0
Saturday 4 Jan 2014 22:46

سعودی دہشت گرد "ماجد الماجد" اور اس کی کارستانیاں

سعودی دہشت گرد "ماجد الماجد" اور اس کی کارستانیاں
اسلام ٹائمز- العالم نیوز چینل کے مطابق لبنان آرمی کے انٹیلی جنس شعبے نے حال ہی میں القاعدہ سے وابستہ سعودی شہریت کے حامل ایک انتہائی خطرناک دہشت گرد کو گرفتار کیا ہے جس کا نام ماجد الماجد بتایا جاتا ہے۔ یہ دہشت گرد عالمی سطح پر انجام پانے والے کئی دہشت گردانہ اقدامات میں ملوث رہا ہے۔ سعودی دہشت گرد ماجد الماجد القاعدہ سے وابستہ دہشت گرد گروہ "عبداللہ عزام" کا سربراہ ہے جس نے حال ہی میں بیروت میں واقع ایرانی سفارتخانے کے سامنے دہشت گردانہ بم حملہ انجام دیا جس کے نتیجے میں 26 افراد شہید اور کئی دوسرے زخمی ہو گئے۔ 
 
باخبر ذرائع کے مطابق سعودی دہشت گرد ماجد الماجد 2012ء سے القاعدہ کے ذیلی دہشت گرد گروہوں کی سربراہی کرنے میں مصروف ہے۔ وہ شام اور مصر کے علاقے کنانہ میں دہشت گردانہ سرگرمیاں انجام دیتا رہا ہے۔ بعض خبری ذرائع کے مطابق ماجد الماجد "عبداللہ عزام بریگیڈ" نامی دہشت گروہ کی کمانڈ کرنے میں مصروف تھا۔ القاعدہ سے وابستہ یہ دہشت گرد گروہ مشرق وسطی میں القاعدہ کی ذیلی شاخ قرار دیا جاتا ہے۔ یہ گروہ پہلی بار 2004ء میں اس وقت منظرعام پر آیا جب اس نے مصر کے علاقوں پارک طافا، نویبع ساحل اور شرم الشیخ میں انجام پانے والے 3 بم حملوں کی ذمہ داری قبول کی۔ اس کے بعد یہ گروہ لبنان میں کئی دہشت گردانہ اقدامات انجام دے چکا ہے جن میں تازہ ترین واقعہ ایرانی سفارتخانے کے سامنے بم دھماکہ ہے۔ اسی طرح القاعدہ سے وابستہ "عبداللہ عزام بریگیڈ" نامی دہشت گرد گروہ نے 24 جون 2007 کو جنوبی لبنان کے علاقے میں بین الاقوامی فورسز "یونیفل" کو دہشت گردانہ بم حملوں کا نشانہ بنایا جس میں 6 فوجی مارے گئے۔ اس کے علاوہ یہ گروہ لبنانی سیکورٹی فورسز کے خلاف کئی دہشت گردانہ اقدامات میں ملوث رہا ہے۔ 
 
عبداللہ عزام بریگیڈ نامی دہشت گرد گروہ نے 19 دسمبر 2013ء کو پہلی بار ایک ویڈیو پیغام کے ذریعے اپنے کمانڈر ماجد الماجد کا نام فاش کیا۔ جبکہ 2009ء سے ہی ماجد الماجد کا نام امریکہ کی جانب سے جاری کردہ بلیک لسٹ میں شامل ہو چکا تھا۔ عبداللہ عزام بریگیڈ کے میڈیا ونگ "الفجر" چینل نے ماجد الماجد کا نام شائع کیا۔ اس چینل نے اس سے پہلے بھی ماجد الماجد کی دو تقریریں شائع کی تھیں لیکن ان میں اس دہشت گرد کمانڈر کی شناخت کو ظاہر نہیں کیا گیا تھا۔ یاد رہے ماجد الماجد سے پہلے بھی دہشت گرد گروہ عبداللہ عزام بریگیڈ کے دو کمانڈر سعودی شہری ہی تھے۔ ماجد الماجد سے پہلے صالح القرعاوی اس گروہ کی سربراہی کر رہا تھا۔ اسی طرح ایک اور سعودی دہشت گرد سلیمان حمد الحبلین جو دھماکہ خیز مادوں کا ماہر بتایا جاتا ہے بھی اسی دہشت گرد گروہ میں سرگرم عمل رہا ہے۔ امریکہ ان دو افراد کو بین الاقوامی دہشت گرد قرار دے چکا تھا لیکن ابھی تک ماجد الماجد کو یہ درجہ نہیں دیا گیا تھا۔ 
 
لبنان کے ایک اعلی سیکورٹی ذریعے کا کہنا ہے کہ آرمی کے انٹیلی جنس شعبے نے گذشتہ جمعے کو ماجد الماجد کو ایک سعودی ساتھی کے ہمراہ گرفتار کیا تھا جس سے تفتیش جاری ہے۔ یہ دو افراد اس وقت گرفتار کئے گئے جب بیروت میں واقع ایک سعودی اسپتال "المقاصد" سے علاج معالجے کے بعد باہر نکل رہے تھے۔ یاد رہے یہ اسپتال سعودی مالی تعاون سے چلتا ہے۔ ماجد الماجد کی گرفتاری کو انتہائی اہم قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ بعض ذرائع کے بقول وہ سعودی انٹیلی جنس کے سربراہ شہزادہ بندر بن سلطان سے براہ راست رابطے میں تھا۔ 
 
ماجد الماجد کی گرفتاری پر سعودی عرب کی شدید پریشانی:
فارس نیوز ایجنسی کے مطابق لبنان کے ڈیلی البناء نے اپنے ایک مقالے میں فاش کیا ہے کہ القاعدہ سے وابستہ سعودی دہشت گرد ماجد الماجد کی لبنان میں گرفتاری سعودی حکام کیلئے شدید پریشانی کا باعث بن چکی ہے اور وہ اس دہشت گرد کو اپنی تحویل میں لینے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ یہ اخبار کل جنوبی لبنان کے علاقے ضاحیہ میں ہونے والے دہشت گردانہ بم حملے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتا ہے:
 
"واضح ہے کہ اس دہشت گردانہ بم حملے کا بنیادی مقصد لبنان میں فتنے کی آگ بھڑکانا اور ناامنی پیدا کرنا ہے۔ دہشت گرد عناصر گذشتہ کئی ماہ سے لبنان کے مختلف علاقوں میں دہشت گردانہ بم حملوں کے ذریعے ناامنی اور خانہ جنگی پھیلانے کی کوششوں میں مصروف ہیں لیکن اب تک یہ تمام کوششیں ناکامی کا شکار ہو چکی ہیں۔ جیسا کہ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ ان دہشت گردانہ بم حملوں میں تکفیری دہشت گرد گروہ ملوث ہیں لہذا اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ دہشت گردی سعودی انٹیلی جنس ادارے کے سربراہ شہزادہ بندر بن سلطان کے زیر سایہ انجام پا رہی ہے کیونکہ خطے میں سرگرم تکفیری دہشت گرد گروہ اس وقت اسی کے کنٹرول میں ہیں۔ یہ دہشت گردانہ اقدامات ایسے وقت انجام پا رہے ہیں جب لبنان میں نئی حکومت تشکیل پانے والی ہے۔ ان حملوں کا مقصد سعودی عرب کی جانب سے ملک میں سیاسی بے چینی پیدا کرتے ہوئے جنیوا 2 کانفرنس کے آستانے پر لبنان میں سیاسی اثرورسوخ بڑھانا ہے تاکہ اس کانفرنس میں دہشت گردی سے مقابلے کیلئے عالمی سطح پر بننے والا متوقع اتحاد روکا جا سکے۔ 
 
چند روز قبل لبنان آرمی کے انٹیلی جنس شعبے کے ہاتھوں القاعدہ سے وابستہ دہشت گرد گروہ عبداللہ عزام بریگیڈ کے سعودی کمانڈر ماجد الماجد کی گرفتاری ایک انتہائی مثبت قدم اور عظیم کارنامہ ہے۔ یہ گرفتاری لبنان کے حالات سنبھلنے میں انتہائی اہم ثابت ہو گی کیونکہ اس سعودی دہشت گرد کمانڈر سے تفتیش کے دوران بہت اہم معلومات سامنے آئیں گی جن میں القاعدہ سے منسلک دہشت گرد گروہوں کے مستقبل کے منصوبے میں شامل ہیں۔ ہو سکتا ہے اس تفتیش کے دوران لبنان، شام اور حتی دوسرے عرب ممالک سے متعلق تکفیری دہشت گرد گروہوں کے منصوبے بھی منظرعام پر آئیں۔ اس ضمن میں ایک انتہائی اہم نکتہ سعودی حکام کی جانب سے لبنانی حکام کے ساتھ رابطہ اور ماجد الماجد کو اپنے حوالے کرنے کا مطالبہ ہے۔ سعودی حکام کی جانب سے اس مطالبے نے بہت سے اہم سوال جنم دیئے ہیں۔ کیا سعودی انٹیلی جنس چیف شہزادہ بندر بن سلطان اس دہشت گرد کو اپنی تحویل میں لے کر ان دسیوں دہشت گردانہ اقدامات پر پردہ ڈالنا چاہتا ہے جن کی منصوبہ بندی ماجد الماجد نے کی اور انہیں اس کے گروہ نے پایہ تکمیل کو پہنچایا؟ خاص طور پر یہ کہ ماجد الماجد سعودی سیکورٹی اداروں کی جانب سے اشتہاری مجرم قرار دیئے جانے کے باوجود اب تک شہزادہ بندر بن سلطان سے بڑے پیمانے پر مالی امداد بھی حاصل کر چکا ہے۔ 
 
دوسری طرف ایرانی سیکورٹی حکام نے اپنے لبنانی ہم منصب افراد سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ماجد الماجد کی تفتیش میں ایرانی سیکورٹی اہلکاروں کو بھی شامل کریں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ماجد الماجد اور اس کا گروہ بیروت میں ایرانی سفارتخانے کے سامنے انجام پانے والے دہشت گردانہ بم حملے میں ملوث ہیں۔ اسی دوران سعودی حکام کی جانب سے ماجد الماجد کو فوری طور پر اپنی تحویل میں لینے کی عجولانہ کوششیں انتہائی معناخیز نظر آتی ہیں۔ بعض اہم سیکورٹی ذرائع کے بقول سعودی حکام کی جانب سے القاعدہ سے وابستہ اس دہشت گرد کو اپنی تحویل میں لینے کی کوشسشوں کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ان کی نظر میں ان کوششوں کی بنیادی وجہ لبنان اور شام میں جاری دہشت گردانہ اقدامات میں سعودی عرب کے ملوث ہونے کو منظرعام پر آنے سے روکنا ہے۔ ان دہشت گردانہ اقدامات کے چند واضح نمونے بیروت میں ایرانی سفارتخانے کے سامنے بم دھماکہ، ایک سال قبل شام کے فوجی ہیڈکوارٹر پر دہشت گردانہ حملہ اور اس سے قبل دمشق میں شیخ البوطی کا قتل ہیں۔ 
 
ماجد الماجد کی پراسرار موت:
لبنان کے خبری ذرائع نے اعلان کیا ہے کہ القاعدہ سے وابستہ خطرناک سعودی دہشت گرد ماجد الماجد ایک فوجی اسپتال میں علاج معالجے کے دوران چل بسا ہے۔ ماجد الماجد کی موت کے بارے میں بہت سے شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں کیونکہ اس کے سعودی انٹیلی جنس کے سربراہ شہزادہ بندر بن سلطان سے براہ راست رابطہ تھا اور اس کی گرفتاری کے بعد سعودی حکام نے لبنانی حکام کو اسے اپنی تحویل میں دینے کے بدلے 3 ارب ڈالر کی پیشکش بھی کر دی تھی۔ ماجد الماجد گذشتہ 10 سال سے القاعدہ کے ساتھ منسلک تھا اور لبنان، شام، عراق، مصر، پاکستان اور افغانستان جیسے ممالک میں دہشت گردانہ سرگرمیاں انجام دیتا رہا تھا۔ ماجد الماجد کے پاس القاعدہ کے بارے میں انتہائی اہم معلومات تھیں اور وہ خطے میں موجود تمام القاعدہ رہنماوں کو اچھی طرح جانتا تھا۔ اسی طرح اسے القاعدہ کے فنانس سیسٹم کے بارے میں مکمل معلومات حاصل تھیں۔ لہذا ماجد الماجد کو القاعدہ کا بلیک باکس قرار دیا جا رہا تھا۔ 
 
لبنان کے معروف سیاسی تجزیہ نگار جناب فیصل عبدالساتر کا کہنا ہے کہ سعودی دہشت گرد ماجد الماجد کے سعودی انٹیلی جنس ایجنسی سے گہرے روابط استوار تھے جس کی وجہ سے اس کی گرفتاری پر سعودی عرب شدید پریشان دکھائی دے رہا تھا اور اب اس کی مشکوک موت نے بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ لبنان سیکورٹی ذرائع کو جلد از جلد اس کی موت کے بارے میں درست حقائق منظرعام پر لانے چاہئیں تاکہ اس موضوع کے بارے میں پائے جانے والے شکوک و شبہات ختم ہو سکیں۔ جناب فیصل عبدالساتر نے کہا کہ بہرحال ماجد الماجد کی گرفتاری لبنان میں سعودی انٹیلی جنس ایجنسی کی سرگرمیوں کیلئے ایک شدید دھچکہ تھا۔ انہوں نے کہا کہ ماجد الماجد کے پاس لبنان اور شام میں سرگرم عمل وہابی اور تکفیری دہشت گروہوں کے بارے میں انتہائی اہم معلومات موجود تھیں جن کے منظرعام پر آنے سے بہت سے پس پردہ حقائق واضح ہو سکتے تھے۔ اسی طرح ماجد الماجد سعودی انٹیلی جنس ایجنسی کے ساتھ بھی براہ راست رابطے میں تھا اور ایسی موثق رپورٹس بھی موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ماجد الماجد شہزادہ بندر بن سلطان سے رابطے میں تھا۔ جناب فیصل عبدالساتر نے کہا کہ ماجد الماجد کی مشکوک موت کے بارے میں یہ سوال موجود ہے کہ آیا وہ طبیعی موت مرا ہے یا اسے قتل کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر اسے قتل کیا گیا ہے تو اس مسئلے کی مکمل تحقیق ہونی چاہئے۔ 
 
القاعدہ کے ذیلی دہشت گرد گروہ عبداللہ عزام بریگیڈ کا سربراہ سعودی دہشت گرد ماجد الماجد سعودی دارالحکومت ریاض میں 1973ء میں پیدا ہوا۔ وہ جون 2012ء سے عبداللہ عزام بریگیڈ کی کمانڈ سنبھالے ہوا تھا۔ لبنان آرمی نے 2009ء میں ماجد الماجد کی گرفتاری کیلئے نھرالبارد کیمپ پر آپریشن انجام دیا۔ اس وقت ماجد الماجد اس کیمپ میں موجود دہشت گرد گروپ فتح الاسلام میں شامل تھا۔ ماجد الماجد اس آپریشن کے دوران بچ نکلنے میں کامیاب ہو گیا۔ یہ سعودی دہشت گرد یمن اور عراق سے القاعدہ قیدیوں کو آزاد کروانے میں بھی ملوث رہا ہے۔ ماجد الماجد القاعدہ کے رہنماوں، طرز کار، اس دہشت گرد تنظیم کے اہداف اور نائن الیون کے بعد پیدا ہونے والی تبدیلیوں کے بارے میں مکمل معلومات رکھتا تھا۔ ماجد الماجد نے افغانستان پر امریکی حملے کے بعد القاعدہ کے بکھرے ہوئے افراد اور گروپس کو از سر نو منظم کرنے میں بھی انتہائی اہم اور بنیادی کردار ادا کیا تھا۔ 
 
ماجد الماجد سابقہ سعودی انٹیلی جنس افسر تھا:
لبنان کے بعض اہم سیکورٹی ذرائع نے فاش کیا ہے کہ موت سے قبل ماجد الماجد سے انجام پانے والی تفتیش کے دوران اس نے بیروت میں ایرانی سفارتخانے کے سامنے انجام پانے والے دہشت گردانہ بم حملے میں ملوث ہونے کا اعتراف کیا تھا۔ اسی طرح اس اہم باخبر ذریعے کا کہنا ہے کہ ماجد الماجد صرف القاعدہ سے وابستہ ایک دہشت گرد نہیں تھا بلکہ وہ سعودی انٹیلی جنس افسر رہ چکا تھا۔ سیاسی و سیکورٹی ماہرین کی نظر میں ماجد الماجد کی گرفتاری اور موت لبنان میں القاعدہ کی دہشت گردانہ سرگرمیوں کو شدید نقصان پہنچائے گی لیکن یہ سرگرمیاں مکمل طور پر ختم نہیں ہوں گی کیونکہ القاعدہ سے وابستہ چھوٹے چھوٹے گروہ ایکدوسرے سے الگ رہ کر فعالیت انجام دیتے ہیں۔ 
خبر کا کوڈ : 337180
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش