0
Tuesday 26 Aug 2014 14:30

شریف حکومت اور تکفیریوں کی حمایت

شریف حکومت اور تکفیریوں کی حمایت
تحریر: ڈاکٹر عبداللہ حجازی

 پاکستان میں جب سے آزادی اور انقلاب مارچ کی وجہ سے سیاسی بحران پیدا ہوا ہے، اس وقت سے محسوس کیا جا رہا ہے کہ پاکستان کے تکفیری گروہ نواز شریف حکومت کی اوٹ میں کھڑے ہوگئے ہیں اور اس کی حمایت میں نعرے بلند کر رہے ہیں۔ تکفیریوں کا زیادہ نمایاں اور زیادہ جذباتی گروہ آپے سے باہر ہوگیا ہے۔ اس نے طرح طرح کے عناوین کا سہارا لے کر ان مارچز کے خلاف اسلام آباد کی سڑکوں پر مظاہرہ بھی کر ڈالا۔ اپنے مظاہرے میں اس گروہ نے اپنا وہی بدنام زمانہ نعرہ بلند کیا جو اس کے سیاہ چہرے کا زیادہ بدنما داغ بن چکا ہے اور جس کی وجہ سے تکفیریت کے کلنک کا ٹیکہ اس کے منحوس ماتھے پر لگا ہے۔ نواز حکومت پر پہلے ہی یہ الزام ہے کہ وہ پنجاب میں اس گروہ کی سرپرستی کرتی ہے۔ حکومت نے اگرچہ اپنے آپ کو ہمیشہ اس گروہ کی سرپرستی کے الزام سے زبانی طور پر بری قرار دیا ہے، لیکن عملاً اس کی اتنی شہادتیں موجود ہیں کہ حق کو ثابت کرنے کے لیے مزید کی ضرورت نہ تھی۔

افسوس تو یہ ہے کہ موجودہ حالات میں جب کہ ایک کے سوا تمام پارلیمانی پارٹیاں نواز حکومت کے ساتھ کھڑی ہیں، پنجابی طالبان اور معروف تکفیری گروہ کی حمایت کی اسے احتیاج نہ تھی، لیکن یوں لگتا ہے کہ نون لیگ کی صفوں میں شامل تکفیریوں کے سرپرست نواز لیگ کو برے انجام تک پہنچا کر ہی دم لیں گے۔ یہ وہی لوگ ہیں جو ماڈل ٹاؤن لاہور کے سانحے کا بنیادی کردار ہیں۔ بہت سے تجزیہ کاروں کی رائے میں ان لوگوں نے یہ سانحہ اس لیے برپا کیا تاکہ ضرب عضب کے بعد ملک کے مختلف علاقوں میں شدت پسندوں کے خلاف جس کارروائی کا مطالبہ کیا جا رہا تھا اس سے نظریں ہٹائی جاسکیں اور پنجاب حکومت کو پنجابی طالبان اور دیگر شدت پسند کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائی کے لیے مجبور نہ کیا جاسکے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ملکی حالات کو موجودہ نہج تک پہنچانے اور حکومت کو بند گلی میں دھکیلنے کی بنیاد ماڈل ٹاؤن لاہور میں ہی رکھی گئی ہے، جہاں کم ازکم 14 بے گناہوں کو دن دیہاڑے بہت سے کیمروں کی آنکھوں کے سامنے سیدھی گولیاں مار کر خون میں لت پت کر دیا گیا۔

انقلاب مارچ کی قیادت کی تقاریر کو بار بار سنا جائے تو یہ امر واضح طور پر سامنے آتا ہے کہ اس کا سب سے بڑا مطالبہ انہی بے گناہوں کے خلاف مقتولین کے ورثاء کی مدعیت میں ایف آئی آر درج کرنے کا ہے۔ یہ وہ مطالبہ ہے جس کی حمایت پاکستان کے طول و عرض میں تمام مذہبی اور سیاسی جماعتیں کر رہی ہیں، لیکن عجیب بات یہ ہے کہ نون لیگ میں وہ گروہ اس قدر موثر ہے کہ ایک بظاہر جہاں دیدہ اور تجربہ کار قیادت اپنے آپ کو اس مخمصے سے باہر نہیں نکال پا رہی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر آج بھی یہ مطالبہ تسلیم کر لیا جائے تو پھر کم از کم انقلاب مارچ کی قیادت کو مطمئن کیا جاسکتا ہے۔

تکفیریوں کو ویسے تو دونوں مارچوں پر تکلیف ہے اور اس کی ایک وجہ اس گروہ کا بیک وقت تکفیری، ناصبی اور تنگ نظر ظواہر پرست ہونا ہے لیکن انھیں زیادہ تکلیف انقلاب مارچ سے ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری کے تصور انقلاب کو خمینی انقلاب قرار دینے والوں کو بڑی توجہ سے ڈاکٹر طاہر القادری کے حامیوں پر ایک نگاہ ڈالنا چاہیے۔ ان میں پاکستان عوامی تحریک کے علاوہ پاکستان مسلم لیگ قاف، آل پاکستان مسلم لیگ، مجلس وحدت مسلمین، سنی اتحاد کونسل، سابق وزیر خارجہ سردار آصف احمد علی، اقلیتی راہنما جے سالک، سابق گورنر پنجاب غلام مصطفٰی کھر اور دونوں دھرنوں کے خطیب شیخ رشید احمد اور دیگر کئی راہنما اور گروہ شامل ہیں۔

جہاں تک ڈاکٹر طاہر القادری کے 10 نکاتی انقلابی ایجنڈے کا تعلق ہے ان میں سے بیشتر پہلے ہی پاکستان کے آئین کا حصہ ہیں۔ قومی حکومت کے قیام کے مطالبے کے علاوہ ان کے کسی مطالبے کو غیر آئینی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یہاں تک کہ ایم کیو ایم نے بھی اس کی اخلاقی حمایت کا اعلان کر رکھا ہے اور تو اور اب انقلابی دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ نے واشگاف الفاظ میں ان 10 نکات کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ کیا یہ سب لوگ خمینی انقلاب کے حامی ہیں؟ اگر یہ سب خمینی انقلاب کے حامی ہیں تو ان پر الزام دھرنے کے بجائے تکفیریوں کو اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے۔

پاکستان میں اس حقیقت کا کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ پاکستان مسلم لیگ نون ایک قومی جماعت ہے۔ پاکستان کے تمام علاقوں میں اس کے حامی موجود ہیں۔ اس کی صفوں میں تمام مکاتب فکر کے افراد دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ انتخابی ٹکٹوں کی تقسیم میں بھی ہمیں یہ حقیقت نظر آتی ہے۔ ایسے میں تکفیریوں کو اپنی سپورٹ میں کھڑا کرنا یا اپنے مظاہروں میں انھیں شامل کرنا پی ایم ایل (این) کے کسی صورت میں مفاد میں نہیں۔ البتہ تکفیری، ناصبی اور شدت پسند ایک قومی پارٹی کی اوٹ میں اپنا ایجنڈا پورا کرنے کے درپے ہیں۔ اگر وہ ایک اتنی بڑی قومی پارٹی میں اسی طرح موثر ہوتے چلے گئے تو یہ پاکستان کی سیاست، ریاست اور معاشرے کے لیے ایک بہت بڑا نقصان ہوگا۔

افسوس اس حقیقت کا ادراک ابھی تک پاکستان مسلم لیگ نون کی بالائی سطح پر نہیں کیا جا رہا ہے۔ نون لیگ کی قیادت کو اس کا احساس ہونا چاہیے کہ اگر یہ تاثر اس کے بارے میں پاکستان کے عوام میں عام ہوگیا تو قومی سطح پر اس کی حمایت میں خاطر خواہ کمی واقع ہوگی۔ اس کا ووٹ بینک بری طرح سے متاثر ہوگا اور اس کی سیاست اس ملک میں کمزور پڑ جائے گی، کیونکہ پاکستان کے عوام علامہ اقبالؒ، قائداعظم، محترمہ فاطمہ جناح جیسی شخصیات کو اپنا راہنما مانتے ہیں اور انہی کی قیادت میں اس سرزمین کے مسلمانوں نے برطانوی سامراج کے خلاف جدوجہد کی تھی۔ ان کی قیادت میں ہی اپنے لیے برصغیر میں ایک آزاد وطن حاصل کیا تھا۔ پاکستان کے عوام اعتدال اور انصاف پسند ہیں۔ نون لیگ کو شعوری طور پر اپنے آپ کو شدت پسند گروہوں سے الگ کرنے کی ضرورت ہے۔

ہمیں یہ بات کہنے میں بھی کوئی باک نہیں کہ موجودہ حکومت کے برسراقتدار آتے ہی عالمی سطح کے ان راہنماؤں اور حکومتوں کے ساتھ اس حکومت کے یارانے زیادہ شد و مد سے سامنے آئے، جن کے بارے میں عالم اسلام جانتا ہے کہ ان کے منحوس پاؤں کے نیچے سے تکفیریت کے بدبودار چشمے پھوٹتے ہیں۔ پھر انہی چشموں کی غلاظت اسلامی سرزمینوں، حکومتوں اور ریاستوں کو ناپاک کرنے کے لیے بروئے کار لائی جاتی ہے۔ اگر نون لیگ کی قیادت کو پاکستان سے کچھ بھی محبت ہے تو وہ مختلف اسلامی ریاستوں میں تکفیریوں کے طرز عمل اور شدت پسند گروہوں کے کردار پر ایک نظر ڈالیں۔ کیا نون لیگ کی قیادت یہ پسند کرے گی کہ پاکستان بھی افغانستان، عراق، شام، لیبیا اور مصر کی طرح ہوجائے۔ حسن ظن کا تقاضا ہے کہ ہم یہ کہیں کہ نون لیگ کی قیادت ایسا ہرگز پسند نہیں کرے گی تو پھر چند روزہ حکومت کی خاطر اسے نہ پاکستان کی دہشت گرد قوتوں کا سہارا لینا چاہیئے، نہ ان پیٹرو ڈالرز پر انحصار کرنا چاہیے جنھوں نے دیگر اسلامی سرزمینوں کو کشت و کشتار اور فرقہ وارانہ شدت پسندی کی طرف دھکیل دیا ہے۔
خبر کا کوڈ : 406750
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش