0
Friday 25 Jul 2014 00:38

یوم القدس اور اُس کے عالمی ثمرات

یوم القدس اور اُس کے عالمی ثمرات
تحریر : علامہ صادق رضا تقوی

ماہ مبارک رمضان خدا وند عالم کے خاص الخاص مہینوں میں سے ایک مہینہ ہے۔ یہ مہینہ اپنی تمام عبادتوں کے ساتھ ہمیں جہاں اللہ سے قربت کی ترغیب دیتا ہے وہیں یہ مہینہ ہم میں اجتماعی سوچ اور فکر پیدا کرتا ہے۔ ماہ رمضان ہم انسانوں میں اجتماعی سوچ، گروہی کام، ٹیم ورک اور مل جل کر کام کرنے کا جذبہ بیدار کرتا ہے۔ مل کر عبادات انجام دینا، ساتھ افطار کرنا اور ایک دوسرے کی مدد کرنا، ایک دوسرے کا خیال کرنا، دکھ درد میں ساتھ دینا اُن خصوصیات سے تعلق رکھتا ہے جو اللہ کا مبارک مہینہ اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے۔ یہ مہینہ ہمیں اپنے معاشرے کے پسماندہ طبقے سے اظہار ہمدردی کا درس دیتا ہے۔ اگر ہم دنیا کے تمام مسلمانوں کو اپنا بھائی تصور کریں اور اُنہیں ایک جسد واحد سمجھیں تو صورتحال کو سمجھنا اور درک کرنا اور بھی آسان ہو جائے گا۔ ملت فلسطین ایک مظلوم قوم ہے کہ جسے اپنوں نے بھی زخمی کیا اور اغیار نے بھی ستم کا نشانہ بنایا۔ ایسے میں ضرورت ہے کہ اس قوم کے حقوق کی حفاظت کیلئے جدوجہد کی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ عالم اسلام کے عظیم رہنما حضرت امام خمینی ؒ نے جمعتہ الوداع کو عالمی یوم القدس قرار دیا تاکہ تمام دنیا کے مسلمان ایک ہی دن پوری دنیا میں فلسطین کی آزادی اور ظالم و غاصب صہیونی اسرائیل کے خلاف اپنی آواز بلند کریں۔

یوم القدس اور جمعة الوداع کارشتہ:
یہ امام خمینی ؒ کی فہم و فراست تھی کہ جہاں انہوں نے دنیا کے تام مسلمانوں کو اپنے فروعی اختلافات بھلا کر اپنے مشترکہ دشمن کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بننے اور اُن کا ہر سطح پر مقابلہ کرنے پر زور دیا اور مسلمانان عالم کو اپنے داخلی اور اندرونی اتحادو اتفاق کو برقرار رکھنے کی تاکید کی وہیں انہوں نے دنیا کے تمام مسلمانوں سمیت دنیا کی تمام اقوام پر ہونے والے ظلم و ستم کے خلاف آواز حق اٹھانے کا حکم دیا۔ اُن کی یہ حکمت  علمی موثر ثابت ہوئی اور دنیا کے تمام مسلمانوں کی اکثریت نے اُن کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے عالم اسلام کے صف اول کے دشمنوں یعنی اسرائیل، امریکہ اور برطانیہ وغیرہ کے خلاف احتجاج کیا۔ یوم القدس کو ماہ رمضان کے آخری جمعہ یعنی جمعة الوداع کے دن قرار دینے کا فلسفہ بھی یہی ہے کہ ماہ مبارک رمضان مسلمانوں کے نزدیک قرآن و سنت کی روشنی میں بہت ہی اہم مہینہ ہے۔

یہ عبادت، خدا سے راز و نیاز، تلاوت قرآن، روزے داری، شب زندہ داری، معاشرے کے فقیر و مفلس افراد کی مدد و اعانت اور افطار کے ذریعے دوسروں کی مدد کرنے اور روزہ کھلوانے کا مقدس مہینہ ہے۔ احادیث میں اس کی بہت ہی زیادہ فضیلت بیان کی گئی ہے۔ امام خمینی ؒ نے امت مسلمہ کے سامنے ایک اور افق باز کیا اور فرمایا کہ اپنے دینی بھائیوں کی مدد کیلئے استغاثہ بلند کرنا، ظالموں کے خلاف آواز اٹھانا بھی کار ثواب ہے۔ جمعة الوداع کو تمام مسلمانان عالم خدا کی عبادت کی نیت سے اللہ کے قرب کے حصول کی خاطر جمع ہوں اور غاصب اسرائیل کے خلاف آواز حق بلند کریں۔ یہاں سے امام خمینی ؒ کے روحانی اور سیاسی مکتب کی گہرائی اور عظمت کا اندازہ ہوتا ہے۔ آپ چاہتے تھے کہ یوں اُمت محمدی ایک جسد واحد کی مانند نظر آئے کہ دنیا میں کہیں بھی کسی مسلم کو کوئی بھی ظلم و ستم کا نشانہ بنائے تو پوری اُمت مسلمہ اُس کیلئے آواز اٹھائے۔

فلسطین اور قبلہ اول کی اہمیت:
قبلہ اول یوں اہمیت کا حامل ہے کہ مسلمان ایک عرصے تک اِسی کی جانب رخ کرتے ہوئے نماز ادا کرتے رہے۔ یہی وہ جگہ ہے کہ جہاں کا تذکرہ معراج کے ضمن میں کیا گیا ہے۔ یہ سرزمین کئی انبیائے کرام سے وابستہ و منسوب ہے اور اُن کی کئی یادگاریں بھی موجود ہیں۔ اِسی وجہ سے اِسے مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں کے درمیان ایک خاص مقام حاصل ہے۔ امام خمینی ؒ اِسی پاکیزگی و قداست کو مسلمانوں کو یاد دلانے کے خواہشمند تھے کہ مسلمان اِس مقدس مقام کی حفاظت کیلئے کمربستہ ہوجائیں اور یہی وجہ ہے کہ اُنہوں نے ۰۵۹۱ کی دہائی میں شروع ہونے والی اپنی اسلامی اور اصلاحی تحریک میں پہلے ہی دن سے اسرائیل کے خطرے کی جانب متوجہ کیا۔

اسرائیل کا خطرہ تمام عالم اسلام اور پوری بشریت کیلئے ہے:
امام خمینی ؒ نے اسرائیل کو نہ صرف یہ کہ مسلمانوں کیلئے بلکہ تمام عالم بشریت کیلئے ایک خطرہ قرار دیا اور فرمایا: ”اسرائیل ایک سرطانی جرثومہ ہے“۔ وجہ یہ ہے کہ اسرائیل نے ہولوکاسٹ کی بنیاد پر جو جھوٹ بولا ہے اور ماضی میں نازیوں کے ہاتھوں یہودیوں کے اُس جھوٹے قتل عام کو وجہ اور بنیاد بناکر فلسطینی اراضی پر قبضہ اور جعلی اسرائیلی ریاست کے قیام کو جو شکل دی ہے وہ صرف فلسطین تک ہی محدود نہیں بلکہ صہیونیوں کا ایک بڑا منصوبہ یہ ہے کہ وہ عالم اسلام کے ایک بہت بڑے رقبے کو ہتھیالیں۔ یہی وجہ ہے امام خمینی ؒ نے شاہ ایران رضا پہلوی کے خلاف اپنی اصلاحی اور انقلابی تحریک کی ابتدا میں ہی اسلام کو خطرے اور اسرائیل کو دشمن اسلام کی حیثیت سے متعارف کرایا۔

عصر حاضر میں اُمت مسلمہ کے خلاف اسرائیلی و امریکی منصوبے:
آج بھی اسرائیل کا وہ منصوبہ کہ جسے وہ عملی جامہ پہنانا چاہتا ہے، کھل کر سامنے آگیا ہے۔ آج شام اور عراق میں یہودیوں کی سازشیں کھل کر سامنے آچکی ہیں اور وہ جس طرح مسلمان ممالک میں شیعہ سنی کو باہم دست و گریباں کرکے اپنے مذموم مقاصد کو عملی جامہ پہنانا چاہتے ہیں وہ اب کھل کر سامنے آچکا ہے۔ شام میں سعودیہ کی پوری کوشش تھی کہ وہ امریکہ کے ذریعے سے حملہ کرا دے مگر وہاں وہ اپنے مقاصد کا حاصل کرنے میں ناکام رہے اور وہاں سے دہشت گردوں کو فرار اختیار کرنا پڑا۔ اب یہی دہشت گرد عراق میں داخل ہوئے ہیں۔ عراق میں فتنہ انگیزی اور جنگ افروزی کے پس پردہ، تسلط پسند طاقتوں اور ان میں سرفہرست امریکہ کا ہاتھ ہے۔ عراق کے حالیہ مسائل کا اصلی مقصد اس ملک کے عوام کو جمہوریت سے محروم کرنا ہے کہ جو امریکی مداخلت اور موجودگی کے سبب حاصل ہوئی ہے۔

امریکہ و اسرائیل، عراق کی موجودہ صورتحال یعنی عراق میں عوام کی بھاری شرکت سے کامیاب ہونے والے قابل اعتماد امیدواروں کے انتخاب سے راضی نہیں ہے اور وہ عراق پر اپنا تسلط چاہتے ہیں تاکہ لوگ اُن کے تابع فرمان ہوجائیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ عراق کے مسئلے میں تسلط پسند نظام، متعصب اور جاہل عناصر سے غلط فائدہ اٹھانے کے درپے ہیں۔ عراق میں اصل معرکہ عراق میں امریکی کیمپ سے ملحق ہونے والوں اور عراق کی خودمختاری کے خواہاں افراد کے درمیان ہے۔ عراق میں شیعہ اور سنی کی جنگ نہیں ہے بلکہ امریکہ و اسرائیل، تسلط پسند نظام، صدام کی باقیات اور تکفیری عناصر کو اصلی مہرہ بناکر عراقی سالمیت اور امن و امان کو درہم برہم کرنے میں کوشاں ہیں۔ ایسے حالات میں ضروری ہے کہ ہم عالمی سطح پر تمام مسلمانوں بالخصوص فلسطینیوں کیلئے آواز حق بلند کریں۔

یوم القدس کی روح، ظلم و ستم کے خلاف آواز حق بلند کرنا ہے:
یوم القدس یوں تو فلسطینی عوام سے اظہار یکجہتی کرنے اور اُن کے حقوق کیلئے آواز اٹھانی اور ظالم کے ظلم و ستم کے سامنے کلمہ حق کہنا ہے لیکن یہ صرف فلسطینیوں ہی سے مخصوص نہیں ہے۔ صحیح ہے کہ اب یوم القدس عالمی سطح پر فلسطینی عوام سے اظہار یکجہتی کیلئے ایک عالمی علامت بن گیا ہے لیکن امام خمینی ؒ کی خواہش یہ تھی کہ وہ مسلمانوں پر چھائے ہوئے سکوت و جمود کو توڑیں تاکہ اُن میں ظالم اور استکباری طاقتوں کے خلاف آواز بلند کرنے کی ہمت پیدا ہو سکے اور وہ اپنے حقوق کے حصول کیلئے مشترکہ جدوجہد کو اپنائیں۔ اگر یہی سوچ مسلمانان عالم میں پیدا ہو جائے کہ وہ مشترکہ جدوجہد کریں اور فروعی اختلافات بھلا کر اپنے مشترکہ دشمن کے خلاف متحد ہو جائیں تو دنیا کی کوئی طاقت اُنہیں شکست نہیں دے سکتی۔ اگر دنیا کے تمام مسلمان متحد ہو جائیں اور اپنی طاقت و قدرت کو اسلام کی بالادستی و حاکمیت کیلئے استعمال کرنے، اپنی قدرت دولت اور معدنی ذخائر کو اسلامی ممالک کی فلاح و بہبود اور ترقی کیلئے مشترکہ طور پر استعمال کرنے نیز اپنے دشمن پر اپنا رعب بٹھانے کیلئے کوششیں کریں تو آج دنیا کی بظاہر بڑی نظر آنے والی ترقی یافتہ طاقتیں ان کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جائیں گی۔

یوم القدس، عالمی انقلاب کیلئے ایک مشق کا آغاز ہے:
یہ امام خمینی ؒ کی پُر خلوص آواز تھی جو ایران کے ایک چھوٹے سے شہر کے ایک چھوٹے سے مدرسے سے اٹھی اور آج پوری دنیا میں پھیل گئی ہے۔ اُمت مسلمہ کیلئے یہ اُن کا درد تھا جو آج ایک حقیقت کا روپ دھارتا جا رہا ہے اور تقریباً نصف صدی قبل ان کی بلند کی ہوئی آواز اُمت مسلمہ کے دل کی دھڑکن بن گئی ہے۔ امام خمینی ؒ دنیا کے مسلمانوں کو ذلت و حقارت اور بڑی طاقتوں کی جدید غلامی کی زنجیروں سے آزادی دلاکر اُنہیں صف اول کی اقوام عالم میں دیکھنے کے خواہشمند تھے اور یہی وجہ ہے کہ ان کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے والا ایران آج دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں شمار کیا جانے لگا ہے۔ اگر دنیا کے مسلم ممالک اور حکومتیں امام خمینیؒ کے دیئے ہوئے نسخے کے مطابق عمل کرتے تو امت مسلمہ کی یہ ناگفتہ بہ حالت نہ ہوتی۔

جب سے مسلمانان عالم نے یوم القدس کو عالمی سطح پر منانے اور اسرائیل کے خلاف آواز حق بلند کرنے کا فیصلہ کیا اُسی وقت سے اسرائیل کی نیند یںاڑی ہوئی ہیں۔ عالمی یوم القدس ایک مثال ہے، ایک قدم ہے، ایک مشق ہے، ابتداء ہے، شروعات ہے ایک عالمی انقلاب کی، ایک بین الاقوامی سطح کی تبدیلی کی کہ جہاں مسلمان عدل و انصاف کے ساتھ دنیا پر حکومت کریں، عدل کا بول بالا ہو اور ظلم و نا انصافی دم توڑ دے، ستم کا راج ختم ہوجائے اور ظالم کو یہ ہمت نہ ہو کہ وہ کسی بھی مظلوم کا حق چھیننے کی فکر کرے۔ ہم سب نے اِس کا تجربہ کیا ہے اور عالمی یوم القدس نے مسلمانان عالم کو ایک نئی جہت، ہمت اور حوصلہ عطا کیا ہے کہ وہ بہت کچھ کر سکتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 401359
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش