0
Tuesday 25 Feb 2014 01:06

فلسطین یا اسرائیل؟

فلسطین یا اسرائیل؟
تحریر: صابر کربلائی
(ترجمان فلسطین فائونڈیشن پاکستان)


مسئلہ فلسطین کہ جسے پینسٹھ برس بیت جانے کے بعد بھی نہ تو عالمی برادری حل کرنے میں کامیاب رہی اور نہ عرب مسلم ریاستوں کا کوئی خاطر خواہ کردار نظر آیا، البتہ اس اجتماعی خیانت کاری میں نقصان اگر کسی کو پہنچا تو وہ صرف اور صرف فلسطینی عوام کو اور مسلم امہ کے مقدسات کو جسے غاصب صیہونی ریاست اسرائیل نے یہودیانے کی منصوبہ بندی کر رکھی ہے۔ ماضی کے تجربات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اوسلو معاہدے کے بعد سے آج تک فلسطینی اتھارٹی اور غاصب اسرائیل کے مابین ہونے والے نام نہاد امن مذاکرات کا کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہوا ہے بلکہ ان تمام معاہدوں اور مذاکرات کے نتیجے میں دیکھا گیا ہے کہ اسرائیلی چیرہ دستیاں زور پکڑتی رہی ہیں جبکہ فلسطینی جو پہلے ہی اسرائیل مظالم کی چکی میں پیسے جا رہے ہیں انہیں مزید ظلم اور بربریت کا نشانہ بنایا جاتا ہے، فلسطینی کسانوں کی زمینوں پر قبضہ کیا جاتا ہے، فلسطینی عوام کو ان کے گھروں سے بےدخل کیا جاتا ہے، اگر اس معاملے میں کوئی ذرا سی مزاحمت بھی کرے تو غاصب اسرائیلی پورے کے پورے گھر کو اس طرح مسمار کر دیتے ہیں کہ گھر کے اندر لوگوں کو بند کیا جاتا ہے اور پھر گھر کو بڑے بڑے بلڈوزروں کے ذریعے مسمار کر دیا جاتا ہے، اس طرح کے واقعات میں گھروں کے ملبے تلے دب کر شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد ان گنت ہے۔

حال ہی میں امریکی اعلیٰ عہدیدار جان کیری نے مشرق وسطیٰ کا دورہ کیا جبکہ اس دورے میں وہ غاصب اسرائیلی حکمرانوں سے بھی ملے ہیں اور فلسطینی اتھارٹی اور غاصب اسرائیل کے مابین ہونے والے نام نہاد امن مذاکرات کے عمل کو تیز کرنے کی باتیں کی گئیں، جان کیری نے اسرائیلی دورے کے دوران زور دیا ہے کہ فلسطین اور غاصب اسرائیل کے مابین مذاکرات کا عمل تیز کیا جائے تا کہ خطے میں اسرائیلی بالا دستی کو مزید توسیع دی جا سکے۔ واضح رہے کہ امریکی سیکرٹری ریاست جان کیری کا غاصب اسرائیل کی طرف دسواں سفر ہے۔ ایک طرف امریکہ اور اس کے حواری فلسطینی اتھارٹی کو اس بات پر مجبور کر رہے ہیں کہ غاصب اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کا عمل جار ی رکھا جائے جبکہ دوسری طرف مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ 1967ء کے بعد سے اب تک ہونے والے امن مذاکرات کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ سامنے نہیں آیا ہے بلکہ اس کے برعکس فلسطینیوں کی قتل و غارت میں اضافے کے ساتھ ساتھ صیہونی غاصب ریاست کی طرف سے شدید مظالم کے سلسلے کو مزید تیز کیا گیا ہے اور صرف یہی نہیں بلکہ مظالم کے ساتھ ساتھ فلسطینی عوام کو ان کے گھروں سے بے گھر کرنے کا عمل بھی تیز کر دیا گیا تا کہ غاصب صیہونی ریاست اسرائیل آبادی کے تناسب کو تبدیل کر کے عالمی برادری پر یہ واضح کر سکے کہ فلسطینی سرزمینوں پر بسنے والے عرب مسلمان فلسطینی نہیں بلکہ صیہونی ہیں اور اسی ناپاک مقصد کی تکمیل کی خاطر آئے روز غاصب اسرائیلی حکومت فلسطینیوں کے گھروں کو مسمار کرتی ہے اور ان کے گھروں کی جگہ پر صیہونی آباد کاروں کے لئے بڑی بڑی عمارتیں تعمیر کی جاتی ہیں۔ جان کیری نے اسرائیلی دورے کے دوران زور دیا ہے کہ فلسطین اور غاصب اسرائیل کے مابین مذاکرات کا عمل تیز کیا جائے۔

دوسری جانب غاصب اسرائیلی ریاست کے وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے علی الاعلان اسرائیل کے نسل پرستانہ رویہ کو آشکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل امریکہ کے موقف سے بالکل راضی نہیں اور اسرائیل امریکی موقف کی پیروی کرنے کا پابند نہیں ہے، انہوں نے امریکی وزیر خارجہ کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل جان کیری کی جانب سے فلسطین کے حوالے سے ہونے والے مذاکرات کے بارے میں امریکی پالیسی کو مکمل طور پر تسلیم نہیں کرتے بلکہ اسرائیل خطے میں فلسطین نامی کسی ریاست کے وجود کو تسلیم نہیں کرے گا، اسرائیل کے فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کا مقصد خطے میں دو ریاستوں کا قیام نہیں بلکہ اسرائیل کے قیام کو مزید تقویت دینا ہے اور غاصب اسرائیل فلسطینی ریاست کے وجود کو تسلیم نہیں کرے گا۔ نیتن یاہو کا کہنا تھا کہ امریکی اپنی پوزیشن کے مطابق فارمولا پیش کر رہے ہیں جبکہ امریکی اسرائیلی پوزیشن نہیں جانتے۔ نتن یاہو نے مزید کہا کہ ہم صیہونیوں کے لئے ایک ریاست قائم کر رہے ہیں جبکہ اس معاملے میں ہمیں کسی کے ساتھ سرحدوں کے تعین کی بات نہیں کرنی ہے اور صیہونی ریاست کا فلسطین پر حق ہے۔ حیرت انگیز بات تو یہ ہے کہ ایک طرف مذاکرات کی بات کی جا ری ہے جبکہ دوسری طرف اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے ایک مرتبہ پھر ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ اسرائیل چودہ سو (1400)نئی یہودی بستیاں تعمیر کرے گا اوراسرائیل فلسطین نام کی کسی ریاست کو تسلیم نہیں کرتا ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 1948ء سے قبل سرزمین فلسطین پر کیا کوئی اسرائیل نامی یہودی یا صیہونی ریاست موجود تھی؟ اس سوال کے جواب میں ہر ذی شعور اور تاریخ دان یہی جواب دیتا ہوا نظر آئے گا کہ یقینا نہیں ایسا نہیں تھا، بلکہ طول تاریخ کا بھی اگر مشاہدہ کیا جائے تو یہی بات سامنے آتی ہے کہ فلسطین کا وجود رہا ہے جبکہ کسی دوسری ریاست کہ جس پر یہودیوں کا یا صیہونیوں کا حق ہو ایسا نہیں تھا، بلکہ ایک فلسطین ریاست تھی جس میں مختلف مذاہب بشمول مسلمان، عیسائی، یہودی اور دیگر زندگی بسر کیا کرتے تھے، تاہم ثابت ہوتا ہے کہ سرزمین فلسطین آسمانی مذاہب کے ماننے والوں کی ریاست رہی ہے نہ کہ شدت پسند یہودیوں (صیہونیوں) کی کوئی مخصوص ریاست، اس بات سے ایک بات بڑی واضح ہو جاتی ہے کہ فلسطین فلسطینیوں کا وطن رہا ہے اور دور حاضر میں ہونا بھی یہی چاہئیے کہ 1948ء کے وقت فلسطین میں بسنے والے فلسطینیوں اور ان کی در بدر کی گئی نسلوں کو واپس سرزمین فلسطین لایا جائے اور ان کو ان کے گھروں میں آباد کیا جائے اور بالکل اسی طرح جو یہودی (صیہونی) 1948ء کے وقت دنیا کے دیگر ممالک سے ہجرت کر کے فلسطین آئے ان کو واپس ان کے ممالک بھیج دیا جائے، یعنی سادہ الفاظ میں اس طرح کہا جائے کہ جو جس جگہ کا ہو اسے اس کی جگہ پہنچا دیا جائے۔

دوسرے طریقے سے اگر کہا جائے کہ مسئلہ فلسطین کا حل کیا ہو؟ اس حوالے سے یہی کہا جا سکتا ہے کہ 1948ء کے فلسطینیوں اور ان کی نسلوں کو جنہیں فلسطین سے جبراً نکالا گیا تھا فلسطین واپس لایا جائے اور اس حوالے سے تمام فلسطینیوں کو خواہ وہ کسی بھی مذہب سے ہوں اگر وہ سنہ1948ء کے وقت فلسطین میں مقیم تھے تو ان کو یہ حق حاصل ہونا چاہئیے کہ وہ فلسطین کی طرف واپس آئیں اور فلسطین میں ایک عوامی ریفرنڈم کے ذریعے اس بات کا فیصلہ کریں کہ آیا 1948ء کے بعد فلسطین میں آ کر آباد ہو جانے والے یہودیوں سمیت دیگر مذاہب کے لوگوں کو فلسطین میں رہنے دیا جائے یا ان سب کو اپنے ان ممالک میں واپس چلے جانا چاہیئے کہ جہاں سے ان سب کو ایک منصوبہ بندی کے تحت پانی کے جہازوں میں بھر بھر کر فلسطین لایا گیا تھا، اگر فلسطینیوں کو اس ریفرنڈم میں یہ فیصلہ ہو کہ باہر سے آنے والوں کو واپس چلے جانا چاہیئے تو پھر وہ تمام صیہونی جو 48ء اور اس کے بعد لا کر بسائے گئے فوری طور پر فلسطین سے نکل جائیں اور اپنے ان ممالک میں واپس چلے جائیں جہاں سے لایا گیا تھا اور اسی طرح اگر یہ ریفرنڈم یہ فیصلہ دیتا ہے کہ نہیں ان تمام افراد کو بھی فلسطین میں رہنے کا حق ہے جو 48ء کے بعد اور اس وقت لا کر فلسطین میں بسائے گئے ہیں تو ٹھیک ہے پھر وہ فلسطینی کی حیثیت سے فلسطین میں رہیں، میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ حل انتہائی سادہ ترین حل ہے جو فلسطینیوں کو نہ صرف اپنے بنیادی حقوق فراہم کر سکتا ہے بلکہ فلسطین کی کھوئی ہوئی حیثیت کو بھی بحال کرنے میں مددگار ثابت ہو گا۔ خلاصہ یہ ہے کہ فلسطین فلسطینیوں کا وطن ہے لہذٰا عالمی برادری کو بھی چاہیئے کہ فلسطینیوں کو فلسطین واپس لانے میں اپنا کردار ادا کرے اور فلسطینیوں کو ان کے بنیادی حقوق کی فراہمی میں اپنا کردار ادا کرے، دنیا بھر کے لاکھوں فلسطینی آج بھی منتظر ہیں اس وقت کے کہ جب وہ اپنی سرزمین پر لوٹ جائیں گے اور اپنے گھروں کو آباد کریں گے، اپنی زمینوں کو سیراب کریں گے۔ وقت تیزی سے گز ر رہا ہے، عالمی برادر ی کے ضمیر کو آج نہیں تو کل یہ فیصلہ کرنا ہی ہوگا کہ فلسطین فلسطینیوں کا وطن ہے۔
خبر کا کوڈ : 355145
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش