0
Thursday 2 Oct 2014 00:30

تبدیلی آنہیں رہی، تبدیلی آگئی ہے

تبدیلی آنہیں رہی، تبدیلی آگئی ہے
تحریر: سید اسد عباس تقوی

آج کل یہ نعرہ پورے ملک میں عام ہے، تاہم اس نعرے کو موضوع سخن بنانے کے لیے میرے مدنظر ملک میں آنے والی تبدیلی نہیں بلکہ عالمی سطح پر محسوس کی جانے والی تبدیلی ہے۔ جی ہاں! اس تبدیلی کا جھونکا جنوبی امریکہ کی ایک اہم ریاست سے آیا، جب ارجنٹائنا کی صدر کرسٹینا فرنانڈز نے دنیا کی آنکھیں اپنے حقائق پر مبنی خطاب سے کھول دیں۔ وہ اقوام متحدہ جہاں عالمی رہنما اپنی نیندیں پوری کرنے جاتے ہیں، وہاں کرسٹینا فرنانڈز کے جملوں نے ایسی آگ لگائی کہ بڑے بڑے مہ خواروں کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ شاید دنیا جنوبی امریکہ سے اس حق گوئی کی توقع نہیں کر رہی تھی۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 69ویں اجلاس میں جب کرسٹینا نے بولنا شروع کیا تو ترجمہ کرنے والوں کو رکنا پڑا، عالمی ذرائع ابلاغ اس تقریر کو بھلا کیسے نشر کرتے۔ کرسٹینا کے خطاب پر بعد میں کافی لے دے ہوئی، جس کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔ ارجنٹائنا کی یہودی کمیونٹی کے ایک اہم رکن اور سیاسی پارٹی کے سربراہ نے کہا کہ ہم ہمیشہ سے کہتے آئے ہیں کہ ایران کبھی بھی ہمارا شراکت دار نہیں ہوسکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ کرسٹینا نے شکار ہونے والے کو شکاری بنا دیا۔ بی بی سی تو اس حد تک سٹ پٹا گیا کہ کرسٹینا کی تقریر کو پاگل پن قرار دیا اور لکھا کہ کرسٹینا کی حالیہ تقریر برین سرجری کا اثر ہے۔

الیکڑانک میڈیا کے بہت سے چینلز پر کرسٹینا کی تقریر کو سنسر کیا گیا۔ سوشل میڈیا پر بھی اس تقریر کے بہت کم حصے دستیاب ہیں۔ کرسٹینا نے اپنی اس اہم تقریر میں متعدد موضوعات پر بات کی، جن میں معاشی دہشت گردی، ریاستی دہشت گردی، دہشت گردی کے خلاف جنگ، اس جنگ میں اقوام متحدہ کا کردار، فلسطین، القاعدہ، حزب اللہ، بیونس آئرس میں ہونے والا دھماکہ اور داعش قابل ذکر ہیں۔
اقوام متحدہ کے اس اہم اجلاس کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں جنوبی امریکہ کے کئی ممالک کے سربراہوں نے عالمی پالیسیوں اور اقوام متحدہ کے کردار پر کھل کر بات کی۔ وینزویلا کے صدر نکولس مادورو نے مغربی دنیا پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ پہلے مغرب نے مشرق وسطٰی میں ایک دیو (داعش) کو جنم دیا اور اب اس دیو سے لڑنے کے منصوبے بنا رہا ہے۔ نکولس مادورو نے سامراجی قوتوں کی جانب سے جمہوریتوں کو سبوتاژ کرنے کی کھلے الفاظ میں مذمت کی۔ انھوں نے کہا کہ اقوام متحدہ میں بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے، تاکہ یہ ادارہ دنیا کی کثیر قطبی حیثیت کو درک کرسکے۔ انھوں نے کہا کہ دنیا میں اسی صورت میں امن قائم ہوسکتا ہے جب تمام اقوام کی آزادی کا احترام کیا جائے گا۔ وینزویلا کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جو کافی عرصے سے مغربی پالیسیوں کے خلاف آواز بلند کرتے رہتے ہیں، تاہم ارجنٹائنا اس فہرست میں نیا اضافہ ہے۔

ارجنٹائنا کی صدر کرسٹینا نے اپنے خطاب کے دوران کہا کہ دہشت گرد فقط وہ نہیں جو دھماکے کرتے ہیں بلکہ وہ بھی دہشت گرد ہیں جو معیشتوں کو تباہ کرتے ہیں اور ملکوں میں بھوک، افلاس اور مصیبتوں کا سبب بنتے ہیں۔ کرسٹینا نے آئی ایم ایف کی پالیسیوں، نام نہاد مغربی طاقتوں کے استحصالی قوانین اور امریکہ کے عدالتی نظام پر کھل کر تنقید کی۔ انھوں نے کہا کہ ارجنٹائنا کسی طور پر نادہندہ نہیں ہے، اس ملک کی پسماندگی میں نام نہاد ترقی یافتہ اقوام کا ہاتھ ہے۔ کرسٹینا نے سیاسی دہشت گردی پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا ملک 1992ء میں اس دہشت گردی کا نشانہ بنا جب بیونس آئرس میں اسرائیلی سفارتخانے میں دھماکہ کیا گیا۔ انھوں نے کہا کہ ہم نے اس دھماکے کی تحقیقات کی ہیں۔ ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ایران اس دھماکے میں ملوث نہیں تھا۔ انھوں نے اس موقع پر ایرانی حکومت سے کہا کہ ہمیں مشترکہ تحقیقات کے معاہدے کو نئے سرے سے زندہ کرنا چاہیے اور اس سلسلے میں حقائق تک پہنچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

کرسٹینا نے فلسطینی ریاست کے قیام کی بھرپور انداز میں حمایت کی۔ ایک نیوز ایجنسی کے مطابق کرسٹینا نے دہشت گردی کے خلاف جنگ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کی طاقتیں دوست اور دشمن کے الفاظ کو بہت آسانی سے نیا مفہوم بخش دیتی ہیں۔ انھوں نے عالمی برادری سے یہ سوال کیا کہ القاعدہ اور داعش نے ہتھیار کہاں سے لئے ہیں؟ ان کا کہنا تھا کہ کل کے آزادی پسند آج دہشت گرد قرار دیئے جا رہے ہیں۔ کرسٹینا کا کہنا تھا کہ دہشت گردی سے لڑنے کے لئے ضروری نہیں کہ ہمیشہ طبل جنگ ہی بجایا جائے بلکہ امن کو بھی موقع دینا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ عالمی برادری کو دہشت گردی سے مقابلے کی کوئی ایسی راہ تلاش کرنی چاہیے، جس میں انسانی حقوق کا تحفظ کیا جاسکے۔ اقوام متحدہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اقوام عالم کو اس سلسلے میں قائدانہ کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے، اسی طرح ہم دنیا کو اس کے باسیوں کے لئے پرامن بنا سکتے ہیں۔

کرسٹینا فرنانڈز کا کہنا تھا کہ آج ہم بین الاقوامی سطح پر داعش کو مجرم قرار دینے اور ان کا مقابلہ کرنے کے لئے ایک اتحاد قائم کرنے جا رہے ہیں، جبکہ کہ ایک سال قبل آپ اسی مقام پر اکٹھے ہوئے تھے اور آپ نے دعویٰ کیا تھا کہ بشار الاسد کی حکومت ایک آمرانہ حکومت ہے، آپ نے کہا تھا کہ ہمیں اس کے مخالفین کی حمایت کرنی چاہیے۔ اس وقت آپ نے ان مخالفین کو انقلابی کا عنوان دیا تھا۔ اب آپ پھر جمع ہوئے ہیں، تاہم اس مرتبہ کیا ہوا ہے کہ آپ انہی انقلابیوں کے خاتمے کی باتیں کر رہے ہیں، جن کی ایک سال قبل آپ نے حمایت کی تھی اور انھیں امداد مہیا کی تھی۔ کیا آپ اپنی آج کی رائے سے مطمئن ہیں اور کیا وہ گروہ جنہیں کل تک انقلابی کہا جاتا رہا ہے، سب آج دہشت گرد بن چکے ہیں۔ کرسٹینا نے کہا کہ چند سال قبل تک آپ نے حزب اللہ کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا تھا، اب آپ کو معلوم ہو رہا ہے کہ حزب اللہ تو ایک بہت وسیع اور عوام میں نفوذ رکھنے والی تنظیم ہے، بلکہ اس تنظیم کو اپنے ملک میں قانونی حیثیت حاصل ہے۔

کرسٹینا نے افغانستان پر حملے کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ عالمی برادری نے 9/11 کے واقعات کے بعد القاعدہ کے خلاف جنگ کا فیصلہ کیا۔ آپ نے اس جنگ کے بہانے دو ممالک کی سرحدوں کو پامال کیا۔ ان جنگوں کے نتیجے میں عراق اور افغانستان میں بے گناہ لوگ مارے گئے۔ آج بھی ان دونوں ممالک کے عوام دہشت گردی کے فتنے سے دوچار ہیں اور ان جنگوں کے اثرات برداشت کر رہے ہیں۔ عرب بہار پر اظہار خیال کرتے ہوئے کرسٹینا نے کہا کہ آپ نے تیونس، مصر اور لیبیا میں اس تحریک کو خوش آمدید کہا اور اس کو بڑھاوا دینے میں اپنا کردار ادا کیا۔ آپ نے ان ممالک میں اسلام کی شدت پسندانہ شکل کو رواج دینے میں بھرپور سرگرمی دکھائی، یہ سب کچھ آپ کے ارادے، فیصلے اور آشیر باد سے ہوا۔ آج ان ممالک کے شہری شدت پسندوں کے ہاتھوں استعمال ہونے کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ آپ لوگوں نے درحقیقت اپنے ان غیر سنجیدہ اقدامات کے ذریعے لوگوں کی آزادی اور استقلال سے کھلواڑ کیا ہے۔

غزہ پر حالیہ اسرائیلی بمباری کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ارجنٹائنا کی صدر نے کہا کہ اس جارحیت سے اسرائیل کے جرائم کی شدت کا اندازہ ہوتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اسرائیل نے اس وحشیانہ بمباری میں غیر مسلح فلسطینیوں کا قتل عام کیا جبکہ اسرائیل کو اس جنگ میں کوئی نقصان نہ پہنچا۔ کرسٹینا اپنی گفتگو کے اختتام میں ایک مرتبہ پھر داعش کے مسئلہ کی جانب متوجہ ہوئیں اور انہوں نے کہا کہ آج ہم داعش کے خلاف قرارداد منظور کرنے کی باتیں کر رہے ہیں حالانکہ ہم اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ جس گروہ سے جنگ کی بات ہو رہی ہے کو ایسے ممالک کی حمایت حاصل ہے، جن کے بارے میں ہم سب جانتے ہیں۔ یہ داعش سلامتی کونسل کے بہت سے ممالک کے ساتھ معاہدے کئے ہوئے ہے۔

جب کرسٹینا اس مقام تک بات کرچکیں تو ان کے خطاب کو منقطع کر دیا گیا اور بعد میں یہ موقف اختیار کیا گیا کہ کسی تکنیکی خرابی کے باعث کرسٹینا کا بقیہ خطاب نشر نہ کیا جاسکا۔ کرسٹینا نے اپنے اس خطاب کے چند روز بعد ایک قومی اخبار کو بیان دیتے ہوئے کہا کہ ملک کے کچھ ادارے اور مغربی طاقتیں ان کی حکومت کے خاتمے کی کوشش کر رہی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اگر مجھے قتل کر دیا جائے تو آپ مشرق وسطٰی کی جانب دیکھنے کے بجائے شمال (امریکہ) کی جانب دیکھئے گا۔ آج بھی کرسٹینا کے کا مکمل خطاب کسی بھی ذریعے سے حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے، جس کی جانب نشاندہی کرتے ہوئے بعض عالمی لیڈروں نے بجا طور پر کہا کہ یہ سنسر شپ مغربی طاقتوں کا ایک اور جرم ہے، جس سے ان کا چہرہ کھل کر دنیا کے سامنے آگیا ہے۔
خبر کا کوڈ : 412763
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش