0
Wednesday 23 Apr 2014 00:48
حکومت طالبان مذاکرات ناکام ہوئے تو بھیانک نتائج برآمد ہونگے

ایران سعودیہ اختلافات ختم ہوجائیں تو استعمار اپنی موت آپ مر جائیگا، سراج الحق

ایران سعودیہ اختلافات ختم ہوجائیں تو استعمار اپنی موت آپ مر جائیگا، سراج الحق
سراج الحق ضلع دیر کے گاؤں جندول میں 5 نومبر 1962ء میں پیدا ہوئے، تین بھائیوں اور دو بہنوں میں سب سے بڑے ہیں۔ بچپن انتہائی مفلسی میں گزرا، سکول جانے کیلئے پانچ کلو میٹر کا طویل راستہ پیدل طے کیا کرتے تھے۔ آٹھویں جماعت میں تھے کہ اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ ہوگئے۔ 1980ء میں گورنمنٹ سکول لال قلعہ سے میٹرک کیا، جس کے بعد گورنمنٹ کالج تیمرگرہ میں داخلہ لیا۔ 1981ء میں اسلامی جمعیت طلبہ کے رکن بنا دیئے گئے۔ اپنی تنظیمی ذمے داریوں پر ساری توجہ مرکوز رکھی، جس کی وجہ سے ان کی حاضریاں کم پڑ گئیں اور یوں ان کو ایف اے کا امتحان دینے کی اجازت نہ ملی، دوستوں کے مشورے پر اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد میں داخلہ لیا، 1985ء میں اسلامی جمعیت طلبہ کی صوبائی نظامت کی ذمہ داریاں سنبھالیں۔ اکتوبر 1988ء میں ناظم اعلٰی پاکستان بنا دیئے گئے، جس کی وجہ سے لاہور میں آبسے، قیام لاہور کے دوران پنجاب یونیورسٹی سے ایم ایڈ کی ڈگری حاصل کی۔ 1991ء میں یہ ذمہ داریاں اگلے امانت دار کے سپرد کر دیں اور عملی زندگی کا آغاز کرکے تیمرگرہ میں کھاد کا ذاتی کاروبار شروع کر دیا، لیکن توجہ نہ دے سکنے کے باعث کاروبار خسارہ کا شکار ہو کر بند ہوگیا۔ پھر اپنے ضلع کی تحصیل ثمر باغ میں ایک پبلک سکول چلایا۔ اسی دوران جماعت کی طرف سے ان کو تحصیل کی امارت سونپی گئی۔ 1992ء میں رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئے۔ ان کے پانچ بچے معراج الحق، اعجاز الحق، ضیاءالحق، قدسیہ اور عائشہ ہیں۔ ایک عرصے تک جماعت اسلامی کے جنرل سیکرٹری رہے، دوران وزارت ان کو جماعت اسلامی کی صوبائی امارت کی ذمہ داری بھی حوالے کی گئی، مگر اب ان کے کندھوں پر نئی ذمہ داری ڈال دی گئی ہے، انہیں جماعت اسلامی کا امیر بنا دیا گیا ہے۔ امارت ملنے کے بعد اسلام ٹائمز نے منصورہ لاہور میں ان کے ساتھ ایک نشست کی، جس کا احوال قارئین کے لئے پیش کر رہے ہیں۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: سب سے پہلے تو امیر جماعت اسلامی بننے پر مبارکباد پیش کرتے ہیں، یہ بتایئے کہ آپکے امیر بننے کے بعد کیا اہداف ہیں۔؟

سراج الحق: آپ کا شکریہ، آپ کی دعاؤں کی ضرورت ہے، دعا کریں میں اس امتحان میں سرخرو ہو جاؤں۔ امیر بننے کے باوجود میں سید ابوالاعلٰی مودودی کے برابر نہیں ہوسکتا۔ نہ میرا موازنہ عظیم درویش میاں طفیل محمد کیساتھ کیا جاسکتا ہے اور نہ میں مجاہد اسلام قاضی حسین احمد
صاحب کی سیرت و بصیرت کا عشر عشیر ہوسکتا ہوں۔ میں تو سید منور حسن کے پیروں کی خاک بھی نہیں، جنہوں نے اپنا شاندار کیرئیر اللہ کی راہ میں قربان کر دیا۔ جنہوں نے پرسکون زندگی پر جدوجہد کی زندگی کو ترجیح دی۔ جنہوں نے حق و صداقت کی مثال قائم کی۔ دین کی بالادستی کے لئے تن من دھن کی قربانی دی۔ عمل ہی زندگی کا پہلا اور بامقصد اصول ہونا چاہیے، جب آپ خود اسلامی طرز زندگی کو اپنا کر اسلامی نظام کو خود پر لاگو کریں گے تو آپ دوسروں کے لئے رول ماڈل بن جاتے ہیں۔ میری بھی یہی کوشش ہوگی کہ میں خادم بن کر نہ صرف کارکنوں کے جائز حقوق و مطالبات کے لئے جدوجہد کروں بلکہ ایک عام پاکستانی کے لئے بھی وہی سوچ اختیار کروں جو اپنے لئے رکھتا ہوں۔ تب تو کوئی مسئلہ ہی باقی نہیں رہتا، تمام معاملات نظام مصطفٰی کے عین مطابق اور مشاورت سے اگر آگے بڑھتے رہیں گے تو میں سمجھتا ہوں کہ ہم ایک فلاحی اسلامی ریاست کے قیام میں جلد کامیاب ہوجائیں گے، جس کے تحت ہر پاکستانی شہری کو خواہ وہ جماعت سے وابستہ ہو یا دیگر مذہبی و سیاسی جماعتوں، کسی بھی رنگ و نسل، عقیدے اور زبان سے تعلق رکھتا ہو، سب کو عدل و انصاف اور بنیادی حقوق مل کر رہیں گے۔ میری کوشش ہوگی کہ میں جماعت کے ذمہ داروں کے اعتماد پر پورا اتر سکوں، کیونکہ اس وقت جماعت کی جو پوزیشن ہے اس حوالے سے جماعت کا امیر بننا آسان نہیں، بہر حال اللہ کے حضور دعا گو ہوں کہ وہ مجھے استقامت عطا فرمائیں۔

اسلام ٹائمز: جماعت اسلامی حکومت اور شدت پسندوں میں مذاکرات کی سب سے بڑی حامی ہے، آپ کیا سمجھتے ہیں کہ یہ بیل منڈھے چڑھ جائے گی۔؟

سراج الحق: ایک کمانڈو نے ملک کا بیڑا غرق کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے، جس نے یہ کہا کہ اگر عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن شروع کیا گیا تو یہ مسئلہ ایک ہفتے میں حل ہوجائے گا۔ تاہم یہ مسئلہ ایسا گھمبیر ہوا کہ آج پورا ملک اس آگ میں جل رہا ہے، لیکن یہ بات خوش آئند ہے کہ مذاکرات کے ذریعے امن کی بحالی کے امکانات روشن ہونے لگے ہیں۔ اس لئے ہم مذاکراتی عمل سے مطمئن ہیں اور اب وقت آگیا ہے کہ وفاقی حکومت طالبان کے ساتھ مذاکرات اسلام آباد میں کرے اور اگر مرکزی حکومت اسلام آباد میں طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات نہیں کرسکتی تو خیبر پختونخوا کی حکومت پشاور میں بات چیت کا اہتمام کرسکتی ہے۔ گذشتہ ادوار کی غلط پالیسیوں
کے نتیجے میں بہت سا خون بہا اور ہم لاشیں اٹھا اٹھا کر تھک چکے ہیں، اب یہ سلسلہ تھم جانا چاہیے۔ اس میں صرف حکومت مخلص ہوجائے تو مسئلہ حل ہوجائے گا اور میں سمجھتا ہوں کہ میاں نواز شریف اس حوالے سے کافی سنجیدہ دکھائی دیتے ہیں، دعا کریں مذاکرات ناکام نہ ہوں، اگر ناکام ہوگئے تو پاکستان میں خانہ جنگی کی کیفیت پیدا ہوجائے گی، جس کا ہمارا ملک متحمل نہیں ہوسکتا۔

اسلام ٹائمز: ملک میں قیام امن کا کوئی اور راستہ بھی ہے۔؟
سراج الحق: اس وقت ہم سب کی ترجیحات میں سرفہرست امن کا قیام ہی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایک بار امن قائم ہوجائے تو اس کے بعد کا سلسلہ بھی انشاءاللہ امن ہی کے راستے آگے بڑھتا رہے گا اور یہ حقیقت دنیا مانتی ہے کہ جنگ اور تشدد جنگ اور تشدد ہی کو جنم دیتا ہے۔ اس لئے مذاکرات اور جرگہ قیام امن کا واحد راستہ ہے۔ انہیں اپنائے بغیر ہمارا مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔ اس سلسلے میں ہمیں عوام کو اس خوف اور دہشت سے نکالنا ہوگا اور ایک ایسا ماحول قائم کرنا ہوگا، جس میں وہ بلاخوف و خطر سکھ کا سانس لے سکیں۔ ہماری پہلی ترجیح جنگ سے متاثرہ پچاس ہزار لوگوں کو بسانا، ان کی بحالی اور ان کے زخموں پر مرہم پٹی رکھنا ہے، اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ امن معاہدوں کی پاسداری آئندہ دور میں فریقین اور اس ملک کے اٹھارہ کروڑ عوام کے حق میں نہ صرف مفید ہوگی، بلکہ اس سے استعماری اور مخالف بیرونی قوتوں کا راستہ بھی روکا جاسکے گا۔

اسلام ٹائمز: مذاکرات کے حوالے سے آپ کا نمائندہ کمیٹی کا رکن ہے جبکہ آپ باقی سیاسی جماعتوں کے کردار کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔؟
سراج الحق: ہمیں یہ دھرتی بہت پیاری ہے۔ یہ ہماری جان ہے اور اس کے بہتر مستقبل، تعمیر و ترقی کے لئے سب سے پہلے امن کی ضرورت ہے، جبکہ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ امن کبھی بھی جنگ و جدل سے قائم نہیں ہوا ہے، بلکہ امن کے قیام کے لئے مذاکرات اور جرگہ سسٹم بہترین اور دیرپا حل ثابت ہوئے ہیں، چونکہ جماعت اسلامی بھی ایک امن پسند جماعت ہے، جو ہر قسم کے تشدد، چاہے اس کی شکل جیسی بھی ہو، کے خلاف ہے۔ مذاکرات کے لئے جو کمیٹی بنی ہے، اس میں ہماری جماعت کا نمائندہ شامل ہے، جو جماعت ہی کے نظریات اور منشور کی روشنی میں امن کے قیام میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔ کمیٹی تو اپنی ذمہ داری نبھا رہی ہے۔ اب یہ مرکزی حکومت کا امتحان ہے کہ وہ اس میں کس
حد تک سنجیدہ ہے اور کس حد تک کامیاب ہوتی ہے، لیکن میں پھر بھی یہی کہوں گا کہ امن کا قیام ہرصورت ہونا چاہئے اور یہ ہم سب کی اولین ذمہ داری بنتی ہے کہ امن کے قیام میں اپنا اپنا کردارادا کریں۔ جتنی بھی سیاسی جماعتیں ہیں، ان سب کو اسی ایک نکتے پر متفق ہونا پڑے گا۔ اسی میں ہماری بھلائی ہے۔ اسی میں ہمارا بہتر مستقبل ہے۔ سیاسی نظریات اپنی جگہ، مگر کون ایسا ہوگا جو امن نہیں چاہے گا۔ امن تو زندگی کی رگوں میں دوڑتا ہوا خون ہے، جسے روکنا موت کو دعوت دینا ہے۔

اسلام ٹائمز: آپ کی جماعت ہر بار الیکشن میں حصہ لیتی ہے لیکن کامیابی نہیں ملتی، آپ مستقبل میں جماعت کو کہاں دیکھتے ہیں۔؟
سراج الحق:یہ تو بظاہر ایک جزوی حقیقت ہے، لیکن اس حقیقت کے باطن میں اور بہت سی حقیقتیں پنہاں ہیں، جماعت اسلامی ایک اصول پسند جماعت ہے، جو قرآن کریم اور فرمان رسول کی روشنی میں اس ملک میں سیاست کر رہی ہے، تاکہ یہاں ایک ایسا اسلامی جمہوری نظام نافذ ہوجائے جس میں ہر قسم کی اونچ نیچ کا خاتمہ ہوسکے، عدل و انصاف کا بول بالا ہو اور غریب و مستحق کو اس کا حق مل سکے۔ یہ نہ ہو کہ ایک بھوک سے مرے اور دوسرا پیٹ بھر کر کھانا کھائے، ہمارا دین ہمیں اس قسم کے نظام زندگی کی قطعاً اجازت نہیں دیتا، ہمارے سامنے صحابہ کرام (رض) کی مثالیں موجود ہیں، جن سے ہم سبق اور راہنمائی لے کر سیاست کر رہے ہیں۔ تاہم ہمارے ہاں جو سیاسی اور انتخابی کلچر رائج ہے، جس میں پیسہ پانی کی طرح بہایا جاتا ہے اور ساتھ ہی دیگر کئی قسم کے ہتھکنڈے بھی استعمال کیے جاتے ہیں اور اپنی مرضی کے نتائج حاصل کیے جاتے ہیں، لیکن دوسری جانب ہماری جماعت میں عام مڈل کلاس کے لوگ انتخابات میں حصہ لیتے ہیں اور ان کا مقابلہ بڑے بڑے سرمایہ داروں، جاگیرداروں، نوابوں اور خانوں سے ہوتا ہے۔ ان وڈیروں اور جاگیرداروں کی پشت پر میڈیا کے کردار سے بھی صرف نظر نہیں کیا جاسکتا، جب کہ بدقسمتی سے عوام بھی وقتی اور کھوکھلے نعروں کے سیلاب میں بہہ جاتے ہیں، جس کے باعث ہمارے مڈل کلاس طبقے کے امیدواروں کو وہ پذیرائی نہیں ملتی جو ملنی چاہیے، مگر اب ہم بھرپور تیاری کریں گے اور پوری تیاری کے ساتھ انتخابات میں حصہ لیں گے۔ ہمارا مقصد ایک ایسے منصفانہ نظام کا قیام ہے جو قرآن و سنت کا حقیقی ترجمان اور راہنما ہو، دوسری بات یہ ہے کہ عوام بھی اب جان
چکے ہیں کہ ان کو اپنے جائز حقوق دلانے والی اصل ترجمان اور راہنما جماعت اسلامی ہی ہے، جو ہر قسم کی کرپشن، ناانصافی، عریانی و فحاشی، مغربی کلچر اور بدعنوانی کے خلاف سینہ سپر ہے۔

اسلام ٹائمز: پرویز مشرف کا ایشو اس وقت پاکستانی سیاست میں کافی ہاٹ ہے، آپکی جماعت کیا کہتی ہے۔؟
سراج الحق: اس وقت تو صرف مقدمہ پرویز مشرف کے خلاف چل رہا ہے، اس لئے ہم ان کے علاوہ کسی اور کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے۔ ملک میں قانون، آئین اور ادارے موجود ہیں۔ یہ ان کا کام ہے۔ جہاں تک پرویز مشرف کی بات ہے تو انہوں نے اپنے دور اقتدار میں بہت سی غلطیاں کی ہیں۔ ملک کی معیشت کو تباہ کر ڈالا، بدامنی کو ہوا دی، ڈرون حملوں کی اجازت دی، ان کے دامن پر پچاس ہزار بے گناہ لوگوں کے خون کے دھبے ہیں۔ لال مسجد اور جامعہ حفصہ کی طالبات کو خون میں نہلا دیا، بلوچوں اور سردار اکبر بگٹی کو مار ڈالا، پاکستان کا آئین توڑا، اس لئے اب یہ عدالت کا کام ہے کہ وہ اس حوالے سے کیا فیصلہ کرتی ہے۔ اب دیکھتے ہیں کہ عدالت ان کے ساتھ آئین اور قانون کے دائرے میں کیا سلوک کرتی ہے؟ ہمارا موقف تو یہ ہے کہ پرویز مشرف پاکستان اور پاکستان کے عوام کا مجرم ہے اور مجرم کو سزا لازمی ملنی چاہیئے۔ اگر پرویز مشرف کو باہر نکال دیا گیا جیسا کہ امکانات دکھائی دے رہے ہیں تو پھر آئندہ کے لئے بھی آمریت کا راستہ کھلا رہ جائے گا اور اگر پرویز مشرف کا سزا ہوگئی تو پاکستان میں ہمیشہ کے لئے آمریت کا دروازہ بند ہوجائے گا۔

اسلام ٹائمز: جماعت اسلامی مسئلہ کشمیر سے پیچھے نہیں ہٹ گئی، آپ کیا چاہتے ہیں، کیسے مسئلہ کشمیر حل کیا جائے۔؟
سراج الحق: کشمیریوں نے حق خودارادیت کے لیے جو قربانیاں دی ہیں وہ ضرور رنگ لائیں گی۔ جماعت اسلامی کشمیریوں کی تحریک میں ان کے ساتھ ہے، تنازعہ کشمیر کو ہر فورم پر اٹھائیں گے، ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت پاکستان کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے اقدامات کرے، بھارت سے بات چیت میں مسئلہ کشمیر پر دو ٹوک بات کی جائے۔ جماعت اسلامی مظلوم کشمیری بھائیوں کے ساتھ ہے، بھارت اول روز سے قانون اور اخلاقیات کی دھجیاں اڑا رہا ہے۔ اس نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو بھی جوتے کی نوک پر رکھا ہے۔ افسوس کہ ہمارے حکمران اسے موسٹ فیورٹ نیشن قرار دینے چلے ہیں، یہ کشمیری مسلمانوں کے خون کے
ساتھ غداری ہوگی۔

اسلام ٹائمز: کراچی میں جاری ٹارگٹ کلنگ کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔؟

سراج الحق: کراچی ملک کا سب سے بڑا شہر اور معاشی حب بھی ہے۔ ملکی معیشت کے استحکام میں اس کی حیثیت کو ہرگز رد نہیں کیا جاسکتا، جبکہ دوسری طرف یہ کثیرالقومی اور ملٹی کلچرل شہر بھی ہے۔ یہاں کی جو صورتحال ہے، اس پر نہ صرف میں بلکہ ہر محب وطن شہری خون کے آنسو رو رہا ہے۔ اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ پرامن کراچی ہم سب کے مفاد میں ہے اور کراچی میں قیام امن کی خاطر ہمیں بہت سوچ سمجھ کر اور سخت فیصلے کرنا ہوں گے۔ سب سے پہلے اس ضمن میں تمام قومیتوں کو برابری کی سطح پر تحفظ اور حقوق دینے ہوں گے، جبکہ دوسرے نمبر پر تمام سیاسی پارٹیوں کے عسکری ونگز کا خاتمہ کرنا ہوگا، اسلحہ جمع کرنا ہوگا اور جرائم پیشہ عناصر کی بیخ کنی کی خاطر کسی مصلحت کو آڑے نہ آنے دینا ہوگا۔ یہ کتنی افسوس کی بات ہے کہ ابھی تک کراچی میں 25 ہزار افراد کا خون بہایا جاچکا ہے۔ اب یہ خون خرابہ بند ہو جانا چاہے، عدالتوں کو آزاد کرنا ہوگا، جبکہ اداروں کو ہر قسم کی سیاسی اثر و رسوخ سے نجات دلانا ہوگی۔ ساتھ ہی تھانوں کو سیاسی اثر و رسوخ سے آزاد کرا کے مکمل بااختیار بنا کر ہی کراچی امن کا گہوارہ بن سکتا ہے۔

اسلام ٹائمز: حالیہ پاک ایران تعلقات کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟ کیا حکومت کا جھکاؤ سعودی عرب کی جانب نہیں، جبکہ ایران کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔؟
سراج الحق: بدقسمتی سے پاکستان کی خارجہ پالیسی ہی ڈانواں ڈول ہے۔ ہمیں تمام اسلامی ممالک کے ساتھ متوازی پالیسی رکھنی چاہیئے۔ ایران بھی ہمارا گہرا دوست ہے اور سعودی عرب بھی ہمارا ساتھی ہے۔ ہمیں ان کے باہمی اختلافات کا حصہ بن کر پارٹی نہیں بننا چاہیئے بلکہ ان دونوں میں بھی اختلافات نہیں ہونے چاہیں، اور اگر کچھ ہیں بھی تو پاکستان کو ایسا کردار ادا کرنا چاہیئے کہ دونوں کو ایک دوسرے کے قریب کرے۔ ایران اور سعودی عرب کے اختلافات ختم ہوجائیں تو استعمار اپنی موت آپ مر جائے گا۔ اصل میں ایران اور سعودی عرب کے اختلافات بھی غیروں کے پیدا کردہ ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کے سعودی عرب کے ساتھ اچھے مراسم ہیں، اب پاکستان اس پوزیشن میں ہے کہ ان دونوں مسلم ممالک کو قریب لاسکتا ہے تو نواز شریف کو یہ کردار ادا کرنا چاہیئے۔ اس سے پوری امت مسلمہ میں پاکستان کے وقار میں اضافہ ہوگا۔
خبر کا کوڈ : 375585
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش