0
Tuesday 13 May 2014 01:12

افغانستان میں صدارتی انتخابات اور پاکستان(2)

افغانستان میں صدارتی انتخابات اور پاکستان(2)
تحریر: عمران خان
گذشتہ سے پیوستہ

جس طرح کرزئی حکومت نے جنگجوؤں کے حوالے سے بہتر حکمت عملی اختیار کرکے افغانستان کے انتخابات کو دہشت گردی اور خونریزی سے محفوظ بنا لیا۔ خدشات و تفکرات کی فضاء میں پانچ اپریل کو افغانستان میں صدارتی انتخابات کا میدان سجا۔ جس میں تقریبا 66 لاکھ سے زائد افغان باشندوں نے اپنے ووٹ کا حق استعمال کیا۔ افغانستان میں رجسٹرڈ ووٹوں کی کل تعداد تقریبا ایک کروڑ دس لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ ملک بھر میں پولنگ کا عمل مقامی وقت کے مطابق صبح ساڑھے سات بجے شروع ہوا جسے شام ساڑھے 4 بجے اختتام پذیر ہونا تھا مگر پولنگ کے عمل میں ایک گھنٹے کا اضافہ بھی کیا گیا۔ افغانستان کے صدارتی انتخابات میں 8 امیدواروں نے حصہ لیا جن میں سابق جنگجو اور نائب صدر کے طور پر خواتین بھی شامل تھیں۔ تاہم افغان عوام نے عبداللہ عبداللہ اور اشرف غنی پر زیادہ اعتماد کا اظہار کیا، جبکہ زلمے رسول بھی عوامی حمایت حاصل کرنے میں کسی حد تک کامیاب رہے۔ انتخابات کے دوران ملک کے ایک کروڑ 10 لاکھ رجسٹرڈ ووٹرز کے لئے ملک بھر میں 28 ہزار سے زائد پولنگ اسٹیشن قائم کئے گئے۔ طالبان کی جانب سے انتخابات کو ناکام بنانے کی دھمکیوں کے باعث 4 لاکھ سکیورٹی اہلکاروں کو پولنگ اسٹیشنوں پر تعینات کیا گیا۔ سخت ترین سکیورٹی انتظامات کے باوجود قندھار، قندسوز، ننگرہار، بدخشاں اور ننگر ہار میں مختلف پولنگ اسٹیشنز پر مارٹر گولوں سے حملے کئے گئے، اس کے علاوہ بعض مقامات پر سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں پر بھی حملے کئے گئے جس کے نتیجے میں افغان حکام نے 30 سے زائد افراد کے زخمی ہونے کی تصدیق کی۔ پاکستان نے افغان انتخابات کے موقع پر سکیورٹی خدشات کے باعث پاک افغان بارڈر کو بند کردیا تھا۔ افغانستان کے آئین کے مطابق امیدوار کے لیے 50 فیصد سے زائد ووٹ حاصل کرنا لازمی ہے جبکہ صدارتی انتخاب کے پہلے مرحلے میں کوئی بھی امیدوار کامیابی کے لیے درکار 50 فیصد ووٹ حاصل نہیں کر سکا ہے اور اب نئے صدر کا انتخاب انتخابات کے دوسرے مرحلے میں ہوگا۔ افغانستان کے الیکشن کمیشن کی جانب سے صدارتی انتخاب کے غیرحتمی نتائج کے مطابق الیکشن میں کل 6617666 ووٹ ڈالے گئے اور مردوں میں ووٹنگ کا تناسب 64 فیصد جبکہ خواتین میں 36 فیصد رہا۔ پہلے مرحلے میں سابق وزیرِ خارجہ عبداللہ عبداللہ چوالیس اعشاریہ نو فیصد ووٹ حاصل کر کے پہلے نمبر پر رہے۔ انھوں نے 29 لاکھ 73 ہزار سے زیادہ ووٹ لیے۔ انھیں اپنے قریب ترین حریف اور سابق وزیرِ خزانہ اشرف غنی پر 13 فیصد کی مجموعی برتری حاصل رہی جو اکتیس اعشاریہ پانچ فیصد یعنی 20 لاکھ 89 ہزار ووٹ ہی لے سکے جبکہ زلمے رسول کو گیارہ فیصد ووٹ مل سکے۔ سیاب نے سات فیصد جبکہ کوئی بھی امیدوار پچاس فیصد سے زائد ووٹ حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ جس کی بناء پرحتمی فیصلہ انتخابات کے دوسرے دور کے بعد ہی متوقع ہے، جس کی حتمی تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا مگر توقع ہے کہ صدارتی انتخابات کا دوسرا دور 7 جون کو ہوگا۔ افغانستان کے ان صدارتی انتخابات میں امریکی ایوان نمائندگان کے اسپیکر جان اے بوہنر نے دیگر امریکی سیاستدانوں کے ہمراہ افغانستان پہنچ کر ان انتخابات کا جائزہ لیا۔ حالیہ انتخابات میں مبصرین کی ایک کثیر تعداد شریک تھی، جن میں غیرملکی بھی شامل تھے۔ انتخابات پر پوری دنیا کی نظریں جمی ہوئی تھیں۔ انتخابات میں خونریزی اور دہشت گردی کے واقعات کا نہ ہونے کے برابر ہونا طالبان کی جانب سیاسی استحکام کی خواہش کا پیغام بھی ہو سکتا ہے۔ افغان شہریوں کی ایک کثیر تعداد نے اپنے جمہوری حق کو استعمال کیا مگر افغان مہاجرین نئے صدر کے انتخاب میں ووٹ ڈالنے سے محروم رہے ہیں۔ 

یو این ایچ سی آ ر کی ایک رپورٹ کے مطابق صرف پاکستان میں افغان مہاجرین کی تعداد تیس لاکھ سے متجاوز ہے۔ جنہوں نے صدارتی انتخابات میں حصہ نہیں لیا جبکہ ایران و دیگر ملکوں میں تعداد اس کے علاوہ ہے۔ ایک لحاظ سے کاسٹ کئے گئے کل ووٹس کے پچاس فیصد افغان شہریوں کو موقع ہی نہیں مل سکا کہ وہ اپنی تقدیر کے فیصلے کرنے کے لیے کسی کو یہ ذمہ داری سونپیں۔ پاکستانی میڈیا کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملکی اداروں کی جانب سے ہمیشہ ہی افغان مہاجرین کی وطن واپسی کی ڈیڈ لائن دی جاتی ہے، لیکن عملی طور پر ان کو اپنے وطن واپس بھیجنے کے اقدامات نہیں اٹھائے جاتے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان کی سیاسی قوتیں افغان مہاجرین کی اپنے وطن واپسی کی راہ میں حائل ہیں کیونکہ یہ مہاجرین پاکستان میں ہونے والے انتخابات میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ کراچی اور خیبر پختونخواہ میں موجود افغان مہاجرین مخصوص جماعتوں کا ووٹ بینک ہیں۔ ان مہاجرین کی واپسی سے ان سیاسی قوتوں کے انتخابی نتائج پر منفی اثرات مرتب ہونگے۔ امید کی جاتی ہے کہ ان افغان مہاجرین کی وطن واپسی یا ووٹ کا حق استعمال ہونے کے بعد نتائج توقع کے برعکس بھی برآمد ہو سکتے ہیں۔ انتخابات کے دوسرے دور میں عبداللہ عبداللہ اور اشرف غنی کے درمیان مقابلہ ہے۔ 

صدارتی امیدوار عبداللہ عبداللہ سال 2009ء کے انتخابات میں صدر کرزئی کے خلاف ایک اہم امیدوار تھے۔ وہ تبدیلی اور امید نامی جماعت کے ساتھ انتخابات میں اترے۔ انتخابات میں واضح برتری حاصل نہ ہونے کے باعث الیکشن کمیشن نے حامد کرزئی اور عبداللہ عبدللہ کو دوسرے مرحلے کے صدارتی انتحابات کے لیے اہل قرار دیا تھا۔ تاہم عبداللہ عبداللہ نے دوسرے مرحلے میں حصہ لینے سے انکار کر دیا۔ ان انتخابات میں عبداللہ عبداللہ کے نائب صدر اوئل محمد خان ہیں جبکہ محمد محقق نائب صدر دوئم ہیں۔ عبداللہ عبداللہ 1959ء میں کابل کے ایک پشتون خاندان میں پیدا ہوئے تھے، مگر ان کی والدہ تاجک تھیں۔ محمد ظاہر شاہ کے دور میں ان کے والد غلام محی الدین خان زمریانی صوبہ قندھار کے سینیٹر تھے۔ صدارتی امیدوار عبداللہ عبداللہ نے کابل میڈیکل یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی، جس کے بعد انھوں نے کابل میں آنکھوں کے ایک ہسپتال میں دو سال ملازمت کی۔ 1984ء میں وہ پاکستان منتقل ہو گئے تھے، جہاں انھوں نے صحت کے شعبے میں کام کیا۔ اس کے بعد بہت جلد ہی انھوں نے واپس آ کر پنج شیر صوبے کے مقبول رہنما احمد شاہ مسعود سے ہاتھ ملا لیا۔ انھوں نے بہت جلد ہی احمد شاہ مسعود کا اعتماد حاصل کر لیا۔ احمد شاہ مسعود جب وزیر دفاع تھے اس دور میں عبداللہ عبداللہ وزرات دفاع کے ترجمان کے ساتھ ساتھ ورزات دفاع کے اعلی منتظم تھے۔ برہان الدین ربانی کے دور میں عبداللہ عبداللہ وزرات خارجہ کے نائب وزیر تھے۔ انھوں نے اس دوران افغانستان کی خارجہ پالیسی میں اہم کردار ادا کیا۔ عبداللہ عبداللہ کو حزب اسلامی، حزب وحدت اسلامی مردم، حزب جمعیت اسلامی اور چند دیگر اہم سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل ہے۔ عبداللہ عبداللہ کے متعلق یہ خیال بھی پایا جاتا ہے کہ وہ پاکستان کے لیے انتہائی سخت رویہ رکھتے ہیں، جبکہ دیگر ممالک سے ان کے تعلقات بہتر ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ ان کا دور حکومت پاکستان کے لیے حامد کرزئی سے زیادہ سخت ثابت ہو سکتا ہے۔ 

انتخابات کے دوسرے مرحلے میں عبداللہ عبداللہ کے حریف  60 سالہ پشتون اشرف غنی کابل کے جنوب میں واقع صوبہ لوگر میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے امریکن یونیورسٹی آف بیروٹ اور کولمبیا یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی۔ انھوں نے بشریات میں پی ایچ ڈی کر رکھی ہے۔ ان کے پہلے نائب صدر عبدالرشید دوستم اور دوسرے نائب صدر سرور دانش ہیں۔ انھوں نے کئی برس ورلڈ بینک میں کام کیا جبکہ وہ دیگر بین الاقوامی اداروں میں افعان تجزیہ کار کے طور پر بھی کام کر چکے ہیں۔ وہ جان ہاپکنز یونیورسٹی امریکہ میں پروفیسر رہ چکے ہیں۔ 2001ء میں وہ اقوام متحدہ کے افغان امور کے خصوصی اہلکار اخضر ابراہیمی کے مشیر تھے، جس کے چند ماہ بعد وہ حامد کرزئی کی حکومت میں سینئر مشیر کے طور پر شامل ہو گئے۔ جون 2002ء میں وہ وزیر خزانہ کے عہدے پر فائز ہوئے جہاں وہ دسمبر 2004ء تک فرائض سرانجام دیتے رہے۔ 2004ء کے صدارتی انتخابات کے بعد سے اشرف غنی پارلیمان میں اپنی جگہ بنانے میں ناکام رہے مگر انہیں کابل یونیورسٹی کا سربراہ بنا دیا گیا۔ دو برس بعد انہوں نے اپنا استعفی دے دیا اور وہ کرزئی حکومت کے مخالف بن کر سامنے آئے۔ انہیں 2006ء میں اقوام متحدہ کے سربراہ کے لیے نامزد کیا گیا تھا، تاہم بان کی مون نے انھیں شکست دے دی۔ 2009ء کے صدارتی انتخابات میں وہ صدارتی امیدوار تھے مگر جیت نہ پائے۔ حامد کرزئی نے صدارت کے اپنے دوسرے دور میں انھیں بین الاقوامی افواج سے کنٹرول افغان افواج کو دینے کا کام سونپا۔ افغان انتخابات کے اگلے دور میں عبداللہ عبداللہ اور اشرف غنی میں کامیابی کا سہرا جو بھی پہنے اس کو کئی طرح کے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔ 

ملک میں پائیدار امن کے لیے ایک طرف سیاسی استحکام کو برقرار رکھنا ناگزیر ہوگا تو دوسری جانب بیرونی دہشت گرد جن میں عرب، ازبک، تاجک و دیگر شامل ہیں ان کو بھی موثر حکمت عملی کے ذریعے واپس بھیجنا ہوگا۔ گرچہ عبداللہ عبداللہ اور اشرف غنی دونوں نے امریکہ کو یقین دلایا ہے کہ وہ سکیورٹی معاہدے پر دستخط کریں گے مگر افغان عوام میں اپنا اعتماد برقرار رکھنے کے لیے شائد نیا صدر یہ اقدام نہ اٹھائے۔ تعلیم، صحت، روزگار کے علاوہ سرمایہ کاری کا فروغ نئے صدر کی ترجیحات میں شامل ہوگا۔ جس کے لیے اسے چین، جاپان سمیت دیگر ملکوں کا وسیع تعاون دستیاب ہوگا۔ انتخابات کے پہلے دور کے بعد اور دوسرے دور سے قبل کرزئی حکومت نے روس اور بھارت کے ساتھ مشترکہ دفاعی معاہدہ بھی کرلیا ہے جس کی رو سے روس افغان نیشنل آرمی کو ہتھیار فراہم کرے گا جبکہ بھارت جو پہلے ہی افغان فوج کو تربیت فراہم کر رہا ہے اس اسلحہ کی قیمت ادا کرے گا۔ بھارت اور روس کے تعاون سے زور پکڑنے والی افغان آرمی مستقبل میں اس خطے میں کیا کردار ادا کرے گی جہاں طالبان کی صورت میں ایک فوج پہلے سے موجود ہونے کے علاوہ دیگر کئی جنگجو مسلح گروہ بھی موجود ہیں، اور چین و پاکستان جیسے ہمسائیہ بھی ہیں جو بھارت کی جارحانہ پالیسیوں سے نالاں ہیں۔

افغانستان کے عوام نے انتخابات میں اعلٰی پیمانے پر شرکت کرکے ملک کے اندر اور باہر تمام مقتدر قوتوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ گولہ، بارود، جنگ و جدل کی پالیسی و حکمت عملی سے تنگ آ چکے ہیں اور وہ بھی امن و ترقی کے راستے دیگر قوموں کے شانہ بشانہ خطے و دنیا میں اپنا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔ نئے آنیوالے صدر سے اختلاف تو کیا جا سکتا ہے مگر افغان عوام کی اس خواہش سے صرف نظر کرنا ممکن نہیں۔ گرچہ طالبان کی انتخابات میں عدم شرکت، افغان مہاجرین کا حق رائے استعمال نہ کرنا انتخابات پر گہرے سوالات ثبت کرتا ہے لیکن اس کے باوجود انہیں بہتری کی جانب مثبت اقدام سمجھا جانا چاہیئے۔ پاکستان میں جاری حکومت، فوج، طالبان کشمکش بھی حل طلب ہے۔ فوج کی جانب سے افغان طالبان کو یہ پیغام تو دیا گیا ہے کہ وہ پاکستانی طالبان کی حمایت ترک کریں لیکن پاکستان میں موجود افغان طالبان قیادت کے مسئلہ کا ادراک نہیں کیا جارہا۔ بعض تجزیہ نگار اس خدشے کا اظہار کررہے ہیں کہ افغان انتخابات کے بعد ملک میں ایبٹ آباد کی طرز کا کوئی واقعہ وقوع پذیر ہو سکتا ہے۔ جو پاکستانی اداروں کے لیے انتہائی خطرناک ہوگا۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے کسی بھی سانحہ سے قبل ان وجوہات کا خاتمہ کیا جائے جو ملکی وقار کے لیے خطرہ ہوں۔ افغانستان کے پڑوسی ممالک کو اس حقیقت کا ادراک کرنا ہوگا کہ پرامن اور خوشحال افغانستان ان کی ترقی و خوشحالی میں معاون و مددگار ثابت ہوسکتا ہے اور جنگ زدہ، منتشر، عدم استحکام سے دوچار افغانستان پورے خطے کے لیے خطرے کے طور پر دیکھا جائے گا۔


خبر کا کوڈ : 381280
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش