0
Thursday 16 Feb 2012 22:14

ظلم تو ظلم ہے...اپنا کرے یا غیر سے ہو

ظلم تو ظلم ہے...اپنا کرے یا غیر سے ہو
تحریر: سید اسد عباس تقوی 

ایسا الہی دین اور اس کے پیروکار میری سمجھ سے تو باہر ہیں، جو انسانوں کو دو مختلف زاویوں سے دیکھیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ اس کائنات کا خالق ہر انسان کو بحیثیت مخلوق ایک ہی نظر سے دیکھتا ہے۔ کبھی آپ نے دیکھا ہے کہ خدا نے کسی ہندو کو اس لیے خوراک نہ دی ہو کہ وہ اس کا منکر ہے یا کسی عیسائی کی سانسیں اس لیے بند کر دی ہوں کہ وہ انسانوں کو اس کا شریک قرار دیتا ہے۔ انسانوں کی مذاہب یا مسالک کی بنیاد پر تقسیم تعارف کی حد تک تو درست تھی تاہم اس کو معیار بنا کر حق و باطل کا تعین اس خالق کا کام ہے جو انسانوں کا حقیقی مالک ہے۔ اگر دین کی بنیاد پر انسانوں کو تقسیم کر ہی دیا تھا، تو اس سے آگے بڑھنے یعنی اس تقسیم کی بنیاد پر دوسروں پر عرصہ حیات تنگ کرنے کا حق حضرت انسان کو کب اور کس نے دیا۔؟
 
اسی طرح مطلق العنانیت بھی عجیب مرض ہے کہ ایک اچھا بھلا انسان جسے خوب پتہ ہے کہ اپنے جسم پر بھی مکمل تصرف نہیں رکھتا، وہ مخلوق خدا سے یوں رویہ رکھتا ہے جیسے وہی ان کا خالق و مالک ہو۔ زمین تو اس کے قبضے میں ہوتی ہی ہے، اس پر بسنے والے انسانوں کی آزادیوں، زندگیوں اور مستقبل کا مالک و مختار نظر آنے کا زعم اسے کسی پل چین نہیں لینے دیتا۔ یہ زعم کسی منکر خدا کو ہو تو ہم اسے فرعون کہ کر اپنے دل کا غبار ٹھنڈا کر لیں، مگر وہ جو مسلمان ہیں اور نبی خاتم ص کی امت ہونے کے دعویدار ہیں، کی جانب سے اس قسم کا طرزعمل بالکل ہی ناقابل فہم ہے۔ جو اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ مطلق العنانیت کا کوئی دین نہیں۔ ہر مطلق العنان شخص اپنے پیشرووں کی مانند ظلم کو اپنے اقتدار کے دوام کا آخری حربہ تصور کرتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ اسے اپنی رعیت کے نفسوں، ان کی آزادیوں اور مستقبل پر یوں اختیار حاصل ہے جیسے وہ ان کا خالق اور پالن ہار ہو۔
 
ظلم اور ظالم کی رائج تشریح بھی ایسی ہے، جو ذہن میں ہزاروں سوالات جنم دیتی ہے۔ فلسطین اور کشمیر میں کوئی شخص اسرائیلی یا ہندوستانی فوج کے حملوں میں مارا جائے تو یہ ظلم عظیم اور مارنے والا ظالم ہوتا ہے، تاہم قطیف، بحرین یا یمن میں حکومتی اہلکاروں کی گولی کا نشانہ بننے والا کوئی بھی شخص، جو اپنے فلسطینی اور کشمیری مسلمان بھائیوں کی مانند بنیادی انسانی حقوق کا تقاضا کر رہا تھا مظلوم تو ایک طرف ذکر خیر سے ہی محروم رہ جاتا ہے، اور مارنے والوں کو کوئی ظالم کیسے کہے کہ جن کے ظلم کا نشان ہی نہیں ملا۔ نشان ملتا ہے تو ان عظیم الشان عمارات کا جو خدمت دین کے نام پر تعمیر کی جاتی ہیں۔ نشان ملتا ہے تو اس قرآن کا جو ہر سال کروڑوں کی تعداد میں شائع کرا کر مفت تقسیم کیا جاتا ہے۔
 
ان عنایات کے بوجھ تلے دبے ہوئے لوگوں کو کیا معلوم کہ قطیف میں مارے جانے والے دو نوجوانوں منیر اور زہیر کا جرم کیا تھا؟ انہیں کیا پتہ کہ اپنے حقوق کا تقاضا کرتے ہوئے حکومتی گولیوں کا نشانہ بننے والے پندرہ سعودی باشندے کون تھے۔؟ انہیں کیا پتہ کہ قطیف کے ہسپتال میں ان زخمیوں کا علاج کرنے والے معالج کا جرم کیا تھا کہ اسے گرفتار کر لیا گیا۔؟ جب اس قسم کی خبریں ہی ہم تک نہیں پہنچتیں تو ہم کیسے حالات کی نوعیت سے آگاہ ہو سکتے ہیں۔؟ ہم کیسے ظالم و مظلوم کے مابین فرق کر سکتے ہیں۔؟ 

اگر کسی کا یہ خیال ہو کہ شاہ کو حق ہے کہ وہ اپنی رعیت سے جیسا چاہے سلوک کرے، تو یہ بھی انسانیت سے گری ہوئی فکر ہے، جو کسی منکر خدا کو تو روا سمجھی جا سکتی ہے تاہم ایک خدا پرست اور انسانوں کو اس کی مخلوق سمجھنے والا، اس بات کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ قطیف کے ہمسائے میں متمکن بحرین کے شاہ کو بھی دیکھ لیں۔ گزشتہ ایک سال سے یہ مطلق العنان حاکم مخلوق خدا پر مظالم کے پہاڑ توڑ رہا ہے، مگر ہم ہیں کہ ہمیں ان مظالم کی کانوں کان خبر نہیں۔ جنھیں پتہ بھی ہے وہ یوں چپ سادھے بیٹھے ہیں جیسے وہاں مارے جانے والے تو انسان ہی نہیں۔ 

بحرین میں گزشتہ سال کے ماہ فروری سے آج تک 68 افراد مختلف حکومتی عقوبتوں کا نشانہ بن چکے ہیں، ہزاروں افراد گرفتار ہیں جن کے زندہ یا مردہ ہونے کی کوئی اطلاع نہیں۔ انسانی حقوق کے وہ دعویدار جو پوری دنیا میں حقوق، حقوق کرتے پھرتے ہیں، بھی اس ظلم پر خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔ مسلکی تقسیم نے ہم میں سے بعض کو اتنا اندھا کر دیا ہے کہ جاننے کے باوجود ظلم کو ظلم کہنے اور لکھنے کی جرات نہیں۔
 
امت مسلمہ کا وہ دانشور طبقہ جو قرآن کے حکم کی روشنی میں ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیتا ہے اور اس حکم کے تحت دعویٰ کرتا ہے کہ مسلمان کسی بھی بے گناہ اور نہتے انسان کو خواہ اس کا تعلق کسی بھی دین، فرقے اور گروہ سے کیوں نہ ہو قتل نہیں کر سکتا، سے میرا ایک ہی سوال ہے آیا بحرین، قطیف اور یمن میں مارے جانے والے انسان نہیں۔؟ کیا انسانیت کا تعین مسلک اور مذہب کی بنیاد پر کرنا درست عمل ہے۔؟ دنیا میں جہاں بھی بیداری کی تحریکیں اٹھیں، ہمارے ملک میں انہیں خوش آئند قرار دیا گیا، پاکستانی میڈیا نے مصر کا تحریر اسکوائر بھی دکھایا اور کرنل قذافی کی میت بھی، لیکن نہ جانے قطیف اور بحرین کے مظلوم انسانوں سے ایسی کیا خطا سرزد ہوئی کہ ان کا ذکر ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتا۔
 
حامد میر نے لبنان پر اسرائیلی حملے کی کوریج اسرائیل پہنچ کر کی۔ طلعت حسین نے فلسطینیوں کی حمایت کے لیے فریڈم فلوٹیلا پر سوار ہو کر اپنی زندگی خطرے میں ڈالی۔ مقبوضہ کشمیر کے پل پل کی خبریں ہمارے نامہ نگار اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر ہم تک پہنچاتے ہیں۔ کیا قطیف اور بحرین میں مارے جانے والے نہتے اور بے گناہ انسانوں کا خون فلسطین، کشمیر یا دنیا کے کسی بھی خطے میں قتل ہونے والے انسانوں کے خون سے کمتر یا کم اہم ہے۔؟
 
دکھ اس بات کا نہیں کہ فلسطین، کشمیر اور دیگر مسلم و غیر مسلم ممالک میں رونما ہونے والے واقعات کی خبریں ہم تک کیوں پہنچتی ہیں۔ دکھ ہے تو اس بات کا کہ آج ہمارا میڈیا اور دانشور طبقہ بحرین میں ہونے والے مظالم پر کیوں خاموش ہے؟ ہمارے خبر رساں اداروں اور لکھاریوں کو قطیف نظر کیوں نہیں آتا؟ ہمارے اینکر پرسن بحرین کیوں نہیں پہنچے کہ وہاں سے اس ملک کی تاریخ کے اہم ترین واقعہ یعنی 14 فروری کی تحریک کو کور کرتے؟ ان ممالک میں غیر ملکی صحافیوں کے داخلے پر پابندی اور وسائل کی کمی کو بھی بہانہ نہیں بنایا جا سکتا کیونکہ ہم نے پاکستانی میڈیا کے ان چینلز پر عرب ٹی وی اور مغربی ذرائع ابلاغ کی روایات کو اکثر سنا اور دیکھا ہے، جن میں ایسی ہی اہم خبروں کے بارے میں بتایا جاتا ہے جہاں ہمارا میڈیا نہیں پہنچ سکتا۔
 
خلیجی ممالک کی دوغلی پالیسی تو اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی۔ جو شام میں تو ”عوام“ کے حامی ہیں اور بشار الاسد کی حکومت کو گرانے کے درپے ہیں اور یمن و بحرین میں اپنی افواج کے ذریعے عوام کو دبانے کا کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کرتے، اور تو اور وہ جو عرصے سے نظروں سے غائب تھے، یعنی القاعدہ کے موجودہ سربراہ، وہ بھی اپنی توپوں سمیت شام پر چڑھ دوڑے۔ انھیں نہ تو اپنے ملک کا حسنی مبارک نظر آتا تھا اور نہ ہی لیبیا کے عوام پر ظلم ڈھاتا کرنل قذافی۔ ففتھ فلیٹ والوں کا میزبان تو جیسے کسی دوسری دنیا کا باسی ہے، جو ان کے دائرہ کار اور افکار کی جنت سے بہت دور بستا ہے۔ 
قارئین کرام! انسانی اقدار کو جب تک مسلکی اور گروہی عینکوں کے ساتھ دیکھا جاتا رہے گا تو اسی قسم کے بھونڈے اور بھدے مناظر نظر آئیں گے، جن کی کوئی بھی اصولی توجیح کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہو گی۔ آئیں ان عینکوں کو اتار پھینکیں اور ظلم کو ظلم کہیں، چاہے کرنے والا اپنا ہی کیوں نہ ہو۔
خبر کا کوڈ : 138352
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش