0
Friday 21 Nov 2014 16:27

اسرائیل کی جیلوں میں قید فلسطینی بچے!

اسرائیل کی جیلوں میں قید فلسطینی بچے!
تحریر: طاہر یاسین طاہر
 

                                         جو بھی لکھا خوب لکھا دسترس ہوتا اگر 
                                         چومتا میں ہاتھ اپنے کاتبِ تقدیر کا

خواجہ حیدر علی آتش کا یہ شعر بہ ظاہر انسان کو تقدیر کے سامنے سرنگوں ہونے کا درس دیتا ہے، کاتبِ ازل نے جو لکھ دیا اس پر سرِ تسلیم خم اور بس۔ تقدیر کا موضوع بڑا ہی نازک مگر ہمارا مقصود قضا و قدر کے نظریے پر بحث نہیں۔ شعر کا ایک اور مفہوم بھی ہے، باریک پہلو دار۔ ایک شکوہ بالکل اقبال کے شکوہ کی طرح۔ کیا فلسطینی بچے بھی اپنی قید کو کاتبِ تقدیر کا لکھا سمجھ کر جدوجہد ترک کر دیں؟ آزادیٗء فلسطین کا نعرہء مستانہ لگانا چھوڑ دیں؟ جمعرات کو انٹرنیشنل میڈیا کی ایک مختصر رپورٹ نظر سے گذری۔ کئی ایک موضوعات اپنی طرف متوجہ کئے ہوئے ہیں، حالاتِ حاضرہ کے سلگتے موضوعات۔ دہشت گردوں کی دھمکیاں، مگر کیا یہ موضوع کم تکلیف دہ ہے؟ کیا یہ موضوع اپنی اہمیت میں دیگر سلگتے موضوعات سے کم ہے؟ ہماری کم نصیبی کہ ہمارا میڈیا انٹرنیشنل موضوعات کو کم کم جگہ دیتا ہے۔ کہیں اندر کے کسی صفحے پر دو کالمی خبر۔ وہ بھی گاہے گاہے۔
                                      سر سری ان سے ملاقات ہے گاہے گاہے
                                      صحبتِ غیر میں گاہے سرِ راہے گاہے
 

ہمارا پرنٹ میڈیا بریکنگ نیوز میں اتنا خود کفیل ہے کہ عالمی موضوعات پہ ’’ٹکر‘‘ سے ہی کام نکال لیتا ہے۔ ہم تک جو خبریں مغربی میڈیا ہاؤسز کے توسط سے پہنچتی ہیں وہ ایک خاص ’’فکری زاویہ‘‘ لئے ہوتی ہیں۔ جیسے اسرائیل، شام، عراق، مصر، اردن اور بحرین۔ ان موضوعات پہ مغربی میڈیا ایک خاص زاویہء نظر رکھتا ہے۔ پھر بھی خبر البتہ مل جائے تو اس کا صحافتی نقطہء نظر سے تجزیہ، ایک پیشہ ور صحافی کو ’’کسی زاویہء نظر‘‘ کا زیرِ اثر نہیں ہونے دیتا۔ سوال صحافی کا بنیادی حق ہے اور کوئی ہے جو اسے اس حق سے محروم کر دے؟ سو ہم بھی سوالات ہی اٹھاتے ہیں، دنیا کے منصفوں کے سامنے، خود سے بنے پارساؤں کے سامنے۔
                                       اتنی نہ بڑھا پاکیء دامں کی حکایت
                                       دامن کو ذرا دیکھ، ذرا بندِ قبا دیکھ


مقامی دانشوروں سے لے کر عالمی محققین کے سامنے کہ کوئی ہمیں بتائے ظلم کا بازار کب تک گرم رہے گا؟ کوئی بتائے کہ مسلمانوں کے گلے کب تک کاٹے جایں گے؟ کب تک استعماری طاقتیں نئی نقش گری کو عملی صورت دینے کے لئے خونِ مسلم کو ارزاں تصور کرتی رہیں گی؟ انصاف کے ترازو میں کم کم ہی چیزیں تلتی ہیں۔ اگر پورا سچ اور پورا انصاف ہوجائے تو امن کی فاختہ چین کی فضا میں اڑانیں بھرتی رہے۔ پورا انصاف؟ نہیں عدل۔ عدل سے ہی امن ممکن ہے۔ عدل اور انصاف دو علیحدہ معانی رکھتے ہیں۔ کیا انصاف یہ ہوگا کہ فلسطین کے سارے علاقے کو دو حصوں میں تقسیم کرکے ایک اسرائیل کو دے دیا جائے دوسرا فلسطینیوں کو؟ نہیں۔ یہ ظلم ہے۔ عدل کا تقاضا یہ ہے کہ اسرائیل کا مشرقِ وسطٰی میں’’جنم‘‘ ہی مبنی بر ظلم ہے۔ عالمی دہشت گردوں نے ایک ظالم ریاست کی بنیادی کھڑی کیں اور اب ایک نئے ’’ورلڈ آرڈر‘‘ کے تحت گریٹر اسرائیل کی تیاریاں ہیں۔ 

تاریخ کے اوراق اتنے بوسیدہ نہیں ہوئے، ابھی کل کی بات ہے۔ لکھا ہے کہ ہٹلر نامی ایک آمر نے یہودیوں کی ایسی نسل کشی کی کہ رہے نام اللہ کا! بھلا کیا ہٹلر عرب تھا؟ کیا ہٹلر فلسطینی تھا؟ کیا ہٹلر مسلمان تھا؟ کیا ہٹلر نے یہودیوں پر یہ سارے مظالم عرب سرزمین پر کئے؟ اگر ان میں سے کسی سوال کا جواب ہاں میں نہیں تو پھر یہ سوال زیادہ اہمیت اختیار کر جاتا ہے کہ یہودیوں کو فلسطین میں کیوں بسایا گیا؟ اگر ان پر ظلم ہوا تھا تو جرمنی میں۔ بدلے میں یہودیوں کی دلجوئی کے لئے انھیں جرمنی یا یورپ میں ہی بسا کر ان کی دلجوئی کی جاتی۔ مگر ایسا نہ ہوا۔ عالمی استعمار کی نظریں کہیں اور لگی ہوئی تھیں۔ امریکہ کا لے پالک بچہ، دنیا جسے اسرائیل کہتی ہے، ایک منصوبہ بندی کے تحت فلسطین میں بسایا گیا۔ کون سا ایسا ظلم ہے جو اسرائیل نے ابھی تک فلسطینیوں پر روا نہیں رکھا ہوا ہے۔؟
 
فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ صیہونی حکومت نے 2000ء سے مقبوضہ مغربی کنارے اور مشرقی بیت المقدس سے تقریباً دس ہزار فلسطینی بچوں کو گرفتار کیا ہے۔ فلسطینی انتظامیہ کے ایک عہدیدار عیسٰی قراقے کا کہنا ہے کہ صیہونی حکومت کی جیلوں میں فلسطینی قیدیوں کے حقوق بری طرح سے پامال کئے جاتے ہیں۔ یہ بیان اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی جانب سے بچوں کے حقوق کے کنوینشن کی منظوری دیئے جانے کی 25 ویں سالگرہ کے موقع پر سامنے آیا ہے۔ عیسٰی قراقے کا یہ بھی کہنا ہے کہ تل ابیب نے جون کے مہینے سے تقریباً تین ہزار فلسطینیوں کو گرفتار کیا ہے، جن میں سے تقریباً تیس فیصد بچے ہیں۔ کیا یہ فلسطینی بچے جنگی مجرم ہیں؟ جنھیں اسرائیل نے اپنی قید میں لے رکھا ہے؟ کیا یہ فلسطینی بچے دہشت گرد ہیں، جن کے پاس سوائے غلیل کے اور کچھ نہیں۔ کیا غزہ کے محصورین فلسطینی مرد و عورتیں اور بچے خوفناک ہتھیاروں سے مسلح ہیں؟ کیا ان کے پاس میزائل ہیں کہ اسرائیل ان پر جنگی طیاروں سے بمباری کرتا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ عالمِ اسلام میں گہری خاموشی کیوں ہے؟ کیا دنیا امریکہ اور اسرائیل کے اشاروں پر ہی ناچا کرے گی۔؟
 
مسلم ممالک کی ایک تنظیم ’’او آئی سی‘‘ بھی ہوا کرتی ہے۔ ایک کوئی ’’عرب لیگ‘‘ بھی ہے۔ معصوم فلسطینی بچوں کی رہائی کے لئے یہ تنظیمیں کوئی جاندار آواز اٹھائیں گی؟ کیا عرب ممالک دیگر مسلم ممالک کے ہمراہ اقوامِ متحدہ میں کوئی واویلا کریں گے؟ دنیا میں انسانی حقوق کی کئی ایک تنظیمیں کام کر رہی ہیں، کیا وہ فلسطین کے قیدی بچوں کے لئے بھی آواز بلند کریں گی؟ کیا save  the children ایسی این جی اوز اسرائیل کی جیل میں قید فلسطینی بچوں کے لئے کوئی آواز بلند کریں گی؟ آخری تجزیے میں مسلمانوں کو اپنے حقوق کے لئے یکجان ہونا پڑے گا۔ عرب بادشاہتیں کب تک اپنی خاندانی حکومتوں کے مفادات میں فلسطینی مسلمانوں پر اسرائیل کے ظلم سے صرفِ نظر کرتی رہیں گی؟ غالب کو یاد کئے بغیر چارہ نہیں۔
                                   کام اس سے آ پڑا ہے کہ جس کا جہان میں
                                   لیوے نہ کوئی نام ستم گر کہے بغیر

ستم گروں کے دستِ ستم کو روک دینے کا وقت ہے۔ گریٹر اسرائیل کے منصوبے پر کام کرنے والے استعماری ممالک کو ایک نہ ایک دن اسرائیل کی پشت پناہی سے باز آنا پڑے گا۔ دنیا بھر کے عدل پسندوں کو مظلوم فلسطینیوں کی حمایت میں یکجان یک آواز ہوجانا چاہیے۔ اسرائیل کی جیلوں میں قید فلسطینی بچے کسی غیبی مدد کے انتظار میں، وہی غیبی مدد جس کا اللہ نے وعدہ کیا ہوا ہے۔
خبر کا کوڈ : 420673
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش