0
Tuesday 19 Jul 2011 00:27

یمن کا مستقبل کیا ہو گا؟

یمن کا مستقبل کیا ہو گا؟
تحریر:طاہر یاسین طاہر
 عربوں کے اندر اک اضطرابی کیفیت نے ہنگامہ آرائی کو جنم دے دیا ہے۔ یہ ہنگامہ آرائی آگے چل کر کسی انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے، یا پھر محض حکومتوں کی تبدیلی ہی اس کا مقصد ہو گا۔ اس کا فیصلہ آنے والا وقت کرے گا البتہ عربوں کے اندر موروثی بادشاہت اس وقت شدید خطرات سے دوچار ہے، اور ان خطرات سے نمٹنے کیلئے بعض عرب ممالک اپنے٬ ہم پیشہ و ہم مشرب، بھائیوں کو پناہ دے رہے ہیں۔ تیونس کے بادشاہ علی زین العابدین کو سعودی عرب نے پناہ دی، تو یمنی صدر علی عبداللہ صالح کا میزبان بھی سعودی عرب ہی بنا۔
صدر عبداللہ صالح کو گزشتہ چند ماہ سے شدید عوامی مزاحمت کا سامنا تھا، گزشتہ ماہ میں تو یہ مزاحمت اس حد تک بڑھی کہ صدر کی حامی فوج نے مظاہرین پر گولیاں بھی چلائیں اور اس واقعے کے بعد اہم فوجی اور قبائلی لیڈروں نے حزب اختلاف میں شامل ہونے کا بھی اعلان کر دیا تھا۔ یمن کی مسلح افواج میں پھوٹ پڑنے کے بعد صدر عبداللہ صالح نے اپنی فوج کے اعلٰی افسروں کو انتباہ کیا تھا کہ اگر ملک میں فوجی انقلاب لانے کی کوشش کی گئی تو خانہ جنگی شروع ہو جائے گی اور ملک کئی ٹکڑوں میں بٹ جائے گا۔ مگر صدر کی یہ دھمکی کارگر ثابت نہ ہوئی اور عوامی مظاہروں میں شدت آتی گئی، یمنی صدر نے عوامی غیض کو کنٹرول کرنے کیلئے مزید اعلان کیا کہ وہ اس سال کے آخر میں انتخاب کرا کے جنوری میں اپنا عہدہ چھوڑ دیں گے۔ مگر یہ ترکیبیں کارگر ثابت نہ ہوئیں اور اہم ملٹری کمانڈرز اور قبائلی لیڈر حکومت مخالفین کے ساتھ ملتے چلے گئے۔ گزشتہ ماہ حکومت اور حکومت کا ساتھ چھوڑ دینے والے، دونوں فریقوں نے دارالحکومت صنعاء میں بکتر بند گاڑیاں لگا دی تھیں، ہنگامے ہوئے اور کئی لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے، صدر کے حمایتوں نے تو دارالحکومت میں قائم ہسپتالوں پر بھی حملے کیے۔
صدر علی عبداللہ بن صالح ایک حملے میں زخمی ہوئے اور ملک چھوڑ کر سعودی عرب علاج کرانے کی غرض سے بھاگ گئے۔ منظر نامہ تبدیل نہیں ہوا، بلکہ عوام صدر کے سعودی عرب بھاگ جانے کو اپنی ادھوری فتح تصور کر رہے ہیں۔ یمنی اپوزیشن کا مطالبہ ہے کہ نائب صدر بھی فوری طور پر اقتدار چھوڑ کر انتخابات کا اعلان کریں، جبکہ نائب صدر معاملے کو طول دے کر اس سال کے آخر تک لے جانا چاہتے ہیں۔ ادھر یمنی صدر عبداللہ صالح کے حوالے سے میزبان یہ کہتے رہے کہ وہ روبہ صحت ہونے کے بعد یمن نہیں جائیں گے۔ مگر اطلاعات ہیں کہ یمنی صدر علی عبداللہ صالح نے گزشتہ روز وطن واپس آنے کا اعلان کر دیا۔ اگر ایسا ہو گیا تو یمن میں شدید خانہ جنگی ہو گی۔ اپوزیشن رہنماﺅں اور عوام کا اعلان ہے کہ وہ کسی صورت بھی صدر عبداللہ صالح کو واپس نہیں آنے دیں گے۔ یہاں یہ بات بھی بڑی دلچسپ ہے کہ یمن کے حزب اختلاف کے مختلف گروپوں میں بھی وہ اتحاد نہیں، جس کی موجودہ صورتحال میں ضرورت ہے۔
یہاں یمن کی ڈیموکرٹیک پارٹی کے سیکرٹری جنرل سیف الوشلی کے بیان کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے گزشتہ دنوں ایک عرب ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ سعودی عرب یمن کے عوامی انقلاب کو کچلنے کیلئے کوشاں ہے، اور وہ اس عظیم عوامی انقلاب کو ناکام بنانے کیلئے مختلف حربے استعمال کر رہا ہے۔ جن میں خلیج فارس کی تعاون تنظیم کی جانب بھی اشارہ کیا جاسکتا ہے۔ ڈیموکریٹک پارٹی کے جنرل سیکرٹری نے مزید کہا تھا کہ سعودی عرب کو یمن کی حکومت کی تبدیلی اور یمن کی زمینیں غیرقانونی طور پر سعودی عرب کے ہاتھوں فروخت کرنے سے متعلق معاملہ اٹھائے جانے پر بھی سعودیہ کو تشویش ہے۔ یمن میں احتجاجی مظاہروں، ان کے دوران کم وبیش ہلاک ہونے والے 1500 افراد اور ہزاروں زخمیوں کا مختصر پس منظر یہی بتاتا ہے کہ صدر عبداللہ صالح اگرچہ زخمی ہو کر سعودی عرب زیر علاج رہے، مگر وہ موقع کی تاک میں ہیں کہ کسی طرح دوبارہ مسند اقتدار پر جلوہ افروز ہو جائیں۔ 
32 سالہ جبر و استحصال کے دور کا خاتمہ اگرچہ بہت قریب نظر آتا ہے، جس کو بچانے کیلئے عوام دشمن شہنشاہ ایک دوسرے سے اتحاد کرتے نظر آتے ہیں۔ یہاں ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ ایک دن تو یمنی عوام کے نامزد ملزم کو کسی نے پناہ دی ہوتی ہے تو دوسری طرف وہی ہمدرد یمنی عوام کو تیل و اجناس کی امداد کر کے ان سے ہمدردی کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر ایسے موقع پر یمن کے عوام اپنے اندر استقلال کو ثابت رکھیں تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ نہ صرف صدر عبداللہ صالح بلکہ اس کے نائبین تک سے چھٹکارا حاصل کر لیں۔ یہاں اگر حزب اختلاف کے مختلف گروپ متحد ہو کر موجودہ نائب صدر اور اس کی کابینہ پر دباﺅ بڑھائے رکھتے تو بعید نہیں کہ یہ کامیابی جلد حاصل ہو جاتی۔ یمن کے مضطرب حالات سے دہشتگرد تنظیم القاعدہ بھی خوب فائدہ اٹھا رہی ہے اور وہ بھی کئی علاقوں میں سرگرم ہو کر ان پر قبضے کرنے کیلئے کوشاں ہے۔ ایسے میں فوج کے اندر پائی جانے والی بدنظمی بھی حالات کو کسی خاص سمت میں نتیجہ خیز نہیں بنا رہی۔ فوج کے کچھ اہم رہنما فوجی انقلاب کیلئے راہ ہموار کرنا چاہتے ہیں جبکہ یمنی عوام کی خواہش ہے کہ عام انتخابات کے ذریعے اقتدار کی منتقلی کا عمل بروئے کار لایا جائے۔
صدر علی عبداللہ بن صالح کے 32 سالہ دور اقتدار نے یمنی عوام کو غربت کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل دیا ہے۔ یہ امر واقعی ہے کہ یمن کے دو کروڑ چالیس لاکھ لوگوں کا شمار مشرق وسطیٰ کے غریب ترین لوگوں میں ہوتا ہے۔ عوام اگرچہ پرجوش بھی ہیں اور مسرور بھی، لوگ کسی بھی قیمت صدر عبداللہ صالح کی واپسی کیلئے تیار نہیں جبکہ حزب اختلاف کے مختلف قبائلی رہنما بھی عوامی جذبات کو اپنے ذاتی مفادات کے حق میں استعمال کرنے کیلئے کوشاں ہیں۔ اگر تمام اپوزیشن جماعتیں ایک گرینڈ الائنس بنا کر اور انتخابی منشور بنا کر عوام کے سامنے پیش کریں اور ایک بار پھر صنعاء کی سڑکوں پر خیمہ زن ہو جائیں تو بعید نہیں کہ کامیابی ان کے قدم چوم لے۔ وگرنہ حالات بتاتے ہیں کہ اس عوامی مظاہروں کی لہر کو خفیہ طاقتیں اپنے بین الاقوامی تعلقات کی بنا پر کوئی ایسا رخ دے دیں گی کہ یا تو خون ریزی اور خانہ جنگی سب کچھ بہا کر لے جائے گی یا پھر عبداللہ صالح اور اس کے نائبین، معززین، کی ضمانت پر عوام اور حزب اختلاف سے مزید فریب کرتے رہیں گے۔ مگر حوصلہ افزا بات یہ بھی ہے کہ عرب عوام کے اندر تبدیلی کیلئے پیدا ہونے والی لہر اب زیادہ دیر تک جبر و استحصال کے نمائندوں کو اپنے اوپر مسلط نہیں رہنے دے گی۔
 اس خطرے کو سعودی عرب کے سابق بادشاہ عبدالعزیز کی چھوٹی صاحبزادی شہزادی بسما بنت سعود نے بھی بھانپ لیا ہے۔ اور کہا ہے کہ دنیائے عرب کو اپنی لپیٹ میں لینے والی تبدیلی کی موجودہ لہر سے سعودی عرب بھی محفوظ نہیں اور جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم محفوظ ہیں وہ غلطی پر ہیں۔ شہزادی نے جس خطرے کو بھانپ لیا ہے اس کا منطقی نتیجہ تو یہی بنتا ہے کہ ان پابندیوں کو اٹھا لیا جائے جو عوام کے حقوق غصب کر کے انہیں مشتعل کر رہی ہیں۔ مگر ایسا ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ عرب بادشاہتیں سمجھتی ہیں کہ وہ ہمیشہ کی طرح عوام کو اپنے ظالمانہ ہتھکنڈوں سے رام کر لیں گی۔ مگر زمینی حقائق بتلا رہے ہیں کہ اس بار ایسا ممکن نہیں ہو گا۔
 یتونس سے مصر اور پھر یمن تک میں اٹھنے والی لہر عرب دنیا میں ایک نئے منظر نامے کی تخلیق کر رہی ہے۔ کیا صنعاء کی سڑکیں ایک بار پھر نہتے شہریوں کے خون سے رنگین ہوں گی یا پرامن انتقال اقتدار ہو جائے گا؟ یہ عبداللہ صالح کی صحت سے بڑھ کر اس کے میزبانوں کی حکمت پر بھی ہے۔ اگر اسے واپسی کا راستہ دکھایا جاتا ہے تو پھر قتل وغارت گری کو کوئی نہیں روک سکے گا اور اگر عبداللہ صالح صحت یاب ہو کر یمن نہیں آتا، تو بھی عوام کا دباﺅ ایوان صدر پر ضرور رہے گا۔ ایک مسلسل اضطراب اور انتشار۔
خبر کا کوڈ : 85774
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

متعلقہ خبر
ہماری پیشکش