0
Friday 3 Oct 2014 13:37
سپریم کورٹ 3 ماہ کیلئے نواز شریف حکومت معطل کر دے

موجودہ سیاسی بحران کی ذمہ دار خود حکومت ہے، رحمت وردگ

موجودہ سیاسی بحران کی ذمہ دار خود حکومت ہے، رحمت وردگ
رحمت خان وردگ تحریک استقلال کے مرکزی صدر ہیں۔ ایک عرصہ سے کار زار سیاست میں مصروف عمل ہیں، ملکی غیر ملکی سیاست پر گہری نظر رکھتے ہیں، قوم کا درد رکھنے والے نڈر اور بےباک سیاستدان ہیں۔ بنیادی طور پر تعلق ضلع اٹک سے ہے، سیاست کے ساتھ ساتھ اپنے کاروبار کو زیادہ وقت دیتے ہیں۔ پارٹی معاملات اور کاروباری سلسلہ میں زیادہ تر کراچی میں ہی رہتے ہیں۔ گذشتہ روز لاہور تھے تو ‘‘اسلام ٹائمز’’ نے ان کی رہائش گاہ پر ایک مختصر نشست کی جس کا احوال قارئین کے استفادہ کے لئے پیش کیا جا رہا ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز:پاکستان عوامی تحریک اور تحریک انصاف کی جانب سے آپ کی جماعت کو دھرنوں میں شرکت کی دعوت دی گئی، آپ نے انکار کر دیا، کیا آپ دھرنا سیاست کو درست نہیں سمجھتے یا دونوں جماعتوں کے موقف سے متفق نہیں؟

رحمت وردگ: آپ نے بالکل درست کہا، مجھے دونوں جماعتوں کی جانب سے دعوت دی گئی تھی، جہاں تک ان کے مطالبات یا پروگرامز کا تعلق ہے، اس حوالے سے میرے تحفظات ہیں۔ عام انتخابات میں دھاندلی اور اس کے الزام کے لئے دوبارہ گنتی کے مطالبے کی میں پوری طرح حمایت کرتا ہوں، لیکن جہاں تک پروگرام کا تعلق ہے اگرچہ انہوں نے نظام بدلنے کی بات کی ہے تاہم ان کے پاس ٹھوس پروگرام نہیں۔ تحریک استقلال اس سلسلہ میں باقاعدہ پروگرام رکھتی ہے ان جماعتوں کے رابطہ کاروں سے میں نے یہی بات کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ آپ ہمارے ساتھ دھرنے میں شامل ہوں پھر اس پر بات ہو گی۔

اسلام ٹائمز: تحریک استقلال نظام بدلنے کے لئے کیا پروگرام رکھتی ہے؟

رحمت وردگ: چہرے نہیں نظام بدلو، یہ نعرہ سب سے پہلے تحریک استقلال نے لگایا، اور صرف نعرہ نہیں لگایا بلکہ اس پر ایک باقاعدہ پروگرام بھی دیا ہے۔ سب سے پہلے، تو جب تک فرسودہ انتخابی نظام تبدیل نہیں ہو گا اس وقت تک، نہ دھاندلی کو روکا جا سکے گا نہ ہی اسمبلیوں سے جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کا قبضہ ختم کرایا جا سکے گا۔ اس لئے ہم چاہتے ہیں ملک میں فرسودہ انتخابی نظام کی جگہ متناسب نمائندگی کا نظام رائج کیا جائے۔ قومی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد ایک ہزار اور صوبائی اسمبلیوں کی تعداد دو ہزار جبکہ سینٹ میں دو سو نشستیں ہونی چاہیئیں۔ اسمبلیوں کی معیاد چار سال ہو اور ملک میں صوبوں کی تعداد 29 ہونی چاہیئے۔ اس طرح لوگوں کی انصاف کی جلد فراہمی کیلئے سپریم کورٹ کے ججوں کی تعداد 29 ہونی چاہیئے، اور ہر ڈویژن میں ہائی کورٹ کا بنچ بنایا جائے، فوجداری مقدمات کا فیصلہ لازمی طور پر 6 ماہ کے اندر اور دیوانی مقدمات کے فیصلے کی مدت ایک سال مقرر کی جائے۔ ہائی کورٹ سے سپریم کورٹ تک اپیلوں کے لئے 6 ماہ کی مدت مقرر کی جا سکتی ہے۔

اسلام ٹائمز: عمران خان اور طاہرالقادری کے حوالے سے مزید کیا تحفظات ہیں؟
رحمت وردگ: میرے خیال میں یہ دونوں حقیقی مسائل کی بات نہیں کر رہے۔ دھاندلی کا سدباب ہونا چاہیئے اور انتخابی اصلاحات کے حوالے سے نواز شریف کے موقف اور ان کے موقف میں کیا فرق ہے، نواز لیگ کے لوگ بھی کہتے ہیں دھاندلی ہوئی ہے، ملک کی تمام سیاسی جماعتیں کہتی ہیں، دھاندلی ہوئی ہے۔ اس کے باوجود وہ نواز شریف کو سپورٹ کر رہی ہیں۔ بنیادی طور پر طاہرالقادری اور عمران خان وہی بات کر رہے ہیں جو نواز شریف تسلیم کرتے ہیں، تو اب معاملہ ہی ختم ہو گیا، وہ کوئی ایسی بات یا ایجنڈا دیں جس کو نواز شریف تسلیم نہ کرے، تو بات بنتی ہے کہ یہ سچے ہیں اور نواز شریف جھوٹا ہے، لیکن ابھی تک یہ نواز شریف کو جھوٹا ثابت کرنے میں ناکام ہیں۔ انہوں نے اپنے ایجنڈے میں بنیادی مسائل جن سے عوام پریشان ہے وہ شامل نہیں کئے۔

اسلام ٹائمز: آپ کی بنیادی مسائل سے کیا مراد ہے؟
رحمت وردگ: میں سمجھتا ہوں پٹوار خانہ اور کچہری کا نظام بنیادی مسائل میں شامل ہیں۔ ماتحت عدالتوں میں ہی نہیں اعلٰی عدالتوں میں بھی مقدمات برسوں لٹکتے رہتے ہیں، وکلا کی جانب سے مسلسل تاریخیں لینے کا رجحان بھی مقدمات میں طوالت کی وجہ ہے، ایک وکیل تاریخیں لے کر ہی 20 سے 25 ہزار روپے ماہانہ کما لیتا ہے۔ ججوں اور مجسٹریٹ کی تعداد میں کمی بھی طوالت کا سبب بنتی ہے۔ لوگ سارا دن عدالتوں میں کچہریوں میں دور دراز سے آ کر بیٹھے رہتے ہیں۔ جج اور مجسٹریٹ شام کو آ کر کہہ دیتے ہیں کہ تاریخ دے دو، پھر انہیں وکیل، منشی اور ریڈر کو پیسے دینے پڑتے ہیں۔ یہ سب سسٹم عوام کا نہیں جاگیر داروں اور سرمایہ داروں کے مفاد میں ہے، دوسرے ہر سطح پر میرٹ کا خیال رکھا جائے جس طرح فوج میں میرٹ ہوتا ہے، مشرف کے دور میں میرٹ تھا۔

اسلام ٹائمز: اس وقت جو صورت حال ہے، بطور سیاست دان، آپ اسے کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
رحمت وردگ: موجودہ سیاسی صورت حال بلاشبہ انتہائی تشویشناک ہے، لیکن حالات کو اس نہج پر پہنچانے کی تمام ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ کیوں کہ 2013ء کے الیکشن میں دھاندلی کا نون لیگ سمیت تمام سیاسی جماعتوں نے اعتراف کیا ہے، عمران خان نے ہر پروگرام میں اور پارلیمنٹ کے اجلاس میں دھاندلی کے خلاف آواز بلند کی اور بالآخر اس نے چار حلقوں میں دوبارہ گنتی کروانے کا مطالبہ کر دیا اگر حکومت اس وقت چار حلقوں میں گنتی کروا لیتی اور گنتی کے بعد دھاندلی ثابت ہو جاتی تو حکومت فوری طور پر ازخود مڈٹرم الیکشن کا اعلان کر دیتی تو آج یہ نوبت نہ آتی۔ اس طرح ماڈل ٹاؤن میں ڈاکٹر طاہرالقادری کے گھر کے باہر تجاوزات کی آڑ میں حملے کا کوئی جواز نہیں تھا۔ اس حملے میں خواتین سمیت 14 افراد شہید اور 90 مرد و خواتین زخمی ہوئے۔ اب تک کسی حکومت کی سرپرستی میں ایسا آپریشن نہیں ہوا، نواز شریف سمیت ان کے مشیر بھی نااہل ہیں، ان کی وجہ سے حالات یہاں تک پہنچے ہیں۔ اور المیہ یہ ہے کہ پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوئے اکثر سیاست دان کرپشن اور قرضے معاف کرانے میں ملوث ہیں۔ ان کی اکثریت بددیانت ہے۔ کرپشن و بددیانتی اور قرضے معاف کرانے والوں پر 1973ء کے آئین کے تحت الیکشن میں حصہ لینے پر پابندی ہے۔ کیوں کہ یہ آئین کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔

اسلام ٹائمز: ملک کو موجودہ صورت حال سے نکالنے کا آپ کے پاس کیا حل ہے؟

رحمت وردگ: وزیراعظم نواز شریف الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ تمام سیاسی جماعتوں کی گول میز کانفرنس بلا کر باہمی مشاورت کے بعد قومی حکومت کے قیام کا اعلان کریں۔ جو ایک سال کے لئے ہو۔ یہ قومی حکومت پہلے غیر جانبدارانہ احتساب کرے، کرپشن اور قرضے معاف کرانے والوں پر فیملی سمیت سیاست میں حصہ لینے پر پابندی عائد کرے، یعنی آئین کے آرٹیکل 62،63 پر مکمل طور پر عمل کرایا جائے۔ اس ملک کو جاگیرداروں اور سرمایہ داروں نے لوٹا ہے، ان سے قومی دولت ہر حالت میں واپس لی جائے۔ جس ملک میں وزراء نے 10 ارب روپے یعنی 36 سو ارب روپے سالانہ کرپشن ہوتی ہو، وہ ملک کیسے غریب ہو سکتا ہے۔ اگر کرپشن اور معاف کرائے گئے قرضے وصول کئے جائیں تو پاکستان پوری دنیا میں پانچ سال کے اندر امیر ترین ملک بن سکتا ہے۔

جاگیردار اور سرمایہ کار کرپشن کر کے پاکستانی قوم کی دولت مغربی ممالک میں منتقل کر رہے ہیں۔ جمہوریت کے نام پر ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جا رہا ہے۔ اس لئے میری تجویز ہے کہ نواز شریف، ڈاکٹر طاہرالقادری، عمران خان سمیت تمام سیاست دان، بیوروکریٹس، قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ارکان اور سینیٹروں کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈال کر غیرجانبدارانہ اور کڑا احتساب کیا جائے۔ ہمارے ملک میں جمہوریت کے نام پر بدترین آمریت ہے، پیپلز پارٹی اور نون لیگ کی حکومتوں نے ملک میں بنیادی جمہوریت کی نفی کی اور ابھی تک انہوں نے بلدیاتی الیکشن بھی نہیں کرائے۔ بلدیاتی انتخابات کے نتیجے میں اختیارات نچلی سطح تک منتقل ہوتے ہیں اور عوام کے مسائل ان کے گھروں کے قریب حل ہوتے ہیں۔ موجودہ نظام حکومت میں قومی وصوبائی اسمبلیوں کے ارکان کو فنڈز ملتے ہیں جس میں سے 50 فیصد ترقیاتی کاموں پر خرچ ہوتا ہے اور 50 فیصد کمیشن میں چلا جاتا ہے۔ جبکہ ایسے ترقیاتی کاموں میں میٹریل بھی ناقص استعمال ہوتا ہے۔ جس کی وجہ سے دوسرے سال ہی ٹوٹ پھوٹ شروع ہو جاتی ہے اور پھر وہی کام دوبارہ کرنے پڑتے ہیں۔ قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ارکان اور سینیٹروں کا کام قانون سازی ہے، نالیاں اور گلیاں بنانا نہیں۔

اسلام ٹائمز: آپ کے خیال میں موجودہ بحران کا حل کیا ہے؟

رحمت وردگ: میں سمجھتا ہوں عدالت عظمٰی اس بحران کو حل کر سکتی ہے۔ میں عدالت عظمٰی سے اپیل کرتا ہوں کہ نواز شریف حکومت کو 3 ماہ کے لئے معطل کیا جائے اور جن حلقوں میں دھاندلی کا الزام ہے ان کی دوبارہ گنتی کروائی جائے۔ اس موقع پر الیکشن میں حصہ لینے والی پارٹیوں کے نمائندے سول سوسائٹی اور میڈیا کے ارکان بھی موجود ہوں، دھاندلی ثابت ہو جائے تو نواز شریف حکومت ختم کر کے متناسب نمائندگی کی بنیاد پر دوبارہ الیکشن کرائے جائیں۔ عدلیہ اگر یوسف رضا گیلانی کی حکومت کو ختم کر سکتی ہے تو نواز شریف کی حکومت کو بھی ختم کیا جا سکتا ہے۔ ایسی صورت حال میں ملک کا وزیراعظم اسلام آباد سے گدو بیراج جا کر وہاں ایک منصوبے کا افتتاح کرنے کے بعد آغا خان ہسپتال جا کر حامد میر کی عیادت کرتا ہے، اسے آئی ایس آئی بلکہ دوسرے لفظوں میں فوج کی خلاف، حامد میر اور اس کے چینل کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کہا جا سکتا ہے۔

مظاہرہ اس لئے کہوں گا کیوں کہ وزیراعظم کے ہسپتال کے دورہ کے موقع پر وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید نے وفاقی حکومت کے سرکاری ترجمان کی حیثیت سے ‘‘ہم غلیل والوں نہیں، دلیل والوں کے ساتھ ہیں’’ کہا۔ تو اس سے قدرتی طور پر کیا تاثر پیدا ہو گا۔ دوسرے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار اور وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے یقین دلایا تھا کہ پرویز مشرف ایک مرتبہ عدالت پیش ہو جائے پھر بیرونی ملک جانے کی اجازت دے دی جائے گی لیکن بعدازاں وہ اپنے وعدے سے مکر گئے اور اس سلسلے میں سعودی عرب کے شاہ عبداللہ کی خواہش کا بھی احترام نہیں کیا گیا۔ جنہوں نے ان کی پرویز مشرف سے جان چھڑائی۔

اسلام ٹائمز: وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کیا دھرنے افادیت نہیں کھو رہے؟
رحمت وردگ: ان دھرنوں کا انجام جو بھی ہو، میں دو تین ماہ بعد ایک اور لانگ مارچ دیکھ رہا ہوں۔ جس کی قیادت پرویز مشرف کرے گا۔ حکمرانوں میں اگر دوراندیشی ہو تو پہلی فرصت میں پرویز مشرف کو باہر بھیج دیں تاکہ اس لانگ مارچ کی نوبت ہی نہ آئے۔ اس لانگ مارچ کے شرکاء پر فوج گولی نہیں چلائے گی۔ کیوں کہ اس میں ایک بڑی تعداد سابق فوجی افسران اور جوانوں کی شامل ہو گی۔ جب کہ پولیس پہلے ہی حکمرانوں سے ناراض ہو چکی ہے۔ کوئی یقین کرے نہ کرے میں ایک اور بات بتا دوں اس لانگ مارچ کے شرکاء اسلام آباد میں دھرنا دے کر نہیں بیٹھیں گے، بلکہ وہ پہلے دن ہی وہ سب کچھ کر لیں گے جس سے حکومت مکمل طور پر مفلوج ہو جائے گی۔ اس لئے دانشمندی یہی ہے کہ حکمران عقل استعمال کریں اور یہ نوبت ہی نہ آنے دیں۔
خبر کا کوڈ : 412989
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش