2
0
Saturday 8 Mar 2014 23:29

دیر آید درست آید

دیر آید درست آید
تحریر: ڈاکٹر تجمل نقوی
(سیکرٹری اطلاعات آئی ایس او پاکستان)


19 برسوں کے بعد بھی آج شہید ڈاکٹر کی برسی پر مختلف شیعہ رہنمائوں کی طرف سے بیانات جاری ہوئے، پڑھ کر حد درجہ خوشی ہوئی کہ خدا کا شکر کہ ان برادران اور بزرگان نے بھی اہم سمجھا کہ شہید کی شخصیت پر بات ہونی چاہیئے۔ فکر ڈاکٹر شہید کو عام کرنے کے لیے ان کے آثار و افکار پر پہلی کتاب "سفیر انقلاب " لکھی گئی جو تسلیم رضا خان نے تحریر کی، یہ العارف پبلیکیشنز نے پبلش کی، جو کہ آئی ایس او کا ایک مستقل اشاعتی ادارہ ہے، اسی طرح سے قائد شہید علامہ عارف حسین الحسینی کے آثار بھی اسی ادارے نے پبلش کیے۔ ماضی میں ڈاکٹر صاحب کی شہادت کے بعد 1995ء سے 2009ء تک صرف امامیہ اسکائوٹس ہی برسی کے موقع پر حاضری دیتے تھے، کوئی عوامی اجتماع نہیں ہوتا تھا۔ 2009ء میں جب برادر دانش نقوی فرزند سفیر انقلاب آئی ایس او کراچی کے ڈویژنل صدر اور 2سال مرکزی کابینہ میں رہنے کے بعد تنظیم کے سابق ہوئے تو خانوادہ شہید اور آئی ایس او نے برسی شہید عوامی سطح پر منانا شروع کی، اور 2013ء میں ملک گیر تحریک چلا کر اس پروگرام کو عوامی رنگ دیا گیا۔ 

برسی میں ہزاروں عاشقان ڈاکٹر شہید نے شرکت کی، تب سے مختلف حلقوں میں چہ میگوئیاں بھی شروع ہو گئیں۔ اس سال تو الحمدللہ ملک کی اکثر ملی تنظیموں  نے پروگرامز کا انعقاد کیا اور اس حوالے سے آئی ایس او کی مرکزی قیادت پہلے ہی اس بات کا اعلان کر چکی تھی کہ"شہداء کو کسی تنظیم سے منصوب کرنا ان کی ارزش کم کرنے کے مترادف ہے"۔ یہ موقف خوش آئند تھا اور دیگر اداروں کی طرف سے ہونے والے پروگرامز کو مثبت لیا جانا بھی آئی ایس او کی قیادت کی کشادہ ظرفی کی دلیل تھی۔ ضمنا یہ بھی بتاتا چلوں کہ اسی طرح سے علامہ عارف حسینی کی برسی بھی اس شان و شوکت سے نہیں منائی جا رہی تھی، اس کا آغاز بھی اسلام آباد میں برسی کا مرکزی پروگرام کروا کے آئی ایس او نے ہی روایت قائم کی۔ آج ملک بھر میں ماہ اگست میں قائد شہید کی برسی کے اجتماعات منعقد کیے جاتے ہیں۔ یہ سب لکھنے کا مقصد یہ بھی نہیں ہے کہ آئی ایس او کوئی کریڈٹ لینا چاہ رہی ہے بلکہ شہداء کی وارث ہونے کے ناطے یہ اس کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ ان کے افکار کو عام کرے اور آئی ایس او کو کسی دوسری تنظیم یا ادارے سے تقابل کرنا بھی جوانان امامیہ کے ساتھ زیادتی کے مترادف ہو گا۔

آئی ایس او پاکستان نے ہمیشہ ملک و ملت کے لیے ہونے والے مثبت اقدامات کی حمایت کی ہے اور سمجھتی ہے کہ اس سال گذشتہ سالوں کی نسبت ڈاکٹر شہید کی برسی کی مناسبت سے منعقدہ سیمینارز اور مجالس، لکھے گئے مضامین اور مقالے، بنائے گئے بینرز اور پوسٹرز، اور سوشل میڈیا کیمپین بالآخر ڈاکٹر شہید کے پیغام کو عام کرنے میں ایک اہم کردار ادا کر رہے ہیں، اور ہم اسے قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ایک بات آخر میں کہتا چلوں کہ ایک شخصیت نے یہ بیان دیا کہ  "تاریخ شاہد ہے کہ انبیا سے لے کر آئمہ معصومین اور پھر صحابہ سے لے کر ماضی و حال کے قائدین و شخصیات تک ہر کسی کے بارے میں غلو اور تفویض سے کام لیا گیا جس سے ان پاکیزہ ہستیوں کا اصل مقام و مرتبہ مورد سوال بن گیا اور غیر معصوم شخصیات کی شخصیت مختلف حصوں میں تقسیم ہو کر لوگوں کے درمیان متنازعہ بنا دی گئی حالانکہ لوگوں کی بیان کردہ تاریخ کا مذکورہ شخصیات سے دور دور کا واسطہ نہیں ہوتا۔ یہی تجاوز ہماری قومی اور تنظیمی تاریخ کی معروف شخصیت ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کے ساتھ ہوتا چلا آ رہا ہے جسے اب بند ہو جانا چاہیئے"

اگر ان کی بات کو بفرض محال ٹھیک مان بھی لیا جائے تو اس میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر آج سے پہلے میرے اس عزیز کو ایسا خیال کیوں نہیں آیا؟ ان غیر معصوم شخصیات کو حصوں میں تقسیم ہوتے دیکھا تو آپ نے ان کے ان پہلوں کو اجاگر کرنے کے لیے کوئی ڈاکومنٹری یا کتاب جیسی خدمت کیوں نہیں کی؟ چلیں اگر اب خیال آ ہی گیا ہے تو ڈاکٹر صاحب کے افکار کو عام کرنے میں اب بھی وہ اپنا کردار ادا کریں۔ ہماری آپ سے کوئی بحث نہیں ہے۔ 
اگر میری یہ بات میرے اس برادر یا ان کے کسی ہم خیال کو ناگوار گزرے تو پیشگی معذرت۔
والسلام
ڈاکٹر سید تجمل نقوی
مرکزی سیکرٹری اطلاعات آئی ایس او پاکستان
خبر کا کوڈ : 359582
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

برادر عزیزم ڈاکٹر تجمل نقوی سے۱۱۰ فیصد اتفاق کرتا ہوں، محض اعتراض کا دور گزر جانا چاہئے اور عمل کے میدان میں اتر کر بات کی جائے، خدا شہید کو جوار آل محمد میں بلند مقام عنایت فرمائے۔ آمین
Pakistan
Brother Tajamul, After reading your column i am confident, our bad luck will still drag us to many defeats, believe me the statement on which you have written the entire column and statements in response you have given , has nothing to do with the needs of millat , this is the crying hearts pain, for God sake focus on promoting education, health , ecnomical activities within millat , so that elders of faimlies can produce young man needed by the Imam-e-Zamana, i have seen my self serving doctor sb for the same cause not like waisting energies on such tough discussions for each other, very sad _from such a high rank official of ISO. Dishearted. Raza
متعلقہ خبر
ہماری پیشکش