5
0
Saturday 5 Apr 2014 10:51

پاکستانی سفیر کی طلبی

پاکستانی سفیر کی طلبی
تحریر: نذر حافی
nazarhaffi@yahoo.com


بلاشبہ دین اسلام کی تبلیغ میں خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کا بنیادی کردار ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  اپنے ذاتی دشمنوں نیز طعنے اور گالیاں دینے والوں کو تو بخش دیتے تھے لیکن  مسلمانوں کے اجتماعی معاملات کے مجرمین پر حد جاری کرتے تھے۔ مثال کے طور پر ہم دیکھتے ہیں کہ آپ  نے متعدد موقعوں پر اپنے ذاتی دشمنوں سے تو درگزر کیا، لیکن چوری کرنے والی قریشی عورت کو سزا دی۔ چنانچہ سیرت النبی (ص) کا ایک روشن درس یہ ہے کہ ذاتی معاملات میں ممکنہ حد تک عفو و در گزر سے کام لیا جائے، لیکن اجتماعی اور قومی معاملات میں قانون کا اجرا کیا جائے۔

پاکستان میں یوں تو لاقانونیت کی بھرمار ہے، لیکن ایک انتہائی افسوسناک واقعہ اس روز پیش آیا جب 6 فروری 2014ء کو ایران کے صوبۂ سیستان و بلوچستان کے علاقے جکیگور سے دہشت گرد گروہ جیش العدل نے پانچ ایرانی سرحدی محافظوں کو اغوا کرلیا تھا۔ بعد ازاں چند ہی دنوں میں پانچ میں سے ایک محافظ کو موت کے گھاٹ بھی اتار دیا گیا۔ جس پر حکومت ایران نے تہران میں پاکستانی سفیر نور محمد جادمانی کو دفتر خارجہ میں طلب کرکے ان سے اس واقعہ پر شدید احتجاج اور اغوا ہونیوالے محافظوں کو بازیاب کرانے کیلئے اقدامات کا مطالبہ کیا۔ اسی روز ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف  نے سرکاری ٹیلیویژن کو بتایا کہ پاکستانی حکومت اپنی سرحدوں کے تحفظ میں ناکام ہوچکی ہے، جو افسوسناک امر ہے۔ ہم پاکستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ہمارے سرحدی محافظوں کی بازیابی کیلئے سخت اور سنجیدہ اقدامات کرے۔ بات صرف یہیں تک نہیں رہی بلکہ ایرانی صدر نے وزیراعظم پاکستان کو فون کرکے کہا کہ ہمیں امید ہے پاکستان ایرانی بارڈر گارڈز کی بازیابی کیلئے اقدامات کریگا اور ایران سرحدوں کی حفاظت کیلئے پاکستان کے ساتھ ہر قسم کا تعاون کرنے کو تیار ہے۔

دوسری طرف ہمارے سرکاری ادارے پاکستانیوں کی طرح ایرانیوں کو بھی بیوقوف بنانے لگ گئے اور کھسیانے لہجے میں یہ کہا جانے لگا کہ "پاکستان کو اپنی تحقیقات میں لاپتہ ایرانی سرحدی محافظوں کے پاکستان میں داخل ہونے کے کوئی شواہد نہیں ملے۔" یہ بات تو ہم پاکستانی بخوبی جانتے ہیں کہ ہمارے سرکاری اداروں کو  شواہد تو ملتے ہی نہیں ہیں، لیکن اغوا شدہ افراد کا تعلق چونکہ ایک دوسرے ملک سے تھا، اسلئے نہ چاہتے ہوئے بھی ہماری سرکارکو شواہد ڈھونڈنے پڑے۔ ادھر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے بھی جب ایک ایرانی سرحدی محافظ کے قتل کی مذمت کر دی تو رنگ میں بھنگ ڈالنا تو ہمارے میڈیا سے کوئی سیکھے۔ کوئی کہہ رہا تھا کہ اب تو ایران نے بھی ہمیں دھمکیاں دینی شروع کر دی ہیں اور کسی کا کہنا تھا کہ بغیر کسی ثبوت کے پاکستانی سفیر کو طلب
کیا گیا ہے۔
 
راقم الحروف کو یقین ہے کہ اگر یہ اغوا شدگان پاکستانی ہوتے تو
خواہ کسی وزیر یا مشیر کے بیٹے ہی کیوں نہ ہوتے، ان کے اغوا کے ثبوت کسی کو ملنے ہی نہیں تھے، البتہ چونکہ خوش قسمتی سے پاکستانی نہیں تھے، اس لئے آج تقریباً دو ماہ اور چند دن کے بعد یہ خبر منظر عام پر آ ہی گئی ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کمیشن کے رکن اسماعیل کوثری نے تسنیم نیوز کو بتایا ہے کہ اغوا شدہ چار جوان اور ایک جوان کی لاش آج پاکستان میں ایران کے رابط کے سپرد کر دی گئی ہے۔
 
دو ماہ اور چند دنوں پر مشتمل یہ واقعہ ہمیں بحیثیت قوم تین پیغام دیتا ہے۔ اول یہ کہ اگر ہمارے حکمرانوں کے نزدیک بھی پاکستانیوں کی جان و مال اسی طرح عزیز ہو تو کوئی دہشتگرد ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ دوم یہ کہ دہشتگردی ایک انفرادی نہیں بلکہ قومی اور اجتماعی مسئلہ ہے، لہذا ہمیں دہشتگردوں کیخلاف متحد ہوکر قانونی کارروائی کرنی چاہیے۔ سوم یہ کہ جس ملک کے سرکاری ادارے اپنی عوام کی جان و مال اور عزت و آبرو  کے تحفظ کے لئے بے چین ہوں، اس ملک کی عوام کو کسی دفتر کا چپراسی رسوا نہیں کرسکتا، کسی ادارے کا کلرک زچ نہیں کرسکتا اور کسی ٹولے کا دہشتگرد ہراساں نہیں کرسکتا۔ خدا ہمارے وطن عزیز کو بھی صالح اور عوام دوست حکمران عطا کرے۔
خبر کا کوڈ : 369284
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

nice...very nice
پاکستان زنده باد
آمین۔۔۔ثم آمین
الله ہمارے حکمرانوں کی هدایت کرے، یا انکو ہم سے لے لے۔
بہتر ہے کہ لے ہی لے۔ آمین
ہماری پیشکش