0
Friday 23 May 2014 12:23

القاعدہ، مغرب اور عرب بادشاہتیں (1)

القاعدہ، مغرب اور عرب بادشاہتیں (1)
تحریر: سید اسد عباس تقوی

یہ نہایت پیچیدہ موضوع ہے، پیچیدہ اس لحاظ سے کہ اس نے نہ صرف امت اسلامیہ کے ایک بہت بڑے حصے بلکہ تمام اقوام عالم کو مخمصے میں مبتلا کر رکھا ہے۔ ہمیں اکثر سمجھ نہیں آتا کہ مذکورہ بالا تینوں گروہ آج بھی ایک ہی ہدف و مقصد کے لیے سرگرم عمل ہیں یا ان کے مفادات ایک دوسرے سے متصادم ہوچکے ہیں۔ القاعدہ اور اس کے فکری تلامیذ جن کی اکثریت ایک خاص مسلک کی حامل ہے، جہاں ایک جانب عرب ریاستوں میں بادشاہتوں کے خلاف ہے تو دوسری جانب اس نظریات کے حامل افراد جمہوریت کو شجرہ ممنوعہ قرار دیتے ہیں۔ اس مخالفت کا سبب بیان کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ عرب بادشاہتیں اور مسلمان جمہوریتیں مغرب کی کاسہ لیس ہیں اور ان کے مفادات کی نگہبانی کر رہی ہیں۔

اس فکر کے حامل افراد چاہے شام میں ہوں یا مصر میں، عراق میں ہوں یا افغانستان میں، لیبیا میں ہوں یا نائجر میں، اپنے عوام اور حکمرانوں سے ان کے اختلاف کا بنیادی نکتہ مغرب ہی ہے۔ بوکو حرام کہتے ہیں کہ مغربی تعلیم حرام ہے۔ لہذا اس کے لیے وہ نائجر کے سکول کی بچیوں کو اغواء کر لیتے ہیں۔ عراق میں یہ گروہ پہلے تو امریکہ اور نیٹو فورسز کے خلاف برسر پیکار رہا، تاہم اب جبکہ عراق میں ایک جمہوری حکومت قائم ہوچکی ہے تو انھوں نے اسے بھی کفر قرار دیا اور ملک میں اسلامی حکومت کے قیام کی بات کرتے ہیں۔ یہی صورتحال شام، لیبیا، اردن، مصر، یمن وغیرہ میں موجود ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ القاعدہ اور اس کے ہم فکر گروہوں کے مغرب سے اختلافات زیادہ پرانے نہیں ہیں۔

نوے کی دہائی تک القاعدہ اور اس کے ہم فکر افراد مغرب اور عرب شہزادوں کے ہمراہ افغان جہاد میں شریک تھے۔ ان کی قربت کا یہ عالم تھا کہ صحیح طور پر نہیں بتایا جاسکتا کہ افغانوں کی مدد کے لیے ان گروہوں میں سے پہلے کون افغانستان پہنچا۔ آیا امریکہ اسامہ کو افغانستان لایا یا اسامہ نے امریکہ کو افغانستان میں آنے کی دعوت دی۔ اس حوالے سے متضاد آرا موجود ہیں، تاہم یہ بات یقینی ہے کہ اسامہ اور ان کے زیر اثر مجاہدین، عرب ریاستوں اور مغربی قوتوں کے مابین کافی اشتراک عمل پایا جاتا تھا۔ ان گروہوں کی کوششوں ہی سے سوویت یونین کو افغانستان سے دم دبا کر بھاگنا پڑا۔ افغان جہاد ختم ہوا اور یہ گروہ اپنی اپنی جگہ مصروف عمل رہے۔ اسامہ بن لادن اور ان کے مجاہد ساتھی پوری دنیا میں اپنے نظریات کی ترویج کرنے لگے۔ امریکہ اور مغربی قوتیں سوویت یونین کی جانب سے مطمئن ہوگئیں۔ عرب ریاستوں کو ان کا حصہ مل گیا اور افغان جنگ کے منفی اثرات ہمارے خطے کے حصے میں آئے۔

اسامہ ان کے زیر اثر مجاہدین، عرب ریاستوں اور مغرب کا یارانہ افغان جہاد کے خاتمے تک خوب پھلا پھولا۔ اسامہ بن لادن کے ایک قریبی ساتھی شیخ نبیل نعیم اس یارانے کے بارے میں کہتے ہیں کہ افغان جہاد کے دوران مجاہدین پر عنایات کا سلسلہ زور و شور سے جاری تھا۔ ہمارے زخمیوں کا علاج یورپی ممالک میں ہوتا تھا۔ ان کے بقول ہم خانما برباد لوگوں کے پاس کہاں اتنے وسائل تھے کہ ہم یورپ کے بہترین ہسپتالوں میں علاج کروا سکیں۔ شیخ نبیل نعیم مصر سے تعلق رکھتے ہیں اور افغان جہاد کے اولین عرب جنگجوؤں میں شمار ہوتے ہیں۔ نبیل نعیم، اسامہ بن لادن اور ایمن الظواہری مصر میں کافی عرصہ اکٹھے رہے۔ ان تینوں افراد نے جمال عبدالناصر کے قائم کردہ گوریلا کیمپس میں تربیت حاصل کی اور پھر یہ جنگجو گوریلے عازم افغانستان ہوئے۔ شیخ نبیل نعیم نے افغانستان کی سرزمین پر عرب مجاہدین کی تربیت کا کیمپ لگایا اور اسامہ بن لادن نیز ایمن الظواہری کے قریبی رفیق کے طور پر اپنا کردار ادا کرتے رہے۔ شیخ نبیل اپنے دونوں رفقاء کے ہمراہ افغانستان سے سوڈان آئے۔ افغان جہاد کے بعد جب مختلف مسلمان ممالک کی جانب سے اس گروہ کی جہادی سرگرمیوں پر قدغن لگنی شروع ہوئی تو انہوں نے ایک عالمگیر تنظیم کی بنیاد رکھنے کا فیصلہ کیا۔

اس تنظیم کو القاعدہ کا عنوان دیا گیا اور عالم اسلام میں پھیلے ہوئے مجاہدین کو اس تنظیم سے مربوط کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ مسلمان حکومتوں اور غیر مسلم طاقتوں کی بے اعتنائی کے بعد اس گروہ کو محسوس ہوا کہ ہمیں استعمال کیا گیا ہے اور اب جبکہ ہماری ضرورت نہیں رہی تو ہمارے خلاف اقدامات کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ اسامہ بن لادن اور ان کے ساتھی اس نتیجے پر پہنچے کہ مغرب، عرب ریاستیں اور وہ قوتیں جنہوں نے انہیں افغان جہاد میں استعمال کیا ہے، ہی دراصل امت مسلمہ کے مسائل کی جڑ ہیں۔ لہذا یہ گروہ انہی قوتوں کے خلاف سرگرم عمل ہوگیا۔

پرانے ساتھیوں کی باہمی رقابت امریکہ کے نائن الیون کے واقعہ کے بعد مزید کھل کر سامنے آگئی۔ اگرچہ یہ بات تاحال حل طلب ہے کہ اس واقعہ کے پیچھے اسامہ اور ان کے ساتھی ہی تھے یا کوئی اور قوت۔ بہرحال پوری دنیا میں القاعدہ کے خلاف ایک آپریشن کا آغاز ہوا۔ اب دنیا کو معلوم ہے کہ القاعدہ، مغربی قوتیں نیز ان کے عرب ہمنوا ایک دوسرے کے مخالف اور جانی دشمن ہیں۔ مغرب نے القاعدہ کے بہت سے مرکزی قائدین کو چن چن کر پکڑا یا مارا، اسی طرح عرب ریاستوں نے بھی القاعدہ کے خلاف مہم کا آغاز کیا۔ مقابلے میں القاعدہ نے بھی اپنے رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے اپنی کارروائیوں کو دنیا بھر میں پھیلا دیا۔ القاعدہ پورے عالم اسلام میں مغرب، عرب باشاہتوں اور جمہوریت کے خلاف ایک باقاعدہ مزاحمتی تحریک کے عنوان سے جانی جانے لگی۔ اس فکر کے حامل افراد نے گذشتہ چار دہائیوں سے پسنے والے عرب نوجوانوں کو راہ حل دکھانی شروع کی اور وہ یہ تھی کہ ہماری تمام تر محرومیوں کا بنیادی سبب ہمارے حکمران اور ان کے مغربی آقا ہیں اور ان محرومیوں سے نکلنے کا واحد راستہ مسلح جدوجہد ہے۔
(جاری ہے)
خبر کا کوڈ : 385303
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش