2
0
Tuesday 1 Jul 2014 20:16

پاکستان کے تازہ ترین حالات پر ایک نظر

پاکستان کے تازہ ترین حالات پر ایک نظر
تحریر: عرفان علی 

کچھ باتیں مادر وطن پاکستان کے بارے میں بھی ہوجائیں۔ تازہ ترین صورتحال آپ کے سامنے ہے۔ شمالی وزیرستان میں بدنام زمانہ تکفیری ناصبی یزیدی دہشت گرد گروہ طالبان اور ان کے اتحادیوں کے خلاف فوجی آپریشن ضرب عضب شروع ہوچکا ہے۔ دہشت گردوں کی متعدد پناہ گاہیں تباہ کردی گئی ہیں۔ جہنم واصل ہونے والے دہشت گردوں کی تعداد بھی 400 تک ہوچکی ہوگی۔ اس مسئلے پر حکومت کا رویہ اپنے قیام سے ہی عجیب و غریب رہا ہے۔ دہشت گردوں نے بلا تفریق سنی و شیعہ مسلمانوں کا قتل عام کیا۔ افواج پاکستان، پولیس، سمیت حکومتی اداروں پر بھی حملے کئے، حساس تنصیبات کو تباہ کیا، لیکن نواز شریف کی مسلم لیگی حکومت نے انتہائی مضحکہ خیز پالیسی اپنائی اور مذاکرات کی رٹ لگائی۔ فوج نے آپریشن ضرب عضب شروع کر دیا۔ دوسرے دن وزیراعظم کو یاد آیا کہ پارلیمنٹ اور قوم کو اعتماد میں لیا جانا چاہئے۔ قوم نے یہ تاثر لیا کہ حکومت نے نیم دلی سے اس آپریشن کی حمایت کا فیصلہ کیا ہے۔ وزیر داخلہ کو شاید پہلے ہی بھنک پڑگئی تھی، لہٰذا وہ دل کے دورے پر ہسپتال پہنچ گئے۔

جب پوری قوم فوجی آپریشن کی حمایت میں یکجا تھی اور آپریشن سے متاثرہ افراد کی نقل مکانی اور قیام و طعام پر توجہ دینے کی ضرورت تھی تب شہباز شریف کی پنجاب حکومت کو یاد آیا کہ پاکستان عوامی تحریک اور تحریک منہاج القران کے سربراہ کے لاہور میں واقع گھر کے سامنے اور اطراف میں رکاوٹیں تجاوزات کے زمرے میں آتی ہیں۔ رات گئے رکاوٹیں ختم کرنے کا آغاز ہوا، جس پر طاہر القادری کے حامیوں نے مزاحمت کی اور پولیس نے ان پر فائرنگ کرکے 14 افراد کو زندگی کی نعمت سے محروم کر دیا، کئی افراد کو زخمی کیا اور متعدد افراد کو جیلوں میں قید کر دیا گیا۔ وزیراعظم نواز شریف اور پنجاب کے وزیراعلٰی شہباز شریف کیا قوم کو بتانا پسند کریں گے کہ شریف خاندان کے رائے ونڈ محل اور ماڈل ٹاؤن لاہور میں رہائشگاہوں کے سامنے اور اطراف میں کتنی رکاوٹ نما تجاوزات پائی جاتی ہیں۔

کالعدم دہشت گرد گروہوں کے دوست اور سرپرست رانا ثناءاللہ آخری وقت تک طاہر القادری کے حامیوں پر الزام تراشی کرتے رہے۔ وزیراعلٰی پنجاب نے ایک رانا کو ہٹا کر تکفیری یزیدی ناصبی دہشت گرد تنظیموں کے دوسرے سابق رکن رانا مشہود کو ان کی جگہ وزیر قانون مقرر کر دیا ہے۔ پاکستان کے عوام و خواص جانتے ہیں کہ گھروں اور محلوں کی حفاظت کے لئے گلیوں کے یا داخلی و خارجی راستوں پر حٖفاظتی بیریئر یا گیٹ تعمیر کرنا ایک ناگزیر مجبوری ہے۔ یہ سہولت صرف اقتداری سیاست کی اہم جماعتوں تک کیوں محدود ہو، عام لوگ یا ڈاکٹر طاہر القادری جیسے خواص کے لئے یہ سہولت کیوں نہ ہو، جبکہ شہباز شریف کے بیٹے حمزہ شہباز کی لاہور ماڈل ٹاؤن رہائشگاہ کی گلی میں بھی آپ داخل نہیں ہوسکتے۔ پنجاب اسمبلی میں حزب اختلاف نے شہباز شریف کے استعفٰی کا مطالبہ کیا ہے۔ وہ ان کے استعفٰی پر مبنی مطالبہ قرارداد کی صورت میں پیش کرنا چاہتے تھے مگر نواز لیگی اسپیکر نے انہیں اجازت نہیں دی۔

ایک طرف ڈاکٹر طاہر القادری کی عوامی حمایت میں سانحہ لاہور ماڈل ٹاؤن کی وجہ سے اضافہ ہوا تو دوسری جانب ان کی وطن واپسی کے موقع پر بعض غلطیوں نے ان کے بارے میں بھی منفی تاثر کو جنم دیا۔ ایسا نہیں تھا کہ نواز لیگی حکومت سے عوام خوش تھے، لیکن ڈاکٹر طاہر القادری صاحب نے بھی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا۔ قادری صاحب اگر انقلاب لانا چاہتے ہیں تو بھلے لے آئیں لیکن جس نظام کو وہ تسلیم نہیں کرتے اسی نظام کے چوہدری شجاعت و دیگر اہم افراد ان کے اتحادی ہیں۔ کیا یہ لوگ انقلاب لائیں گے؟؟ انقلاب لانا تو دور کی بات، کیا یہ لوگ انقلاب لانے میں کوئی مثبت کردار ادا کرنے کی بھی صلاحیت رکھتے ہیں؟ ڈاکٹر طاہر القادری اور ان کے ہم فکروں سمیت ہر پاکستانی سیاستدان و مذہبی رہنما کو سوچنا ہوگا کہ جب آپریشن ضرب عضب جاری ہے تو محاذ آرائی کے ذریعے قوم کو تقسیم نہ کیا جائے۔

پھر یہ کہ صدر زرداری کے دور حکومت میں اسلام آباد میں دھرنے کا ڈراپ سین بھی کچھ مضحکہ خیز سا تھا۔ وطن واپسی کا منظر بھی اسلام آباد دھرنے جیسا ہی تھا۔ وہاں کنٹینر میں حکومت وقت سے مذاکرات اور یہاں ایئرپورٹ پر صوبائی حکومت سے مذاکرات۔ کیا ہدف یہ تھا کہ سرکاری حفاظت میں گورنر پنجاب کے ساتھ گھر تک حفاظت سے پہنچ جائیں؟! کیا گورنر پنجاب وزیراعظم نواز شریف کے آدمی نہیں؟ کیا مطالبات پنجاب کے وزیراعلٰی شہباز شریف نے ہی تسلیم نہیں کرنے؟ آپ لاکھ کہیں کہ ایک دوست ایک بھائی کی حیثیت سے گورنر پنجاب سے مذاکرات کئے لیکن آپ کے یہ دوست اور بھائی بھی شریف برادران کے دوست اور بھائی بند ہیں۔ پھر ہمارے قابل احترام مذہبی قائدین جو مجلس وحدت مسلمین اور سنی اتحاد کونسل سے وابستہ ہیں، کیا وہ یہ بتانا پسند کریں گے کہ نواز شریف کو ضیاء کی باقیات کہہ کر مسترد کر دینا اور اسی باقیات غیر صالحات کے ایک اور گروہ یعنی گجرات کے چوہدری شجاعت و پرویز الٰہی صاحبان سے ہاتھ ملا لینا کوئی منطقی پالیسی ہے۔ انہی چوہدری صاحبان نے پرویز مشرف کے اقتداری سیٹ اپ میں اہم کردار ادا کیا تھا اور اس سیٹ اپ سے آپ باہر نکل آئے تھے۔

ایک قانونی ماہر نے کہا کہ اگر کینیڈا میں قادری صاحب یہ سب کچھ کرتے جو انہوں نے وطن واپسی کے موقع پر کیا تو انہیں گرفتار کرکے جیل بھیج دیا جاتا۔ کیا یہ بات درست نہیں؟ پاکستان کو بحرانستان میں تبدیل کر دیا گیا ہے اور قادری صاحب کی حکمت عملی سے یہ بحران اور زیادہ سنگین ہوگا، کم نہیں ہوگا۔ انہیں یاد رہنا چاہئے کہ 12 اکتوبر 1999ء کے غیر آئینی اقدام کی حمایت سے بھی پاکستان میں کوئی مثبت تبدیلی نہیں آئی اور وہ خود اسی فوجی جنرل پرویز مشرف کے سیٹ اپ سے جدا ہوگئے تھے، حالانکہ اس اقدام کی انہوں نے حمایت بھی کی تھی۔ ایک مرتبہ پھر وہ فوج کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ ایک ایسا کام جو آئین کے تحت جائز نہیں، اس کے لئے فوج کو اکسانا یا ان سے مطالبہ کرنا، کیا یہ آئینی منطق کی ضد نہیں۔؟

طالبان بھی آئین کو نہیں مانتے اور آپ جیسے افراد بھی آئین کے برخلاف عمل کے قائل ہیں۔ فرق کیا ہے؟ پاکستان میں آئین کے مطابق پارلیمانی جمہوریت ہے، اگر عوام آپ کو ووٹ دے کر منتخب کرلے تو حکومت آپ کا حق ہے لیکن جو بھی جماعت الیکشن ہارتی ہے اسے دھاندلی نظر آتی ہے۔ جیت گئے تو نظام شفاف، ہار گئے تو دھاندلی۔ حکومت کو بھی ڈرامے بازیوں سے باز رہنا چاہئے اور اس آئین کے برخلاف کوئی پالیسی بنانے سے گریز کرنا چاہئے۔ آئین کے مطابق کوئی بھی مسلح گروپ غیر آئینی ہے، اس کی اجازت نہیں، لیکن اسی غیر آئینی غیر قانونی تکفیری دہشت گروہ طالبان وغیرہ سے مذاکرات کرنا بھی آئین کی خلاف ورزی ہے۔

طاہر القادری صاحب کی کل جماعتی کانفرنس میں پنجاب کے حکمرانوں سے استعفٰی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اس جماعت میں ملک بھر کے موثر افراد کی شرکت تھی۔ اس کل جماعتی کانفرنس سے قادری صاحب یہ سبق سیکھیں کہ موجودہ حالات میں اس نظام پر اعتماد کرنے والے افراد کو ساتھ ملائے بغیر کوئی جدوجہد نہیں کی جاسکتی۔ تبدیلی کے لئے ماضی کی غلطیوں کو دہرانا نہیں چاہئے۔ عمران خان نے بھی تبدیلی کا نعرہ لگایا اور پیپلز پارٹی، مسلم لیگ کے پرانے رہنماؤں کو ساتھ ملا کر اس نظام سے اپنا حصہ لے لیا۔ پھر ان کے ممکنہ اتحادی سنی و شیعہ رہنما ان کی سولو فلائٹ سے خوش نہیں ہیں۔ وہ ایک باقاعدہ تنظیمی سیٹ اپ اور فیصلہ ساز ادارے کے خواہاں ہیں، جہاں قادری صاحب اور اتحادی رہنما حکمت عملی وضع کریں۔ فی الحال تحریک کا ٹیمپو نہیں بن پایا ہے۔

عمران خان نے عیدالفطر کے بعد تحریک کا اعلان کیا ہے لیکن حکومت مخالف تحریک کے لئے ملک گیر سطح پر مسلسل عوام اور حزب اختلاف کے مابین ایک رابطہ درکار ہوتا ہے۔ عمران خان کی توجہ پنجاب پر ہے یا خیبر پختونخواہ پر۔ طاہر القادری بھی پنجاب میں ہی زیادہ فعال ہیں۔ اقتداری سیاست میں اتحادی اقتدار میں حصہ بقدرجثہ کے قائل ہوتے ہیں۔ فی الحال نواز لیگی حکومت کی وفاقی حکومت اور پنجاب حکومت کو حزب اختلاف سے خطرہ نہیں کیونکہ پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کے ساتھ ساتھ جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمان گروپ بھی حکومت مخالف اتحاد کا حصہ نہیں بنا ہے۔ وزیراعظم نواز شریف پی پی پی رہنما اور سابق صدر مملکت آصف زرداری سے ملاقات کرنے والے ہیں۔ جیو اور آئی ایس آئی کے مابین تنازعہ ابھی ختم نہیں ہوا۔ زرداری پاکستانی سیاست میں سب پر بھاری ہیں، شاید نواز شریف کوئی اچھا مشورہ لے کر قومی سیاست میں خود ہی کسی خوشگوار تبدیلی کی بات کر ڈالیں۔
خبر کا کوڈ : 396707
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
Good analytical view
salam brother! acha tajziya or baybak tahlil hay.
ہماری پیشکش