، لیکن جہاں کہیں بھی عوامی تحریکیں موجود ہوں وہاں کبھی طاقت اور مظالم کا سکہ نہیں چلتا۔

اسلام ٹائمز: کیا بھارت اس ہٹ دھرمی اور تشدد کی پالیسی پر برقرار رہ پائے گا۔؟

میرواعظ مولوی ڈاکٹر عمر فاروق: دیکھئے بھارت کو دیر سویر اس بات کو تسلیم کرنا ہوگا کہ مسئلہ کشمیر کا پرامن حل ڈھونڈا جائے لیکن بھارت کی یہ بڑی کوشش رہی ہے کہ الیکشن کے ذریعہ سے، اقتصادی پیکیجز کے ذریعہ سے، مراعات کے ذریعہ سے یہاں کے لوگوں کو اس مقدس تحریک سے دور کیا جائے، یہ ٹھیک ہے کہ لوگوں کے مسائل ہیں، بنیادی مشکلات ہیں، سڑکوں اور پانی و بجلی کا مسئلہ ہے لیکن یہ سب چیزیں لوگوں کے بنیادی حقوق ہیں، اور اگر بھارتی حکومت کو یہ گمان ہے کہ ان سب چیزوں سے لوگ تحریک آزادی سے دور ہوتے جائیں گے تو یہ سراسر ان کی غلط فہمی ہوگی، ہمیں بہت دور جانے کی ضرورت نہیں ہے 2008ء اور 2010ء میں ہم نے دیکھا کہ جو حالات یہاں رونما ہوئے وہ عوامی تحریک کے عکاس تھے، صرف ایک چنگاری کی ضرورت ہے آپ پھر سے دیکھیں گے کہ لوگ سڑکوں پر نکل آئیں گے، اس لئے بھارت کو ہم یہ مشورہ دینا چاہیں گے کہ وہ بات چیت کے ذریعہ سے اس دیرینہ مسئلہ کا حل ڈھونڈ نکالے، آج جیسے امریکہ مجبور ہوگیا ہے کہ افغانستان کے مسئلہ پر بات چیت کی جائے اور مشرق وسطیٰ کے دیگر مسائل مع شام کے بات چیت کے ذریعہ حل ہو سکتے ہیں، آج عاملی طاقتیں ایران کے ساتھ بات کررہی ہیں گویا جس قوم میں شعور ہو، جذبہ موجود ہو اور ہمت و جدوجہد کا عزم ہو اس قوم میں بھلے ہی کامیاب ہونے میں وقت لگ جائے لیکن وہ اپنی منزل حاصل کر ہی لیتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا جموں و کشمیر کی حریت نواز قیادت مسئلہ کشمیر کو عالمی ایوانوں تک پہنچانے میں کامیاب نظر آرہی ہے۔؟

میرواعظ مولوی عمر فاروق: میں سمجھتا ہوں کہ مسئلہ کشمیر کی گونج آج دنیا میں ہر جگہ سنائی دیتی ہے، یہ ٹھیک ہے کہ ہماری عالمی برادری سے، امریکہ، برطانیہ، یورپی یونین اور اقوام متحدہ سے شکایت ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کی جانب توجہ نہیں دے رہے ہیں لیکن یہ بھی حقیقیت ہے کہ آج کشمیریوں کی قربانیوں کے باعث مسئلہ کشمیر کی حقیقت پوری دنیا میں واضح ہو چکی ہے، آج دنیا کا کوئی بھی ملک چاہے وہ امریکہ ہو یا برطانیہ کہ جن کے اقتصادی مفادات بھارت سے وابستہ ہیں اور بھارت سے ان کا لین دین ہے لیکن بار بار یہ کہتے آئے ہیں کہ بھارت اور پاکستان کو باہمی مذاکرات کے ذریعہ مل بیٹھ کر مسئلہ کشمیر کا حل نکالنا چاہیئے، اقوام متحدہ نے حال ہی میں ایک بیان میں کہا ہے کہ اگر بھارت اور پاکستان چاہے تو ہم مسئلہ کشمیر پر ثالثی کا رول ادا کرسکتے ہیں، یورپی یونین نے بھی ایسا ہی کہا ہے اور او آئی سی کی بار بار قراردادیں یہی ہیں اور وہ اس مسئلہ کی حساسیت کو محسوس کررہے ہیں، میں سمجھتا ہوں کی آج جس قدر کشمیریوں کی آواز کو سراہا جا رہا ہے اور قبول کیا جا رہا ہے ایسا مثبت ’’رسپانس‘‘ کبھی دیکھنے کو نہیں ملا ہے، اگرچہ بھارت کی کوشش ہمیشہ یہ رہی ہے کہ اس مسئلہ کو شدت پسندوں کے ساتھ جوڑا جائے، عسکریت پسندی اور شرپسندی سے جوڑا جائے، دہشت گردی سے جوڑا جائے لیکن آج پوری دنیا کے ساتھ ساتھ خود بھارت میں سول سوسائٹی، ہیومن رائٹس ادارے اور دیگر باشعور طبقہ بار بار کشمیر میں موجود کالے قوانین کی بات کرتے ہیں ہر جگہ چرچا ہوتا ہے اور ہر سطح پر بات ہوتی ہے اور انگلیان بھارت کی جانب ہی اٹھتی ہیں، عالمی سطح پر کشمیریوں کی حق پر مبنی آواز کی پذیرائی ہو رہی ہے۔ عالم اسلام کے 57 ممالک ہمارے حق میں ہیں، ہماری حمایت میں بار بار اپنی آواز بلند کرتے ہیں، باشعور افراد اور دنیا کی بااثر تنظیمیں ہمارے حق میں ہیں، دیگر مسائل جہاں حل کرنے کو ان کی کوشش ہے وہیں مسئلہ کشمیر کو بھی اجاگر کیا جا رہا ہے۔

اسلام ٹائمز: بھارت کی ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ کشمیر کی آزادی کی تحریک کو عالمی سطح پر پذیرائی حاصل نہ ہو، کیا وہ اس میں کامیاب ہوتا دکھائی دیتا ہے۔؟

میرواعظ مولوی عمر فاروق: آج دنیا کا ہر فرد آگاہ ہے اور حقائق کا علم رکھتا ہے مجھے خود بھی کئی بار او آئی سی، نان الائنٹ موومنٹ، اقوام متحدہ یا پھر یورپی یونین میں مسئلہ کشمیر کے حوالے سے جانا پڑا مجھے کہیں بھی کشمیر کو لیکر کوئی انٹروڈکشن نہیں دینا پڑتا آج پوری عالمی برادری مسئلہ کشمیر سے واقف ہے اب اس واقفیت کو مربوط پالیسی میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے کہ عالمی برادری سامنے آئے اور مسئلہ کشمیر کے حل کے سلسلے میں اپنا کلیدی رول ادا کرے، جس طرح وہ دیگر معاملات میں مثبت رول ادا کر رہے ہیں۔ یہاں عالمی برادری کا دہرا پن بھی قابل افسوس ہے کہ وہ ایسٹ تیمور، ساؤتھ آف سوڈان اور ایسے علاقوں اور معاملات کی بات کرتے ہوں جہاں ایک مخصوص مذہب کے ماننے والے موجود ہوں لیکن چونکہ یہاں شاید مسلمانوں کا مسئلہ ہے، اور مسلمان اس مسئلہ کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں اس لئے وہ عدم دلچسپی کا مظاہرہ کرتے آئے ہیں، اس وجہ سے یہ مسئلہ عالمی برادری کے لئے بھی ایک بڑا چیلنج ہے کہ وہ جو جمہوریت کی بات کرتے ہیں، جمہوری اقدار اور انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں لیکن پھر میدان میں دہرے پن کا مظاہرہ بھی کرتے ہیں یہ ایک افسوسناک اقدام ہے اقوام عالم کا۔

اسلام ٹائمز: جموں و کشمیر کی حریت نواز قیادت کی تقسیم پر تقسیم ہونے کے سلسلے میں آپ کیا کہتے ہیں۔؟

میرواعظ مولوی عمر فاروق: اس میں کوئی شک و تردید نہیں ہے کہ جموں و کشمیر کی تحریک کہ جس کے ساتھ یہاں کی عوام جڑی ہوئی ہے اور اس تحریک کو بھرپور عوامی تعاون حاصل ہے وہاں حریت نواز قیادت بھی اپنا بھرپور رول ادا کر رہی ہے، اب اگر یہاں کی تمام حریت نواز قیادت ایک ساتھ اور مل کر کام کرتی تو بہتر نتائج سامنے آ سکتے تھے، لیکن اس حوالے سے ہمیں زیادہ بھی تشویش نہیں ہے کیونکہ ہر گروپ اور ہر کوئی جماعت اور پارٹی اس کا موقف اور نظریہ ایک ہی ہے کہ ہم بھارت سے آزادی چاہتے ہیں، بھارت کے فوجی تسلط اور غلبے سے مکمل چھٹکارا اور نجات چاہتے ہیں، اپنے بنیادی حقوق چاہتے ہیں، سب ایک ہی منزل کے مسافر اور ساتھی ہیں، ہاں طریقہ کار میں اختلاف ہو سکتا ہے، مختلف جماعتوں اور لیڈران نے مختلف طریقہ کار وضع کئے لیکن جہاں تک ہدف کی بات ہے، جہاں تک ہمارے گول کی بات ہے وہ صرف ایک ہی ہے، ہماری منزل ایک ہے۔

اسلام ٹائمز: پاکستان کا بھارت کے ساتھ تعلقات بحال کرنے اور مسئلہ کشمیر کو نظرانداز کرنے کے سلسلے میں آپ کی رائے کیا ہے۔؟

میرواعظ مولوی عمر فاروق: پاکستان اس حقیقت کو سمجھ رہا ہے کہ وہ کشمیر کے معاملہ پر بھارت کے ساتھ فیصلہ کن بات چیت کرنا چاہتا ہے بعض لوگوں کا ماننا ہے کہ پہلے ہم تجارت کو ٹھیک کریں گے، پہلے بھروسہ قائم کیا جائے، پہلے ثقافتی و تجارتی تعلقات بحال کیے جائیں اور پھر مسئلہ کشمیر پر بات چیت کی جائے لیکن کچھ ماہ قبل ہی ایل او سی (حد متارکہ) پر تناؤ بڑھا یہاں کے فوجی مارے گئے وہاں نوجوان مارے گئے تو تمام تعلقات دونوں ملکوں کے درمیان ختم ہوگئے گویا دونوں ممالک یہ سمجھ رہے ہیں کشمیر کے مرکزی نکتے کو ایڈریس کیا جائے اس کے بغیر دونوں ملکوں کے درمیان بات چیت اور مذاکرات سودمند ثابت نہیں ہو سکتے۔ یہاں کی حریت نواز قیادت نے بھی ہمیشہ دونوں ملکوں سے چاہا ہے کہ وہ ٹھوس بنیادوں پر بات چیت کے عمل کا آغاز کریں اس میں کشمیریوں کو بھی شامل کیا جائے، یہاں کی حریت نواز قیادت کو بھی مذاکرات میں شامل کیا جائے اور پھر کشمیری عوام کے احساسات اور جذبات کے مطابق اس مسئلہ کا حل تلاش کیا جائے، بات چیت کے دروازے کھلے رہنے چاہیئے لیکن بات چیت برائے بات چیت نہ ہوں بلکہ نتیجہ خیز ہوں، ہمارا ماننا ہے کہ بھارت اور پاکستان کے بہتر تعلقات کشمیریوں کے حق میں ہیں اور مذاکرات کے ہوتے ہوئے ہی مسئلہ کشمیر کا دائمی حل ڈھونڈا جا سکتا ہے، مسئلہ کشمیر کے سیاسی و سفارتی حل کی تلاش ہمیں جاری رکھنے چاہیئے، پاکستان میں الیکشن ہوئے اور اب بھارت میں بھی الیکشن ہونے جا رہے ہیں، انتخابات کے بعد جس نہج پر یہ مذاکرات چلیں گے اس کے بہتر نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: پاکستان کے اندرونی حالات کے ہوتے ہوئے کیا وہ کشمیر کے مسئلہ پر وکالت کرنے کی پوزیشن میں ہے۔؟

میرواعظ مولوی عمر فاروق: دیکھیے پاکستان کے موجودہ حالات قابل افسوس اور تشویشناک نظر آرہے ہیں، دہشت گردی عام ہے جو کھلی جارحیت کی عکاس ہے، ہمیں افسوس ہے کہ جس مقصد کے لئے پاکستان کا وجود عمل میں لایا گیا تھا، اسلام کا ایک مضبوط قلعہ، پاکستان کو بننا تھا لیکن بدقسمتی سے وہاں پر جو اندرونی خلفشاری ہے اس کی وجہ سے جہاں خود پاکستان بری طرح سے متاثر ہو رہا ہے ساتھ ہی ساتھ ہم اس بات سے انکار نہیں کرسکتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر سے توجہ ہٹ گئی ہے اور ابھی پاکستان کی اندرونی مسائل پر زیادہ توجہ ہے اس لئے وہاں کی حکومت، قیادت ابھی دیگر مسائل کے حل میں الجھے ہوئے ہیں، لیکن پاکستان کا سیاسی، سفارتی اور اخلاقی تعاون و حمایت کشمیریوں کے ساتھ ہے، میرا ماننا ہے کہ بہت جلد آپ دیکھیں گے کہ اس ’’پروسیس‘‘ میں ہمیں عنقریب بہتری دیکھنے کو ملے گی، افغانستان کا مسئلہ حل ہونے کے بعد میں سمجھتا ہوں توجہ کشمیر کی جانب مبذول ہو سکتی ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا آپ محسوس کررہے ہیں کہ اس سال کے آخر تک افغانستان سے امریکہ اپنی فوج کو واپس بلائے گا۔؟

میرواعظ مولوی عمر فاروق: امریکہ اب جان گیا ہے کہ اسکی فوجی پالیسی اب افغانستان میں کام نہیں کر پا رہی ہے، طاقت اور تشدد کے ذریعہ سے وہ افغان قوم کو ہرا نہیں پائے گا، اب وہ بھاگ نکلنے کے خوبصورت راستے کی تلاش میں ہے اور بہت جلد وہ وہاں سے بھاگ نکلے گا تاکہ اسکی مسخ شدہ مزید مسخ ہونے سے محفوظ رہے۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ اس سال کے آخر تک امریکہ فوجی انخلاء شروع کرے گا، حامد کرزائی اب کھل کر امریکہ کی مخالفت بھی کرنے لگے ہیں شاید اب بہت جلد افغانستان کا مسئلہ حل ہو جائے گا، اگر افغانستان اور پاکستان کے تعلقات بہتر ہوتے ہیں تو اس کا تمام خطے میں مثبت اثر پڑے گا اور بہتر نتائج سامنے آئیں گے، دونوں ممالک میں تعلقات کی بحالی اور بہتری میں ہمسایہ ممالک کردار ادا کرسکتے ہیں جیسا کی ایران اپنا رول ادا کر رہا ہے، افغانستان کے مسئلے کو حل کرنے کے بعد ہم مسئلہ کشمیر کے حل کی جانب بڑھ سکتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: افغانستان سے امریکی فوجی انخلاء کا کیا کشمیر پر کوئی اثر پڑ سکتا ہے، کشمیر میں نوجوان طالبان کی حمایت کا اظہار کرتے ہیں اور طالبان کی کشمیر آمد پر خوش آمدید اور اطمینان کا اظہار کرتے ہیں، اس سلسلے میں آپ کا نظریہ ہے۔؟

میرواعظ مولوی عمر فاروق: میں سمجھتا ہوں کی افغانستان سے امریکی فوجی انخلاء کا کشمیر پر کوئی زبردست اثر نہیں پڑنے والا، کہ وہاں سے شرپسند عناصر آئیں گے اور کشمیر کو اپنا ٹھکانا بنائیں گے، یہ صرف بھارت کی سازش ہے کہ وہ کشمیر کے مسئلہ کو پرخطر اور شدت پسندوں کے ساتھ جوڑنا چاہتے ہیں، بھارت کو سوچنا چاہیئے کہ اگر وہ اپنی فوجی پالیسی اور فوجی تسلط پر قائم رہتا ہے تو اسکے خطرناک نتائج سامنے آ سکتے ہیں، بھارت خود سوچے کہ وہ کشمیر کے مسئلہ کو فوجی مظالم و بربریت کے ذریعہ حل کرنا چاہتا ہے یا پھر پرامن اور سیاسی طریقے سے، اگر بھارت طاقت کا استعمال کرتا رہے گا تو نوجوانوں میں شدت آئے گی اور وہ وویلنٹ ہو جائیں گے، جیسا کہ آپ کشمیر میں دیکھ رہے ہیں کہ بےگناہ طالب علم کی ہلاکت اور اسکے بعد ہزاروں نوجوانوں کی گرفتاری، اسکے بھیانک نتائج سامنے آ سکتے ہیں، بھارت جنتا دباؤ ڈالے گی اسکے نتائج بھی پُرخطر سامنے آئیں گے، بھارت کے مظالم، تشدد و بربریت کا ہی نتیجہ ہے کہ یہاں کے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد شدت پسند بن گئے ہیں، نوجوانوں کی یہ شدت پسندی اگرچہ خطرناک ہے لیکن اس کی پوری ذمہ داری بھارتی حکومت پر عائد ہوتی ہے، بھارت یہاں کے نوجوانوں کو کوئی بھی موقع فراہم نہیں کرتا کہ وہ پرامن طریقے سے جدوجہد آزادی کو جاری رکھ سکیں، کالجز اور یونیورسٹیز اور دیگر علمی مراکز پر بھارت مسلط ہے اور تمام مقامی یونینز پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں حتیٰ کی ہمارا میڈیا بھی سالہا سال سے بھارتی عذاب و عتاب کا شکار ہے، اظہار رائے کے حقوق سلب کئے جاتے ہیں جب ایسا ماحول و سما قائم کیا جائے تو پھر شدت پسندی بھی دیکھنے کو ملے گی اور لوگ مشتعل نظر آئیں گے۔ ہماری کوشش ہے کہ ہم ہر حال میں اپنی مقدس تحریک کو پرامن رکھیں، ہم اسی پرامن جدوجہد کو آگے لیجانا چاہتے ہیں لیکن اگر بھارت نے مظالم سے کام لیا اور ہماری سیاسی آواز، حق پر مبنی آواز کو دباتا چلا گیا تو اسکے خطرناک اور تشویشناک نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 364234
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش