0
Sunday 29 Jul 2012 13:57

اسلامی کانفرنس، يااللہ خير!

اسلامی کانفرنس، يااللہ خير!
تحریر: نذير ناجی
 
اب آپ کو ياد کرنا پڑے گا کہ ايک اسلامی کانفرنس ہوا کرتی تھی، جہاں تک مجھے ياد پڑتا ہے اس تنظيم نے کبھی بھی مسلمانوں کي کسی رياست يا کسی گروہ کے مفادات کيلئے کبھی کچھ نہيں کيا۔ يہ ہميشہ اس وقت حرکت ميں آتی ہے، جب امريکہ اور اس کے حواريوں کو اسلام کا نام استعمال کرکے اپنے اسٹريٹجک مقاصد کو آگے بڑھانے کی ضرورت پڑتی ہے۔ مجھے اسکا جو سب سے پہلا اور بڑا کارنامہ ياد ہے، وہ اسرائيل کيساتھ معاہدہ امن کرنے کے بعد مصر کي نام نہاد مسلم امہ ميں واپسی کا ڈرامہ ہے۔
 
انور سادات نے جب کيمپ ڈيوڈ ميں يہوديوں کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کئے تو فطری طور پر لازم تھا کہ عرب عوام ميں بالخصوص اور مسلمانوں ميں بالعموم اس پر شديد ردعمل پيدا ہوتا، ليکن مسلمان حکمرانوں کو اس معاہدے سے پہلے اعتماد ميں ليا جاچکا تھا اور جو ہوا ان کی مرضی سے ہوا۔ انہوں نے صرف عوامی غم و غصے اور بغاوتوں کے خوف سے اس معاہدے کی مخالفت کی اور مصر کو اپني نام نہاد برادری سے نکال ديا۔ مگر جب عوام کا غصہ قدرے ٹھنڈا ہوا تو مصر کو واپس مسلم امہ کا حصہ بنانے کے لئے اسلامی کانفرنس کا مردہ زندہ کيا گيا۔ اس کا ايک اجلاس منعقد ہوا، ہمارے مرد مومن مرد حق ضياءالحق کی ڈيوٹی لگی کہ وہ مسلم امہ کے ”ناراض“ حکمرانوں کو اس بات کا قائل کريں کہ مصر، مسلم امہ کا ايک بہت بڑا اثاثہ ہے اور اسلامی کانفرنس ميں اس کی واپسی بہت ضروری ہے۔
 
اس مقصد کے لئے او آئی سی (آرگنائزيشن آف اسلامک کانفرنس) کا ايک خصوصی اجلاس طلب کيا گيا۔ جنرل صاحب اپنی اسلامی شان و شوکت کے ساتھ اسٹيج پر تشريف لائے اور پورا زور خطابت صرف کرتے ہوئے پہلے ہی سے قائل اسلامی حکومتوں کے نمائندوں کو مزيد قائل کيا۔ کافروں کو مکے دکھائے، اسرائيليوں کے خلاف شعلے اگلے۔ اسلامي تاريخ کے سنہرے ادوار کو ياد کيا اور پھر اسلامی کانفرنس کي طرف سے مصر کے ہجر کی درد بھری کہانی دہرائی اور پھر بتايا کہ مصر کی اسلامی کانفرنس ميں واپسی کيوں ضروری ہے۔
 
يہ ساری الميہ کہانی دہراتے ہوئے وہ کبھی ہنسے، کبھي غضبناک ہوئے، کبھی آنسو بہائے، کبھی ہچکياں لے کر روئے، پہلے سے تيار اسلامی حکومتوں کے نمائندوں نے داد و تحسين کے ڈونگرے برسائے اور اس جذباتی فضا ميں مصر کو اسلامی کانفرنس ميں واپس لينے کا فيصلہ کر ليا گيا۔ امريکہ اور اسرائيل جو کام اپنی سفارتی طاقت اور اثر و رسوخ کے ذريعے کرنے ميں دقت محسوس کر رہے تھے، اسلامی کانفرنس نے وہ کر دکھايا۔ واشنگٹن اور تل ابيب ميں شاديانے بجائے گئے، مصري حکمرانوں نے عرب عوام سے جو غداری کی تھی، اسے سند قبوليت حاصل ہوگئی اور اس کے بعد کسي کو کچھ پتہ نہيں کہ وہ او آئی سی کہاں گئی اور کيا کرتی رہی۔
 
البتہ اس کا سيکرٹريٹ جوں کا توں قائم رہا۔ اسے پيٹرو ڈالر ملتے رہے اور مختلف مسلمان ملکوں کے امريکہ نواز ليڈر اس تنظيم کے عہديدار بن کر عيش و آرام کے مزے لوٹتے رہے۔ مصر اور پاکستان کے کئي ليڈر اس چشمہ فيض سے خوب سيراب ہوئے، ليکن اسلامی بلاک کی سطح پر يہ تنظيم کہيں نظر نہ آئی۔ ميں ان تمام تنازعات اور خونريزيوں کا ذکر نہيں کروں گا، جن سے متعدد ملکوں کے مسلمان دوچار ہوتے رہے۔ خود مسلمانوں نے مسلمانوں کو مارا، ليکن اسلامی کانفرنس کبھی کوئی نتيجہ خيز قدم نہ اٹھا سکي۔
 
افغانستان ميں بادشاہت کے خلاف مقامی قوم پرستوں نے جب بغاوت کرکے جمہوری حکومت قائم کی تو امريکيوں نے اس کے خلاف سازشيں شروع کر ديں اور انہيں اتنا مجبور کر ديا کہ ببرک کارمل کو سوويت يونين سے مدد مانگنا پڑی اور جب امريکی سازش اور خواہش کے عين مطابق روسی فوجيں اپنی حمايت يافتہ مقامی حکومت کی مدد کے لئے اسی کی درخواست پر افغانستان ميں داخل ہوئيں، تو اسلامی کانفرنس انگڑائی لے کر اٹھی اور پھر جب تک روسی افواج افغانستان سے واپس نہ چلی گئيں، اس کے پے در پے اجلاس ہوئے۔
 
امريکہ نے پاکستان کے قبائلی علاقوں ميں اڈے بنا کر افغانستان کے اندر مداخلت کے جو مراکز قائم کئے، اسلامی کانفرنس، عالمی رائے عامہ کو اس کے حق ميں ہموار کرنے کے لئے مسلسل سرگرم رہي۔ افغان جنگ کے دوران او آئی سی کے جتنے اجلاس منعقد ہوئے، وہ اتنے زيادہ ہيں کہ شمار نہيں کيا جاسکتا۔ ليکن جيسے ہی افغانستان سے سوويت افواج واپس گئيں، او آئی سی لاپتہ ہوگئی۔ پچيس چھبيس سال لاپتہ رہنے کے بعد اچانک اس کا اجلاس طلب کرنے کي خبر آئی ہے اور ميں سوچ ميں پڑ گيا ہوں کہ اب مسلمانوں کو کہاں پر اور کيسا گھاؤ لگانے کي تيارياں ہيں۔
 
امريکہ نے افغانستان اور عراق پر حملوں کے بعد جنگ کے جو نئے طريقے ايجاد کئے ہيں، وہ بہت انوکھے اور منفرد ہيں۔ پہلے دونوں ملکوں ميں باقاعدہ فوجيں اتار کے ميدانی جنگيں لڑی گئيں۔ جن ميں فضائيہ کا بے رحمانہ استعمال ہوا۔ ان جنگوں کے دوران امريکہ نے اسلام کے نام پر دہشتگرد گروہوں کے ساتھ اپنے رابطے بڑھائے اور حيرت انگيز طور پر جس دہشتگردی کے خلاف اس نے عالمی جنگ شروع کرنے کا اعلان کيا تھا، انہی دہشتگردوں کو مسلمانوں کے خلاف اپنی جنگ ميں آلہ کار بنانا شروع کر ديا۔

اس کا پہلا تجربہ تو پاکستان ميں ہوا، جہاں امريکہ نے پاکستان ہی کے تيار کردہ مجاہدين کو اسی کے خلاف استعمال کرنے کا تجربہ کيا۔ تحريک طالبان پاکستان کے نام سے ايک گروہ کو ہماري مسلح افواج کے خلاف ميدان ميں اتارا گيا۔ وہ اب ہمارے پورے ملک ميں دہشتگردی کر رہے ہيں۔ اسی طرح کا ايک گروہ سوات ميں فضل اللہ کی زيرقيادت ميدان جنگ ميں اتارا گيا، جو اتنی تيزی سے فتوحات حاصل کرنے لگا کہ مغربی ميڈيا نے اسلام آباد پر ان کے قبضے کے خطرات کا ڈھنڈورا پيٹنا شروع کر ديا۔
 
پاکستان کی سکيورٹی فورسز کو خطرہ محسوس ہوا کہ دہشتگردوں کي يہ لہر ہمارے ايٹمی اثاثوں کی طرف بڑھنے والی ہے۔ چنانچہ فوج کو ميدان ميں اتارا گيا اور دہشتگردوں کو اپنی طاقت کا مرکز افغانستان ميں منتقل کرنا پڑا، ليکن سوات پر ان دہشتگردوں کے قبضے کے دوران ہمارے ميڈيا کے کچھ عناصر نے جيسے بڑھ چڑھ کر ان کی حمايت کی، اس سے پتہ چلا کہ دہشتگرد صرف مقامی نہيں، ان کي ڈورياں بيرون ملک سے ہل رہی ہيں اور بيرونی طاقتوں کے زيراثر کام کرنے عناصر والے ہمارے ملک ميں بيٹھ کر جذباتی فضا کو ان کے حق ميں ہموار کر رہے ہيں۔
 
کرزئی حکومت بظاہر سيکولر ہے۔ وہ اور امريکہ دونوں مذہبی انتہا پسندی کے خلاف برسرپيکار ہيں۔ ليکن پاکستان کے خلاف جنگ کرنے والے مذہبي انتہا پسندوں کو ان دونوں کی سرپرستی حاصل ہے۔ يہ کھيل جو ہمارے ملک سے شروع ہوا تھا، بہت دور تک پھيلنے لگا اور افغانستان ميں لڑنے والے جن دہشتگردوں کے ساتھ امريکہ نے رابطے کئے، اچانک وہ ليبيا کا رخ کرنے لگے۔ يہاں تک کہ پاکستان نے پشاور سے پکڑے گئے جو دہشتگرد امريکہ کے حوالے کئے تھے اور جنہيں گوانتاناموبے ميں قيد کيا گيا تھا، وہاں سے رہائی پا کر ليبيا پہنچے اور قذافی کے خلاف بغاوت منظم ک۔
 
آپ کو ياد ہوگا کہ بغاوت کے آغاز ميں صدر قذافی نے شديد تکليف کے عالم ميں کہا تھا کہ جن نام نہاد مجاہدين کو اس نے اپنے ملک ميں پناہ دی، وہی اس کی جان کے دشمن ہوگئے ہيں۔ صدر قذافی کو جس ہجوم نے گھير کے ہلاک کيا، اس کی قيادت بھی القاعدہ کے وہ لوگ کر رہے تھے جو پاکستان اور افغانستان سے ليبيا گئے تھے اور جس نوجوان نے صدر قذافی پر ہلاکت خيز وار کئے، وہ بھی پاکستان ميں رہ کر ليبيا گيا تھا۔
 
اسلامی دہشتگردوں کے ذريعے اگلا انقلاب شام ميں برپا کرنے کی کوششيں جاري ہيں۔ شام کا ڈرامہ آخری مراحل ميں ہے۔ او آئی سی کا اجلاس طلب کر ليا گيا ہے اور ميں دعا کر رہا ہوں کہ اے اللہ! مسلمانوں کی خير اور ساتھ ہی سوچ رہا ہوں کہ اس مرتبہ اسلامی کانفرنس کا نشانہ صرف شام کے مسلمان ہوں گے يا پاکستان، بنگلہ ديش، يمن اور افريقہ ميں ساحل کے ممالک، سب اس کی لپيٹ ميں آئيں گے۔
"روزنامہ جنگ"
خبر کا کوڈ : 183172
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش