0
Wednesday 6 Feb 2013 20:01

ہندوستان کی ہٹ دھرمی

ہندوستان کی ہٹ دھرمی
 تحریر: جنرل (ر) عبدالقیوم
 
اس میں شک نہیں کہ پاک و ہند تعلقات بہتر کرنے کی کنجی دہلی کے اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے سیاسی قائدین کی جیب میں ہے۔ ایسا کیوں کہا جاتا ہے؟ اس کی چند وجوہات ہیں۔ پہلی تو یہ کہ ہندوستان آبادی، جغرافیہ، وسائل اور عسکری لحاظ سے پاکستان سے صرف دوگنا نہیں بلکہ پانچ گنا بڑا ملک ہے۔ اس لئے پاکستان ہندوستان کے وجود کیلئے کوئی خطرہ نہیں بلکہ ہندوستان پاکستان کے وجود کیلئے ایک بڑا خطرہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت اگر امن کا راستہ اختیار کرنا چاہیے تو اُس کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں اور پاکستان اُسے خوشی سے قبول کرے گا۔ دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ ہندوستان کی واحد مسلمان ریاست کشمیر پر بھارت کا غیر قانونی قبضہ ہے۔ اس مسئلہ پر سلامتی کونسل کی اٹھارہ قراردادیں موجود ہیں۔ کشمیر کی لائن آف کنٹرول کے دونوں طرف دنیا کے36 ممالک سے تعلق رکھنے والے اقوامِ متحدہ کے مبصرین بھی تعینات ہیں۔ ہندوستان اگر اٹوٹ انگ کا راگ الاپنے کی بجائے کشمیر کو متنازع علاقہ مانتے ہوئے سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل کرے تو پاک وہند تعلقات میں ڈرامائی تبدیلی آجائے گی اور جنوب ایشاء میں ایٹمی جنگ کا خطرہ ہمیشہ کیلئے ٹل جائے گا۔ 

ہندوستان کے قائدین کی جیب میں پاک و ہند میں امن کی کنجی ہونے کی اگلی وجہ یہ ہے کہ ہندوستان کی سات لاکھ فوج اور ایک لاکھ پولیس فورس کشمیر میں ہے، جس کے ہاتھ میں جنگل کے قوانین ہیں، جن کے استعمال سے انسانی حقوق کی ناقابل یقین خلاف ورزیاں اور شرمناک جنگی جرائم بھی سر زد ہو رہے ہیں۔ اس فوج کو سری نگر کی وادی سے نکالنے کا فیصلہ بھی ہندوستان نے کرنا ہے، جس سے کشمیر کے عوام سکھ کا سانس لیں گے اور امن قائم کرنے کیلئے فضا بھی بہتر ہو جائے گی۔ لائن آف کنٹرول پر اگر ہندوستانی اور پاکستانی افواج ایک دوسرے کے خلاف بندوقیں تان کر کھڑی رہیں اور اُن کو سیاچن سمیت سارے علاقوں سے پیچھے ہٹانے کا فیصلہ نہ ہوا تو پھر اسلام آباد اور نیو دہلی کے محلات کے مکینوں کے درمیان نیک تمناؤں اور ایک دوسرے کیلئے اچھی خواہشات کے تبادلے، کھلاڑیوں کے دورے اور فن کاروں کے ڈھول ڈھمکے اور ثقافتی چلمن میں چھپے عریاں اور بے ہودہ ناچ گانوں کے تبادلے سے معاملات کے حل کی توقع رکھنا ایک احمقانہ فعل ہوگا۔ پاکستان ایک سنجیدہ قوم ہے۔ عورتوں کے رسیہ اور مغربی مشروبات سے لطف اندوز ہو کر سرِ شام ہی مدہوش ہو جانے والے روشن خیال دیوانے اور ہندوستان سے یک طرفہ تعلقات استوار کرنے کے حامی اٹھارہ کروڑ عوام میں یقیناً آٹے میں نمک سے بھی کم ہیں۔ 

ہمیں اس میں بھی شک نہیں کہ فی الوقت پاکستان میں 9 کروڑ لوگ Food insecurity کا شکار ہوچکے ہیں۔ یہ چونکا دینے والے حقائق ہیں۔ ایسی صورتِ حال میں پاکستان اپنے سے پانچ گنا بڑے ملک سے جنگ کیوں لڑنا چاہیے گا؟ ہمارے مسائل کا حل تو صرف اور صرف امن کے قیام میں ہے، لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہندوستان میں تقریباً 70 کروڑ لوگ خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ بھوک سے نڈھال لوگ فٹ پاتھوں اور پلوں (Bridges) کے نیچے سوتے ہیں۔ جرائم بہت زیادہ ہیں اور ہندوستان کی ایک تہائی ریاستوں میں دہشتگردوں کا راج ہے۔ اِن حالات میں جہاں امن پاکستان کی ضرورت ہے وہاں یہ ہندوستان کی بھی ضرورت ہے۔ ہندوستان کے انتہا پسند ہندؤں کے دباؤ میں آکر کانگریس کی حکومت چاہتے ہوئے بھی پاکستان کے ساتھ روابط استوار کرنے سے کتراتی ہے۔
 
لائن آف کنٹرول پر لانس نائک اسلم اور حوالدار محی الدین کی شہادت کی وجہ سے احتجاج پاکستان کو کرنا چاہیے تھا لیکن ہندوستانی میڈیا اور ہندو انتہا پسندوں نے الٹا پاکستان پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی اور من موہن کی کمزور کانگریسی حکومت نے دباؤ میں آکر پاکستان سے مذاکرات کا سلسلہ توڑ لیا۔ 28 جنوری کو پاک وہند سیکرٹری خارجہ لیول کی ولر بیراج پر بات چیت کو بھی التوا میں ڈال دیا گیا۔ حالات اس وقت تک بہتر نہیں ہوسکتے جب تک ہندوستان اپنے رویئے میں تبدیلی نہیں کرتا۔ موجودہ صورتِ حال میں پاکستان اگر کانچ کے ٹکڑوں پر رینگتا ہوا بھی تعلقات کو بہتر کرنے کے لئے آگے بڑھے گا تو لائن آف کنٹرول پر فائر ہونے والے ایک راکٹ یا سرینگر میں ملنے والی ایک اجتماعی قبر کے انکشاف سے دوبارہ پاک و ہند کے دو طرفہ تعلقات کو بہتر کرنے کی ساری کوششیں خاک میں مل جائیں گی۔
 
ہندوستان کی پاکستان اور مسلمانوں کیلئے حقارت کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ جب ہندوستان کی Minority کیلئے وزارت نے ہائر ایجوکیشن کیلئے کرناٹک میں ایک یونیورسٹی کا نام ٹیپو سلطان یونیورسٹی رکھنا چاہا تو سی ٹی راوی جو کرناٹک کے ہائر ایجوکیشن کے وزیر ہیں نے کہا،
" Government is not ready to name the university after Tipu Sultan. If they are going to set up a non religious University then the name should be non controversial..... Like British, Tipu is also a foreigner for us, and we will not accept his name"
یعنی کرناٹک ریاست کی حکومت یونیورسٹی کا نام ٹیپو سلطان یونیورسٹی رکھنے کیلئے تیار نہیں، اگر آپ نے ایک غیر مذہبی یونیورسٹی بنانی ہے تو پھر اس کا نام متنازع نہیں ہونا چاہیے۔ انگریزوں کی طرح ٹیپو سلطان بھی ہندؤں کیلئے ایک غیر ملکی تھا، اس لئے ہمیں اس کا نام منظور نہیں۔ 

قارئین آپ سوچ لیں ٹیپو سلطان ہندوستان کی تاریخ کا ایک ایسا نام ہے جس نے ہندوستان پر سے انگریزوں کے تسلط کو ختم کرنے کیلئے نہایت جرات اور بہادری سے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔ ہندو دماغ ایسے محب وطن سالار کو ماننے کیلئے صرف اس لئے تیار نہیں کیونکہ وہ ایک مسلمان تھا جس نے 4 مئی 1799ء میں ہندوستان کے دفاع کے لئے انگریزوں کے خلاف لڑتے ہوئے جامِ شہادت نوش کیا۔ ہندوستان میں رہنے والے 18 کروڑ مسلمانوں کا بھی یہی رونا ہے کہ ہندؤ اُن کو غیر ملکی تصور کرتے ہیں، یہی بات دو قومی نظریئے کی بنیاد بنی۔ جس کو ہندوستان تو کیا ہمارے نام نہاد روشن خیال بھی تسلیم نہیں کرتے۔ پاک و ہند تعلقات کی بہتری کی راہ میں صرف یہی Mind setحائل ہے، اس لئے اس میں شک نہیں کہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان بہتر تعلقات استوار کرنے کی کنجی نئی دہلی میں ہے۔
خبر کا کوڈ : 237669
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش