1
0
Thursday 15 May 2014 22:09
کشمیریوں کی مظلومیت ملت فلسطین سے کم نہیں

مسلمانوں کیلئے بھارت کی کوئی بھی سیاسی جماعت مخلص اور سنجیدہ نہیں، مولانا آغا سید حسن موسوی

اگر بی جے پی چاہے گی تو کشمیر مسئلہ پر کسی حد تک واضح پیشرفت ہو سکتی ہے
مسلمانوں کیلئے بھارت کی کوئی بھی سیاسی جماعت مخلص اور سنجیدہ نہیں، مولانا آغا سید حسن موسوی
مولانا آغا سید حسن موسوی کا تعلق مقبوضہ کشمیر کے وسطی ضلع بڈگام سے ہے، آپ مرحوم آغا سید مصطفٰی موسوی کے فرزند ہیں، جموں و کشمیر انجمن شرعی شیعیان آپ ہی کی سربراہی میں فعال ہے، انجمن شرعی جموں و کشمیر کل جماعتی حریت کانفرنس (م) کی ایک اہم اکائی کے ساتھ ساتھ دینی و سماجی پلیٹ فارم بھی ہے، مولانا آغا سید حسن موسوی مرکزی امام بارگاہ بڈگام میں امام جمعہ کے فرائض انجام دیتے ہیں اور حوزہ علمیہ باب العلم کشمیر و جامعۃ الزہراء کشمیر کے سربراہ بھی ہیں، اسلام ٹائمز نے آغا سید حسن موسوی سے ایک خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا جو قارئین کرام کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: انجمن شرعی شیعیان کی سرگرمیاں جو سال بھر کشمیر میں اہل تشیع کے لئے انجام پا رہی ہیں، سال بھر کے اہم پروگرام کے حوالے سے جاننا چاہیں گے۔؟

مولانا آغا سید حسن موسوی: انجمن شرعی شیعیان وادی کشمیر کی ایک نمایندہ دینی و سیاسی تنظیم ہے جو سال بھر وادی کشمیر کے طول و عرض میں دینی، سیاسی اور سماجی پروگراموں کا انعقاد کرتی ہے، اتحاد ملی کے حوالے سے وادی کی تمام معروف دینی، حریت نواز اور سماجی تنظیموں کے قائدین اور نمایندگان کے مختلف اجلاس سال بھر انجام پاتے ہیں، شیعہ سنی کارڈینیشن کمیٹی اور مجلس تحفظ اتحاد کا قیام بھی انجمن شرعی شیعیان کا کارنامہ ہے، وادی کشمیر کے اطراف و اکناف میں میلاد النبی (ص) کے عظیم الشان جلوس اور محافل میلاد کا انعقاد، یوم القدس کے موقعہ پر وادی کے طول و عرض میں یوم القدس کے بڑے بڑے جلوس منعقد ہوتے ہیں، ملی اخوت اور آپسی اتحاد کے حوالے سے سال بھر عظیم الشان سیمینارز کا اہتمام ہوتا ہے جن میں وادی کی تمام دینی اور حریت پسند تنظیموں اور ہر مسلک کے علمائے دین شرکت کرتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: کشمیر بھر کے اہل تشیع کی اسلامی بیداری اور دینی شعور کو اجاگر کرنے کے حوالے سے انجمن کا لائحہ عمل کیا ہے۔؟

مولانا آغا سید حسن موسوی: شیعیان کشمیر کی دینی بیداری کے حوالے سے انجمن شرعی شیعیان تعلیمی اور تبلیغی محاذوں پر سرگرم عمل ہے، اس حوالے سے ہماری کوشش یہ ہے کہ عوام دین کو صرف حلال و حرام یا حصول جنت کا ذریعہ نہ سمجھے بلکہ اسلام و ملت اسلامیہ کی سربلندی کیلئے اپنی سیاسی و ملی ذمہ داریوں کا احساس کریں اور اپنا عملی کردار ادا کرنے پر آمادہ ہو جائے۔

اسلام ٹائمز: کشمیر کا قدیم دینی تعلیمی ادارہ حوزہ باب العلم آپ کی سربراہی میں چل رہا ہے، حوزہ علمیہ کی تعلیمی و تربیتی سرگرمیوں کو آپ کس طرح بیان فرمائیں گے۔؟

مولانا آغا سید حسن موسوی: انجمن شرعی شیعیان کا ادارہ باب العلم 60 سال سے منظم و مربوط طریقے پر خدمات دینی انجام دے رہا ہے، اس ادارے سے فارغ التحصیل سینکڑوں طالبعلم وادی کے اطراف و اکناف میں اطفال قوم کو بنیادی دینی تعلیم سے آراستہ کرنے کے ساتھ ساتھ عوام کی تبلیغی ضروریات بھی پورا کررہے ہیں، الحمدللہ میں ادارے کی کارکردگی سے مطمئن ہوں۔

اسلام ٹائمز: فلسطین مسئلے کی مسئلہ کشمیر کے ساتھ مماثلت کے بارے میں آپ کیا کہنا چاہیں گے۔؟

مولانا آغا سید حسن موسوی: کشمیری قوم کی نظر میں ملت فلسطین موجودہ دنیا میں ایک مظلوم ترین قوم ہے لیکن کشمیریوں کی مظلومیت بھی ملت فلسطین سے کم نہیں، ہماری مظلومیت پر عالم اسلام میں ہمدردی کے دو الفاظ بولنے والا کوئی نہیں، یوم قدس کے موقعہ پر پوری کشمیری قوم ملت فلسطین سے یکجہتی کا شاندار مظاہرہ کرتی ہے۔

اسلام ٹائمز: پاکستان بھر میں باربار دہشتگردوں کے حملوں میں مسلمان مارے جا رہے ہیں، اور ان شر پسند عناصر کے ہاتھوں کوئی محفوظ نہیں ہے اس حوالے سے آپ کا کیا کہنا ہے۔؟

مولانا آغا سید حسن موسوی: پاکستان دہشت گردی اور مسلکی انتہا پسندی کی بدترین آماجگاہ بن چکا ہے جس کی اصل وجہ انتہا پسند قوتوں کو بیرونی ممالک خصوصاً خلیجی ریاستوں سے ملنے والی مالی و اخلاقی امداد ہے، پاکستانی حکومت بذات خود ان خلیجی ریاستوں کی مرہون منت ہے، لہذا وہ اس حوالے سے بےبس ہیں کہ انتہا پسندوں کو ملنے والی، مالی امداد کے راستوں کو مسدود کرسکیں، میرا اس بات پر پختہ یقین ہے کہ پاکستانی فوج کے کچھ حلقوں کی انتہا پسند قوتوں سے ملی بھگت ہے، اسلئے ان کے خلاف کوئی فوجی آپریشن بار آور ثابت نہیں ہو رہا ہے۔

اسلام ٹائمز: ایسے عناصر مسلمانوں کے گلے بھی کاٹ رہے ہیں اور حکومت پاکستان ان عناصر سے مذاکرات بھی کر رہے ہیں، اس حوالے سے آپ کا کیا کہنا ہے۔؟

مولانا آغا سید حسن موسوی: حکومت پاکستان اور طالبان کے درمیان مذاکراتی عمل اگرچہ خوش آیند ہے لیکن ان مذاکرات کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوگا کیونکہ جو طاقتیں طالبان کی پشت پر ہیں وہ مذاکرات کی کامیابی کو اپنے مفادات کیلئے نیک شگون تصور نہیں کرتی ہیں، اور پاکستان میں انتہا پسند گروہوں کو غیر ملکی حمایت حاصل ہے اس میں کسی بھی ذی حس فرد کو شک و شبہہ کا شکار نہیں ہونا چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: اسلامی ملک شام میں خانہ جنگی اور مصر میں جمہوریت کے قتل کے حوالے سے آپ کا تجزیہ کیا ہے۔؟

مولانا آغا سید حسن موسوی: ملک شام کی خانہ جنگی صہیونی اور صلیبیوں کا مشترکہ ایجنڈا ہے جس کی خلیجی ممالک آبیاری کررہے ہیں، اس کا مقصد ملک شام کو غیر مستحکم کرکے وہاں ایک ایسی حکومت کا قیام ہے جو اسرائیل کیلئے قابل قبول ہو تاکہ ایران ایک قریبی حلیف سے محروم ہو سکے اور حزب اللہ کی طاقت کو توڑا جا سکے۔ شام میں غیر ملکی کرایہ کے دہشت گرد جو کاروائیاں انجام دے رہے ہیں وہ سراسر دین و انسانیت کے خلاف ہیں، ان کا عمل غیر اسلامی ہے، یہ لوگ سراسر اسلام کو رسوا کرنے پر تلے ہوئے ہیں، مصر میں بھی اسلام پسند جمہوریت کو اپنے مفادات کیلئے سنگین خطرہ تصور کرکے امریکہ نے وہاں جمہوریت کا سفاکانہ قتل کیا ہے، ہم صدر مرسی کو ہی مصر کا قانونی، اخلاقی اور جمہوری حکمران تصور کرتے ہیں۔ اب عالمی سطح پر مسلمانوں کو آپس میں لڑانے کی طاغوتی سازشوں کا توڑ یہ ہے کہ ملت اسلامیہ کے علمائے دین اور دانشور حضرات ہر معاملے میں اخوت کا مظاہرہ کریں۔

اسلام ٹائمز: مقبوضہ کشمیر میں الیکشن ختم ہوئے لیکن مظالم جوں کے توں جاری ہیں، کشمیر پر بھارت کے فوجی تسلط کے بارے میں جاننا چاہیں گے۔؟

مولانا آغا سید حسن موسوی: مقبوضہ کشمیر میں بھارتی الیکشن عالمی برادری کی آنکھوں میں دھول جھانکنے کیلئے منعقد ہوا کرتے ہیں، اصل میں یہاں نام نہاد جمہوری حکومتوں کے پاس کوئی اختیار نہیں ہوتا، ایک معمولی فوجی کے سامنے یہاں کا وزیراعلیٰ تک بےبس نظر آتا ہے، کشمیر میں عملاً فوجی راج قائم ہے۔ بھارتی الیکشن مسئلہ کشمیر کا متبادل نہیں بلکہ ہم مسئلہ کشمیر کو دو قومی نظریئے کی بنیاد پر تقسیم برصغیر کا نامکمل ایجنڈا تصور کرتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: بھارت میں بی جے پی برسر اقتدار آ جائے، آپ کو کیا تشویش لاحق ہے۔؟

مولانا آغا سید حسن موسوی: بھارت میں بی جے پی کے بر سر اقتدار آنے سے ہمیں کوئی تشویش کی بات نظر نہیں آتی، جہاں تک بھارتی مسلمانوں کی حفاظت اور حقوق کا سوال ہے اس معاملے میں بھارت کی کوئی بھی سیاسی جماعت مخلص اور سنجیدہ نہیں، بھارتی کانگریس پارٹی چاہتے ہوئے بھی مسئلہ کشمیر حل کرنے کی متحمل نہیں ہو سکتی، البتہ اگر بی جے پی چاہے گی تو کشمیر مسئلہ پر کسی حد تک واضح پیش رفت ہو سکتی ہے۔

اسلام ٹائمز: آپ نے ہمیشہ تحریک حریت کا ساتھ دیا ہے اور کشمیر کی آزادی کے لئے پرزور وکالت کی ہے اور عالمی سطح پر بھی کشمیر مسئلے کی نمائندگی کی ہے، آپ کے برادر اصغر آغا سید عبدالحسین موسوی جو پہلے تحریک حریت سے وابستہ تھے اب بھارتی سیاست میں حصّہ لینے لگے اس حوالے سے آپ کیا کہنا چاہیں گے۔؟

مولانا آغا سید حسن موسوی: جہاں تک میرے برادر اصغر کا تعلق ہے اس حوالے سے آپکی غلط فہمی دور کرنے کیلئے صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ وہ شعوری طور پر کبھی بھی تحریک کشمیر سے وابستہ نہیں رہے اور نہ انجمن شرعی شیعیان سے ان کا کوئی تعلق رہا ہے، کشمیر مسئلے کی متنازعیت پر بیان جاری کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ کوئی تحریک کا ساتھ دے رہا ہے، اس طرح کے بیانات یہاں کی بھارت نواز سیاسی جماعتیں بھی متواتر جاری کرتی رہتی ہیں، میرے برادر اصغر سید عبدالحسین کا الیکشن میں حصہ لینے کے حوالے سے صرف اتنا کہ سکتا ہوں کہ وہ بھارتی ایجنسیوں کے بہکاوے میں آئے، اپنے تحاریر و تقاریر کے ذریعے وہ یہ تاثر دینے کی بھرپور کوشش کرتے رہے گویا کہ انہیں بھارتی انتخابات میں حصہ لینے میں رہبر معظم کی تائید حاصل ہے جو سراسر غلط بیانی ہے۔

اسلام ٹائمز: مقبوضہ کشمیر میں اتحاد بین المسلمین کے حوالے سے پیشرفت کے حوالے سے آپ کا کیا کہنا ہے۔؟

مولانا آغا سید حسن موسوی: مقبوضہ کشمیر میں اتحاد بین المسلمین کے حوالے سے فی الحال صورت حال مجموعی طور پر اطمینان بخش ہے البتہ اس حوالے سے جہد مسلسل کی ضرورت ہے کیونکہ یہاں وہ ذہنیت تیزی سے پروان چڑھائی جا رہی ہے جو اتحاد ملی کے لئے سم قاتل ثابت ہو سکتی ہے۔
خبر کا کوڈ : 382388
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

India
سیاسی و انتخابی منشور
مسئلہ کشمیر کو منطقی بنیادوں پر گامزن کرنے کی ضرورت

مسئلہ کشمیر کا حل تلاشنے کیلئے الحاق ہندوستان اور الحاق پاکستان کا سیاسی منشور رکھنے والی ایک سو سے زائد سیاسی و فوجی وغیرہ جماعتیں کشمیر میں سرگرم عمل رہی ہیں، لیکن میرے انتخابی منشور میں نہ الحاق ہندوستان اور نہ ہی الحاق پاکستان کے حوالے سے کوئی غرض ہے، بلکہ فوق الذکر حقائق کی روشنی میں سوالات کا انبار موجود ہے۔ البتہ مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کیلئے میرا مشورہ یہ ہوگا کہ کشمیر کی کشمیریت کو زندہ کرنا ہوگا، یعنی کشمیر کی دینی و مذہبی شناخت کی بحالی۔ کشمیر میں آباد ہر دین کے پیرو کی دینی بالادستی جسے "پیروں و ولیوں" یا "ریشی منیوں" کا ملک کے طور پر بحال کرنے کیلئے کشمیر کے آئين کو کشمیری اور مذھبی رنگ میں رنگنا ہوگا اور کشمیر میں لادینی کی حاکمیت نہیں بلکہ جمہوری مذھبی حاکمیت کیلئے قانونی مسودہ تیار کرنا ہوگا۔ چونکہ کشمیر کے اپنے مجوزہ آئین کی بنیاد ٹیڑھی کشمیریت کے ساتھ ترسیم کی گئي ہے، اسکی عمارت بھی ٹیڑھی بنتی گئی ہے اور یہ معماری کا اصول ہے جب کسی عمارت کی بنیاد، اصول تعمیر سے ذرا مخالف تعمیر کی جائے، وہ آخر تک منفی نتائج دے گی۔
صائب تبریزی نے کیا خوب فرمایا ہے:
خشت اول چون نھد معمار کج
تا ثریا می رود دیوار کج
http://www.abdulhussain.com/Content/Content.aspx?PageCode=28773
ہماری پیشکش