1
0
Friday 19 Sep 2014 19:24

سرزمین انقلاب کا مقدس سفر (1)

سرزمین انقلاب کا مقدس سفر (1)
تحریر: سید آفتاب حیدر نقوی

تنظیمی مزاج اور تنظیمی طور طریقے پاکستان کے نظام سے بڑی حد تک ہم آہنگ ہیں، اور اس چیز کا بہت اچھے انداز سے احساس اس وقت ہوا جب ہمارا 26 لوگوں کا قافلہ قریب 15 منٹ کی تاخیر سے لاہور ریلوے سٹیشن پہنچا۔ ٹیلیویژن پر خواجہ سعد رفیق کے دھواں دھار بیانات سننے کے بعد میں کافی پریشان تھا کہ آج جہاز کے بعد ریل سے بھی گئے، لیکن اللہ بھلا کرے پاکستان ریلوے کا، جس نے نہ صرف ریلوے اسٹیشن پر مغرب بلکہ عشاء کی نماز بھی پڑھنے کا موقع عنایت کیا۔ گرچہ اس بات سے پردہ بعد میں اٹھا کہ ریلوے نے یہ نمازیں آخری نمازیں سمجھ کے پڑھنے کا کہا تھا، کیونکہ اس کے بعد اگلے چوبیس گھنٹے ہم کہیں سکون سے نماز کے لئے ترس گئے۔ 

جہاز سے ریل پر آنے کا قصہ طولانی ہے اور فی الحال ریل کا قصہ ہی کافی ہے۔ کچھ عرصہ بعد جب انجن کی چھک چھک اور ڈبوں کی کھٹ پٹ سے چٹنی شدہ دماغ نے دوبارہ کام کرنا شروع کیا تو اس نہایت قیمتی سفر کے بعض اسرار سے پردہ اٹھنا شروع ہوا۔ مثلاً پاکستان کے عوام کی سفری مشکلات کا احساس اور ان کے دکھ درد میں شریک ہونا، سبی اور جیکب آباد کی گرمی سے لطف اندوز ہونا، دھول مٹی کا عادی ہونے کے بعد ڈسٹ الرجی کے اندیشہ سے ہمیشہ کے لئے محفوظ ہو جانا، یا یوں کہیں کہ گرد کی ویکسینیشن ہو جانا، ٹرین کے ڈیڑھ منٹ کے سٹاپ کے دوران فوری وضو اور جھٹ پٹ نماز کی ریہرسل، اور یہیں سے یہ عقدہ بھی حل ہوا کہ خداوند متعال نے سفر میں نماز آدھی کیوں رکھی ہے۔ مختلف نوعیت کے ٹی ٹی صاحبان سے علیک سلیک بھی اس سفر کا ایک حاصل تھا، البتہ بعض ٹی ٹی صاحبان تو ایسے تھے کہ ہم یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ کہیں ٹی ٹی پستول کا نام ان کے نام پر تو نہیں رکھا گیا اور گوناں گوں اسرار و رموز کہ گویا ریل کی سیر نہ تھی سیر و سلوک تھا۔ 

رات کا کھانا ہم المصطفٰی ہاؤس سے لے کے چلے تھے اور صبح کا ناشتہ لئے آئی ایس او اور مجلس وحدت کے دوستان جیکب آباد اسٹیشن پر ہمارے منتظر تھے۔ گل پاشی، گروپ فوٹو اور سلامتی کی دعاؤں کے بعد انہوں نے ہمیں ایک گرم دن کے حوالے کر دیا۔ یہاں محکمہ ریل کے ایک مضروب کی حیثیت سے میں اس محکمہ کے ارباب حل و عقد سے مؤدبانہ گذارش کرنا چاہتا ہوں کہ آپ بے شک سبی کے علاوہ کوئی اور ٹریک نہ بنائیں، لیکن اتنا تو کرسکتے ہیں کہ گرمیوں میں عین دوپہر کے وقت ٹرینیں سبی سے نہ گذاریں۔ آخر دوپہر کے چار گھنٹے چھوڑ کے باقی بیس گھنٹے بھی اسی دن رات کا حصہ ہوتے ہیں کہ جس دوران سبی سے نسبتاً آرام سے گذرا جا سکتا ہے۔ اس کے بعد تو اکبر ایکسپریس جیسے ایک استعارہ بن گیا تھا، جو اس سارے سفر میں ہمارے ساتھ رہا۔ سختی اور شدت کا استعارہ، حکومتی بے حسی اور نااہلی کا استعارہ، غریب عوام کے استحصال کا استعارہ۔ لیکن چونکہ شکر کی منزل یہ ہے کہ اپنے سے کمتر کو دیکھا جائے، تو ہمیں واقعاً اس بات پر شکر بجا لانا چاہئے کہ یہ ٹرین صرف چند گھنٹے ہی لیٹ ہوئی۔ راستے میں اس کا انجن فیل نہیں ہوا۔ راستے میں کوئی بم دھماکہ، فائرنگ یا ڈکیتی کی واردات نہیں ہوئی اور اس طرح کی ہزار بلائیں جو پاکستان ریلوے میں سفر کرتے ہوئے اچانک نازل ہوسکتی ہیں، ان سے خدائے رحمٰن و رحیم نے محفوظ رکھا۔ کوئٹہ میں البتہ موسم اچھا تھا اور دوست جب نہانے کے بعد واپس اصلی حالت میں آئے تو ایک دوسرے کو دیکھنے کی ہمت کر پائے۔ 

اگلے دن صبح سے ہی مصروفیت شروع ہوئی، جو یادگار شہداء پر حاضری کے بعد کوئٹہ کی اہم شخصیات جناب مولانا ہاشم موسوی اور جناب مولانا مقصود ڈومکی سے ملاقات پر مشتمل تھی۔ کوئٹہ آنا دوستوں کے لئے بہت مفید ثابت ہوا کہ ایک تو وہ یہاں کی مشکلات، مظلومیت اور کرب کو قریب سے محسوس کرسکے اور دوسرے اس نے ان کو آنے والے سفر کے لئے دلی اور معنوی طور پر تیار کر دیا۔ ہمارے مسئولین اس بات کی ضرورت محسوس کرتے ہیں کہ دورہ ایران سے پہلے ایک ورکشاپ ہونی چاہئے تو میں اس سفر کے نتیجہ کے طور پر ان سے گذارش کروں گا کہ اگر جانے سے پہلے لمبی چوڑی ورکشاپ نہ بھی کروا سکیں تو دوستوں کو ایک دن کے لئے کوئٹہ ضرور لے جائیں۔ 

کوئٹہ ائیر پورٹ پر ان بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے کے بعد ایف آئی اے کا محاذ ہمارے سامنے تھا۔ وطن عزیز کی جگ ہنسائی ہی تھی کہ پاکستان سے باہر سفر کرنے والوں پر پولیو کے قطرے پینا فرض قرار دے دیا گیا تھا۔ پولیو کے قطرے حلق میں انڈلواتے وقت حکومت کی نااہلی اور مولویوں کی بے بصیرتی پر چند صلواتیں سنانے کو جی چاہا لیکن وہاں کوئی محرم راز نہ تھا کہ جس کے سامنے یہ حرف دل بیان کیا جاتا، البتہ ایف آئی اے والے تھے جو کسی طور بھی یہ ماننے کو تیار نہیں تھے کہ میں جن 25 نوجوانوں کو لے کے جا رہا ہوں ان میں سے کسی ایک کو بھی واپس لاؤں گا۔ وہ ہمیں ترکی اور یونان کی جیلوں کے خوفناک قصوں سے ڈرانے کی کوشش کر رہے تھے اور ادھر ہم تھے کہ اپنی ہی ہانک رہے تھے۔ آخر کار ثابت ہوا کہ نوجوان زیادہ ثابت قدم ہوتے ہیں اور ہم جہاز کی طرف روانہ ہوگئے۔ 

مشہد کی مقدس سرزمین پر اترنا عشاق کے لئے ایک خواب ہے، لیکن بعض خواب ایسے ہوتے ہیں کہ جن کی تعبیر دیر سے ظاہر ہوا کرتی ہے، اور ہمارے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ البتہ اس بات کو بعد میں ہم تمام دوستان نے محسوس کیا کہ شائد اس وقت ہم امامؑ کی زیارت کے قابل نہیں تھے کہ ہمیں حضور کی اجازت ملتی۔ سو ہمیں پہلے بہت سارے مراحل سے گذر کے زیارت کے قابل ہونا تھا کہ سعادت شرفیابی حاصل کر پائیں۔ ہمیں مزید طہارت قلب اور پاکیزگی کردار کی ضرورت تھی، اور یہی وجہ تھی کہ ہمیں اپنے طے شدہ پروگرام سے دو دن تاخیر سے مشہد میں شہود کی اجازت ہوئی۔ دو دن مشہد میں دیر سے پہنچنے کا مطلب یہ تھا کہ اس وقت ہمیں ہاتھ سے نکلتے دکھائی دیتے برسی امام خمینی کے پروگرام کے لئے فوری طور پر تہران روانہ ہونا تھا۔ لیکن آخر میں ہم نے امامؑ کا لطف یہ بھی دیکھا کہ واپسی کی پرواز میں دو دن کی تاخیر سے امام رضاؑ نے ہمیں دو دن مزید اپنے قرب میں رہنے کی سعادت بخشی۔ 

مشہد سے تہران کی مرسع ٹرین نے سابقہ ٹرین کے سفر کے زخموں پر مرہم کا کام کیا اور دوست سابقہ مشکلات کو بھول کر خوش گپیوں میں مصروف ہوگئے۔ البتہ عشق کے امتحاں اور بھی تو ہوتے ہیں اور ان میں ایک بڑ امتحاں ایرانی کھانا تھا۔ دنیا کے ہر ملک کے لوگوں کا اپنا ذائقہ ہوتا ہے کہ جو انہوں نے صدیوں کی مسافت سے ترتیب دیا ہوتا ہے۔ ہم نے یہاں افراد کے حساب سے آدھا کھانا منگوایا لیکن پھر بھی بچ گیا۔ البتہ یہی وہ جوان تھے جو پندرہ بیس دنوں میں ان ذائقوں کے اتنے عادی ہوئے کہ پوچھتے تھے کہ کیا کوئی ایرانی کھانا ملے گا۔؟ شائد اسکی ایک وجہ یہ بھی ہو کہ ایرانی کھانا جب بھی ہوتا تھا مرغن ہوتا تھا اور پاکستانی کھانا جب بھی پکتا تھا تو وہ زیادہ تر آلو اور بعض اوقات آلو کے ساتھ کسی اضافت پر مشتمل ہوتا تھا۔ آلو کے ساتھ اضافت اس لئے ہوتی تھی کہ آخر جنتا کو شانت رکھنے کے لئے کچھ تو جتن کرنا ہی پڑتے ہیں۔ البتہ دوستوں کی اس درجہ قناعت کی ایک وجہ شائد آلو کا ایرانی نام بھی ہو کہ آلو کو فارسی میں "سیب زمینی" کہتے ہیں۔ 
(جاری ہے)
خبر کا کوڈ : 406886
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Iran, Islamic Republic of
سلام، آفتاب بھائی
آپ کے سفرنامہ لکھنے کا انداز اچھا ہے اس کو جاری رکھیں، اللہ آپ کی توفیقات میں اضافہ کرے۔
ہماری پیشکش