0
Thursday 17 Apr 2014 00:08
ولایت فقیہ میں ہی مسلمان اپنی خلافت کی تقدیر بدل سکتے ہیں

اہل تشیع اور اہل تسنن اگر علی (ع) کی ولایت پر بھی متفق نہیں ہوتے ہیں تو کہاں متفق ہونگے، مولانا ڈاکٹر پیر سمیر صدیقی

اہل تشیع اور اہل تسنن اگر علی (ع) کی ولایت پر بھی متفق نہیں ہوتے ہیں تو کہاں متفق ہونگے، مولانا ڈاکٹر پیر سمیر صدیقی
مولانا ڈاکٹر پیر سمیر صدیقی کا تعلق مقبوضہ کشمیر کے جنوبی ضلع اسلام آباد سے ہے، آپ کے زیر نگرانی فاطمۃ الزہرا (ص) بلڈ بنک فعال ہے، جموں و کشمیر کے اطراف و اکناف میں آپ منفرد نہج کے تحت تبلیغ دین انجام دیتے ہیں، کشمیر بھر میں آپ کے زور خطابت کو سراہا جاتا ہے، جموں و کشمیر کے قدیم سلسلہ خاندان علم و ہنر سے آپ تعلق رکھتے ہیں، علم تصوف میں آپ خاص کمال رکھتے ہیں، اتحاد بین المسلمین کے لئے آپ کشمیر بھر میں فعال کردار نبھائے ہوئے ہیں، مولانا ڈاکٹر سمیر صدیقی کی سرپرستی میں جموں و کشمیر وحدت ملت اسلامیہ بھی فعال ہے جس کے زیراہتمام جموں و کشمیر کے شہر و گام میں سیرتی کانفرنسز کا انعقاد ہوتا ہے اور مجلس کشمیری مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر دیکھنے کے لئے سالہا سال سے کوشاں ہے، مقبوضہ کشمیر کے عیش مقام میں زین المجالس اسلامیہ کالج کے ساتھ بھی آپ فعال رہے ہیں، فعلاً آپ بائز ڈگری کالج اننت ناگ میں بحیثیت لیکچرر اپنی ذمہ داریاں انجام دے رہے ہیں، اسلام ٹائمز نے مولانا ڈاکٹر پیر سمیر صدیقی سے انکی رہائش گاہ پر ایک نشست کے دوران خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا جو قارئین کرام کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: آپ نے ہمیشہ اپنی تبلیغ میں مشن اہل بیت رسول پاک (ص) کی بےباک ترجمانی کی، اس حوالے سے کیا کامیابی آپ کو دیکھنے کو ملی۔؟

مولانا ڈاکٹر پیر سمیر صدیقی: کشمیری عوام میں حضرات اہل بیت (ع) کی جانب رغبت بہت زیادہ پائی جاتی ہے اور بےپناہ محبت لوگوں کے دلوں میں موجود ہے، اب اس محبت کو عصری تقاضوں کے مطابق ڈھالنے اور پیش کرنے کی ضرورت ہے، علماء کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ وقتاً فوقتاً اس کی تلقین کرتے رہیں، یہاں کے بعض نام نہاد علماء ایک خاص نہج کے تحت ان باتوں پر زیادہ زور نہیں دیتے ہیں ورنہ اگر عوام میں کھل کر اہل بیت اطہار (ع) کی فضیلت و افادیت بیان کی جائے تو عوام نہ صرف متاثر ہونگے بلکہ ہر اہل سنت کی محفل بھی مجلس عزاء بننے کے لئے تیار ہو جائے گی لیکن جو علماء کرام و مبلغین کی ذمہ داریاں ہوتی ہیں اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے جس پر عمل نہیں ہو رہا ہے۔

اسلام ٹائمز: کیوں عالم اسلام کا شیرازہ دن بہ دن بکھرتا جا رہا ہے، اور دن بہ دن مسلمان آپسی تضاد و منافرت کے شکار ہوتے جا رہے ہیں۔؟

مولانا ڈاکٹر پیر سمیر صدیقی: میرے خیال میں اس کی ایک بڑی وجہ Clashis of Ideology ہے، اسلام توحید، رسالت ولایت پر مبنی آئیڈیالوجی ہے، کیپٹلزم، ملوکیت، اشتراکیت اور بہت سارے موجودہ فلسفوں سے متضاد ہے تو اس بنیاد پر یہ تمام ازم نہیں چاہتے ہیں کہ اسلام کی مساوات اور معنویت والی عدالت دنیا میں رائج ہو جائے، اس سے ان تمام عزموں کو زبردست دھچکا لگے گا، اس لئے وہ آئے دن کوششیں کرتے رہتے ہیں کہ اسلام کے عظیم مشن کو غلط نہج سے آگے لے آئیں، اس کے لئے وہ کبھی بذات خود میدان میں آتے ہیں، افغانستان کا رخ کرتے ہیں اور ایران پر پابندیاں عائد کرتے ہیں، تو کبھی مسلمانوں میں داخل ہوکر ہمیں آپسی انتشار اور تضاد کا شکار کرتے ہیں، یعنی دشمن کبھی کافرانہ رول ادا کرتا ہے تو کبھی منافقانہ رویہ اپناتا ہے تاکہ مسلمانوں کے لئے سم قاتل ثابت ہو سکے اور ہو بھی رہے ہیں، تمام مسلمان دشمن کی ناپاک سازشوں کے نتیجے میں بیرون حملوں کے شکار ہو رہے ہیں اور بنیادی ضرورت اتحاد و اتفاق سے خالی ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہمارا شیرازہ دن بہ دن بکھرتا جا رہا ہے۔

اسلام ٹائمز: اسلام مقدس کے نام پر ہر چہار سمت خون ریزیاں برپا ہیں کیا وجہ ہے اسکی۔؟

مولانا ڈاکٹر پیر سمیر صدیقی: میرے خیال میں اس میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ مسلمانوں میں بعض مفاد پرست، شخصی و ذاتی مفاد رکھنے والے افراد موجود ہوتے ہیں جو چاہتے ہیں کہ سادہ لوح عوام کو فقط جذبات میں مبتلا رکھا جائے، وہ نہیں چاہتے ہیں کہ دنیا اسلام میں موجود فتنوں اور فسادات کا کبھی حل نکل آئے کیونکہ ہر ایک نام نہاد مفتی و گروہی مولوی کی اجارہ داری تب تک ہی قائم رہے گی جب تک لوگوں میں عقل کو چھوڑ کر فقط جذبات کی حدیں بڑھتی رہیں گی، اس لئے وہ معقولیت پسندی اور مصلحت پسندی سے کام نہ لیتے ہوئے لوگوں کو انہی جذبات میں الجھا کر فروعی مسائل پر زیادہ زور دیتے ہیں جس کی وجہ سے دنیا بھر میں یہ خون ریزیاں برپا ہیں۔

اسلام ٹائمز: کیوں مسلمان ہی مسلمانوں کے ساتھ دست بہ گریباں اور خون کے پیاسے ہیں۔؟

مولانا ڈاکٹر پیر سمیر صدیقی: دیکھئے جب تک اساس اور بنیاد نہ ہو کوئی عمارت کھڑی نہیں ہو سکتی، ہم بنیاد اور اساس کو چھوڑ کر عمارت کی تعمیر میں مصروف ہیں، یہ سب مستحبات، فروعات اور مستثنات تب بجا لائے جائیں گے جب پہلے واجبات پر عمل کیا جائے گا، جب واجبات ہی نہیں ہیں تو مستحبات اور فروعات کی کیا بات کی جائے، جب پہلے کلمہ شریف، توحید، رسالت آخرت، ولایت یا خلافت نہ ہو جب ان مبادیات پر ہی کام نہیں ہوگا، ان مبادیات کو چھوڑ کر فقط فقہ کی بعض متفرقہ شکیں ڈھونڈ کر انہیں ایشو بنایا جاتا ہے، جن کہ وجہ سے اختلافات رونما ہوتے ہیں، اگر مبادیات پر زور دیا جائے جو غالباً تمام ہی مسلمانوں کے لئے ایک ہی ہیں، میرے خیال سے 90 فی صد مسائل اور احکامات ہمارے درمیان مشترکہ ہیں، ہم 90 فیصد مشترکات کو چھوڑ کر صرف 10 فیصدی متفرقات پر زور آزمائی کر رہے ہیں اور ان جزوی مسائل کو حد سے زیادہ اچھال رہے ہیں، یہ سراسر فطری قوانین کے خلاف ہے اور دینی منہج کے خلاف بھی، جس کی وجہ سے مسلمانوں کی شیرازہ بندی نہیں ہو پا رہی ہے۔

اسلام ٹائمز: مصر میں حالیہ دنوں جنرل السیسی کے ہاتھوں ہزاروں اسلام پسند اخوانیوں کو موت کی سزا سنانے پر عالم اسلام کی خاموشی یا عالم اسلام کے نام نہاد حکمرانوں کے اس آمریت کو ساتھ دینے کے بارے میں آپ کی تشویش۔؟

مولانا ڈاکٹر پیر سمیر صدیقی: بہت ساری آمرانہ اور ملوکانہ حکومتیں ہیں جو نہیں چاہتے ہیں کہ ان کا شخصی راج اور ملوکانہ حکومتیں ختم ہو جائیں اور لوگ اسلامی جمہوریت کے تصور کے ساتھ قیام کریں، کیونکہ اس سے انکا شخصی راج محفوظ نہیں رہ پائے گا، عرب میں اکثر ممالک چاہتے ہیں چاہے وہ سعودی عرب میں آل سعود ہو یا شام میں بشارالاسد ہو، عالم اسلام میں کچھ لوگ اسلام کے ایک مکتب فکر کے ساتھ تعلق جوڑ کر ان لوگوں کی ہمدردی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بعض بعض کی، لیکن اسلام میں، اہل تشیع میں اور اہل تسنن  دونوں میں شخصی راج کی بہرحال مذمت کی گئی ہے اور شخصی راج قابل تحسین ہرگز نہیں ہے، جو بھی اسلامی طرز فکر کے خلاف ہو وہ شخصی راج ہے، شخصی راج میں ہرگز عوام کی امنگوں کا خیال و لحاظ نہیں رکھا جاتا ہے، اور لوگوں کی بیداری کے قیام کو دبایا جاتا ہے، ایسی کوئی بھی تحریک ابھرے عرب حکمران اسکی تائید کرنے والے ہرگز نہیں ہیں۔

بشار الاسد کو ہم ڈکٹیٹر مانتے ہیں لیکن حکومت مخالف مہم کا ایک مثبت طریقہ ہونا چاہیئے انسانی طریقہ ہونا چاہیئے، اہل سنت اور اہل تشیع کو ایک ساتھ قیام کرنا چاہیئے، جمہوری طرز سے مطالبہ ہونا چاہیئے کہ ہم شام میں ایک جمہوری حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں اور جو باہر سے تکفیری آتے ہیں ان کو ایک خاص مقصد کے تحت شام بھیجا جاتا ہے، شاید اس کے پیچھے سعودی عرب کا مقصد یہ ہو کہ شام ایران اور انکے درمیان ایک ’’بفر زون‘‘ بنے اور اس ’’بفر زون‘‘ کو قائم کرنے کے لئے اپنے حامیوں کو سیریا بھیج رہا ہے، ساتھ ہی ساتھ وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ جتنا بھی انہیں موقع میسر ہو جائے جبراً وہ وہاں اپنی آئیڈیالوجی کا کوئی نہ کوئی سیمبول قائم کرے، صحابہ کبار اور محب اہل بیت کی توہین بھی کرتے ہیں، تکفیریوں کے اس طریقہ کار سے تمام عالم اسلام کے دل مجروح ہوئے ہیں چاہے وہ اہل سنت ہوں یا اہل تشیع، تکفیروں کی ان کارروائیوں کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے اگر یہ نام نہاد توحید کا دم بھرتے ہیں، اگر انہیں توحید کا بول بالا کرنا ہے تو توحید کا قطعاً یہ معنٰی نہیں ہے کہ اکابرین کے مزارات کو منہدم کیا جائے انکے اجساد کی بےحرمتی کی جائے، یہ دین مبین کی توہین ہے، توحید نہیں۔

اسلام ٹائمز: بعض حکومتوں کا اسلام دشمن قوتوں یا تکفیریوں کے ساتھ بات چیت اور مذاکرات کے بارے میں آپ کیا کہنا چاہیں گے۔؟

مولانا ڈاکٹر پیر سمیر صدیقی: تشدد پسندانہ نظریہ کے ساتھ چاہے کوئی حکومت بات چیت کرے یا نہ کرے، ان کا تشدد کبھی کم نہیں ہونے والا، یہ شدت پسند اپنے نظریئے کا قائل کریں یا نہ کر پائیں ان کا تشدد اور جارحیت کم نہیں ہونے والی، میرے خیال میں انسان دشمن، انسانیت دشمن فرقوں سے مذاکرات اور بات چیت ہرگز نہیں ہونی چاہیئے، یہ فرقے محرم الحرام کے جلوسوں میں دھماکے کرتے ہیں یا عید میلاد النبی (ص) کے جلسوں میں دھماکے کرتے ہیں، بے گناہوں کا خون بہاتے ہیں، قاتلوں اور خونخواروں کے ساتھ بات چیت نہیں کی جاتے بلکہ انہیں کیفر کردار تک پہنچانے کی ضرروت ہوتی ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا کوئی ایسا خطہ ارض ہے جو عالم اسلام کے لئے امید کی کرن کے بطور ابھر رہا ہے اور جہاں سے عالم اسلام کے تمام موجودہ ناساز حالات و مشکلات کا حل ممکن ہے۔؟

مولانا ڈاکٹر پیر سمیر صدیقی: میں اپنی تمام تر تبلیغات میں یہ بات کہتا ہوں اور بعض طبیعتوں کو خوش کرنے کے لئے نہیں کہتا ہوں، تحقیق کے نظریہ سے کہتا ہوں کہ اس وقت اسلامی جمہوری ایران ہے اللہ اس خطہء زمین کو محفوظ رکھے، وہاں سے اس وقت حقیقتاً اسلامی اخوت کی بھی بات ہوتی ہے اور اسلامی نظریات کے مطابق انہوں نے تمام دنیا کو ایک قیادت دی ہے، تمام دنیا میں جہاں بھی منصف مزاج کے انسان رہتے ہیں ایک امید کی نگاہ سے ایران کی طرح دیکھ رہے ہیں، علامہ اقبال نے کب کا کہا تھا کہ تہران ہو گر اقوام عالم کا جنیوا تو ممکن ہے کرہ ارض کی تقدیر بدل جائے، میں آج بھی یہ سوچتا ہوں کہ اگر اس طریقے سے امام خمینی (رہ) کے منہج پر ایران قائم رہے گا تو وہ دن دور نہیں ہوگا کہ ولایت فقیہ میں ہی مسلمان اپنی خلافت کی تقدیر بدل سکتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: کسی ایک واحد پلیٹ فارم کی عالم اسلام کو ضرورت جہاں سے ایک واحد و بےباک قیادت تمام عالم اسلام کی رہنمائی کرے۔؟

مولانا ڈاکٹر سمیر صدیقی: عالم اسلام کا ایک طبقہ ہے جو سوچنے سمجھنے والا ہے، بہت عرصہ سے اس بات کا تقاضا کر رہا ہے کہ عالم اسلام ایک مشترکہ پلیٹ فارم سے قیام کرے اور انشاءاللہ دن بہ دن یہ فکر عام ہوتی جا رہی ہے اور یہ فکر غالب ہوتی جا رہی ہے، قرآن حق ہے اور بالکل حق ہے تو یہ ہونا ہی ہے جاءالحق و زھق الباطل ان باطل کان زھوقا اور ہمیں امید رکھنی چاہیئے کہ آنے والے دنوں میں بہت زیادہ پیش رفت دیکھنے کو ملے گی اور میں کشمیر کی بات کروں تو پچھلے آٹھ دس سال سے یہ کوششیں ہو رہی ہیں کہ اہل تشیع اور اہل تسنن ایک دوسرے کے قریب تر آتے جا رہے ہیں اور شام و مصر و پاکستان کے لئے اور دیگر عالم اسلام کے لئے بھی اور گروہی فسادات میں گرفتار بہت سارے ممالک اور خطوں کے لئے بھی کشمیر ایک امید کی کرن ثابت ہو رہا ہے۔

اسلام ٹائمز: وحدت بین المسلمین کے حوالے سے علماء اسلام اور مبلغین دین کا کردار کتنا اہم ہو سکتا ہے۔؟

مولانا ڈاکٹر سمیر صدیقی: وحدت بین المسلمین کے حوالے سے علماء اسلام کا ایک بڑا اور اہم رول بنتا ہے اگر ہمارے علماء فروعی مسائل اور ایک دوسرے کے ساتھ دست بہ گریباں ہونے کے بجائے اپنی توانائی اور وہ جذباتیت جو وہ فروعیات میں صرف کرت ہیں کی بجائے سماج اور معاشرے میں موجود خرافات اور خرابیوں کو دور کرنے میں صرف کریں تو انشاءاللہ علماء کی یہ آواز موثر ثابت ہوگی، اس میں علماء کرام کو چاہیئے کہ اہل بیت اطہار (ع) کی سیرت کو بیان کیا جائے ان کی باتوں میں ایک خاص اثر ہے جنہیں عوام تک پہنچانا ہوگا، ہمیں اہل بیت کی سیرت پاک کو عام کرنے کی ضرورت ہے، صدر اولیٰ سے ہی انکی باتوں میں ایک خاص جاذبیت رہی ہے جنہوں نے ان باتوں کو اپنایا اور گلے لگایا کامیابی ان کا مقدر بن گئی۔

اسلام ٹائمز: آپ فرما رہے ہیں کہ کشمیر ایک امید کی کرن کے بطور سامنے آ رہا ہے، یہاں مسلمانوں کے درمیان کوئی خلفشاری اور تضاد کی موجودگی اور یہاں اتحاد و اتفاق بین المسلمین کے حوالے سے ایران و عراق سے آئے ہوئے مبلغین کا کردار کیا رہا ہے۔؟

مولانا ڈاکٹر سمیر صدیقی: آپ کے سامنے جامع لیکن مختصر طور پر کشمیر کے اہم مسئلہ کی بات کروں تاکہ شک و شبہ کی بات واضح ہو جائے، وہ یہ کہ کشمیر میں اہل تشیع و اہل تسنن کا اتنا زیادہ اختلاف نہیں رہا ہے جتنا کہ باہر کی دنیا میں رہا ہے لیکن بعد میں لوگوں نے باہر کے اثر میں آ کر تھوڑا بڑا چڑھا کر مسائل کو پیش کرنے کی کوشش کی، ورنہ ہمارے یہاں وہ مشکلات نہیں ہیں جو بیرون ریاستوں میں ہیں، ہمارے کشمیر میں دو اساطین ایسے ہیں جن کے بارے میں غلط بیانی کی جاتی ہے اور اختلافات کو ہوا دی جاتی ہے اور ان اختلافات کی وجہ کو ان ہی دو اساطین سے منسوب کرنے کی ناکام کوشش کی جاتی ہے، اس مسلکی تعصب کو شیخ ہمزہ مخدوم اور میر سید شمس الدین عراقی سے جوڑا جاتا ہے لیکن اگر تحقیقی اعتبار سے دیکھا جائےتو مورخین نے ثابت کیا ہے کہ ان دونوں حضرات کے ادوار اور قرون میں کافی فاصلہ تھا، دونوں کا دور تبلیغ دور حیات ایک دوسرے سے جدا تھا، لہذا تعصب کی کوئی بات ہی نہیں ہے، اور دوسری بات یہ ہے کہ شیخ ھمزہ مخدوم (رہ) کہ جو کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اہل تشیع کے ساتھ معرکہ آرائی کی ہے، یہ بھی بالکل عبث و فضولیات ہے کیونکہ انکے سب سے چہیتے خلیفہ و جانشین حضرت بابا داؤد خاکی (رہ) انہوں نے قصیدہ ورد مریدین میں اپنے پیر شیخ مخدوم کی مدح میں لکھا ہے کہ ’’شیعہ و سنی یکی ہستند اما بسے، رافضی از سب و شتند انکر شدم۔ اہل تشیع حضرت علی (ع) کے طرفدار ہیں اگر اہل سنت بھی محب حضرت علی (ع) ہیں تو ہم بھی شیعیان علی ہیں، اہل رفض وہ ہیں جو کچھ ایسا پیرایہ اختیار کئے ہوئے ہیں جو خود شیعیان علی کے بھی خلاف ہے، مثلاً بہرہ، اسمائیلی، شش امامی جو ہیں ان کا شیعیت سے کوئی تعلق نہیں ہے ان کی خود اہل تشیع کے اساطین نے مذمت کی ہے اور انہیں اہل رفض قرار دیا جا سکتا ہے اور اہل رفض صرف اہل تشیع میں نہیں ہیں بلکہ اہل سنت میں بھی اہل رفض موجود ہیں اور وہ وہابی ہیں، جو اولیاء کاملین کے ساتھ ساتھ اہل بیت اطہار کے ساتھ بھی رفض کرتے ہیں، ان رافضیوں کو شیعوں اور سنیوں میں الگ کرنے کی ضرورت ہے، باقی رہے شیعہ و سنی تو یہ دونوں یکی ہستند۔ یہ دونوں ایک ہی ہیں بلکہ اسلامی طرز فکر کے دو بہترین باب اور منہج ہیں جن کا مرکز ایک ہی ہے، منبع ایک ہی ہے اور آگے بھی یہ دونوں ایک ہی جگہ پر ملنے والے ہیں۔

حضرت محبوب العالم شیخ ھمزہ مخدوم کہ جن کا سلسلہ نصب سہروردیہ سے ہے بابا داؤد خاکی انکو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: غم نباشد روز حشر ما را از تشنگی، منبع این سلسلہ چوں علی ساقی کوثر شدست، آن حضرت قائم۔۔۔۔۔اور آگے بھی یہ سلسلہ حضرت قائم امام مہدی عج سے جا ملے گا، جب وہ تشریف لائیں گے اور ظہور فرمائیں گے، آگے بھی وہی اور ہمارے پیچھے بھی وہی، ہمارے آگے بھی قیادت ان ہی کی ہے اور ہمارے سر پر سایہ بھی انہی کا ہے، اہل بیت کرام کے بغیر اہل سنت کا فکری ادارہ بالکل عبث و بےکار ہے کیونکہ ہم سب یہ مانتے ہیں کہ علی ولی اللہ کی ولایت کہ جسے فاروق اعظم نے بھی تسلیم کیا ہے، عمر نے غدیر خم کے میدان میں اعلان کیا ہے آج آپ عمر کے نفس کے بھی مولا ہیں، تو پھر ہر سنی کے بھی مولا علی ہیں، اور ہم تو حضرت علی کو شاہ ولایت مانتے ہیں اس طرز پر کہ کوئی ولی ولایت حاصل کر ہی نہیں سکتا ہے جب تک کہ حضرت علی (ع) کے نعلین کی خیرات سے اسکو ولایت نہ ملے، اس لئے اہل تشیع اور اہل تسنن اگر علی کی ولایت پر بھی متفق نہیں ہوتے ہیں تو کہاں متفق ہونگے، کشمیر کی سرزمین کو ولایت کے ساتھ اولیاء کاملین کی کاوشوں اور تبلیغ کے نتیجے میں ایک خاص لگاؤ و نسبت ہے، کشمیر میں اس بات کو زیادہ آسانی کے ساتھ سمجھا جا سکتا ہے بنسبت دیگر علاقوں کے، ہمارا ایک روحانی طریقہ کار ہے اس روحانی پیرایے میں اہل تشیع و اہل تسنن دونوں یکجا آ سکتے ہیں اور ہمیں اسی منہج پر یہاں کام کرنے کی ضرورت ہے۔
خبر کا کوڈ : 372451
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش