0
Thursday 24 Apr 2014 09:57

امریکہ نااہل ہے

امریکہ نااہل ہے
تحریر: محمد علی نقوی

امریکہ کے بارے میں کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ نہ اسکی دوستی اچھی نہ اسکی دشمنی اچھی۔ دشمنی تو ہوتی ہی بری ہے لیکن جو طاقت اپنے دوست کو بھی اپنے بھاری بھر کم پاؤں کے نیچے کچل دے تو اسکا کیا کہنا۔ ایران کے اسلامی انقلاب سے پہلے امریکہ ایران اور شاہ ایران کا انتہائی قریبی حلیف اور دوست تھا۔ امریکہ نے دوستی کے اس زمانے میں شاہ اور ایران کے ساتھ جو کچھ کیا، تاریخ اسکی شاہد ہے۔ تاہم ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ایران سے امریکہ کی دشمنی ایک متوقع اور فطری امر تھا، لہذا امریکہ بھی دشمنی کی آخری حدود تک گیا اور جب تنگ آیا تو بالواسطہ دوستی کا ہاتھ بڑھایا، جسے رہبر انقلاب اسلامی نے ریشم میں لپٹے خنجر سے ملتی جلتی تشبیہ دی تھی۔
 
گذشتہ دنوں سے پانچ جمع ایک ممالک کے مذاکرات کا سلسلہ بھی جاری ہے، جسے بعض لوگ امریکہ اور ایران کے درمیان صلح اور راضی نامے سے تعبیر کر رہے ہیں، لیکن اندر کی صورت حال یہ ہے کہ امریکی حکومت نے اقوام متحدہ میں دنیا کے مختلف ملکوں کے سفیروں کو ویزا جاری کرنے پر مبنی سمجھوتے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے، اقوام متحدہ میں ایران کے نئے مستقل مندوب حمید ابو طالبی کو ویزا جاری کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ اقوام متحدہ کے لئے ایران کے نامزد سفیر حمید ابو طالبی کو امریکہ کیطرف سے  ویزا نہ دینے کا مسئلہ امریکی حکام کے لئے  بیانات جاری کرنے کا ایک اہم ذریعہ بھی بن چکا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ  ایران کو مطلع کر دیا گیا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے لئے ایران کے نامزد سفیر حمید ابو طالبی کو ویزا نہیں دے گا۔

امریکی وزیر خارجہ کے ترجمان نے اس بات کی وجہ نہیں بتائی ہے کہ کس قانون اور  کونسے معیار کے مطابق انہوں نے اقوام متحدہ کے لئے ایران کے نامزد سفیر حامد ابو طالبی کو ویزا دینے سے انکار کیا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے حمید ابو طالبی کو اقوام متحدہ میں ایران کا سفیر منتخب کئے جانے کے بعد سات اپریل کو امریکی سینیٹ اور پھر دس اپریل کو امریکی کانگریس نے اس بہانے کہ حمید ابو طالبی، انیس سواناسی میں تہران میں امریکی جاسوسی کے اڈے امریکی سفارتخانے میں داخل ہوئے تھے، ایسا بل منظور کیا ہے جس میں امریکی صدر سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ اقوام متحدہ کے لئے ایران کے نئے سفیر کو ویزا جاری نہ کیا جائے اور امریکی صدر نے بھی مکمل ڈھٹائی سے اس پر دستخط کر دیئے ہیں۔
 
اسلامی جمہوریہ ایران کو ایک خود مختار ملک ہونے کی حیثیت سے اقوام متحدہ میں اپنا سفیر متعین کرنے کا قانونی حق حاصل ہے اور اس کے لئے ایران کو امریکہ یا اقوام متحدہ کی اجازت کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ امریکہ  ایسے حالات میں حمید ابو طالبی کو اقوام متحدہ میں جانے سے روکنے کی کوششیں کر رہا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے تمام ممبر ممالک کے نمائندوں کو امریکی ویزہ دینے کا پابند ہے اور اس حوالے سے امریکی سینیٹ یا کانگریس  اس بارے میں کسی قسم کا فیصلہ کرنے کی مجاز نہیں ہے، کیونکہ اقوام متحدہ کے قوانین امریکی قوانین کے تابع نہیں ہیں۔ لہذا ایسا ہر قانون جو اقوام متحدہ کے قوانین سے متصادم ہو، اسے عالمی قوانین کے خلاف تصور کیا جاتا ہے۔
 
ایران کی وزارت خارجہ کی ترجمان مرضيہ افخم نے کہا ہے کہ امریکہ کی جانب سے اقوام متحدہ میں ایران کے مستقل نمائندے کو ویزا جاری نہ کئے جانے کا اقدام، بین الاقوامی قوانین، امریکہ اور اقوام متحدہ کے درمیان معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔ ایران کی وزارت خارجہ کی ترجمان مرضیہ افخم نے کہا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران امریکہ کی جانب سے اقوام متحدہ میں ایرانی سفیر اور نمائندے کے لئے ویزا جاری نہ کئے جانے کیخلاف قانونی چارہ جوئی کرے گا اور وہ امریکہ کے اس فیصلے کو قبول نہیں کرے گا۔ انہوں نے مزید  کہا کہ ہم نامزد سفیر کی جگہ پر کسی اور شخص کو نہیں لائيں گے اور اس مسئلے کو قانونی راستوں سے حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ امریکی حکومت کی جانب سے اقوام متحدہ کے لئے ایران کے سفیر کو ویزا جاری کرنے سے اجتناب، سیاسی محرکات کی بنا پر ہے۔ اس کے باوجود امریکی حکومت کا یہ اقدام بین الاقوامی قانون کے لحاظ سے قانونی چارہ جوئی کے قابل ہے۔

سیاسی محرکات کے علاوہ امریکہ کے اس رویے کا عالمی قوانین کی روشنی میں بھی جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ ایک عالمی ادارے اور اس میں شرکت کرنے والے نمائندگان اور میزبان ملک کے حوالے سے جو معاہدہ تشکیل پاتا ہے، اسے کنونشن کہا جاسکتا ہے۔ انیس سو پچھتر کے ویانا کنونشن کی تیسری شق کے مطابق ہر حکومت اقوام متحدہ کے قوانین کے مطابق ایک نمائندہ وفد بھیجنے کا حق رکھتی ہے۔ 1947ء میں امریکی حکومت اور اقوام متحدہ کے درمیان ہونے والا معاہدہ؛ ایک طرف اقوام متحدہ کے معاہدوں و قوانین، اور رکن ممالک کی حکومتوں کے نمائندہ دفاتر کے قانونی حقوق کے سلسلے میں ہے تو دوسری جانب میزبان کی حیثیت سے امریکی حکومت کے معاہدوں اور قوانین پر مشتمل ہے۔ لہذا اقوام متحدہ کے حوالے سے کہا جاسکتا ہے کہ سفارتی اور کونسلی امور کے حوالے سے 1961ء اور 1963ء کے معاہدے میں عالمی اداروں میں مختلف ممالک کے وفود کے استثنٰی اور تحفظ کو یقینی بنانے والے 1975ء اور 1946ء کے معاہدے نیز ہیڈ کوارٹر معاہدے کی شقیں بھی شامل ہیں۔ 1975ء کے کنونشن کی تیسری شق میں عالمی اداروں اور کانفرنسوں میں بھیجے جانے والے وفود کے زیرعنوان اس کنونشن کی 42 ویں اور 43 ویں شق میں کہا گیا کہ ہر جکومت کسی بھی عالمی ادارے کے قوانین کے تحت اپنے وفد کو کسی عالمی کانفرنس یا کانفرنس میں بھیج سکتی ہے۔

مذکورہ معاہدوں کے علاوہ ہیڈ کواٹر ایگریمینٹ کا جائزہ بھی ضروری ہے۔ یہ معاہدہ 1947ء میں امریکہ اور اقوام متحدہ کے درمیان طے پایا تھا۔ اس معاہدہ میں  ایک طرف مختلف ممالک کے وفود کے حوالے سے اقوام متحدہ کی ذمہ داریوں اور اختیار کا تعین کیا گیا تھا اور وہاں دوسری طرف امریکہ کے میزبان ملک ہونے کے ناطے سے حقوق اور پابندیوں کو  بھی شامل کیا گیا تھا۔ یہ معاہدہ یو این او  کی جنرل اسمبلی کے دوسرے اجلاس میں قراردار نمبر 169 کے عنوان سے منظور ہوا۔ اس معاہدے کی گیارہویں شق میں آیا ہے کہ امریکہ کی وفاقی اور ریاستی حکومتیں کسی ملک کے وفد، اقوام متحدہ کے ملازمین اور انکے خاندان کے افراد، جسکا اس منشور کی 57 ویں شق میں ذکرکیا گیا، کو اقوام متحدہ اور اسکے ذیلی اداروں کے اجلاس میں شرکت سے نہیں روک سکتیں۔
 
اس معاہدے کی روشنی میں امریکہ اس بات کی کوشش کرے گا کہ ان افراد اور وفود کی اجلاسوں میں شرکت کے لئے سہولیات بھی فراہم کرے۔ ہیڈ کواٹر ایگریمینٹ کی تیرہویں شق کے مطابق اقوام متحدہ کے اجلاس میں شرکت کرنے والے سفارتکاروں کو امریکہ ويزہ دینے کا پابند ہے اور اس عمل میں اسے سرعت کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ حکومتوں کی عالمی ذمہ داریوں کے 2001ء کے بل میں بھی کہا گیا ہے کہ ہر عالمی معاہدے کی خلاف ورزی کرنے والا ملک خود اس کا ذمہ دار ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ کی رابطہ کمیٹی نے ایران کے نمایندے "حمید ابو طالبی" کو امریکہ کی جانب سے ویزا جاری کرنے میں روڑے اٹکانے سے متعلق اسلامی جمہوریہ ایران کی درخواست کا جائزہ لینے کے لئے ہنگامی اجلاس منعقد کیا ہے۔

اقوام متحدہ کی میزبان رابطہ کمیٹی کا یہ 266واں ہنگامی اجلاس بند کمرے میں اور اقوام متحدہ میں قبرص کے نمایندے کی صدارت میں منعقد کیا گیا۔ امریکہ سمیت انیس ممالک، اقوام متحدہ کی میزبان کمیٹی کے رکن ہیں۔ یہ کمیٹی نیویارک میں اقوام متحدہ کے مرکزی دفتر میں ملکوں کی نمایندگی کے مسائل کا جائزہ لیتی ہے۔ یہ ہنگامی اجلاس اقوام متحدہ میں ایران کے نمایندے کی درخواست پر گذشتہ روز منگل کو تشکیل دیا گیا۔ اقوام متحدہ میں اسلامی جمہوریہ ایران کے سفیر "غلام حسین دھقانی نے اس اجلاس میں اقوام متحدہ میں ایران کے نئے نمایندے حمید ابو طالبی کو ویزا جاری نہ کرنے پر امریکی حکومت کے اقدام کو، اس تنظیم کی نظر میں بین الاقوامی قانون اور حقوق کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا۔ "غلام حسین دھقانی" نے ایران کے نمایندہ وفد پر میزبان حکومت کی مسلط کردہ پابندیوں کی وضاحت کرتے اور میزبان کمیٹی کے اراکین کو مخاطب قرار دیتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ کی رکن تمام حکومتوں اور اقوام متحدہ کے حکام کو چاہیے کہ امریکی حکومت کے اس غیر قانونی اور ناجائز اقدام کے خلاف ٹھوس قدم اٹھائیں۔

اقوام متحدہ میں ایران کے نئے سفیر حمید ابو طالبی کو امریکہ کی جانب سے ویزا دینے سے انکار، چاہے قومی سلامتی یا کسی اور بہانے سے ہو، لیکن اقوام متحدہ جیسی عالمی تنظیم کے منشور کی خلاف ورزی ہے۔ بہرحال امریکہ کے اس اقدام سے اس نظریئے کو مزید تقویت ملی ہے کہ امریکہ اقوام متحدہ کی میزبانی کے لائق نہیں ہے۔ البتہ یہ بات بھی اپنی جگہ پر مسلم ہے کہ امریکہ کا یہ عمل اقوام متحدہ کی خاموشی اور سکوت کے سائے میں ہی انجام پا رہا ہے۔
خبر کا کوڈ : 375936
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش