0
Friday 14 Mar 2014 20:12

راشیل کوری کی یاد میں

راشیل کوری کی 12ویں برسی کے موقع پر لکھا گیا مضمون
راشیل کوری کی یاد میں
تحریر: صابر کربلائی
(ترجمان فلسطین فائونڈیشن پاکستان)

راشیل کوری ایک امریکی لڑکی ہے جس نے سرزمین فلسطین پر فلسطینیوں کا دفاع کرتے ہوئے صیہونیوں کے بلڈوزروں کا تن و تنہا سامنا کیا اور بلڈوزر کے نیچے آ کر جام شہادت نوش کیا، شہیدہ راشیل کوری کی عظمت کو سلام پیش کرتے ہوئے خراج تحسین اور خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے یہی کہنا چاہتا ہوں کہ شہادت کا راستہ انہی کو ملتا ہے جو درد دل رکھتے ہیں اور مظلوم انسانیت کی خاطر اپنی قیمتی ترین چیز اپنی زندگی اور جان کی پرواہ کئے بغیر وقت کے یزیدوں اور فرعونوں کے سامنے سینہ سپر ہو جاتے ہیں، ایسے ہی دنیا کے قیمتی اور نایاب افراد میں سے ایک راشیل کوری ہے۔ راشیل کوری واشنگٹن میں 10 اپریل1979ء کو پیدا ہوئی، وہ Craig Corrie کے تین بچوں میں سب سے چھوٹی تھی، راشیل کوری کا گھرانہ امریکہ کے متوسط گھرانے میں شمار ہوتا تھا، کیپیٹل ہائی اسکول سے ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد راشیل کوری نے اولمپیا کے The Evergreen State College میں داخلہ لیا اور اپنی تعلیم کو جاری رکھا، ایک سال کا عرصہ ہی گزرا تھا کہ راشیل کوری نے کالج میں Washington State Conservation Corps میں شمولیت حاصل کر لی، راشیل کوری کالج کی تین سالہ زندگی میں دماغی اسپتال میں مریضوں کی عیادت کے لئے پابندی سے جایا کرتی تھی۔

The Evergreen College میں راشیل کوری کو 'Olympians for Peace and Solidarity نام سے ایک پروگرام کروانے کے بعد ''امن کی سرگرم کارکن'' کے اعزاز سے نوازا گیا۔ بعد میں راشیل کوری نے ایک تنظیم میں شمولیت اختیار کی جس کا نام International Solidarity Movement (ISM) ہے۔ اس تنظیم کا بنیادی کام فلسطین میں غاصب اسرائیل کی جارحانہ پالیسیوں کے خلاف شعور و آگہی فراہم کرنا تھا اور فلسطینیوں کے حق میں آواز بلند کرنا تھا۔ یہاں راشیل کوری نے اپنے ابتدائی سالوں میں ہی تنظیم کو ایک آزاد تعلیمی پروگرام فراہم کیا جو کہ غزہ کے لئے تھا اور اس حوالے سے ISM کے ساتھ مل کر متعدد پروگرام ترتیب دیئے۔ راشیل کوری نے غزہ کے معصوم بچوں کے لئے Pen-Pal کے نام سے ایک پروگرام بھی منعقد کیا جس میں سیکڑوں فلسطینی بچے شریک ہوئے۔ راشیل کوری 22جنوری 2003ء کو فلسطین کے علاقے مغربی کنارے پہنچی جہاں اس نے ISM کی جانب سے اسرائیل کے خلاف ہونے والے پرامن مظاہرے میں شریک ہونا تھا، راشیل کو اس حوالے سے دو روزہ تربیتی کلاس میں شریک ہونا تھا، ان مظاہروں کا مقصد غاصب صیہونی اسرائیل کو فلسطینیوں کے مکانات کو مسمار کرنے سے روکنا تھا اور پوری دنیا کے سامنے صیہونزم کا اصلی چہرہ آشکار کرنا تھا۔

جنوری 2003ء میں Gordon Murray, کی جانب سے شائع ہونے والی ایک اخباری رپورٹ کے مطابق راشیل کوری ان رضا کاروں کے ہمراہ بھرپور خدمات انجام دے رہی تھی جو غاصب صیہونیوں کی جانب سے پانی کی لائن کو تباہ کئے جانے کے بعد اسے دوبارہ بنانے کی کوششوں میں مصروف عمل تھے۔ Gordon Murray, کے مطابق جس وقت ISM کے کارکنان اور دیگر کاریگر پانی کی ٹوٹی ہوئی سپلائی لائنوں کو مرمت کرنے میں مصروف عمل تھے عین اسی وقت اسرائیلی افواج کے بھاری بلڈوزروں اور ٹینکوں سے کارکنان پر اور مرمت کاروں پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں چند مرمت کار شہید ہوئے۔ راشیل کوری حالانکہ غزہ میں موجود تھی لیکن 15فروری 2003ء کو راشیل کوری نے امریکہ کی عراق میں مداخلت کے خلاف مظاہرے مین شرکت کی اور امریکی مداخلت کو عراق میں عراقی عوام پر ظلم قرار دیا، اس موقع پر راشیل کوری نے تاریخی کارنامہ انجام دیا اور بچوں کے ہمراہ مظاہرے میں امریکی جارحیت کے خلاف امریکی پرچم کو بھی نذر آتش کر دیا۔ راشیل کوری نے اپنے غزہ میں قیام کے دوران اپنی والدہ کو متعدد ای میل بھیجیں جو کہ بعد میں The Guardian میں شائع کی گئیں، جنوری 2008ء میں Notron نے راشیل کوری کے حوالے سے ایک کتاب شائع کی جس کا نام Let Me Stand Alone رکھا۔ اس کتاب میں راشیل کوری کی تمام خط و کتابت جو اس نے والدہ کے ساتھ کی تھی اور اس کے علاوہ کوری کی دیگر تحریروں کو شائع کیا گیا۔

راشیل کوری ایک امریکی شہریت یافتہ لڑکی تھی کہ جس نے فلسطینیوں کے حقوق کی خاطر سرزمین فلسطین پر پہنچ کر غاصب اسرائیلی دشمن کے سامنے ڈٹ کر مقابلہ کیا، راشیل کوری کو 16مارچ 2003ء میں اسرائیلی درندہ صفت افواج نے شہید کیا، راشیل کوری فلسطینیوں کے گھروں کا دفاع کرتے ہوئے اس بلڈوزر کے تلے دب کر شہید ہوئی جس بلڈوزر کو فلسطینی گھروں کی مسماری پر معمور کیا گیا تھا۔ کوری دو ماہ تک غزہ میں مقیم رہی اور آخر کار صیہونیوں کے مقابلے میں تین گھنٹوں کی جدوجہد کرتے ہوئے جام شہادت نوش کر گئی۔ راشیل ایک فلسطینی نصراللہ کے گھر کے سامنے اپنے ہاتھوں میں میگا فون لئے کھڑ ی ہوئی تھی اور صیہونیوں کو پکار پکار کر فلسطینیوں کے گھروں مسمار کرنے سے روکنے کی کوشش کر رہی تھی، جس گھر کو راشیل بچانے کی کوشش کر رہی تھی وہ کئی روز تک اسی گھر میں مہمان بھی رہ چکی تھی۔ وہ استقامت اور پائیداری کے ساتھ اس بلڈوزر کے سامنے سینہ سپر رہی کہ جو فلسطینی گھر کو مسمار کرنے کے لئے آگے بڑھ رہا تھا اور بالآخر وہ بلڈوزر راشیل کوری کے جسم کو روندتا ہوا اس گھر تک جا پہنچا جس کو بچانے کی خاطر راشیل کوری نے اپنی جان دائو پر لگا دی تھی۔ راشیل کوری کی مظلومانہ شہادت کے بعد عینی شاہدین نے بتایا کہ صہیونی افواج کے کارندے بلڈوزر چلا رہے تھے اور انہوں نے راشیل کوری کی پرواہ کئے بغیر بلڈوزر کوری پر چڑھا دیا، جبکہ دوسری طرف صیہونی غاصب انتظامیہ نے کہا کہ بلڈوزر چلانے والے ڈرائیور کو راشیل کوری نظر نہیں آئی جس کے باعث راشیل کوری پر بلڈوزر چڑھ گیا۔

راشیل کوری نے شہادت سے قبل اپنی والدہ کو بھیجی ایک ای میل میں لکھا کہ ''میں گذشتہ دو ہفتوں سے فلسطین میں موجود ہوں، میں بیان نہیں کر سکتی کہ یہاں پر کیا کچھ ہو رہا ہے، یہاں بہت سے سہمے ہوئے بچے اردگرد موجود ہیں، یہاں ہر گھر کی دیوار میں متعدد سوراخ ہیں جو اسرائیلی ٹینکوں کی گولہ باری کی وجہ سے بنے ہوئے ہیں، میں نہیں سمجھتی کہ بچے کیا سوچتے ہوں گے کہ کیا زندگی اسی کا نام ہے؟ ابھی دو روز قبل ہی ایک آٹھ سالہ فلسطینی بچہ اسرائیلی گولیوں کا نشانہ بن کر شہید ہوا ہے، یہاں اس کی تصاویر آویزاں ہیں جس پر اس کا نام علی لکھا ہوا ہے، یہاں بچے مجھ سے تفریح بھی کر رہے ہیں اور مجھے عربی سکھا رہے ہیں، ''کیف بش''(بش کیسا ہے؟)'' کیف شیرون''؟(شیرون کیسا ہے؟)،''بش مجنون، شیرون مجنون'' (بش پاگل ، شیرون پاگل''، آج میں نے کوشش کی کہ میں اس جملے کی عربی سیکھ پائوں کہ بش ایک آلہ کار ہے، لیکن میں عربی بچوں کو انگریزی میں نہیں سمجھا پا رہی ہوں، خیر جو بھی ہو، لیکن آج یہاں ایک آٹھ سالہ فلسطینی بچہ شہید ہو چکا ہے، یہاں کے بچے اچھی طرح جانتے ہیں کہ امریکہ میں ان کے والدین کو اس طرح بے رحمی سے قتل نہیں کیا جاتا جس طرح فلسطین میں کیا جا رہا ہے اور وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ امریکہ میں بچے ہفتے میں ایک مرتبہ ضرور اپنے والدین کے ساتھ ساحل سمندر کی سیر کے لئے ضرور جاتے ہیں''۔

بہرحال راشیل کوری اس دنیا سے چلی گئی لیکن راشیل کوری کا نام ہمیشہ تحریک آزادی فلسطین میں زندہ و پائندہ رہے گا اور حریت پسند راشیل کوری کو فراموش نہیں کریں گے، ایک پاکستانی شہری ہونے کی حیثیت سے میں چاہتا ہوں کہ پاکستان کے عوام کی طرف سے راشیل کوری کو سلام عقیدت پیش کیا جائے اور اس کے عظیم و کریم والدین کو بھی سلام پیش کیا جائے کہ جنہوں نے اپنی بیٹی کی تربیت اس طرح کی کہ کسی بھی ظالم و جابر حکمران کے سامنے سر تسلیم خم نہ کیا جائے بلکہ مظلوموں کی حمایت کی خاطر اپنی قیمتی ترین چیز جان بھی اس راہ میں فدا کر دی جائے جو کہ راشیل کوری نے عملی طور پر انجام دے کر دکھا دیا۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ آج بھی راشیل کوری کا مقدمہ اسرائیلی عدالتوں میں چل رہا ہے لیکن انصاف کی امید ظالموں سے رکھنا شاید خود ایک ناانصافی ہے۔
خبر کا کوڈ : 361084
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش