0
Tuesday 21 Oct 2014 21:47
شرپسندوں کا مکمل طور پر خاتمہ چاہتے ہیں

ملکی ریاست کسی بھی دہشتگرد گروہ کی سرپرستی نہیں کرتی، اکبر حسین درانی

بیرونی قوتیں بھی دہشتگردانہ حملوں میں ملوث ہو سکتی ہیں
ملکی ریاست کسی بھی دہشتگرد گروہ کی سرپرستی نہیں کرتی، اکبر حسین درانی
اکبر حسین درانی صوبہ بلوچستان کے سیکرٹری داخلہ ہیں۔ آپ 6 مئی 2014ء کو بلوچستان کے سیکرٹری داخلہ منتخب ہوئے۔ اس سے قبل بھی آپ صوبے کے اہم عہدوں پر خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔ آپ 12 ستمبر 1959ء کو بلوچستان کے علاقے خضدار میں پیدا ہوئے۔ اکبر حسین درانی نے پاک فوج میں بھی کیپٹن کے عہدے تک فرائض انجام دیئے اور بعد ازاں وہاں سے ریٹائر ہوکر پاکستان سول سروسز میں ضم ہو گئے۔ صوبہ بلوچستان اور مخصوصاً کوئٹہ میں ہونے والے دہشتگردی کے واقعات اور امن و امان کی مجموعی صورتحال کے حوالے سے ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے ایک مختصر انٹرویو کیا، جو قارئین کے لئے پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: بلوچستان اور خصوصاً کوئٹہ میں اب بھی شیعہ ہزارہ قوم پر دہشتگردی کے واقعات ہو رہے ہیں۔ اسکی وجوہات کیا ہیں۔؟
اکبر حسین درانی: اسکی سب سے بڑی وجہ تو فرقہ وارانہ دہشت گردی ہے جسکے بارے میں ہم سب جانتے ہیں کہ اب بھی اور ماضی میں بھی ایک خاص طبقے شیعہ ہزارہ قوم کے افراد کو مارا جا رہا ہے لیکن گذشتہ ایک سال سے ان واقعات میں کمی آئی ہے۔ دونوں علاقے ہزارہ ٹاؤن اور علمدار روڈ کو چاروں اطراف سے ایف سی نے سکیورٹی دی ہوئی ہے جبکہ رضاکار بھی ہمارے ساتھ تعاون کر رہے ہیں۔ اب بدقسمتی سے گذشتہ دنوں عید سے قبل کے واقعے میں ایک دہشتگرد نے اگر تمام رکاوٹیں عبور کی ہیں، تو بالکل یہ کسی ایک فرد کی نہیں بلکہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ ایسے واقعات کو بھی روکا جائے اور ہمیں اُمید ہے کہ جہاں جہاں شیعہ ہزارہ قوم رہتی ہیں ہم ان کو مکمل طور پر تحفظ دیں گے، جبکہ ہم شرپسند عناصر کو کیفر کردار تک پہنچانے میں کوئی کسر نہ چھوڑیں گے۔

اسلام ٹائمز: شیعہ ہزارہ قوم پر اتنے بڑے بڑے واقعات رونماء ہوئے ہیں، باقاعدہ لوگوں کو شناختی کارڈ چیک کرکے مارا گیا۔ ایک طرف دہشتگردوں کیجانب سے اتنی منصوبہ بندی ہوتی ہے، جبکہ ریاست اس ضمن میں کمزور نظر آتی ہے۔؟
اکبر حسین درانی: میں مانتا ہوں کہ کئی افسوسناک واقعات ہوئے ہیں لیکن ہم نے اس طرح کی کئی پلاننگ اور منصوبہ بندیوں کو ناکام بھی بنایا ہے، جسے ہم اسکرین پر نہیں لا سکتے۔ جن دہشتگردوں نے بسوں سے اُتار کر انہیں بے دردی سے مارا تھا، کسی نہ کسی طریقے سے سکیورٹی فورسز کیساتھ انکا مقابلہ بھی ہوا۔ لہذٰا کئی تو کیفر کردار تک پہنچ گئے ہیں جبکہ بہت سے ایسے ہے جنہیں عدالتوں نے سزائے دی ہوئی ہیں اور وہ اپنی سزائے موت کے منتظر ہیں۔ تو ایسی بات نہیں کی انتظامیہ ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر بیٹھی ہوئی ہے اور یہ دندناتے پھر رہے ہیں۔ دس میں سے اگر ایک دہشتگرد کامیاب ہو جاتا ہے تو ہم اسکی روک تھام کیلئے بھی اقدامات اُٹھائینگے اور یہ زیادہ عرصہ نہیں چلے گا۔

اسلام ٹائمز: اکثر یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ مارنے والوں کو کسی نہ کسی طرح ریاستی سرپرستی حاصل ہے۔ اسکے بارے میں کیا کہیں گے۔؟
اکبر حسین درانی: آپکے سوال کے دو پہلو ہیں، ایک سیاسی اور ایک انتظامی۔ میں انتظامی طور پر یہ کہونگا کہ اس طرح ممکن ہو نہیں سکتا کہ انکی سرپرستی سرکار کرے، اگر ایسا ہوتا تو دوسروں کو بھی سرکار کیجانب سے سرپرستی ہونی چاہیئے تھی۔ اسی بات بالکل نہیں، ہمارے لئے سب برابر ہیں۔ جو شخص قانون کو ہاتھ میں لے گا، اسکے خلاف ہم کاروائی کرینگے جبکہ قانون و آئین بھی یہی کہتا ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا دہشتگردی کے یہ واقعات وزیرستان آپریشن کا ردعمل ہو سکتے ہیں۔؟
اکبر حسین درانی: بالکل یہ واقعات آپریشن کے ردعمل میں بھی کئے جا سکتے ہیں لیکن انکے نیٹ ورک ملک میں کافی حد تک پھیل چکے ہیں، ہم قطعی مایوس نہیں، انکا مقابلہ ہر سطح پر کیا جائے گا۔

اسلام ٹائمز: کیا بیرونی قوتیں یا انکی ایجنسیاں ایسے واقعات میں ملوث ہو سکتی ہیں۔؟
اکبر حسین درانی: دیکھئے اگر باہر کی کوئی ایجنسی جاسوسی کررہی ہے یا ایسے کاروائیوں میں ملوث ہیں، تو ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ان ہاتھوں کو مانیٹر کیا جائے۔ اب بلوچستان کا اتنا بڑا بارڈر افغانستان سے متصل ہے، جسے کنٹرول کرنا چیلنج سے کم نہیں اور اسکا اثر پاکستان پر ضرور پڑے گا۔

اسلام ٹائمز: مگر بلوچستان میں تو حالات کافی عرصے سے غیر مستحکم ہیں۔ یہاں بلوچ انسرجنسی، سیٹلرز کیخلاف کاروائی، فرقہ وارانہ دہشتگردی، لاپتہ افراد کا معاملہ سمیت اغواء کاریاں بھی ہوتی رہی ہیں، تو کیا اتنے ہی منظم انداز میں ریاست کے پاس بھی ٹھوس منصوبہ بندی ہے۔؟
اکبر حسین درانی: 9/11 کے بعد وار آن ٹیرر پر پاکستان کی باقاعدہ ایک پالیسی اور حکمت عملی ہے، جسے اپنایا جاتا ہے۔ جیساکہ آپ نے دیکھا شمالی وزیرستان ہو یا جنوبی وزیرستان، وہاں پر ہماری سکیورٹی فورسز جانوں کی قربانی دے رہی ہیں۔ اسی طریقے سے اسکا ردعمل ہمیں مختلف علاقوں میں نظر آتا ہے۔ اسکے لئے بھی حکمت عملی موجود ہے۔ اور اب تو جب سے الحمدللہ یہ حکومت آئی ہے، یہاں کے کرائم ریٹ میں نوے فیصد تک کمی دیکھنے میں آئی ہیے لیکن علی آباد کے واقعے اور ائیربیس پر حملے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ عناصر دوبارہ متحرک ہونے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن ہمیں اُمید ہے انشاءاللہ کہ جو حکمت عملی وفاقی حکومت اور انتظامیہ نے ہمیں دی ہے اور جو صوبائی حکومت اس پر کام کر رہی ہے۔ اسکے خاطر خواہ نتائج نکلے ہیں اور مستقبل میں بھی ہماری کوشش ہیں کہ اسطرح کے عناصر کا قانون اور آئین میں رہ کر قلع قمع کیا جائے۔

اسلام ٹائمز: کیا اس میں فوج، ایف سی، پولیس اور دیگر سکیورٹی ادارے آپس میں مشترکہ منظم طریقے سے کام کر رہے ہیں یا سب الگ الگ اپنی سطح پر کام کررہے ہیں۔؟
اکبر حسین درانی: ہم سب نے جو ایک حکمت عملی بنائی ہے، اس پر تمام اسٹیک ہولڈرز آن بورڈ ہیں۔ اس میں ہم نے ایف سی کی خدمات بھی حاصل کی ہوئی ہیں جبکہ آرمی بھی اسٹینڈ بائے پر ہوتی ہے۔ پولیس اور ہماری فورسز پہلے سے ہی کام کر رہی ہیں، جنہوں نے کافی شہادتیں بھی دی ہیں۔ مجھے پورا یقین ہے کہ چاہے پولیس، لیویز یا ایف سی ہوں ہم ہر اُس مقام پر اِنکا مقابلہ کرکے کیفر کردار تک پہنچائینگے۔ ہاں اگر ایک دو واقعات ہوتے ہیں تو ہمیں اس پر بھی افسوس ہوتا ہیں لیکن عوام کی مدد سے ہم اس پر بھی قابو پالینگے۔
خبر کا کوڈ : 415606
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش