0
Saturday 26 Jul 2014 17:52

اسرائیل کیخلاف مسلمانوں کا ایک مسلح لشکر تشکیل دینا چاہئے، علامہ سید عابد الحسینی

اسرائیل کیخلاف مسلمانوں کا ایک مسلح لشکر تشکیل دینا چاہئے، علامہ سید عابد الحسینی
علامہ سید عابد حسین الحسینی ایک جانی پہچانی شخصیت ہیں، آپ تحریک جعفریہ پاکستان کے سینیئر نائب صدر رہے ہیں جبکہ آئی ایس او کی مجلس نظارت کے رکن بھی تھے۔ 1997ء میں سینیٹر منتخب ہوئے اور پارا چنار میں تین مدارس دینیہ کے مہتمم ہیں۔ پارا چنار میں فعال شیعہ تنظیم تحریک حسینی کے سرپرست اعلٰی کی حیثیت سے بھی ذمہ داریاں سرانجادم دے رہے ہیں۔ علامہ سید عابد الحسینی کا شیعہ قومیات میں اہم رول رہا، اور آپ شہید قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید عارف حسین الحسینی (رہ) کے رفیق خاص بھی شمار ہوتے ہیں، آپ نے ہمیشہ ملت کو متحد کرنے کی کوشش کی، اور ملت کے مفادات کے حوالے سے ایک انچ بھی پیچھے قدم نہیں ہٹایا، اس وقت آپ ایک بزرگ عالم دین کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں اور تمام شیعہ حلقے آپ کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، غزہ کی موجودہ صورتحال کے حوالے سے اسلام ٹائمز نے انکے ساتھ تفصیلی انٹرویو کیا ہے، جسے قارئین کی خدمت پیش میں کیا جا رہا ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: پاراچنار میں شروع ہی سے آپ کی قیادت میں یوم القدس منایا جاتا ہے، بتائیں یوم القدس کی اہمیت اور ضرورت کیا ہے۔؟
علامہ عابد الحسینی: بیت المقدس کے غصب ہونے اور یہودیوں کو اس سرزمین انبیاء پر آباد کرانے کی سازش اور تاریخ کافی پرانی ہے، اور مسلمان ممالک کی تعداد بھی الحمد للہ کافی زیادہ ہے، لیکن امت مسلمہ کی بدقسمتی ہی سمجھیں کہ 1980ء کے عشرے تک بیت المقدس اور فلسطین کا مسئلہ صرف اقوام متحدہ کے سرد خانوں تک ہی محدود رہا۔ مسلمان عوام کو اس حوالے سے کوئی معلومات تھیں نہ ہی مسلمانوں کو اپنے فرض کا کوئی علم تھا، لیکن ایران میں اسلامی انقلاب کا سورج جب طلوع ہوا تو امام خمینی نے بین الاقوامی سطح پر سب سے پہلے جو مسئلہ اٹھایا، مسئلہ القدس اور فلسطین تھا۔ انہوں نے اس مسئلے کو عوامی رنگ دیا۔ وہ دن اور آج کا دن دنیا بھر میں ہزاروں شہروں، قصبوں اور دیہاتوں میں القدس کے حوالے سے ریلیاں نکالی جاتی ہیں۔ جس کا اثر یہ ہوا کہ آج مسئلہ فلسطین سرد خانوں سے نکل کر سڑکوں پر نمایاں ہے۔ دوسری سب سے اہم بات یہ ہے کہ عالمی اور عوامی سطح پر یہ مسئلہ اجاگر ہونے کی وجہ سے فلسطینی عوام کو بھی اپنے فرض کا بھرپور احساس ہوگیا ہے کہ آج انہوں نے خود ہی مقاومت شروع کر دی، فلسطنین اور لبنان کے باشندوں نے کم وسائل کے باوجود اسرائیل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کا گر سیکھ لیا ہے۔ جس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے، کہ دو درجن کے قریب عرب ممالک اسرائیل کے خلاف قرارداد تک منظور کرنے کی پوزیشن میں نہیں، جبکہ فلسطنینی مزاحمت کار نہایت کم وسائل کے ساتھ کئی دنوں سے اسرائیل کے خلاف صف آرا ہیں اور اسرائیلیوں کی نیند حرام کئے ہوئے ہیں۔

اسلام ٹائمز: یوم القدس تو ہر سال منایا جاتا ہے، بتائیں اس سے فلسطینیوں کو کیا فائدہ پہنچا، یا پہنچے گا۔؟
علامہ عابد حسینی:
دیکھیں بعض امور کے فوائد اور نقصانات فوری طور پر ظہور پذیر ہوتے ہیں، جبکہ بعض کے فوائد یا نقصانات ظاہر ہونے پر ٹائم لگتا ہے، اسی طرح بعض فوائد اور نقصانات ظاہری ہوتے ہیں، جبکہ بعض فوائد اور نقصانات کا ظاہراً کسی کو پتہ نہیں چلتا۔ یوم القدس کے فوائد کا شاید عام لوگوں کو احساس نہیں ہوتا۔ لیکن سیاست سے وابستہ لوگوں کو بخوبی علم ہے کہ کسی بھی مسئلے کے بارے میں کسی ایک شہر میں چند سو لوگوں کے سڑکوں پر جمع ہونے سے علاقے سمیت پوری دنیا میں اس مسئلے کی اہمیت اجاگر ہوتی ہے۔ آپ کے مشاہدے میں ہو، شاید یہ بات کہ انسانی حقوق کے حوالے سے، خواتین کے کسی مخصوص اور ضمنی مسئلے کے متعلق یورپ یا کسی دوسرے ملک میں چند سو خواتین یا دیگر افراد کے احتجاج سے وہ مسئلہ اتنی اہمیت اختیار کر لیتا ہے کہ وہ مسئلہ ایک بین الاقوامی ایشو بن جاتا ہے، جبکہ یوم القدس کسی ایک شہر میں نہیں، بلکہ دنیا بھر کے ہزاروں شہروں میں منایا جاتا ہے۔ میڈیا پر آتا ہے ہر سال یہ مسئلہ، چنانچہ یہ بالکل واضح ہے کہ یوم القدس نے اس مسئلے کو عالمی سطح پر اجا گر کر دیا ہے۔

اسلام ٹائمز: اس سال یوم القدس ایک ایسے موقع پر منایا جا رہا ہے، جبکہ غزہ پوری طرح صہیونیوں کی بربریت کا نشانہ بنا ہوا ہے، بتائیں ہمیں کیا کرنا چاہئے۔؟
علامہ عابد الحسینی:
پاراچنار میں قدس جلوس کی ابتداء اگرچہ ہم نے ہی کی ہے اور آج تک کر رہے ہیں، لیکن میں آج کل ہمت ہار بیٹھا ہوں، وہ یوں کہ صرف ریلی منعقد کرانے تک ہم محدود ہوگئے ہیں، جبکہ مسلمانوں کا فرض اب بڑھ گیا ہے، دیکھیں اس وقت نام نہاد مسلمان ایک ٖغلط مقصد کی خاطر اور مسلمانوں کو مزید پھنسانے، قتل کرنے اور انکی طاقت کو سبوتاژ کرنے کی خاطر جگہ جگہ منظم ہو رہے ہیں، جبکہ ہم، مسلمانوں کے بنیادی مسئلے کے لئے بھی منظم نہیں ہوسکتے۔ مسلم امت کا فرض بنتا ہے کہ اب مزید انتظار چھوڑ دیں، بلکہ دنیا بھر میں مسلح عوامی لشکر تشکیل دے کر اسرائیل کا رخ کرلیں۔ میرے خیال میں جنگ کی نوبت آنے سے پہلے پہلے ہی یہ مسئلہ حل ہوجائے گا، کیونکہ انہیں، مسلمانوں کی روحانی قوت کا بخوبی اندازہ ہے کہ حزب اللہ کے صرف چند سو جوانوں اور آج کل حماس کے چند سو جوانون نے اسرائیل کی ناک میں دم کر دیا ہے۔ اسرائیل اور امریکہ  مسلمانوں کے خلاف بظاہر مسلمانوں (تکفیریوں) کے لشکر تشکیل دے رہے ہیں اور مسلمانوں کے ہاتھوں مسلمانوں کا خون کیا جا رہا ہے۔ چنانچہ اب مزید انتظار ختم کرکے، ہمیں اسرائیل کے خلاف مسلح جدوجہد شروع کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

اسلام ٹائمز: غزہ کے حوالے سے ہم مسلمانوں خصوصاً مسلم حکمرانوں کا کیا فرض بنتا ہے۔؟
علامہ عابد الحسینی:
جیسے میں نے عرض کیا کہ ہر ملک میں موجود مسلماںوں کو چاہئے کہ وہ مقامی سطح پر اسرائیل کے خلاف آزادی قدس لشکر تشکیل دیں اور انہیں فلسطین کی جانب روانہ کریں۔
جبکہ مسلماں حکمرانوں کا میرے خیال میں کوئی فرض نہیں بنتا، کیونکہ کافی دیر ہوچکی ہے، انکی طرف سے کچھ کرنے کو۔ ہاں وہ صرف یہ مہربانی کریں تو بھی غنمیت ہے کہ قدس لشکروں کو راستہ فراہم کریں۔ انکے لئے اپنے بارڈر کھولیں، کیونکہ ان سے اس حوالے سے مزید تعاون کی کوئی امید نہیں کی جاسکتی، بلکہ ان سے تو یہی امید ہی رکھی جاسکتی ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کی خوشنودی کی خاطر مسلمانوں کے قتل عام کو کھلی پیشانی سے قبول کرکے، اسرئیل کے بجائے فلسطینیوں کو قصوروار ٹھہرائیں۔

اسلام ٹائمز: اس وقت دنیا خصوصاً دنیائے اسلام ایک لحاظ سے دو سیاسی بلاکوں میں منقسم ہے، ایرانی بلاک اور امریکی بلاک، مسلمانوں کے مسائل و مشکلات کو حل کرنے یا کم کرنے میں ان دونوں بلاکوں کا کیا کردار ہے۔؟
علامہ عابد حسینی:
ہاں یہ بات میرے دل کی کہہ دی، آپ نے۔ کسی زمانے میں دنیا امریکن اور رشین دو بلاکوں میں منقسم تھی، جبکہ آج کل دنیا ظالمین اور مستضعفین (مظلومین) کی سطح پر دو بلاکوں میں منقسم ہے، ظالمین کی نمائندگی امریکہ اور اسکے حواری جبکہ مستضعفین کی نمائندگی ایران کر رہا ہے۔ امریکہ کا کردار کسی سے پوشیدہ نہیں، ہر ظلم پر وہ خاموش نہیں بلکہ اس کے ساتھ شریک ہوتا ہے، آج غزہ پر جو ظلم ہو رہا ہے، امریکہ نے اسرائیل کے خلاف ایک لفظ بولنے کی بجائے، اقوام متحدہ کی سطح پر اس قرارداد کی بھی مخالفت کر دی، جس میں اسرائیل کی مذمت کی گئی تھی، جبکہ ایران نہ صرف فلسطین، بلکہ دنیا میں جہاں کہیں بھی ناانصافی ہوئی ہے، اسکے خلاف آواز اٹھائی ہے۔ بوسنیا، لبنان، شام، حتی کہ خود صدام کے زمانے کے عراق جبکہ سب کو علم ہے کہ صدام نے ایران پر حملہ کرکے اسے کھربوں ڈالر کا نقصان پہنچایا تھا، نیز لاکھوں افراد کا خون اسکے سر پر تھا۔ لیکن جس وقت امریکہ نے اسکے دشمن (عراق) پر حملے کا منصوبہ بنایا تو اسلامی ممالک حتی کہ صدام کے دوست عرب ممالک نے اسکی حمایت کی، اور وہ صرف ایران تھا جس نے اس کڑے وقت میں امریکہ کی مخالفت کی۔ لہذا ایران اس وقت مظلومین اور مستضعفین کا بلاک بنا ہوا ہے۔ مستضعفین خواہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم، ہر ایک کے حق میں ایران ہی نے آواز اٹھائی ہے۔

اسلام ٹائمز: آپ نے اپنی گفتگو میں امریکہ اور اسکے حواریوں کا ذکر کیا۔ امریکہ کے حواریوں سے آپ کی مراد کون لوگ ہیں۔؟
علامہ عابد حسینی:
امریکہ کے حواریوں میں پورا یورپ شامل ہے، اسکے علاوہ اسرائیل وغیرہ بہت سے ممالک انکے حواری ہیں۔ لیکن امریکہ کے مقاصد کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں جتنا رول دنیائے عرب خصوصاً سعودی عرب ادا کر رہا ہے، وہ شاید ہی کوئی اور ادا کرے۔ سعودی عرب تو دہائیوں سے امریکہ کے دل میں پائے جانے والے خوابوں کی تکمیل کر رہا ہے۔ امریکہ کا ایک خواب یہ ہے کہ مسلم امت کبھی اپنے مسائل کے لئے خصوصاً اسرئیل کے خلاف متحد نہ ہو، اسکی خواہش ہے کہ شام کے علاوہ عرب ممالک میں کبھی جمہوریت کا سورج طلوع نہ ہو۔ انکی یہ خواہش سعودی عرب نے پوری کی۔ مصر، یمن، اردن، تیونس میں جڑ پکڑنے والی جمہوریت جسے عوام کی سو فیصد حمایت حاصل تھی، کو سعودی عرب کی کوششوں سے ہی پاش پاش کیا گیا۔ جبکہ شام میں مقامی حمایت حاصل نہ ہونے کے باوجود باہر سے تکفیریوں کو اکٹھا کیا گیا اور اس واحد اسرائیل و امریکہ دشمن عرب ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ پھر بھی خدا کا رحم ہی سمجھیں، کہ انکی تمام چالیں، نقش براب ثابت ہوئیں اور الحمد للہ شام کی حکومت اب دوبارہ مضبوط ہوگئی ہے اور تکفیری دم دبا کر یہاں سے بھاگ رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: امریکہ نے ایران کو برائی کا محور قرار دیا ہے جبکہ ایران نے امریکہ کو شیطان بزرگ، ان میں سے کون حق بجانب ہے۔؟
علامہ عابد حسینی:
میں تو ویسے بھی امریکہ ہی کو قصوروار سمجھوں گا، لیکن پھر بھی یہ ایک حقیقت ہے، اس حقیقت کو آپ کے سامنے رکھدیتے ہیں، آپ خود ہی فیصلہ کریں کہ حق کیا ہے۔ دیکھیں، امریکہ کی نظروں میں ایران اس وجہ سے برائی کا محور ہے، کہ وہ ہمیشہ امریکہ اور اسکی ناجائز اولاد اسرائیل کے مظالم کو منظر عام پر لا رہا ہے، وہ ہمیشہ سے اسرائیل کے ناجائز قبضہ پر معترض ہے، ورنہ ایران نے کسی ملک پر کبھی جارحیت کی ہے، تو بتائیں۔ ایران نے کسی ملک کی ایک اینچ زمین اپنے قبضے میں لی ہے، ایران نے کبھی اپنے ملک کے اندر کسی مذھبی گروہ کے خلاف کوئی کارروائی کی ہے، جبکہ اسکے برعکس امریکہ نے کیا نہیں کیا ہے، کونسا ملک ہے جو امریکہ کے ڈائریکٹ یا کم از کم ان ڈائریکٹ ظلم کا نشانہ نہیں بنا، افغانستان، پاکستان، ایران، عراق، شام، مصر، یمن وغیرہ، ان اسلامی ممالک کے علاوہ غیر مسلم ممالک میں جنوبی امریکہ کے اکثر ممالک، جیسے پانامہ، وینزویلا وغیرہ بلکہ یہ کہیں، جہاں ظلم وہاں امریکہ۔ تو امریکہ اور ایران میں یہی فرق ہے۔ اب آپ جسے چاہیں، برائی کا محور قرار دیں اور جسے چاہیں، شیطان بزرگ قرار دیں۔ میرے پاس ایسے الفاظ موجود ہی نہیں، جن سے امریکہ کو متصف کیا جاسکے۔ شیطان بزرگ ایک مناسب لفظ ہے، تاہم امریکہ کے لئے بہت سے مزید القابات اور بھی منتظر ہیں۔

اسلام ٹائمز: عراق کی موجودہ ابتر صورتحال پر کچھ اظہار خیال کریں گے۔؟
علامہ عابد حسینی:
عراق کے حوالے سے معتدل مسلمان، خصوصاً شیعیان علیؑ پریشان ہیں، لیکن میں انہیں تسلی دیتا ہوں کہ کچھ بھی نہیں ہوگا، فتح آپ ہی کا مقدر ہوگی۔ انکی پریشانی بجا ہے، جنکا سبب عشق اور محبت کی وہ شمع ہے جو وہاں کے مومنین خصوصاً مقامات مقدسہ کے حوالے سے انکے دلوں میں روشن ہے۔ تاہم انہیں عراق کی اسٹریٹیجک کا شاید اتنا پتہ نہیں، عراق کے جن علاقوں پر داعش نے قبضہ کیا ہے، انکی اکثریت داعش کے ہم نظر اور صدامیوں کی ہے۔ وہاں بہت ہی کم اہل تشیع تھے۔ لہذا داعش کو وہاں کوئی مزاحمت سامنے نہیں آئی۔ موصل پر جو اتنی آسانی سے قبضہ ہوگیا، تو یہ سعودی عرب اور ترکی کے پہلے سے طے شدہ ایک منصوبے کے تحت وہاں کے گورنر کے ساز باز سے ہی ہوگیا۔ داعش نے وہاں کوئی مزاحمت نہیں دیکھی۔ اب جنوب کا مرحلہ جب آیا، شیعہ مجتہدین اور رہنماؤں کا ردعمل پوری دنیا نے دیکھ لیا۔ آیۃ اللہ سیستانی کے ایک فرمان پر بیس لاکھ لوگوں نے جہاد کے لئے نام لکھوائے۔
دوسری بات یہ کہ یہ سب کچھ پاکستان میں بھی دیکھنے کو ملا ہے، یہاں وزیرستان، سوات، باڑہ وغیرہ یا جہاں کہیں بھی دیوبندی قبائل آباد ہیں، وہاں طالبان کو کوئی مزاحمت نہیں کرنی پڑی، وہاں کے مقامی قبائل کی حمایت کی وجہ سے پاکستانی فوج کو بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن جب انہوں نے کرم ایجنسی کا رخ کیا، جہاں شیعیان علی رہتے ہیں، تو یہاں نہ صرف انکو کامیابی نصیب نہیں ہوئی۔ بلکہ انہیں اتنی خفت اٹھانی پڑی کہ اسکے بعد ہماری فوج کے بھی حوصلے بلند ہوئے، اور انہیں یہ تجربہ حاصل ہوا کہ مقامی قبائل کی حمایت سے ہی طالبان کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے، چنانچہ اسکے بعد پاکستانی انتظامیہ نے جگہ جگہ قبائلی لشکر تشکیل دیکر طالبان کے خلاف مزاحمت شروع کی۔ تکفیریوں کو شام میں جہاں اہل تشیع کی تعداد بھی اتنی خاص نہیں، کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوسکی، عراق کا معاملہ تو شام سے کافی مختلف ہے، یہاں اہل تشیع کی اکثریت ہے، یہاں اجتہاد کا نظام قائم ہے، لہذا عراق میں تکفیری ایسے پٹ جائیں گے کہ پھر کبھی اٹھنے کے قابل بھی نہیں رہیں گے، اور پھر کسی کے خلاف جرآت نہیں کرسکیں گے۔
خبر کا کوڈ : 401601
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش