0
Wednesday 13 Aug 2014 23:18
پاراچنار کے مسائل کے حل کو اپنا مذہبی فریضہ سمجھتے ہیں

مظاہرین کے عمائدین اور حکام دونوں کئی اہم باتوں پر راضی ہوچکے ہیں، سید ابن علی

مظاہرین کے عمائدین اور حکام دونوں کئی اہم باتوں پر راضی ہوچکے ہیں، سید ابن علی
سابق چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ سید ابن علی کا تعلق کوہاٹ کے علاقے استرزئی سے ہے، موصوف خیبر پختونخوا کی ایک جانی پہچانی شخصیت ہیں۔ سید ابن علی 25 جنوری 1995ء کو پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس منتخب ہوئے اور 28 فروری 1997ء کو اپنے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے، جبکہ دسمبر 2011ء میں انہوں نے پیپلز پارٹی سے مستعفی ہوکر اے این پی میں شمولیت اختیار کی۔ موجودہ صورتحال، طوری بنگش اقوام اور حکومت کے مابین مصالحت کرانے کی غرض سے آج کل آپ پچاس رکنی مصالحتی جرگے کے ہمراہ پاراچنار کے دورے پر ہیں۔ اسلام ٹائمز نے موجودہ صورتحال میں انکے اور انکے ساتھیوں کے کردار کے حوالے سے ان سے خصوصی گفتگو کی ہے، جسے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔  ادارہ 


اسلام ٹائمز: آپ ایک نیک مقصد لیکر کرم وارد ہوئے ہیں۔ یہ بتائیں کہ کن کے کہنے پر آپ نے یہ قدم اٹھایا۔؟
سید ابن علی: اپنا مذہبی فریضہ سمجھتے ہوئے، اپنے علاقے کے موثر عمائدین اور مشران کو بھی ساتھ لیکر، اپنے مذہبی بھائیوں کو تکلیف اور کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے بچانے کی نیت سے نکل کر ہم پاراچنار آئے ہیں۔

اسلام ٹائمز: صلح کے حوالے سے کرم ایجنسی میں آپ کن کن شخصیات سے ملے ہیں؟
سید ابن علی: اولاً تو ہم یہاں کی انتظامیہ یعنی پولیٹیکل حکام سے ملے، ان سے حالات کی تفصیل معلوم کی، اسکے بعد مرکزی امام بارگاہ کے مشران سے ملاقات ہوئی، ان سے بھی ہم نے انکے مسائل کی تفصیل معلوم کی۔

اسلام ٹائمز: ہنگو سے آکر آپ لوگ سیدھے اور سب سے پہلے مظاہرین سے ملے، بتائیں انکا کیا مطالبہ اور ردعمل تھا۔؟
سید ابن علی:
ہم نے سب سے پہلے مظاہرین سے یہ کہا کہ پہلے آپ اٹھ کر اپنا اور اپنے بھائیوں کا منجمند کاروبار بحال کرائیں، اور یہ کہ آپ کے بجائے یہ تکلیف ہم برداشت کریں گے۔ لیکن انہوں نے یہ اظہار کیا کہ آپ مشران یعنی بزرگ ہیں اور یہ کہ ہم سڑکیں بلاک رکھے رہیں گے، آپ حکام بالا کے ساتھ بات کرتے رہیں۔

اسلام ٹائمز: مذاکرات میں کس حد تک کامیابی حاصل ہوئی ہے۔؟
سید ابن علی:
مذاکرات کا نتیجہ اور مظاہرین کا جواب پہلے تو نہ ہونے کے برابر تھا۔ مگر الحمد اللہ کافی کوششوں کے بعد اب ہمیں کامیابی نصیب ہو رہی ہے۔ لہذا حکومت اور مظاہرین کے عمائدین کے ساتھ مذاکرات جاری رکھے ہوئے ہیں، مظاہرین کے عمائدین اور حکام دونوں کئی اہم باتوں پر راضی ہوچکے ہیں۔

اسلام ٹائمز: اس حوالے سے حکومت کا کیا کردار ہے۔؟
سید ابن علی:
حکومت ہمارے توسط سے مظاہرین کے عمائدین کے ساتھ مذاکرات کرتی ہے، کیونکہ اصل مسئلہ حکومت اور مظاہریں کے درمیان ہے۔

اسلام ٹائمز: حالات کو سازگار بنانے کیلئے حکومت کے علاوہ آپ نے دیگر کن شخصیات سے رابطہ کیا ہے۔؟
سید ابن علی:
بالا حصار معاہدے کے دیگر فریق سید قیصر حسین، اقبال حسین کے ساتھ بھی ہم نے رابطہ کیا جو کہ قلعہ بالاخصار معاہدے پر راضی ہوگئے۔

اسلام ٹائمز: کیا آپکا کیا ہوا معاہدہ دھرنے والے (مظاہرین) تسلیم کریں گے۔؟
سید ابن علی:
مظاہرین کے عمائدین نے تو مان لیا ہے۔ اب عمائدین ہی اپنے مظاہرین سے بات چیت کریں گے۔

اسلام ٹائمز: اگر مظاہرین نے دھرنے سے اٹھنے سے انکار کر دیا تو۔؟
سید ابن علی:
یہی تو اصل بات ہے جس کی وجہ سے مذاکرات طول پکڑ رہے ہیں، کیونکہ ایسی صورت میں حکومت خود طاقت استعمال کرکے دھرنے کو اٹھانے پر مجبور کرے گی۔ اسی کی خاطر تو ہم بار بار ٹائم مانگتے رہے ہیں، تاکہ طاقت تک نوبت نہ پہنچے۔
خبر کا کوڈ : 404482
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش